(نوٹ اس مقالہ کی تیاری میں جن کتب سے حوالہ جات لیے گئے ہیں آخر میں تفصیل درج کر دی جائے گی)
وحدۃ الوجود۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کیوں؟
دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وحدۃالوجود جیسے انتہائی نازک اوراختلافی فلسفہ کی ضرروت ہی کیوں پیش آئی ۔ نا چیز اپنی کم علمی و کم مائیگی کا پورا پورا احساس رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی جسارت کرتا ہے۔ حدیث قدسی ہے : کنت کنز مخفیا فا حببت ان اعرف فخلقت الخلق:
ترجمہ : "میں ایک مخفی خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے اس لیے میں نے خلقت پیدا کی"
اس مخلوق کا سر تاج اور اپنا نائب حضرت آدم کو بنایا ۔ اس میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں سے اسے سجدہ کرواکر تمام مخلوقات میں اس کے شرف کا اعلان فرمایا ۔ اب اس جسد خاکی میں مقید روح چونکہ عالم امر سے ہے "قل الروح من امر ربی " اس لئے وہ اپنے وطن حقیقی کی طرف مراجعت کرنا چاہتی ہے اور اپنے خالق کی ذات حقیقی کی کششں اسے طرح اپنی طرف کھینچی ہے کہ وہ بیقرار ہو کر اس کی تجلیات میں گم ہونا چاہتی ہے جیسے قظرہ ندی میں ندی دریا میں اور دریا سمندر میں مل کر اپنی ہستی کو نیستی میں بدل کر امر ہونا چاہتا ہے۔ بقول اقبال :
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
(سزا یہی ہے کہ مجھے مٹا کر اپنی ہستی میں سمولے)
یا غالب نے کہا تھا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتاتو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
یہ خواہش،یہ تڑپ اور یہ لذت آشنائی جن ارواح زندہ کو بیقرار رکھتی ہےوہ رات کی خلوتوں میں جاگ جاگ کر اپنے مالک کے حضور گر یہ و زاری کرتے ہیں اور ایک ہی رات میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کر جاتے ہیں حتیٰ کہ رات ختم ہوجاتی ہے مگران کے ذوق کی تسکین نہیں ہوتی :
بحرفے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را
ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان پر اللہ تعالی کی تجلیات ذاتی وصفاتی یوں جلوہ فگن ہوں کہ وہ مد ہوشی کے عالم میں یہ پکار اٹھیں :
من تو شدم ، تو من شدی ،من تن شدم ،توجاں شدی
تا کس نہ گوئد بعد ازاں ، من دیگرم تو دیگری
اللہ تعالی کی معرفت کا حصول ہی مقصد تخلیق آدم ہے اور اسی ہستی واحد کی پہچان ہی مقصود باری تعالی بھی ہے ۔ اسی تڑپ نے عاشقان بلند نگاہ اور طالبان صادق کو بیقرار رکھا اور انہوں نے اپنے نہاں خانہ دل میں اپنے ما لک کو یوں سمویا کہ انہیں بجز اپنے اور کوئی نطرنہ آیا ۔ اس راہ میں سالک کو منازل ومقامات ، کشف وکرامات ،ذکر وفکر ، ذوق و شوق ، سوزو گداز، علم وانکشاف اور ایسی کیفیات میسر آتی ہیں جن کی کراماکاتبیں کو بھی خبرنہیں ہوتی۔
میاں عاشق و معشوق رمزیست ۔۔۔ ۔۔۔ کراماکاتبیں را ہم خبر نیست یا پھر بقول خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی:
نہ وصل بماند و نہ واصل
آنجا کہ خیال حیرت آمد
اور عاشق صادق دنیا و مافیہا کو بھلا کر مست شراب الست ہو جاتا ہے
من ہماں د م کہ وضو سا ختم از چشمہ عشق
چار تکبیر زد م یکسرہ بر ہر چہ کہ یست
قطرہ سمندر سے ملا تو وہ سمندر کہلایا ۔ کسی عاشق صادق پر تجلیات صفات باری یوں جلوہ فگن ہوئیں کہ وہ خود توفنا ہو گیا مگر اسی فنا میں اسے اپنی بقا بصورت وجود باری محسوس ہوئی۔ ایسے میں کوئی تو نرمی سے بولا: بلہیا کی جاناں میں کون ؟اور کس نے نعرہ "انا الحق" بلند کر کے سولی پہ چڑھنا قبول کیا توکس نے "اعظم وشانی"کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔ لیکن یہ سزائیں ان کے نشہ عشق کو دوآتشہ ہی کرتی گئیں کیونکہ"یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے"قصہ مختصرآپ ایسے عاشقان صادق کو پاگل کہیں ،مجذوب کہیں عقل و خرد سے بیگانہ قراردیں،یا مجنون کے خطاب سے نوازیں،ایسے الوالعزم موجود رہے ہیں اور ہیں جو "یزداں بہ کمند آوراے ہمت مردانہ "سے کم راضی نہیں ہوتے ۔ انہیں سولی پہ لٹکایا جائے ،ان کے سر قلم کیا جائے، ان کو جلاکر ان کی راکھ ہوامیں اڑا دی جائے ، انہیں پرواہ نہیں ۔انہیں یہی حسرت رہتی ہے کہ کاش ان کی راکھ ہی کوچہ یار تک جا سکتی :
