• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسجد حرام میں تصاویر کھنچوانا شرعا حرام ہے: علماء

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
غیب اور مستقبلیات پر مبنی ”عقائد“ (ایمانیات) اور ”رسمی عبادات“ (بمعہ طور طریقے) میں صرف وہی جائز ہے، جو جائز بتلایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ”سب“ کچھ (نیا یا اضافی عقیدہ، نئی عبادت اور عبادت کے نئے طور طریقے وغیرہ) ناجائز ہے۔ اس کے برعکس ”معاملات دنیوی“ میں سب کچھ جائز ہے الا یہ کہ (1) جسے نام لے کر حرام قرار دیا گیا ہو (2) جو کسی اسلامی حکم کی خلاف ورزی پر مبنی ہو۔

”فوٹو گرافی“ کا تعلق معاملات دنیوی سے ہے، یہ جائز ہے، کیونکہ نزول شریعت کے وقت (عدم وجود کے سبب) اسے حرام قرار نہیں دیا گیا تھا۔ یہ صرف اسی صورت میں حرام ہوسکتا ہے جب اس پر عمل کرنے سے کسی اسلامی حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔

واللہ اعلم بالصواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
یہاں ایک خاص فتوی پر گفتگو کی گئی ہے ، باقی مسئلہ تصویر میں جو اختلاف رائے ہے ، وہ فورم پر ایک سے زیادہ جگہ پر تفصیل سے موجود ہے ۔ میرے خیال میں اسے دوبارہ سے شروع کرنا وقت کا ضیاع ہوگا ۔ بطور مثال ملاحظہ کیجیے ایک مکالمہ :
ویڈیو اور عام کیمرے سے لی جانے والی تصویر کا حکم
محترم بھائی !
متعلقہ تھریڈ اس سے قبل بھی نگاہ سے گزرا ہے۔مجھے تو اس ساری گفتگو میں میں یہ سمجھ نہ آیا کہ حرمین میں لی جانے والی تصویر اگر کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں تو کیا جائز سمجھا جائے گا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم بھائی !
متعلقہ تھریڈ اس سے قبل بھی نگاہ سے گزرا ہے۔مجھے تو اس ساری گفتگو میں میں یہ سمجھ نہ آیا کہ حرمین میں لی جانے والی تصویر اگر کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں تو کیا جائز سمجھا جائے گا۔
محترمہ دعا بہن!
میں بھی نہیں سمجھ سکا. اور یہ موبائل کی تصویر اور بنا موبائل کی تصویر میں کیا فرق ھے یہ بھی نہیں واضح ھو رھا ھے. کئ دن سے اس معاملے کو جاننے کی کوشش کر رھا ھوں.
 
  • پسند
Reactions: Dua

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اس ”کنفیوژن“ کی ایک وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے، اور جس کی اکثر لوگ ”شکایت“ بھی کرتے ہیں، یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام ”عوامی سوالات و مسائل“ کا جواب اس قدر ”علمی انداز بیان“ میں دیتے ہیں کہ سائل کے سر کے اوپر سے گذرجاتا ہے۔ بالخصوص ”اختلافی مسائل“ کے بیان مین اتنی ”گہرائی“ میں اتر جاتے ہیں کہ سائل ہکا بکا رہ جاتا ہے کہ ”یہ“ درست ہے کہ ”وہ“، کیونکہ دونوں طرف کے دلائل کے حق میں قرآن و حدیث اور ماہرین کے اقوال پیش کرکے نتیجہ نکالنے کی ذمہ داری سائل پر چھوڑ دی جاتی ہے (الا ماشاء اللہ)۔

