• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہنا اور علماء کے خلاف بولنا

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
صحیح البخاری: 6939

ابو عبدالرحمٰن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابو عبدالرحمٰن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہو گئے ہیں۔ ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پر حبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے، تیرا باپ نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ مجھے، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت (سارہ نامی) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھا گیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار جا رہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کو آنے کی خبر دی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھا دیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔ اس کے بعد یہ لوگ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہو جائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو (ان کے ہاتھ سے) بچا لوں۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں (خوشی سے) آنسو بھر آئے اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے۔

ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ«خاخ» زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے «حاج» ہی بیان کیا ہے اور لفظ «حاج» بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہشیم نے «خاخ»بیان کیا ہے۔
امْرَأَةً مِنْ الْمُشْرِكِينَ
امْرَأَةً مِنَ المُشْرِكِينَ
She was pagan not muslimah.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس تھریڈ میں شروع بحث ایک خاص نوعیت اختیار کرچکی ہے، میں اپنی کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔
1۔دین اسلام کی حفاظت سب سے اہم ہے، انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے، لیکن اسلام کے احیاء و حفاظت کے لیے انسان کا زندگی قربان کردینا بھی باعث ثواب و ترغیب ہے۔
2۔جو لوگ اسلامی عقائد و نظریات میں خلل کا باعث بنے، اسلامی ریاستوں میں ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی اختیار نہیں کی گئی۔ خارجی، قدری، جہمی اور زنادقہ کو کڑی سزائیں دی گئیں، بعض کو قتل تک کردیا گیا کہ وہ ’ہویۃ اسلامیہ‘ کو متاثر کر رہے تھے۔
ان دو نقطوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، اب اس وقت ہم اہل اسلام ( حکام و محکومین) کا رویہ اسلام کےشایانِ شان ہے؟ بلکہ کتنے ہی ایسے ہیں، جو ان دو نقطوں میں بذات خود اسلامی معاشرے میں خلل و فساد کا باعث بن رہے ہیں۔
اس انداز سے غور کرنے سےفما بقاء الأمۃ بعد شتم نبیہا وغیرہ اقوال کی حیثیت سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔
3۔ معاشرے کو دینی و دنیاوی ہر دو طرح کے فساد سے بچانے کے لیے اسلام نےمختلف تعلیمات دی ہیں۔ ان تعلیمات میں آدھی کو چھوڑنا، اور آدھی کولینا، یہ بذات خود ایک نئے فساد کا باعث ہوگا۔
4۔ حاکمان وقت کی اطاعت اور فرمان برداری کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا، تاکہ لوگوں کے مصالح و مفاسد کی حفاظت ہو۔ لیکن اس سمع و طاعت میں قطعا کہیں ایسے جملے نہیں کہ حاکمان وقت اگر دین کا بیڑا غرق کردیں، تو خاموشی سے بیٹھے رہیں۔
حاکم وقت کی اطاعت میں یہ تو کہا گیا کہ اگر وہ تمہارا مال جان لوٹ لےپھر بھی صبر کرو، لیکن جب دین کی باری آئی تو کہیں’ کفر بواح‘ سے اطاعت کو مشروط کیا، کہیں ’ ما أقاموا فیکم الصلاۃ‘ وغیرہ الفاظ بولے گئے۔ احادیث میں بیان کردہ یہ الفاظ دیکھیں، اور پھر ہم مسلمانوں ( حکام و محکومین) کے رویے نوٹ کریں۔
5۔ خیر القرون میں کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی مسلمان حاکم کافروں کا آلہ کار بھی ہوسکتا ہے۔ اب کیسے ہوسکتاہے کہ کافر لوگ مسلم حکمران کو ہاتھ میں کرکے دین اسلام کی بنیاد ڈھا رہے ہوں، اور دیگر مسلمانوں کو کہا جائے کہ اطاعت حاکم میں خاموشی سے بیٹھے رہو۔