بعد ازفنا بھی لے نہ گئی کوئے یار میں
کیا بار تھا صبا میرے مشت غبار میں
زنان مصرحضرت یوسف علیہ السلام کے حسن میں گم ہو کر اپنے ہاتھ کاٹ لیتی ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا تو حسن حقیقی کا نظارہ کرنے والوں کو تلوار کی کاٹ سے کیا خطرہ ؟ رب ارنی کہنے والے اس بات کی پرواہ کب کرتے ہیں کہ جواب میں لن ترانی سننا پڑے گا ۔ تجلیات باری خرمن دل کو جلاکے راکھ کردیں تو راکھ سے بھی رب ارنی کی صدائیں بلند ہوں گی کیو نکہ۔ من نمی گوئم انا الحق ، یارمی گوئد بگو
لب بام بھی پکارا ، سر دار بھی صدا دی
میں کہا ں کہاں نہ پہنچا تیری دید کی لگن میں
با ت بہت لمبی ہو گئی ۔ شیخ مکرم نے ارشاد فرمایا تھا کہ عاشقان با صفا کے اقوال و احوال کی روشنی میں مسئلہ وحدۃالوجود اور وحدۃالشہود کے بارے میں کچھ لکھوں ۔ یاد رہے کہ زمانہ قدیم سے نظریہ وحدۃالوجود کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا ہے ۔ البتہ اس کو پوری شرح و بسط کے ساتھ حضرت علامہ ابن عربی نے پیشں کیا ۔ جب جاہلوں کی محفل میں یہ نظریہ آیا تو اس سے جو گمراہی پھیلی اس کا تدارک کرنے کے لئے حضرت مجدد الف ثانی نے و حدۃالشہود کانظریہ پیش کیا ۔
وحدۃالوجود کی سادہ اور آسان تعریف کر یں تو اس سے مراد "ایک ہو جانا" ہے یعنی اللہ تعا لی کی ہستی میں گم ہو جانا۔اور وحدۃالشہود سے مراد "ایک دیکھنا ہے"یعنی چاروں طرف" تو ہی تو "ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعالٰی دیکھا ہے ۔ وحدۃالوجود کی خصوصیت یہ ہے کہ توحید الہٰی کے غلبہ، سرور اور کیفت کے دوران میں سالک و جدانی طور پر ذات الہٰی میں ایسا محوو مستغرق ہوتا ہے کہ وجود باری کے علاوہ اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔ سالک کے قلب و ذہن سے ما سوا اللہ یکسر دور ہو جاتے ہیں اور صرف وجود حق کا ادراک و احساس ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ اس کیفیت میں سالک کا نعرہ ہوتا ہے ۔"ہمہ اُوست"۔ اس کیفیت کو لوائح جامی میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔
ہمسایہ وہم نشین ویمرہ ہمہ اوست
در دلق گدا واطلس شاہ ہمہ اوست
در انجمن فرق ونہاں خانہ جمع
با للہ ہمہ اوست ، باللہ ہمہ اوست
یہاں شاید تفصیل تو بیان کی نہیں جاسکتی مگر صوفیا نے تو حید کی جو قسمیں اور درجات بیان کئے ہیں ان کے نام لکھے دیتا ہوں:
اول تو حید شریعت ، دوم توحید طریقت ،(توحید افعالی ،صفاتی ،ذاتی )سوم توحید حقیقت (اس کے نو مراتب ہیں )،چہارم توحید معرفت جسے توحید ازلی ،ذاتی ،قدیمی اور الہٰی بھی کہتے ہیں ) بعض صوفیا نے تو حید کی قسمیں :وجودی، شہودی ،عینی اور ظلی بتائی ہیں ۔
اب ہم متقدمین کے روشنی میں وحدۃالوجود کے بارے میں ان کے عقاید کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ کسی نبی یا رسول نے وحدۃالوجود کی نہ تو تعلیم دی اور نہ ہی ایسا کو ئی دعویٰ کیا۔ انبیائے کرام اللہ تعالٰی کی عطا کردہ شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث ہوئے اور انہوں نے اپنے اس فرض منصبی کو کما حقہ، ادا کیا ۔ نبی کریمﷺ کے صحابہ ، تابعین اورتبع تابعین تک ادوار کو خود نبی رحمت ﷺ نے خیر القرون فرمایا ہے۔ اس کے بعد جب معرفت الہٰی کے حصول کے لیے سخت مجاہدہ کی ضرورت پیدا ہوئی تو طالبان حق نے اس راہ پر چلتے ہوئے مختلف منازل طے کیں ۔ انہیں منازل میں کوئی ایک کیفیت سے دوچار ہوا تو کوئی کسی دوسری کیفیت سے۔ یہ بھی یادرہے کہ کیفیات کا احساس صرف صاحب کیفیت کو ہی ہوتا ہے۔ اسے بانٹا نہیں جا سکتا ۔چنانچہ سالکان راہ حق نے اپنی اپنی کیفیت کے مطابق ذات حق کا ادراک کیا اور اسے بیان کیا۔ صوفیائے کرام کی فہرست میں ایسے بہت سے نام ملتے ہیں جو وحدۃالوجود کے قائل تھے۔ اگرچہ ان کے احوال و درجات میں بھی تفاوت ہے۔
ا۔شیخ لاسلام ابو اسماعیل عبداللہ الا نصاری الہروی متوفی 481ھ وحدۃالوجود کے قائل تھے