اب زیر بحث مسئلہ ہی کو لے لیجئے۔ اس پر علمی انداز میں جتنا چاہے بحث کرلیجئے۔ مگر بحث یا فتویٰ کے آخر میں چند سطور میں ”دوٹوک فیصلہ“ ضرور سنادینا چاہئے کہ ہماری (یا علمائے حق کی اکثریت کی) رائے میں:
  1. ڈیجیٹل کیمرہ سے ہر قسم کی فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی ہر وقت اور جگہ جائز ہے، الا یہ کہ ایسا کرنے سے کسی اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہو۔
  2. حرمین شریفین میں فوٹو گرافی یا ویڈیو گرافی فی نفسہ جائز ہے، الا یہ کہ ایسا کرنے سے دوسروں کو زحمت ہو یا خود آپ کی اپنی عبادت (طواف، سعی وغیرہ) میں ”ریاکاری“ کا عنصر داخل ہوتا ہو یا کثیر لوگوں کے ایک ساتھ ایسا کرنے سے حرمین کا ”تقدس“ متاثر ہوتا ہو یا حرمین شریفین کی انتظامیہ حدود حرمین میں فوٹو گرافی کو ہی ممنوع قرار دیدے یا ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ
  3. نیگیٹیو ریل والی فوٹو گرافی، جس کا پرنٹ بھی لازمی نکالا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ علمائے کی اکثریت اس قسم کی فوٹو گرافی کو ”جائز“ نہیں سمجھتی الا یہ کہ اس کی فی الواقع ”شرعی ضرورت“ ہو، جیسے شناخت نامہ یا پاسپورٹ وغیرہ بنوانے کے لئے۔
  4. موبائل سے بنائی گئی تصویر (یا سیلفی) اور بلا نیگیٹیو ریل والے کیمرہ سے کھینچی گئی تصویر دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ کیونکہ ان دونوں میں ”ڈیجیٹل کیمرہ“ ہوتا ہے۔
اہل علم سے درخواست ہے کہ نکات ایک تا چار میں اگر کوئی کمی، خامی یا نقص ہو تو اس کی نشاندہی کرکے اس کی تصحیح ضرور کیجئے۔ قبل ازیں جو ”جملہ ہائے معترضہ“ لکھا گیا ہے، یہ ”عوامی رائے“ ہے، جس سے علمائے کرام کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ (ابتسامہ)
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اس ”کنفیوژن“ کی ایک وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے،
جناب عالی!
یہ بالکل حقیقت ھے. لیکن میرے کنفیوژن کی اصل وجہ کچھ اور ھی ھے. اور وہ یہ ھیکہ ڈیجیٹل کیمرہ اور عام فوٹو (یعنی تصویر جسکی حرمت پر اختلاف میرے علم کے مطابق نہیں ھے. غلطی کی صورت میں اصلاح فرمائیں) میں تفریق کیوں کر رھے ھیں؟؟؟
شراب کا نام بدلنے سے یا اسکے بنانے کا عمل مختلف ھونے سے کیا اسمیں جواز نکلتا ھے؟؟؟ جیسا کہ یہ نقطہ مذکورہ لنک میں کسی صاحب نے پیش کیا ھے.
مجھے تو شیخ رفیق طاہر صاحب حفظہ اللہ کا موقف راجح نظر آتا ھے (لیکن میں مزید تحقیق چاہتا ھوں تاکہ ہر پہلو سامنے آجاۓ اور جو لوگ دونوں میں تفریق کرتے ھیں انکی دلیل بھی سامنے آجاۓ).
شیخ رفیق طاہر صاحب حفظہ اللہ کے فتوے میں ایک بات بس یہی سمجھ میں نہیں آئ کہ وہ ویڈیو گرافی کے سرے سے ھی قائل نہیں ھیں. حالانکہ تبلیغ کی خاطر وسائل اختیار کر سکتے ھیں. ہاں بلا وجہ نہیں.
جو دونوں میں تفریق کے قائل ھیں ان کی بات میں مجھے یہ اشکال ھوتا ھے کہ بلا ضرورت تصویر کھینچنا اور اسکو فیسبوک وغیرہ پر شیئر کرنا کیسے صحیح ھے؟؟؟
خیر اس معاملے میں زیادہ علم نہیں رکھتا. اس لۓ زیادہ نہیں کہوں گا.
بس محترم آپ سے ایک سوال کرنا ھے جو مجھے کئ دن سے پریشان کر رھا ھے اور میرے خیال سے آپ اسکا جواب اچھی طرح سے دے سکتے ھیں کیونکہ شاید (غلطی کی صورت میں اصلاح فرمائیں) آپ ڈیجیٹل کیمرہ کے جواز کے قائل ھیں.
سوال یہ ھیکہ واٹس اپ فیسبوک یا سوشل میڈیا پر میں اپنی پروفائل پکچر تبدیل کر سکتا ھوں؟؟؟ اور کیا ھر مہینے یا ھر ہفتہ تبدیل کر سکتا ھوں؟؟؟
