تلاش بسیار کے بعد اس بات کا سرا کہیں نہ کہیں سے مل گیا ہے ، شیخ صالح الفوزان حرم مکی میں آج سے تقریبا 2 سال پہلے درس دے رہے تھے ، درس کے دوران ، انہوں نے ادھر ادھر کچھ ایسے مناظر دیکھے ، جو انہیں برے لگے ، اس پر انہوں نے سختی سے اس بات کا رد کیا ، اور کہا کہ تصویر تو کسی بھی جگہ حرام ہے ، لیکن حرم میں اس گناہ کی حرمت مزید بڑھ جاتی ہے ، ان کی بات کے سیاق وسباق سےبات سمجھ آتی ہے ، کہ انہوں نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے ، جو تصویر لینے کے چکر میں دوسروں کو پریشان کرتے ہیں ، ، مثال کے طور پر ، حرم میں کوئی شیخ درس دے رہے ہیں ، وہ تصویر کو درست نہیں سمجھتے ، لیکن آپ کنارے پر کھڑے دھڑا دھڑا ان کی تصویریں بنارہے ہیں ، ان کے دل پر کیا گزرے گی ؟؟ یہی بات ہے جس نے شیخ صالح الفوازان کو غصہ دلایا ۔
پھر دوسروں کو پریشان کرنے کی یہ بھی صورت ہے کہ لوگوں کی گزرگاہ ہے ، لیکن آپ وہاں تصویروں کے چکر میں رستہ روک کر کھڑے ہیں ، اس میں آپ صرف ایک ذاتی فعل سے نکل کر دوسروں کی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں ۔
کوئی نماز پڑھ رہا ہے ، اور اس کے نزدیک تصویر لینا جائز نہیں ، لیکن آپ اس کی تصویریں لیے جارے ہیں ، اس کو نماز کے دوران دقت ہوئی کہ نہیں ؟؟
اس طرح کے لوگوں کی شیخ نے مذمت کی ، اور ان پر غصےکا اظہار کیا ہے ، انہوں نے اپنی گفتگو میں لفظ ’ اذی ‘ کا استعمال کیا ہے، یعنی یہ تصویروں والے دوسرے کو تکلیف دیتے ہیں ، سب جانتے ہیں ، کوئی ایک کونے میں کھڑا اپنی ہزار تصویریں بنالے ، اس سے دوسروں کو کیا تکلیف ؟ تکلیف کا سبب تبھی بنتا ہے ، جب اوپر والی یا اس سے ملتی جلتی کوئی صورت ہو ۔ میری نظر میں شیخ کی یہی مراد ہے ۔
یوٹیوب پر ان کی ایک منٹ کی یہ گفتگو موجود ہے ، عربی جاننے والے اس کو ملاحظہ کرسکتے ہیں ، اس سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ سوشل میڈیا ، یا پرنٹ میڈیا پر شیخ کے فتوی کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان کے فتوی کا مذاق اڑانے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے ، جو بذات خود ایک قابل مذمت فعل ہے ۔
شیخ کی
گفتگو ملاحظہ کیجیے :