وہ اپنی کتاب "منازل السائرین " کے بارے "الا تصال " میں فرماتے ہیں ۔ ترجمہ : "تیرا درجہ اتصال لوجود کا ہے ۔ اس اتصال کے محض نام اور اشارہ کے سوا ہم اور کچھ نہیں سمجھ سکتے ۔ نہ اتصال کی صفت کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ مقدار کو "اسی کتاب کے "باب الفناء" میں فرماتے ہیں ۔فنا کے تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ علمی اعتبار سے فنا کا ہے ۔ وہ اس طرح کہ معروف یعنی ذات باری کی معرفت میں فنا ہو جائے ۔ دوسرا درجہ فنا مجدا کا ہے اور وہ اس طرح کہ جو کچھ طالب دیکھنے وہ معاین یعنی خدا فنا ہو جائے۔ تیسرا یعنی آخری درجہ درجہ حقیقی فنا کا ہے اور وہ اس طرح کہ طالب وجود میں فنا ہو جائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ علامہ ابن اقیم نے منازل السائرین کی شرح لکھی اور تاویلیں کر کے وحدۃالوجود کو وحدۃالشہود بنا دیا۔
وحدۃالوجودؒ اور حضرت خواجہ جنید بغدادیؒ ، حضرت با یزید بسطامیؒ ، حضرت شبلؒی:
حضرت خواجہ جنید بغدادی نے جب کہا "لیس فی الجبۃ الاللہ " تو ظاہر ہے ان پر بھی اس وقت کچھ ایسی ہی کیفیت طاری ہو گی جس میں تا کس نہ گو ئد بعد ازاں من دیگری" والا معاملہ ہوتا ہے۔ اور ابو علمی دقاق بھی اسی کیفیت میں ہوں گے جب انہوں نے کہا :ترجمہ :"میں نے تجھے دیکھ لیا ہے اسی لیے تو میں تمہیں چاہتا ہوں ۔میں نے اپنے آپ کو بیچ کر تمہیں خریدا ہے ۔"حضرت با یزید بسطامی پکارے : سبحانی ما اعظم و شانی ۔ حضرت شبلی نے بر سرمنبر کہا : انا اقول وانا اسمع وھل فی الدارین ، غیر ی (میں کہتا ہوں اور میں سنتا ہوں ۔ بھلا میرے سوا دونوں جہانوں میں کون ہے ؟) طوالت کے ڈر سے دیگر بہت سے صوفیا کرام کا حوالہ نہیں دیا جا رہا ۔اگر اس موضوع پر کتاب لکھنے کا حکم ہوا تو اس میں دیگر صوفیا کرام کے حوالہ جات موجود ہوں گے ۔
وحدۃالوجود اور حضرت ابن عربیؒ
ہم باقی متقدمین کو چھوڑکر حضرت شیخ محی الدین محمد علی الہاتمی الا ندلسی الد مشقی المعروف بہ حضرت ابن عربی کی طرف آتے ہیں کہ وہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے نظریہ وحدۃالوجود کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور اسی بات کی طرف شروع میں بتایا گیا ہے ۔کہ جو کچھ بیان کیا ہے ۔ اس کے لیے ایسے الفاظ اور تراکیب استعمال کی گی ہیں جن کو سمجھ لیناعوام تو کجا خواص کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
حضرت ابن عربی اپنی مشہور زمانہ تصنیف فصوص الحکم کے فص حکمتہ قدوسیہ فی کلمتہ ادریسیہ میں لکھے ہیں :
ترجمہ : " پس حق تعالٰی بذاتہ علی ہے ۔ با ضافت علی نہیں ۔ کیوں اعیان ثابتہ و معلومات الہیہ جن کو و جود خارجی نہیں،ہنوز ختم عدم میں ہیں۔ ان کو وجود خارجی کی ہوا تک نہیں لگی۔ پس اعیان ثابتہ باوجود موجودات خارجیہ میں متعدد معلوم ہونے کے ہنوز اپنے عدم اصلی پر ہیں ۔ اور ذات جو مجمو ع صور تجلی ہے ۔ مجموع اور کثرت سے بحثییت تقدئی ظاہر اور مجموع اور کثرت میں بحثییت اطلاق باطن ہے ۔اگرچہ خلق ، خا لق ، سے متمیز ہے ۔ مگر حقیقت ووجود کے لحاظ سے ایک ہی شے خالق بھی ہے ۔ اور وہ مخلوق بھی۔اور وہ مخلوق بھی ہے اور خالق بھی ۔ تمام مخلوفات ایک ہی عین حقہ سے ہیں ؟ نہیں ۔ بلکہ وہی عین و ذات واحد حقہ اعیان و ذوات کثیر میں نمایاں ہے۔"
اتصال حکمت مہمیتہ کلمہ ابراہیمیہ میں فرماتے ہیں :ترجمہ : "مرزوقین کی غذارزق سے ہوتی ہے ۔ رزاق ذات مرزوق میں یعنی کھانے والے تن میں اس طور سرایت کرتا اور داخل ہوجاتا ہے کہ کوئی عضو یعنی بغیر سریان غذا کے باقی نہیں رہنا ۔ اس طرح حضرت خلیل اللہ تمام مقامات الہی میں سرایت کر گے ۔ کیفیت کچھ یوں بیان کی جاسکتی یے کہ:
ولیس لہ سوای کرنی فنحن لہ کنجن لنا
ترجمہ : پس اگر حق تعالٰی ظاہر ہو ۔تو مخلوق اسی میں پوشیدہیےاور تمام مخلوقات حق تعالٰی کی صفات واسماء (کے مظاہر ) ہیں ۔ یعنی سمع اور بصر اسی کی ہو گی ۔ اور یہ مخلوقات مجموعی طور پر نسبتیں اور حق تعالٰی کی ادرکات ہو گی ۔ لیکن اگر مخلوق ظاہر ہو تو حق تعالی مخلوق میں پوشیدہ اور باطن ہو گا ۔ پس حق تعالٰی مخلوق کی سمع،بصر اور اسکے پاوٰں اور ساری قوتیں ہو گا جیسا کہ خبر صیحح میں آیا ہے ۔ پھر اگر حق تعالٰی کی ذات ان نسبتوں سے عاری ہو تی تو حق کی ذات معبود نہ ہوتی ۔یہ وہ نسبتیں ہیں جن کو ہماری اعیان نے پیدا کیا ۔ تو اس لیےہم نے ذات مطلق کو اپنی عبادت کے سبب معبود گردانا ۔ حق تعالٰی تب تک نہیں پہچانا جاتا جب تک ہم نہ پچانا جائیں ۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔اور حضور ﷺ ہی مخلوقات میں دانا ترین ہیں ،۔ ( فص کلمہ ابراہیمیہ ) تر جمہ : پس ہم کہتے ہیں جان لے تو اے سالک ۔ کہ جس چیز کو ماسوی اللہ کہا جاتا ہے اور یا اسے عالم کہتے ہیں تو وہ بہ نسبت حق تعالٰی سایہ کے مانند ہے ۔ جیسے کسی شخص کا سایہ ہوتا ہے۔ پس وہ ماسوی اللہ اور عالم اللہ تعالٰی ہی کا سایہ ہے ۔(فص یوسفیہ) بحثییت مجموعی تمام موجودات حق تعالٰی کی صفات کے مظاہر ہیں جو ہر اول مظہر صفات ذات ہے ۔جیسے عل وقدرت اور اسی طرح عقول ونفوس ، افلاک ،ستارے ۔ طباع سب مظاہر صفات افعال ہیں جیسے ایجاد ، اعدام ، احیاء اور امانت وغیرہ،
حضرت ابن عربی فص حکمت کلمہ اسماعیلیہ میں اعتبارات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "اب تجھ کو دو معرفتیں حاصل ہوں گی ۔ ایک معرفت نفس ورب کی با عتبار تیرے نفس کے نہ اور دوسری معرفت نفس ورب کی با اعتبار رب کے اور اسکے مظہر ہونے کے۔یہ معرفت با اعتبار تیرے نفس کہ نہ ہو گی ۔فانت عبد و انت رب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ لمن لہ فیہ انت عبد
تو بندہ ہے اور تو رب سے جدا نہیں ہے۔ کس کا بندہ جس سے تو نے الست بر بکم کے جواب میں بلٰی کہہ کر اقرار عبدیت کیا ہے ۔ وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالٰی کے کوئی موجود رہا ہی نہیں ۔ پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے نہ کوئی جدا ہے ۔ دوئی کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ دلیل کشف وعیان اسی کو ثابت کرتی یے ۔ لہذا میں جب اپنی دو آنکھوں سے گھور گھور کر خوب غور سے دیکھتا ہوں تو اس کی ذات کے سوائے کچھ نہیں دیکھتا ۔"باقی فصوص کو چھوڑ کر میں اپنی بات حضرت ابن عربی کے اس قول پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے فص حکمت کلمہ لوطیہ میں فرمائی ہے : ترجمہ سر نفس الامراورقد ر ظاہر اور واضح ہو گیا ۔اور کثرت میں وحدت داخل ہو گی ۔عالم میں حق کے جلوے ہیں ۔ ہر جفت میں واحد ہوتا ہی ہے ۔ اعداد کا دارہ مدار وحدہی پر ہے۔"اس طرح حضرت ابن عربی کے فلسفہ کےمطابق "ہمہ اوست "موجود ہے اورر باقی معدوم ہے
وحدۃالوجود کو بنیاد بنا کر ہندوانہ تعلیمات کی آڑ میں میں آواگون، تنا سخ اور حلول کے مشرکانہ عقائد
اتحاد حلول" :سچی بات تو یہ ہے کہ متقد مین اور حضرت ابن عربی نے نظریہ وحدۃالوجود کو ایسے الفاظ میں پیش کیا جو ہر کسں وناکس کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا تھامگر جاہلوں نے وحدۃالوجد کو بنیاد بنا کر ہندوانہ تعلیمات کی آڑ میں آواگون، تناسخ اور حلول کے مشرکانہ عقائد کو تصوف کے پا کیزہ علم میں داخل کردیا۔ عقیدہ وحدۃالوجود کی ترویج کا نتیجہ شریعت اسلامی کے لئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوا ۔ یہ کیفیت جو استثنائی صورت میں معدود ے چند حضرات کو وہی حاصل تھی جب عوام تک پہنچی تو اکبر کے عہد حکومت میں دین الہٰی کی بنیاد بنی ۔ اسی سے ہندووں کے عقیدہ حلول کو تقویت ملی ۔ عیسائی مشزیوں کے عقیدہ تثلیت کے ثبوت کے لئے بھی یہی پیش کی جانے لگی ۔ بلکہ نبوت کے جھوٹے دعوایدار بھی ظلی نبی اور کبھی حلولی نبی ہونے کا دعویٰ کرنے لگے ۔ غرضیکہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں ہندووں کے زیر اثر اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مزاق اڑایا جانے لگا ۔ بد قسمتی سے برصغیر ہند میں صوفیوں کے ایک گروہ نے ہندووں کے ویدانتی فلسفہ سے متاثر ہو کر غیر اسلامی وغیرشرعی فاسد نطریات کی تبلیغ واشاعت مسلمانوں میں شروع کردی ۔ انہیں میں سے بعض نے وحدۃ الوجود کے نظریہ کو بنیاد بنا کر "اتحاد حلول " کا نظریہ پیش کر دیا ۔ اور اس طرح گمراہی پھیلانا شروع کردی ۔ ہرکس نا کس دعویٰ کرنے لگا کہ عالم میں جو کچھ ہے بس خدا ہی ہے ۔ زمین وآسمان ، شجروحجر، نباتات وجمادات غرضیکہ سب کچھ خدا ہی ہے (معاذاللہ )
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایا ملت کا نگہبان
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
