• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسائل قربانى

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کچھ دیگر اشکالات
۱۔جذع کی قربانی کے جواز میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
"نعم أو نعمت الأضحیة الجذع من الضأن" (سنن البیہقی الکبریٰ 271/9 (18854)
" بھیڑ کا جذعہ بہترین قربانی ہے" لہٰذا ثابت ہوا کہ بھیڑ کا جذعہ کرنا "مسنۃ" سے بھی افضل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اس کو بہترین قربانی قرار دے رہے ہیں۔
لیکن یہ روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ اس میں کدام بن عبدالرحمن اور اس کا شیخ ابو کباش دونوں مجہول ہیں۔
۲۔مجاشع بن مسعود بن ثعلبہ نے ایک سفر میں یہ اعلان کروایا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ
" إن الجذع یوفی مما یوفی منہ الثنی" ( سنن أبی داؤد ، کتاب الضحایا، باب مایجوز من السن فی الضحایا (2799)
"جذعہ" ہر اس جانور کا کفایت کرجاتا ہے جس کا ""مسنۃ" "کفایت کرتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ دشواری کے وقت بکری، اونٹ، گائے کی جنس سے بھی "جذعہ" کفایت کرےجائے گا۔
لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ حدیث
" لا تذبحوا إلا مسنة ، إلا أن يعسر عليكم ، فتذبحوا جذعة من الضأن" اس کی وضاحت کر رہی ہے کہ صرف بھیڑ کا جذعہ ہی "مسنۃ" سے کفایت کرسکتا ہےاور وہ بھی بوقت دشواری، کیونکہ اسی روایت میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ یہ فرمان رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر جاری فرمایا تھا، جب صحابہ کرام دو،دو اور تین ، تین "جذعہ" دے کر ایک، ایک "مسنۃ" خریدنے پر مجبور تھےاور دشواری تھی "مسنۃ" کو خریدنے میں ۔( سنن نسائی ، کتاب الضحایا، باب المسنۃ والجذعۃ (4383)
۳۔ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"الجذع من الضأن خیر من السید من المعز " (مستدرک حاکم 252/4 (7544)
بھیڑ کا کھیرا بکری کے دو دانتے سے بہتر ہے۔
اس کی سند میں ابو ثفا ل ثمامہ بن وائل نامی راوی ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہیں " فی حدیثہ نظر" (تہذیب الکمال ) یعنی یہ راوی ضعیف ہے۔
۴۔
"أن الجذع من الضأن خير من الثنية من الإبل والبقر , ولو علم الله ذبحا أفضل منه لفدى به إبراهيم عليه السلام " ( سنن البيهقي الکبریٰ 271/9، ميزان الاعتدال في نقد الرجال 329/1, مستدرك حاكم 247/4 (7526)
بھیڑ کا جذعہ دودانتے اونٹ اور گائے سے بہتر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس سےبہتر کسی ذبیحہ کو سمجھتے تو ابراہیم ؑ کو وہی عطافرماتے۔
اس کی سند میں اسحاق بن ابراہیم الحنینی راوی ضعیف ہے۔
۵۔ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں:
"أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم بجذع من الضأن مهزول خسيس وجذع من المعز سمين يسير فقال : يا رسول الله هو خيرهما أفأضحي به ؟ فقال : " ضح به فإن الله أغنى " (مستدرک حاکم 253/4، (7545)
ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی پاس بھیڑ کا کمزور وحقیر سا جذعہ اور بکری کاموٹا تازہ جذعہ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یہ (بکری والا جذعہ) ان دونوں میں سے بہتر ہے کیا میں اس کی قربانی کرلوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی قربانی کر لے یقیناً اللہ تعالیٰ بہت غنی ہے۔
اس کی سند میں قزعۃ بن سوید ضعیف ہے۔
۶۔
"يجوز الجذع من الضأن ، أضحية" (سنن ابن ماجہ - كتاب الأضاحي، باب ما تجزئ من الأضاحي - حديث:‏3139‏، مسند أحمد (26533)
بھیڑ کا جذعہ قربانی کے لیے جائز ہے۔
اس کی سند میں ام محمد بن أبی یحیی مجہولہ ہے۔
الغرض اس قسم کی تمام روایات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جن جانوروں کی قربانی جائز نہیں
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ :
"أن نستشرف العين والأذنين ، ولا نضحي بمقابلة ، ولا مدابرة ، ولا شرقاء ،ولا خرقاء " ( سنن أبي داود - كتاب الضحايا، باب ما يكره من الضحايا - حديث:2804، جامع الترمذي ،أبواب الأضاحي ، باب ما يكره من الأضاحي، حديث:‏1498)
ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھیں اور ہم ایسا جانور قربانی کے لیے ذبح نہ کریں جس کا کان اوپر یا نیچے کٹا ہو اور جس کے کان میں لمبائی کے رُخ چیر ہو یا چوڑائی کے رُخ۔
یاد رہے کہ تھوڑا کٹا ہوا اور زیادہ کٹا ہوا دونوں برابر ہیں ، کتاب و سنت میں کوئی فرق مذکور نہیں ہے۔
