کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
کچھ دیگر اشکالات
۱۔جذع کی قربانی کے جواز میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
۲۔مجاشع بن مسعود بن ثعلبہ نے ایک سفر میں یہ اعلان کروایا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ
لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ حدیث
۴۔
۵۔ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں:
۶۔
الغرض اس قسم کی تمام روایات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں۔
۱۔جذع کی قربانی کے جواز میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
لیکن یہ روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ اس میں کدام بن عبدالرحمن اور اس کا شیخ ابو کباش دونوں مجہول ہیں۔"نعم أو نعمت الأضحیة الجذع من الضأن" (سنن البیہقی الکبریٰ 271/9 (18854)
" بھیڑ کا جذعہ بہترین قربانی ہے" لہٰذا ثابت ہوا کہ بھیڑ کا جذعہ کرنا "مسنۃ" سے بھی افضل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اس کو بہترین قربانی قرار دے رہے ہیں۔
۲۔مجاشع بن مسعود بن ثعلبہ نے ایک سفر میں یہ اعلان کروایا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ
اس حدیث سے معلوم ہواکہ دشواری کے وقت بکری، اونٹ، گائے کی جنس سے بھی "جذعہ" کفایت کرےجائے گا۔" إن الجذع یوفی مما یوفی منہ الثنی" ( سنن أبی داؤد ، کتاب الضحایا، باب مایجوز من السن فی الضحایا (2799)
"جذعہ" ہر اس جانور کا کفایت کرجاتا ہے جس کا ""مسنۃ" "کفایت کرتا ہے۔
لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ حدیث
۳۔ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" لا تذبحوا إلا مسنة ، إلا أن يعسر عليكم ، فتذبحوا جذعة من الضأن" اس کی وضاحت کر رہی ہے کہ صرف بھیڑ کا جذعہ ہی "مسنۃ" سے کفایت کرسکتا ہےاور وہ بھی بوقت دشواری، کیونکہ اسی روایت میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ یہ فرمان رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر جاری فرمایا تھا، جب صحابہ کرام دو،دو اور تین ، تین "جذعہ" دے کر ایک، ایک "مسنۃ" خریدنے پر مجبور تھےاور دشواری تھی "مسنۃ" کو خریدنے میں ۔( سنن نسائی ، کتاب الضحایا، باب المسنۃ والجذعۃ (4383)
اس کی سند میں ابو ثفا ل ثمامہ بن وائل نامی راوی ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہیں " فی حدیثہ نظر" (تہذیب الکمال ) یعنی یہ راوی ضعیف ہے۔"الجذع من الضأن خیر من السید من المعز " (مستدرک حاکم 252/4 (7544)
بھیڑ کا کھیرا بکری کے دو دانتے سے بہتر ہے۔
۴۔
اس کی سند میں اسحاق بن ابراہیم الحنینی راوی ضعیف ہے۔"أن الجذع من الضأن خير من الثنية من الإبل والبقر , ولو علم الله ذبحا أفضل منه لفدى به إبراهيم عليه السلام " ( سنن البيهقي الکبریٰ 271/9، ميزان الاعتدال في نقد الرجال 329/1, مستدرك حاكم 247/4 (7526)
بھیڑ کا جذعہ دودانتے اونٹ اور گائے سے بہتر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس سےبہتر کسی ذبیحہ کو سمجھتے تو ابراہیم ؑ کو وہی عطافرماتے۔
۵۔ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں:
اس کی سند میں قزعۃ بن سوید ضعیف ہے۔"أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم بجذع من الضأن مهزول خسيس وجذع من المعز سمين يسير فقال : يا رسول الله هو خيرهما أفأضحي به ؟ فقال : " ضح به فإن الله أغنى " (مستدرک حاکم 253/4، (7545)
ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی پاس بھیڑ کا کمزور وحقیر سا جذعہ اور بکری کاموٹا تازہ جذعہ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یہ (بکری والا جذعہ) ان دونوں میں سے بہتر ہے کیا میں اس کی قربانی کرلوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی قربانی کر لے یقیناً اللہ تعالیٰ بہت غنی ہے۔
۶۔
اس کی سند میں ام محمد بن أبی یحیی مجہولہ ہے۔"يجوز الجذع من الضأن ، أضحية" (سنن ابن ماجہ - كتاب الأضاحي، باب ما تجزئ من الأضاحي - حديث:3139، مسند أحمد (26533)
بھیڑ کا جذعہ قربانی کے لیے جائز ہے۔
الغرض اس قسم کی تمام روایات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں۔