آپ اسکا جواب دیں براہ کرم اسکے بعد مزید کچھ باتیں عرض کروں گا.
نوٹ: میرا مقصد صرف اصل بات تک پہونچنا ھے. تنقید یا پریشان کرنا نہیں. اور نہ بحث کرنا اور میں یہ وضاحت صرف اسلۓ کر رھا ھوں کہ کوئ غلط فہمی کا شکار نہ ھوں.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
متعلقہ تھریڈ اس سے قبل بھی نگاہ سے گزرا ہے۔مجھے تو اس ساری گفتگو میں میں یہ سمجھ نہ آیا کہ حرمین میں لی جانے والی تصویر اگر کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں تو کیا جائز سمجھا جائے گا۔
محترمہ دعا بہن!
میں بھی نہیں سمجھ سکا.
جن کے نزدیک تصویر لینا جائز ہے ، ان کے نزدیک جائز ہی سمجھی جائے گی ، جن کے نزدیک تصویر حرام ہے ، چاہے وہ حرمیں میں ہو یا اس سے باہر ، کسی کو تکلیف ہو یا نہ ہو ، تصویر بہر صورت حرام ہی رہے گی ۔
اسی لیے گزارش کی ہے کہ تصویر والے مسئلے کو حرمین کے ساتھ خاص کرکے بحث کرنے کی بجائے ، صرف مسئلہ تصویر کو دیکھنا چاہیے ، اور اس موضوع پر خاطر خواہ بحث پہلے ہوچکی ہے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جناب عالی!
یہ بالکل حقیقت ھے. لیکن میرے کنفیوژن کی اصل وجہ کچھ اور ھی ھے. اور وہ یہ ھیکہ ڈیجیٹل کیمرہ اور عام فوٹو (یعنی تصویر جسکی حرمت پر اختلاف میرے علم کے مطابق نہیں ھے. غلطی کی صورت میں اصلاح فرمائیں) میں تفریق کیوں کر رھے ھیں؟؟؟
شراب کا نام بدلنے سے یا اسکے بنانے کا عمل مختلف ھونے سے کیا اسمیں جواز نکلتا ھے؟؟؟
روایتی کیمرہ اور ڈیجیٹل کیمرہ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ ڈیجیٹل کیمرہ میں نیگیٹیو ریل استعمال ہوتی ہے، جس میں عکس ریل پر محفوظ ہوجاتا ہے۔ پھر اسے کاغذ پر پرنٹ کرکے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ نیگیٹیو ریل یا کاغذ پر تصویر ”پرنٹ“ ہونے کے بعد اس ”فوٹو گراف“ اور مصوری یعنی پینٹنگ والی تصویر میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ گو دونوں کا پراسس الگ الگ ہوتا ہے، لیکن فائنل نتیجہ یعنی تصویر ایک جیسی رہتی ہے۔ لہٰذا علماء کا ایک گروپ مصوری والی تصویر اور فوٹوگرافی والی تصویر دونوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ڈیجیٹل کیمرہ کی تصویر کو لازماً پرنٹ نہیں کیا جاتا۔ اسے کیمرہ یا موبائل میں بھی دیکھا جاتا ہے اور اسے کمپیوٹر میں بھی محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ یہاں تک یہ ”ڈیجیٹل تصویر“ مصوری والی تصویر اور فوٹوگرافی والی تصویر سے اپنی حیئت میں جدا ہوتی ہے۔ صرف اسے کاغذ پر پرنٹ کرنے کے بعد ہی اس کی ”مشابہت“ پہلی دو تصویروں سے ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈیجیٹل تصویر کو واٹس اپ، نیٹ وغیرہ کے ذریعہ ایک دوسرے کو بھیجی جاسکتی ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے سے کوئی اور اسلامی قانون (جیسے محرم، نامحرم وغیرہ) کی خلاف ورزی نہ ہورہی ہو۔ یہاں شراب والی مثال غلط ہے۔ اس لئے کہ شراب ایک ”پراڈکٹ“ کا نام ہے، جو کہ حلال شئے سے بھی بنتی ہے۔ جیسے کھجور حلال ہے۔ اس کا شربت (ایک پراڈکٹ) بھی حلال ہے۔ لیکن اگر اسی کھجور سے ”شراب پروڈکٹ“ بنائی جائے، تب یہ حرام ہوتی ہے۔ ۔ ۔ گویا ڈیجیٹل کیمرہ اور اس کے اندر محفوظ تصویر جائز ہے، جب تک اسے کاغذ وغیرہ پر پرنٹ کرکے اسے ”حرام“ نہ بنا لیا جائے۔ واللہ اعلم