سیدنا براء بن عازب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے فرمایا:
"أربع لا تجوز في الأضاحي - فقال - : العوراء بين عورها ، والمريضة بين مرضها ، والعرجاء بين ظلعها ، والكسير التي لا تنقى "(سنن أبي داود - كتاب الضحايا باب ما يكره من الضحايا - حديث:‏2802، سنن النسائی، کتاب الضحایا، باب العجفاء،حدیث:4371)
چار جانور قربانی میں جائز نہیں ۱۔ کانا ، جس کا کانا پن ظاہر ہو۲۔ بیمار، جس کی بیماری واضح ہو۔ ۳۔ لنگڑا، جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔۴۔ لاغر ، جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو۔
سیدنا علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ :
" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يضحى بأعضب القرن والأذن " (جامع الترمذي ، أبواب الأضاحي ،باب في الضحية بعضباء القرن والأذن، حديث:1504، یہ حدیث حسن ہے۔)
رسول اللہ ﷺ نے کان کٹے اور سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
یہ چند عیوب ہیں جن کی بناء پر جانور قربانی کے لیے ذبح نہیں کیا جاسکتا۔
اور جب یہ عیوب مزید بڑھ جائیں مثلاً جانور مکمل اندھا ہوجائے یا لولا ہو یا چلنے پھرنے سے عاجز ہو تو ان صورتوں میں بطریق اولیٰ قربانی جائز نہیں ہے۔اور یہ عیوب جانور میں خریدنے سے قبل موجود ہوں یا قربانی والے دن قربانی کرنے سے چند لمحے پہلے پیدا ہوجائیں دونوں صورتوں میں قربانی جائز نہیں۔
مثلاً بے عیب جانور کو ذبح کر نے کےلیے لٹایا تو اس دوران ذبح کرنے سے پہلے چھری اس کی آنکھ میں لگ گئی یا وہ چھوٹا اور دیوار سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کا سینگ ٹوٹ گیا تو وہ بھی قربانی کے قابل نہیں ہے۔لہٰذا اس کی جگہ کوئی دوسرا جانور قربان کیا جائے کیونکہ قربانی بے عیب جانور کی ہوتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اعتراض
سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ:
"اشتريت أضحية ، فجاء الذئب فأكل من ذنبها أو أكل ذنبها ، فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : " ضح بها " (مسند أحمد بن حنبل 78/3، 32/3 (11334, 10995)
میں نے قربانی جانور خریدا ، بھیڑیا آیا اس نے اس کی دم (چکی) کاٹ دی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اس کی قربانی کرلے۔"
اس روایت سے ثابت ہوا کہ اگر عیب جانور کو خریدنے کے بعد پیدا ہوا ہے تو وہ قربانی کے لیے ذبح کیا جاسکتاہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جواب
اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ بن ثور ، کثیرالخطأ والتدلیس ہے اور روایت معنعن ہے۔ اور اصول ہے کہ مدلس کا عنعنہ قبول نہیں ہوتا اور دوسری سند میں محمد بن قرظۃ بن کعب الأنصاری مجہول ہے اور سند میں انقطاع بھی ہے ، جبکہ دونوں سندوں کا مدار جابر بن یزید بن حارث الجعفی پر ہے جو کہ کذاب ہے ، حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ اور تیسری سند میں حجاج بن ارطاۃ کا شیخ عطیہ بن سعد بن جنادہ العوفی بھی مدلس ہے اوروہ بھی اس کو "عن" کے ساتھ ہی بیان کررہاہے۔ لہٰذا اس قسم کی ضعیف ترین روایت کو بطور دلیل پیش کرنا ضعف علم وعقل کی دلیل ہے۔
ثانیاً یہ دم کٹا ہونا ان عیوب سے نہیں جو قربانی میں ممنوع ہیں۔لہٰذا قربانی کےلیے جانور مخصوص کردینے یا خریدنے کے بعد بھی اگر عیب پیدا ہوجائے تو بھی اس کی قربانی جائز نہیں کیونکہ جانور کا بے عیب ہونا خریدنے یا مختص کرنے کےلیے نہیں بلکہ قربانی کرنے کےلیے شرط ہے۔
اسی طرح جانور کا خصی ہونا ، یہ عیب نہیں ہے بلکہ خصی جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے کیونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا ہے بلکہ مسند احمد (۲۴۵۲۵) میں روایت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دو خصی مینڈھے ذبح کیے قربانی کےلیے۔ لیکن جانور کو خصی کرنا درست نہیں ۔ اور حاملہ جانور کی قربانی بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا جنین بھی کھایا جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اجازت دی ہے
(سنن ابی داؤد ، کتاب الضحایا،باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین (2829,2827)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قربانی کے جانور
قربانی صرف اور صرف
۱۔ اونٹ
۲۔ بھیڑ ، دنبہ، چھترا
۳۔ بکری اور
۴۔ گائے کی ہی کی جاسکتی ہے۔
کیونکہ اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے : (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ (الحج، 34)
اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تاکہ جو مویشی جانور اللہ نے ان کو دیئے ہیں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔
اس آیت میں قربانی کے جانور بھیمۃ الأنعام مقرر کیے گئے ہیں۔ اور بھیمۃ الأنعام کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے:
( وَمِنَ الأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً كُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الأُنثَيَيْنِ نَبِّؤُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔ وَمِنَ الإِبْلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ قُلْ ………الآیة، (الأنعام،142-144)
اور "انعام"(چوپایوں)میں سے بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے ۔ کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں رزق دیا اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو ، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ آٹھ اقسام ، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔۔۔۔۔الخ
ان آٹھ جانوروں (۱،۲بکری نرومادہ، ۳ ،۴بھیڑ نرومادہ، ۵ ،۶اونٹ نرو مادہ، ۷ ،۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قربانی کے جانور میں شرکت
سیدنا جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ
" نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية البدنة عن سبعة ، والبقرة عن سبعة " (صحيح مسلم - كتاب الحج، باب الاشتراك في الهدي وإجزاء البقرة والبدنة كل منهما عن سبعة - حديث:‏1318‏)
ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ والے سال اونٹ اور گائے کی سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی دی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر ، فحضر الأضحى ، فاشتركنا في البقرة سبعة ، وفي الجزور عشرة " (سنن ترمذي ، أبواب الحج ،باب ما جاء في الاشتراك في البدنة والبقرة، حديث:905‏)
ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الأضحیٰ کا دن آگیا تو ہم سات سات افراد گائے کی قربانی میں اور اونٹ کی قربانی میں دس دس افراد شریک ہوئے۔
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ایوب انصاری سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کو دور مین قربانیاں کیسے ہوتی تھیں تو انھوں نے فرمایا:
" كان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته ، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس ، فصارت كما ترى " (جامع الترمذي ، أبواب الأضاحي ،باب ما جاء أن الشاة الواحدة تجزي عن أهل البيت ،حديث:‏1505، سنن ابن ماجہ ، کتاب الأضاحی ، باب من ضحی بشاۃ عن أھلہ، حدیث: 3147)
"آدمی ایک بکری اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتا وہ خود بھی کھاتے اور (لوگوں کو ) کھلاتے بھی حتی کہ لوگوں نے ایک دوسرتے پر فخر (مقابلہ بازی) شروع کر دیا تو پھر وہ ہوا جو تو دیکھ رہاہے۔
سیدنا حذیفہ بن اسید بیان فرماتے ہیں کہ :
"حملني أهلي على الجفاء بعد ما علمت من السنة ، كان أهل البيت يضحون ، بالشاة والشاتين ، والآن يبخلنا جيراننا " (سنن ابن ماجه - كتاب الأضاحي، باب من ضحى بشاة عن أھلہ- حديث:3147‏ ، سنن البیہقی الکبری268/9، حاکم 254/4 (7550)
مجھے میرے گھر والوں نے غلط روی پر ابھارنے کی کوشش کی جبکہ مجھے سنت کا علم ہوچکا تھا کہ ایک گھرانے والے ایک یا دو بکریاں ذبح کرتے تھے، کہ (اگر اب ہم ایسا ہی کریں گے تو ) ہمارے پڑوسی ہمیں کنجوسی کا طعنہ دیں گے۔
سیدنا عبداللہ بن ہشام بیان فرماتے ہیں کہ :
" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة الواحدة عن جميع أهله (مستدرک حاکم255/4 (7555)
رسول اللہ ﷺ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن ہشام خود بھی اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی دیتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب الأحکام ، باب بیعۃ الصغیر (7210)
مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہواکہ
۱۔گائے اور اونٹ میں سات سات افراد شریک ہوسکتےہیں۔
۲۔اونٹ میں دس افراد بھی چاہیں تو شرکت کرسکتے ہیں۔
۳۔ایک یا دو بکریاں تمام گھروالوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میت کی طرف سے قربانی
میت کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں۔ بالعموم مندرجہ ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں جو کہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔
۱۔ابو رافع کی روایت کہ:
" ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين موجيين خصيين ، فقال : " أحدهما عمن شهد بالتوحيد ، وله بالبلاغ ، والآخر عنه وعن أهل بيته "(مسند احمد (26649)، 391/6، 392 (23348)، مجمع الزوائد22,21/4، سنن البیہقی268,259/9، معجم الکبیر للطبرانی 311/1 (920)، 312/1 (921)، شعب الایمان474/5، المجروحین4/2باب العین(522)، مسند البزار319/9)
رسول اللہ ﷺ نےدوموٹے تازے خصی مینڈھوں کی قربانی کی ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنھوں نے اللہ توحید اور آپﷺ کے لیے پیغام پہنچانے کی گواہی دی اور دوسرا اپنی اور اپنی آل کی طرف سے۔
اس روایت کی تمام ترا سانید عبداللہ بن محمد بن عقیل پر جمع ہوجاتی ہیں جو کہ لین الحدیث ہے اس کے علاوہ مسند احمد والی ایک سند میں زہیر بن محمد سوء الحفظ ہے اور ایک سند میں شریک بن عبداللہ بن ابی شریک کثرت خطا اور سوء حفظ کا شکار ہے۔ لہٰذا یہ روایت قابل احتجاج نہیں ہے۔
۲۔
اسی طرح کی ایک اور روایت حذیفہ بن اسید سے مروی ہے جسے حاکم نے مستدرک 686/3 (6521)میں اور علامہ ہیثمی مجمع الزوائد 23/4میں ذکر کیاہے ۔ اس کی سند میں یحییٰ بن نصر بن حاجب نامی راوی ضعیف ہے۔
۳۔حضرت علی کے بارہ میں روایت ہے کہ :
" أنه كان يضحي بكبشين أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم ، والآخر عن نفسه ، فقيل له : فقال : " " أمرني به " " - يعني النبي صلى الله عليه وسلم - فلا أدعه أبدا" (جامع الترمذي ، أبواب الأضاحي ،باب ما جاء في الأضحية عن الميت، حديث:1495، سنن أبی داؤد ، کتاب الضحایا، باب الأضحیۃ عن المیت، حدیث: 279)
وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ، ایک نبیﷺ کی طرف سے اوردوسرا اپنی طرف سے ، جب ان سے پوچھا گیا تو کہنے لگےکہ: مجھے اس کا حکم نبیﷺ نے دیا تھا لہٰذا میں یہ کام کبھی نہیں چھوڑوں گا۔
اس کی سند میں شریک بن عبداللہ بن شریک کثیر الخطاء ہونے کی وجہ سے ضعیف اور اس کا شیخ ابوالحسناء حسن کوفی مجہول ہے ۔ لہٰذا یہ روایت بھی قابل احتجاج نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قربانی کرنے والوں کے لیے ضروری بات
ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‏
" إذا رأيتم هلال ذي الحجة ، وأراد أحدكم أن يضحي ، فليمسك عن شعره وأظفاره " (صحيح مسلم - كتاب الأضاحي، باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية - حديث:‏1977)
جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے جوبھی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے حتی کہ قربانی کرلے۔
قربانی جس گھر کی طرف سے کی جارہی ہو اس گھر کے تمام افراد کے لیے یہ پابندی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جوقربانی کی استطاعت نہ رکھے
ایک شخص نےنبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ: میرے پاس قربانی کا کوئی جانور نہیں ہے سوائے ایک لویری (دودھ دینے والا جانور) کے، کیا میں اک کی قربانی دے لوں؟؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"ولكن تأخذ من شعرك وأظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك ، فتلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل"(سنن أبي داود - كتاب الضحايا، باب ما جاء في إيجاب الأضاحي - حديث:‏2789)
"نہیں! لیکن تو (اس دن) بال، ناخن، مونچھیں کٹوالے اور زیر ناف بال مونڈ لے تو اللہ عزوجل کے ہاں یہ تیری پوری قربانی ہے۔
یاد رہے کہ جو شخص قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا اور وہ قربانی ثواب لینا چاہتا ہے تو اس کےلیے قربانی کے دن مندرجہ بالا افعال سرانجام دینا لازم ہوں گے مگر ہلال ذی الحجہ کے طلوع ہونے کے بعد اس پر بال وناخن کٹوانے کی پابندی نہیں ہے بلکہ یہ پابندی صرف قربانی کرنےوالوں پر ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قربانی کا وقت
قربانی عیدالاضحیٰ کی ادائیگی کے بعد کی جائے ۔ اگر کوئی شخص نماز عید ادا کرنے سے قبل قربانی کرلے تو وہ اس کی قربانی شمار نہ ہوگی بلکہ اس کو دوسری قربانی دینا پڑے گی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔(بخاری،5500)
اور اس وقت کے اختتام کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
"أیام التشریق کلھا ذبح" (سنن دارقطنی ، باب الصید والذبائح والأطعمۃ (47)، سنن البیہقی الکبری 296/9)
تشریق کے تمام دن ذبح کے دن ہیں۔ ایام تشریق گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کوکہا جاتا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top