(جاری ہے)
وحدۃ الوجود۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کیوں؟
دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وحدۃالوجود جیسے انتہائی نازک اوراختلافی فلسفہ کی ضرروت ہی کیوں پیش آئی ۔ نا چیز اپنی کم علمی و کم مائیگی کا پورا پورا احساس رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی جسارت کرتا ہے۔ حدیث قدسی ہے : کنت کنز مخفیا فا حببت ان اعرف فخلقت الخلق:
ترجمہ : "میں ایک مخفی خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے اس لیے میں نے خلقت پیدا کی"
اس مخلوق کا سر تاج اور اپنا نائب حضرت آدم کو بنایا ۔ اس میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں سے اسے سجدہ کرواکر تمام مخلوقات میں اس کے شرف کا اعلان فرمایا ۔ اب اس جسد خاکی میں مقید روح چونکہ عالم امر سے ہے "قل الروح من امر ربی " اس لئے وہ اپنے وطن حقیقی کی طرف مراجعت کرنا چاہتی ہے اور اپنے خالق کی ذات حقیقی کی کششں اسے طرح اپنی طرف کھینچی ہے کہ وہ بیقرار ہو کر اس کی تجلیات میں گم ہونا چاہتی ہے جیسے قظرہ ندی میں ندی دریا میں اور دریا سمندر میں مل کر اپنی ہستی کو نیستی میں بدل کر امر ہونا چاہتا ہے۔ بقول اقبال :
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
(سزا یہی ہے کہ مجھے مٹا کر اپنی ہستی میں سمولے)
یا غالب نے کہا تھا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتاتو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
یہ خواہش،یہ تڑپ اور یہ لذت آشنائی جن ارواح زندہ کو بیقرار رکھتی ہےوہ رات کی خلوتوں میں جاگ جاگ کر اپنے مالک کے حضور گر یہ و زاری کرتے ہیں اور ایک ہی رات میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کر جاتے ہیں حتیٰ کہ رات ختم ہوجاتی ہے مگران کے ذوق کی تسکین نہیں ہوتی :
بحرفے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را
ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان پر اللہ تعالی کی تجلیات ذاتی وصفاتی یوں جلوہ فگن ہوں کہ وہ مد ہوشی کے عالم میں یہ پکار اٹھیں :
من تو شدم ، تو من شدی ،من تن شدم ،توجاں شدی
تا کس نہ گوئد بعد ازاں ، من دیگرم تو دیگری
اللہ تعالی کی معرفت کا حصول ہی مقصد تخلیق آدم ہے اور اسی ہستی واحد کی پہچان ہی مقصود باری تعالی بھی ہے ۔ اسی تڑپ نے عاشقان بلند نگاہ اور طالبان صادق کو بیقرار رکھا اور انہوں نے اپنے نہاں خانہ دل میں اپنے ما لک کو یوں سمویا کہ انہیں بجز اپنے اور کوئی نطرنہ آیا ۔ اس راہ میں سالک کو منازل ومقامات ، کشف وکرامات ،ذکر وفکر ، ذوق و شوق ، سوزو گداز، علم وانکشاف اور ایسی کیفیات میسر آتی ہیں جن کی کراماکاتبیں کو بھی خبرنہیں ہوتی۔
میاں عاشق و معشوق رمزیست ۔۔۔ ۔۔۔ کراماکاتبیں را ہم خبر نیست یا پھر بقول خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی:
نہ وصل بماند و نہ واصل
آنجا کہ خیال حیرت آمد
اور عاشق صادق دنیا و مافیہا کو بھلا کر مست شراب الست ہو جاتا ہے
من ہماں د م کہ وضو سا ختم از چشمہ عشق
چار تکبیر زد م یکسرہ بر ہر چہ کہ یست
قطرہ سمندر سے ملا تو وہ سمندر کہلایا ۔ کسی عاشق صادق پر تجلیات صفات باری یوں جلوہ فگن ہوئیں کہ وہ خود توفنا ہو گیا مگر اسی فنا میں اسے اپنی بقا بصورت وجود باری محسوس ہوئی۔ ایسے میں کوئی تو نرمی سے بولا: بلہیا کی جاناں میں کون ؟اور کس نے نعرہ "انا الحق" بلند کر کے سولی پہ چڑھنا قبول کیا توکس نے "اعظم وشانی"کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔ لیکن یہ سزائیں ان کے نشہ عشق کو دوآتشہ ہی کرتی گئیں کیونکہ"یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے"قصہ مختصرآپ ایسے عاشقان صادق کو پاگل کہیں ،مجذوب کہیں عقل و خرد سے بیگانہ قراردیں،یا مجنون کے خطاب سے نوازیں،ایسے الوالعزم موجود رہے ہیں اور ہیں جو "یزداں بہ کمند آوراے ہمت مردانہ "سے کم راضی نہیں ہوتے ۔ انہیں سولی پہ لٹکایا جائے ،ان کے سر قلم کیا جائے، ان کو جلاکر ان کی راکھ ہوامیں اڑا دی جائے ، انہیں پرواہ نہیں ۔انہیں یہی حسرت رہتی ہے کہ کاش ان کی راکھ ہی کوچہ یار تک جا سکتی :
بعد ازفنا بھی لے نہ گئی کوئے یار میں