مجھے تو شیخ رفیق طاہر صاحب حفظہ اللہ کا موقف راجح نظر آتا ھے (لیکن میں مزید تحقیق چاہتا ھوں تاکہ ہر پہلو سامنے آجاۓ اور جو لوگ دونوں میں تفریق کرتے ھیں انکی دلیل بھی سامنے آجاۓ).
شیخ رفیق طاہر صاحب حفظہ اللہ کے فتوے میں ایک بات بس یہی سمجھ میں نہیں آئ کہ وہ ویڈیو گرافی کے سرے سے ھی قائل نہیں ھیں. حالانکہ تبلیغ کی خاطر وسائل اختیار کر سکتے ھیں. ہاں بلا وجہ نہیں.
مصوری یعنی پینٹنگ کی حرمت پر تو اتفاق رائے تھا اور ہے۔ فوٹو گرافی ایک جدید ایجاد ہے۔ چنانچہ اس کی ایجاد کے بعد اس کی حرمت اور حلت پر علمائے کرام دو واضح گروپوں میں منقسم ہوگئے ہیں۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے قوی دلائل ہیں۔ آپ کو جس گروپ کے دلائل پسند ہوں، اس پر عمل کیجئے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک فوتو گرافی اور ویڈیو گرافی دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔

جو دونوں میں تفریق کے قائل ھیں ان کی بات میں مجھے یہ اشکال ھوتا ھے کہ بلا ضرورت تصویر کھینچنا اور اسکو فیسبوک وغیرہ پر شیئر کرنا کیسے صحیح ھے؟؟؟
جب ایک چیز جائز ہے تو اس کا ”استعمال“ بھی جائز ہے، خواہ کم کیا جائے یا زیادہ۔ ”ضرورت اور بلا ضرورت“ کی شرعی تقسیم بہت مشکل ہے۔ آپ کہیں پر کوئی حد فاصل نہیں کھینچ سکتے کہ فلاں جائز چیز کا ”اتنا“ استعمال تو جائز ہے لیکن اس سے ”زیادہ“ استعمال ناجائز۔ ہر ایک کی ”ضرورت“ الگ الگ ہوتی ہے۔


سوال یہ ھیکہ واٹس اپ فیسبوک یا سوشل میڈیا پر میں اپنی پروفائل پکچر تبدیل کر سکتا ھوں؟؟؟ اور کیا ھر مہینے یا ھر ہفتہ تبدیل کر سکتا ھوں؟؟؟
میں ذاتی طور پر ڈیجیٹل فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی کو جائز سمجھنے والے علمائے کرام کی رائے سے متفق ہوں۔ اگر آپ بھی اِن اسکالرز کی رائے سے متفق ہیں، تو آپ یہ کام روزانہ بھی کرسکتے ہیں اور صبح و شام بھی کرسکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جن کے نزدیک تصویر لینا جائز ہے ، ان کے نزدیک جائز ہی سمجھی جائے گی ، جن کے نزدیک تصویر حرام ہے ، چاہے وہ حرمیں میں ہو یا اس سے باہر ، کسی کو تکلیف ہو یا نہ ہو ، تصویر بہر صورت حرام ہی رہے گی ۔
اسی لیے گزارش کی ہے کہ تصویر والے مسئلے کو حرمین کے ساتھ خاص کرکے بحث کرنے کی بجائے ، صرف مسئلہ تصویر کو دیکھنا چاہیے ، اور اس موضوع پر خاطر خواہ بحث پہلے ہوچکی ہے ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم خضر بهائی

