- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
نام كتاب
ناشر:
مسائل قربانى
قربانی كے مسائل كا علمی وتحقيقی جائزه
مؤلف :محمد رفيق طاهرحفظہ اللہ
ناشر:
مكتبه أهل الأثر للنشر والتوزیع
سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:"من ذبح قبل الصلاة فليذبح مكانها أخرى ، ومن كان لم يذبح حتى صلينا فليذبح على اسم الله " (صحيح البخاري- كتاب الذبائح والصيد باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : " فليذبح على اسم الله - حديث:5500)
جس نے نماز سے قبل قربانی کی ہے وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے قربانی نہیں کی نماز پڑھنے تک تو وہ اب اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کرے۔
"من وجد سعة ولم يضح فلا يقربنا في مساجدنا" ( سنن الدارقطني - كتاب الأشربة وغيرها، باب الصيد والذبائح والأطعمة وغير ذلك - حديث:4169)
جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت ہو اور پھر بھی وہ قربانی نہیں کرتا تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب ہی نہ آئے۔
امام شوکانی نے بھی یہی بات نیل الأوطار میں بایں الفاظ تحریر فرمائی ہے:دو دانتا اس وقت ہوگا جب اس کے ثنایا طلوع ہوں گے، دودھ کے دانتوں کا ٹوٹ جانا ہی کافی نہیں بلکہ نئے دانتوں کا نکلنا بھی "مسنۃ" ہونے کی شرط ہے۔ نیز "مسنۃ" کی اس تعریف میں وہ جانور بھی شامل ِ "مسنۃ" ہیں جن کے چار یا چھ دانت نئے نکل آئیں کیونکہ ثنایا کے طلوع ہونے کے بعد جانور کانام ""مسنۃ" "ہے
"قال العلماء المنسۃ ھی الثنیۃ من کل شیء من الإبل والبقر والغنم فما فوقھا" ( نیل الأوطار202,201/5 وقال النووی قریباً منہ شرح مسلم للنووی 99/139
اہل علم کا کہنا ہے کہ "مسنۃ" دو دانتا یا دو دانتا سے اوپر بولا جاتا ہے ،تمام جانوروں میں خواہ وہ اونٹ ہو گائے ہو یا بکری۔
یہ حدیث صحیح بخاری میں مختلف الفاظ کے ساتھ دس جگہوں پر آئی ہے ۔ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بکری کا جذعہ بھی بوقت دشواری کفایت کرجاتا ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حالت عسر میں اس کو قربانی دینے کی اجازت دی۔إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا أن نصلي ، ثم نرجع فننحر ، من فعله فقد أصاب سنتنا ، ومن ذبح قبل ، فإنما هو لحم قدمه لأهله ، ليس من النسك في شيء " فقام أبو بردة بن نيار ، وقد ذبح ، فقال : إن عندي جذعة ، فقال : " اذبحها ولن تجزي عن أحد بعدك " قال مطرف : عن عامر ، عن البراء : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " من ذبح بعد الصلاة تم نسكه ، وأصاب سنة المسلمين "(صحيح البخاري - كتاب الأضاحي، باب سنة الأضحية - حديث:5545)
ہم اس دن نماز پڑھنے سے ابتداء کرتے ہیں پھر واپس لوٹتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس نے اسی طرح کیا تو اس نے درست کیا اور جس نے نماز سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کر لیا تو وہ قربانی نہیں ہے بلکہ عام گوشت ہے جو کہ اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے۔ تو ابو برده بن نیار کھڑے ہوئے ، انھون نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کرلیا تھا ۔ کہنے لگے کہ میرے پاس (بکری کا ) جذعہ ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو ذبح کرلے اور تیرے بعد کسی سے یہ کفایت نہیں کرے گا۔
کچھ دوسرے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ صرف بکری کا جذعہ کفایت نہیں کرتا باقی سب جانوروں کا جذعہ کفایت کرجاتا ہے۔ کیونکہ یہاں تذکرہ بکری کا ہورہاہے اور اس کے جذعہ کی کفایت نہ کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔لیکن یہ حدیث ان کے لیے دلیل نہیں بنتی کیونکہ خود رسول اکرمﷺ ہی فرمارہے ہیں
" ولن تجزي عن أحد بعدك" کہ تیرے بعد بکری کا جذعہ کسی کو بھی کفایت نہ کرے گا۔ " حالت عسر و عدم عسر کی کوئی قید نہیں لگائی۔
مگر ان کی یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ باب التکبیر إلی العید (968) میں یہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے "ولن تجزي جذعة عن أحد بعدك" تیرے بعد کوئی بھی جذعہ کسی سے بھی کفایت نہ کرے گا۔ یہاں لفظ "جذعہ" نکرہ ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ جب نکرہ نفی کے حیز میں آئے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