کیا بار تھا صبا میرے مشت غبار میں
زنان مصرحضرت یوسف علیہ السلام کے حسن میں گم ہو کر اپنے ہاتھ کاٹ لیتی ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا تو حسن حقیقی کا نظارہ کرنے والوں کو تلوار کی کاٹ سے کیا خطرہ ؟ رب ارنی کہنے والے اس بات کی پرواہ کب کرتے ہیں کہ جواب میں لن ترانی سننا پڑے گا ۔ تجلیات باری خرمن دل کو جلاکے راکھ کردیں تو راکھ سے بھی رب ارنی کی صدائیں بلند ہوں گی کیو نکہ۔ من نمی گوئم انا الحق ، یارمی گوئد بگو
لب بام بھی پکارا ، سر دار بھی صدا دی
میں کہا ں کہاں نہ پہنچا تیری دید کی لگن میں
با ت بہت لمبی ہو گئی ۔ شیخ مکرم نے ارشاد فرمایا تھا کہ عاشقان با صفا کے اقوال و احوال کی روشنی میں مسئلہ وحدۃالوجود اور وحدۃالشہود کے بارے میں کچھ لکھوں ۔ یاد رہے کہ زمانہ قدیم سے نظریہ وحدۃالوجود کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا ہے ۔ البتہ اس کو پوری شرح و بسط کے ساتھ حضرت علامہ ابن عربی نے پیشں کیا ۔ جب جاہلوں کی محفل میں یہ نظریہ آیا تو اس سے جو گمراہی پھیلی اس کا تدارک کرنے کے لئے حضرت مجدد الف ثانی نے و حدۃالشہود کانظریہ پیش کیا ۔
وحدۃالوجود اور وحدۃ الشھود:
وحدۃالوجود کی سادہ اور آسان تعریف کر یں تو اس سے مراد "ایک ہو جانا" ہے یعنی اللہ تعا لی کی ہستی میں گم ہو جانا۔اور وحدۃالشہود سے مراد "ایک دیکھنا ہے"یعنی چاروں طرف" تو ہی تو "ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعالٰی دیکھا ہے ۔ وحدۃالوجود کی خصوصیت یہ ہے کہ توحید الہٰی کے غلبہ، سرور اور کیفت کے دوران میں سالک و جدانی طور پر ذات الہٰی میں ایسا محوو مستغرق ہوتا ہے کہ وجود باری کے علاوہ اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔ سالک کے قلب و ذہن سے ما سوا اللہ یکسر دور ہو جاتے ہیں اور صرف وجود حق کا ادراک و احساس ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ اس کیفیت میں سالک کا نعرہ ہوتا ہے ۔"ہمہ اُوست"۔ اس کیفیت کو لوائح جامی میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔
ہمسایہ وہم نشین ویمرہ ہمہ اوست
در دلق گدا واطلس شاہ ہمہ اوست
در انجمن فرق ونہاں خانہ جمع
با للہ ہمہ اوست ، باللہ ہمہ اوست
یہاں شاید تفصیل تو بیان کی نہیں جاسکتی مگر صوفیا نے تو حید کی جو قسمیں اور درجات بیان کئے ہیں ان کے نام لکھے دیتا ہوں:
اول تو حید شریعت ، دوم توحید طریقت ،(توحید افعالی ،صفاتی ،ذاتی )سوم توحید حقیقت (اس کے نو مراتب ہیں )،چہارم توحید معرفت جسے توحید ازلی ،ذاتی ،قدیمی اور الہٰی بھی کہتے ہیں ) بعض صوفیا نے تو حید کی قسمیں :وجودی، شہودی ،عینی اور ظلی بتائی ہیں ۔
مقتدمین کے نزدیک وحدۃالوجود
اب ہم متقدمین کے روشنی میں وحدۃالوجود کے بارے میں ان کے عقاید کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ کسی نبی یا رسول نے وحدۃالوجود کی نہ تو تعلیم دی اور نہ ہی ایسا کو ئی دعویٰ کیا۔ انبیائے کرام اللہ تعالٰی کی عطا کردہ شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث ہوئے اور انہوں نے اپنے اس فرض منصبی کو کما حقہ، ادا کیا ۔ نبی کریمﷺ کے صحابہ ، تابعین اورتبع تابعین تک ادوار کو خود نبی رحمت ﷺ نے خیر القرون فرمایا ہے۔ اس کے بعد جب معرفت الہٰی کے حصول کے لیے سخت مجاہدہ کی ضرورت پیدا ہوئی تو طالبان حق نے اس راہ پر چلتے ہوئے مختلف منازل طے کیں ۔ انہیں منازل میں کوئی ایک کیفیت سے دوچار ہوا تو کوئی کسی دوسری کیفیت سے۔ یہ بھی یادرہے کہ کیفیات کا احساس صرف صاحب کیفیت کو ہی ہوتا ہے۔ اسے بانٹا نہیں جا سکتا ۔چنانچہ سالکان راہ حق نے اپنی اپنی کیفیت کے مطابق ذات حق کا ادراک کیا اور اسے بیان کیا۔ صوفیائے کرام کی فہرست میں ایسے بہت سے نام ملتے ہیں جو وحدۃالوجود کے قائل تھے۔ اگرچہ ان کے احوال و درجات میں بھی تفاوت ہے۔
ا۔شیخ لاسلام ابو اسماعیل عبداللہ الا نصاری الہروی متوفی 481ھ وحدۃالوجود کے قائل تھے