حرم کی حد شروع ہوتے ہی بهت سارےایسے اعمال بهی ممنوع ہو جاتے ہیں جو خارج حدود حرم جائز ہوتے ہیں ۔ شاید یہ بهی ایک وجہ ہو متعدد وجوہات میں سے جن پر عام سوالات کرکے مزید معلومات جاننا چاہتے ہوں ۔ تو اس حدود خاص کو مد نظر نظر رکہنا اور ملحوظ رکہنا چاہیئے اور لوگوں تک واضح باتیں پہونچانا چاہیئے تا کہ اطمینان ہو۔

والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله و برکتہ -

انسانی امور لامحدود ہیں - کچھ امور تو وہ ہیں جن کی حلّت و حرمت قرآن و احادیث نبوی سے واضح ہے - جب کہ اکثر و بیشتر امور ایسے بھی ہیں کہ جن کی حلّت و حرمت واضح نہیں کہ آیا حلال ہیں یا حرام ؟؟- ایسی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو مکمل چھوڑ دیا جائے یا اسں سے دور رہا جائے جن میں یہ اشتباہ ہو کہ آیا حرام ہیں یا حلال -

قرآن میں الله رب العزت کا ارشاد ہے کہ :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ، وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ سوره المومنون ١-٣
بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے- جو اپنی نمازوں میں عاجزی اختیار کرنے والے ہیں- اور جو بے ہودہ و بے فائدہ باتو ں سے اعراض کرنے والے ہیں-

اور نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے :

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوْشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ [متفق علیه]
’’ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نعمان نے یہ بات اپنی انگلیاں کانوں کی طرف لے جاتے ہوئے کہی:
’’ یقینا حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی اور جو شبہ کی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا جیسا کہ وہ شخص جو ممنوعہ چراگاہ کے ارد گرد مویشی چرانے والا ہے ، قریب ہے کہ اس میں جا پڑے ۔ یاد رکھو! ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چرگاہ ہوتی ہے ، خبر دار ! اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کر دہ چیزیں ہیں، خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہےت تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے ، جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ، یاد رکھو ! وہ دل ہے۔‘‘

ڈیجیٹل کیمرے سے مسجد حرام یا اس سے باہر تصاویر اتارنے سے متعلق علماء میں اس کی حرمت و حلّت میں اختلاف ہے - کیوں کہ یہ اشیاء نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور میں نہیں تھیں- کچھ اس کو مصوری پر قیاس کرتے ہوے متلقاً حرام قرار دیتے ہیں تو کچھ ڈیجیٹل کیمرے سے کھینچی گئی تصاویر کو جاندار کے عکس کی بنا پر حلال قرار دیتے ہیں - اس صورت میں اس معاملے کو مشتبہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے - اور ایک مومن کی حیثیت سے ان سے بچنا ضروری ہے- (واللہ اعلم)- باقی وہ نا گزیر حالات جس میں الله رب العزت نے حرام کو بھی جائز قراردے دیا ہے - (جیسے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر تصاویر لینا یا لوگوں کی شناخت کے لئے تصویرکشی کرنا وغیرہ یا طبی نقطۂ نظر سے جسم کے بعض حصوں کی تصاویر اتارنا وغیرہ )- اس میں کیمرہ یا پینسل سے تصاویر بنانے میں کوئی حرج نہیں (واللہ اعلم) - لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚترجمہ : الله کسی کو اس کی طاقت کے سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا-

الله ہم کو اپنے سیدھے راستے کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 
Top