وہ اپنی کتاب "منازل السائرین " کے بارے "الا تصال " میں فرماتے ہیں ۔ ترجمہ : "تیرا درجہ اتصال لوجود کا ہے ۔ اس اتصال کے محض نام اور اشارہ کے سوا ہم اور کچھ نہیں سمجھ سکتے ۔ نہ اتصال کی صفت کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ مقدار کو "اسی کتاب کے "باب الفناء" میں فرماتے ہیں ۔فنا کے تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ علمی اعتبار سے فنا کا ہے ۔ وہ اس طرح کہ معروف یعنی ذات باری کی معرفت میں فنا ہو جائے ۔ دوسرا درجہ فنا مجدا کا ہے اور وہ اس طرح کہ جو کچھ طالب دیکھنے وہ معاین یعنی خدا فنا ہو جائے۔ تیسرا یعنی آخری درجہ درجہ حقیقی فنا کا ہے اور وہ اس طرح کہ طالب وجود میں فنا ہو جائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ علامہ ابن اقیم نے منازل السائرین کی شرح لکھی اور تاویلیں کر کے وحدۃالوجود کو وحدۃالشہود بنا دیا۔
وحدۃالوجودؒ اور حضرت خواجہ جنید بغدادیؒ ، حضرت با یزید بسطامیؒ ، حضرت شبلؒی:
حضرت خواجہ جنید بغدادی نے جب کہا "لیس فی الجبۃ الاللہ " تو ظاہر ہے ان پر بھی اس وقت کچھ ایسی ہی کیفیت طاری ہو گی جس میں تا کس نہ گو ئد بعد ازاں من دیگری" والا معاملہ ہوتا ہے۔ اور ابو علمی دقاق بھی اسی کیفیت میں ہوں گے جب انہوں نے کہا :ترجمہ :"میں نے تجھے دیکھ لیا ہے اسی لیے تو میں تمہیں چاہتا ہوں ۔میں نے اپنے آپ کو بیچ کر تمہیں خریدا ہے ۔"حضرت با یزید بسطامی پکارے : سبحانی ما اعظم و شانی ۔ حضرت شبلی نے بر سرمنبر کہا : انا اقول وانا اسمع وھل فی الدارین ، غیر ی (میں کہتا ہوں اور میں سنتا ہوں ۔ بھلا میرے سوا دونوں جہانوں میں کون ہے ؟) طوالت کے ڈر سے دیگر بہت سے صوفیا کرام کا حوالہ نہیں دیا جا رہا ۔اگر اس موضوع پر کتاب لکھنے کا حکم ہوا تو اس میں دیگر صوفیا کرام کے حوالہ جات موجود ہوں گے ۔
وحدۃالوجود اور حضرت ابن عربیؒ
ہم باقی متقدمین کو چھوڑکر حضرت شیخ محی الدین محمد علی الہاتمی الا ندلسی الد مشقی المعروف بہ حضرت ابن عربی کی طرف آتے ہیں کہ وہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے نظریہ وحدۃالوجود کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور اسی بات کی طرف شروع میں بتایا گیا ہے ۔کہ جو کچھ بیان کیا ہے ۔ اس کے لیے ایسے الفاظ اور تراکیب استعمال کی گی ہیں جن کو سمجھ لیناعوام تو کجا خواص کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
حضرت ابن عربی اپنی مشہور زمانہ تصنیف فصوص الحکم کے فص حکمتہ قدوسیہ فی کلمتہ ادریسیہ میں لکھے ہیں :
ترجمہ : " پس حق تعالٰی بذاتہ علی ہے ۔ با ضافت علی نہیں ۔ کیوں اعیان ثابتہ و معلومات الہیہ جن کو و جود خارجی نہیں،ہنوز ختم عدم میں ہیں۔ ان کو وجود خارجی کی ہوا تک نہیں لگی۔ پس اعیان ثابتہ باوجود موجودات خارجیہ میں متعدد معلوم ہونے کے ہنوز اپنے عدم اصلی پر ہیں ۔ اور ذات جو مجمو ع صور تجلی ہے ۔ مجموع اور کثرت سے بحثییت تقدئی ظاہر اور مجموع اور کثرت میں بحثییت اطلاق باطن ہے ۔اگرچہ خلق ، خا لق ، سے متمیز ہے ۔ مگر حقیقت ووجود کے لحاظ سے ایک ہی شے خالق بھی ہے ۔ اور وہ مخلوق بھی۔اور وہ مخلوق بھی ہے اور خالق بھی ۔ تمام مخلوفات ایک ہی عین حقہ سے ہیں ؟ نہیں ۔ بلکہ وہی عین و ذات واحد حقہ اعیان و ذوات کثیر میں نمایاں ہے۔"
اتصال حکمت مہمیتہ کلمہ ابراہیمیہ میں فرماتے ہیں :ترجمہ : "مرزوقین کی غذارزق سے ہوتی ہے ۔ رزاق ذات مرزوق میں یعنی کھانے والے تن میں اس طور سرایت کرتا اور داخل ہوجاتا ہے کہ کوئی عضو یعنی بغیر سریان غذا کے باقی نہیں رہنا ۔ اس طرح حضرت خلیل اللہ تمام مقامات الہی میں سرایت کر گے ۔ کیفیت کچھ یوں بیان کی جاسکتی یے کہ:
ولیس لہ سوای کرنی فنحن لہ کنجن لنا
ترجمہ : پس اگر حق تعالٰی ظاہر ہو ۔تو مخلوق اسی میں پوشیدہیےاور تمام مخلوقات حق تعالٰی کی صفات واسماء (کے مظاہر ) ہیں ۔ یعنی سمع اور بصر اسی کی ہو گی ۔ اور یہ مخلوقات مجموعی طور پر نسبتیں اور حق تعالٰی کی ادرکات ہو گی ۔ لیکن اگر مخلوق ظاہر ہو تو حق تعالی مخلوق میں پوشیدہ اور باطن ہو گا ۔ پس حق تعالٰی مخلوق کی سمع،بصر اور اسکے پاوٰں اور ساری قوتیں ہو گا جیسا کہ خبر صیحح میں آیا ہے ۔ پھر اگر حق تعالٰی کی ذات ان نسبتوں سے عاری ہو تی تو حق کی ذات معبود نہ ہوتی ۔یہ وہ نسبتیں ہیں جن کو ہماری اعیان نے پیدا کیا ۔ تو اس لیےہم نے ذات مطلق کو اپنی عبادت کے سبب معبود گردانا ۔ حق تعالٰی تب تک نہیں پہچانا جاتا جب تک ہم نہ پچانا جائیں ۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔اور حضور ﷺ ہی مخلوقات میں دانا ترین ہیں ،۔ ( فص کلمہ ابراہیمیہ ) تر جمہ : پس ہم کہتے ہیں جان لے تو اے سالک ۔ کہ جس چیز کو ماسوی اللہ کہا جاتا ہے اور یا اسے عالم کہتے ہیں تو وہ بہ نسبت حق تعالٰی سایہ کے مانند ہے ۔ جیسے کسی شخص کا سایہ ہوتا ہے۔ پس وہ ماسوی اللہ اور عالم اللہ تعالٰی ہی کا سایہ ہے ۔(فص یوسفیہ) بحثییت مجموعی تمام موجودات حق تعالٰی کی صفات کے مظاہر ہیں جو ہر اول مظہر صفات ذات ہے ۔جیسے عل وقدرت اور اسی طرح عقول ونفوس ، افلاک ،ستارے ۔ طباع سب مظاہر صفات افعال ہیں جیسے ایجاد ، اعدام ، احیاء اور امانت وغیرہ،
حضرت ابن عربی فص حکمت کلمہ اسماعیلیہ میں اعتبارات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "اب تجھ کو دو معرفتیں حاصل ہوں گی ۔ ایک معرفت نفس ورب کی با عتبار تیرے نفس کے نہ اور دوسری معرفت نفس ورب کی با اعتبار رب کے اور اسکے مظہر ہونے کے۔یہ معرفت با اعتبار تیرے نفس کہ نہ ہو گی ۔فانت عبد و انت رب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ لمن لہ فیہ انت عبد
تو بندہ ہے اور تو رب سے جدا نہیں ہے۔ کس کا بندہ جس سے تو نے الست بر بکم کے جواب میں بلٰی کہہ کر اقرار عبدیت کیا ہے ۔ وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالٰی کے کوئی موجود رہا ہی نہیں ۔ پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے نہ کوئی جدا ہے ۔ دوئی کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ دلیل کشف وعیان اسی کو ثابت کرتی یے ۔ لہذا میں جب اپنی دو آنکھوں سے گھور گھور کر خوب غور سے دیکھتا ہوں تو اس کی ذات کے سوائے کچھ نہیں دیکھتا ۔"باقی فصوص کو چھوڑ کر میں اپنی بات حضرت ابن عربی کے اس قول پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے فص حکمت کلمہ لوطیہ میں فرمائی ہے : ترجمہ سر نفس الامراورقد ر ظاہر اور واضح ہو گیا ۔اور کثرت میں وحدت داخل ہو گی ۔عالم میں حق کے جلوے ہیں ۔ ہر جفت میں واحد ہوتا ہی ہے ۔ اعداد کا دارہ مدار وحدہی پر ہے۔"اس طرح حضرت ابن عربی کے فلسفہ کےمطابق "ہمہ اوست "موجود ہے اورر باقی معدوم ہے
وحدۃالوجود کو بنیاد بنا کر ہندوانہ تعلیمات کی آڑ میں میں آواگون، تنا سخ اور حلول کے مشرکانہ عقائد
اتحاد حلول" :سچی بات تو یہ ہے کہ متقد مین اور حضرت ابن عربی نے نظریہ وحدۃالوجود کو ایسے الفاظ میں پیش کیا جو ہر کسں وناکس کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا تھامگر جاہلوں نے وحدۃالوجد کو بنیاد بنا کر ہندوانہ تعلیمات کی آڑ میں آواگون، تناسخ اور حلول کے مشرکانہ عقائد کو تصوف کے پا کیزہ علم میں داخل کردیا۔ عقیدہ وحدۃالوجود کی ترویج کا نتیجہ شریعت اسلامی کے لئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوا ۔ یہ کیفیت جو استثنائی صورت میں معدود ے چند حضرات کو وہی حاصل تھی جب عوام تک پہنچی تو اکبر کے عہد حکومت میں دین الہٰی کی بنیاد بنی ۔ اسی سے ہندووں کے عقیدہ حلول کو تقویت ملی ۔ عیسائی مشزیوں کے عقیدہ تثلیت کے ثبوت کے لئے بھی یہی پیش کی جانے لگی ۔ بلکہ نبوت کے جھوٹے دعوایدار بھی ظلی نبی اور کبھی حلولی نبی ہونے کا دعویٰ کرنے لگے ۔ غرضیکہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں ہندووں کے زیر اثر اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مزاق اڑایا جانے لگا ۔ بد قسمتی سے برصغیر ہند میں صوفیوں کے ایک گروہ نے ہندووں کے ویدانتی فلسفہ سے متاثر ہو کر غیر اسلامی وغیرشرعی فاسد نطریات کی تبلیغ واشاعت مسلمانوں میں شروع کردی ۔ انہیں میں سے بعض نے وحدۃ الوجود کے نظریہ کو بنیاد بنا کر "اتحاد حلول " کا نظریہ پیش کر دیا ۔ اور اس طرح گمراہی پھیلانا شروع کردی ۔ ہرکس نا کس دعویٰ کرنے لگا کہ عالم میں جو کچھ ہے بس خدا ہی ہے ۔ زمین وآسمان ، شجروحجر، نباتات وجمادات غرضیکہ سب کچھ خدا ہی ہے (معاذاللہ )
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایا ملت کا نگہبان
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
(جاری ہے)