6۔ ایک اسلامی ملک یعنی پاکستان جس کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ہے، اور اب اسے ’ریاست مدینہ‘ بنانے کا دعوی بھی کردیا گیاہے۔ اس میں اسلامی و غیر اسلامی نظریات کی جنگ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری یہ ’اسلامی حکومتیں‘ اور نام نہاد ’اسلامی نظام‘ کس قدر اسلام کے لیے مناسبت رکھتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، رپورٹ حاصل کریں، کہ انہوں نے اسلام کے نفاذ میں کتنی سفارشات پیش کی ہیں، اور پارلیمنٹ نے اسے کتنا قبول یا نافذ کیا ہے؟ یہاں حرمت رسول کے متعلق بڑے بڑے بلنڈر ہوجاتے ہیں، لیکن اس ’اسلامی نظام حکومت‘ میں کوئی آئینی شق ایسی نہیں جو اس کو روک سکے۔ آخر لوگوں کو ’غیر اسلامی احتجاج‘ کرکے اس کو رکوانا پڑتا ہے۔
7۔ خروج و تکفیر یہ خالص اسلامی اصطلاحات ہیں، اگر ایک مناسب اسلامی نظام قائم ہو، تو اس میں ان کا استعمال و تطبیق مناسب رہےگا، ورنہ اسلامی غیرت رکھنے والا ہر دوسرا بندہ خارجی و تکفیری بن جائے گا۔ خود جن لوگوں کو خارجی یا تکفیری کہا جاتاہے، انہیں بھی کوشش کرنی چاہیے، اسلام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، ہر ممکنہ کوشش کریں کہ خروج و تکفیر کے الزام سے بچ سکیں۔
کیونکہ اس وقت حقیقتا کسی کے خلاف خروج یا کسی کی تکفیر مسائل کا پائیدار حل نظر نہیں آتی۔ واللہ اعلم۔
8۔ میں علی وجہ البصیرۃ سمجھتا ہوں کہ اس وقت جو لوگ آپس میں الجھ رہے ہیں، ان سب کا اصل مسئلہ ’احیاء اسلامیت‘ اور ’بقائے دین‘ ہے، انہیں آپس میں الجھنے کی بجائے، مشترکہ کاز اور ہدف کو سنبھالنا چاہیے۔ اختلافی امور میں ایک دوسرے کی تنقید یا اصلاح سے حتی الامکان مستفید ہونے کی کوشش کریں، لیکن پھر بھی جہاں اتفاق نہیں ہوسکتا، وہاں الجھنے سے گریز کریں۔ اس وقت مسائل کا حل اسلام پسندوں کا مل کر لادینیت و کفر کے خلاف تحریک کھڑی کرنا ہے، ورنہ اسلامیت کا آئے دن سرنگوں ہوتا پرچم ، ایک وقت میں اسلام پسندوں کا کفن بن جائے گا، اور سوائے نوحہ خانی کے کچھ کرنے کو باقی نہیں رہےگا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
اس تھریڈ میں شروع بحث ایک خاص نوعیت اختیار کرچکی ہے، میں اپنی کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔
1۔دین اسلام کی حفاظت سب سے اہم ہے، انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے، لیکن اسلام کے احیاء و حفاظت کے لیے انسان کا زندگی قربان کردینا بھی باعث ثواب و ترغیب ہے۔
2۔جو لوگ اسلامی عقائد و نظریات میں خلل کا باعث بنے، اسلامی ریاستوں میں ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی اختیار نہیں کی گئی۔ خارجی، قدری، جہمی اور زنادقہ کو کڑی سزائیں دی گئیں، بعض کو قتل تک کردیا گیا کہ وہ ’ہویۃ اسلامیہ‘ کو متاثر کر رہے تھے۔
ان دو نقطوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، اب اس وقت ہم اہل اسلام ( حکام و محکومین) کا رویہ اسلام کےشایانِ شان ہے؟ بلکہ کتنے ہی ایسے ہیں، جو ان دو نقطوں میں بذات خود اسلامی معاشرے میں خلل و فساد کا باعث بن رہے ہیں۔
اس انداز سے غور کرنے سےفما بقاء الأمۃ بعد شتم نبیہا وغیرہ اقوال کی حیثیت سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔
3۔ معاشرے کو دینی و دنیاوی ہر دو طرح کے فساد سے بچانے کے لیے اسلام نےمختلف تعلیمات دی ہیں۔ ان تعلیمات میں آدھی کو چھوڑنا، اور آدھی کولینا، یہ بذات خود ایک نئے فساد کا باعث ہوگا۔
4۔ حاکمان وقت کی اطاعت اور فرمان برداری کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا، تاکہ لوگوں کے مصالح و مفاسد کی حفاظت ہو۔ لیکن اس سمع و طاعت میں قطعا کہیں ایسے جملے نہیں کہ حاکمان وقت اگر دین کا بیڑا غرق کردیں، تو خاموشی سے بیٹھے رہیں۔
حاکم وقت کی اطاعت میں یہ تو کہا گیا کہ اگر وہ تمہارا مال جان لوٹ لےپھر بھی صبر کرو، لیکن جب دین کی باری آئی تو کہیں’ کفر بواح‘ سے اطاعت کو مشروط کیا، کہیں ’ ما أقاموا فیکم الصلاۃ‘ وغیرہ الفاظ بولے گئے۔ احادیث میں بیان کردہ یہ الفاظ دیکھیں، اور پھر ہم مسلمانوں ( حکام و محکومین) کے رویے نوٹ کریں۔
5۔ خیر القرون میں کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی مسلمان حاکم کافروں کا آلہ کار بھی ہوسکتا ہے۔ اب کیسے ہوسکتاہے کہ کافر لوگ مسلم حکمران کو ہاتھ میں کرکے دین اسلام کی بنیاد ڈھا رہے ہوں، اور دیگر مسلمانوں کو کہا جائے کہ اطاعت حاکم میں خاموشی سے بیٹھے رہو۔
6۔ ایک اسلامی ملک یعنی پاکستان جس کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ہے، اور اب اسے ’ریاست مدینہ‘ بنانے کا دعوی بھی کردیا گیاہے۔ اس میں اسلامی و غیر اسلامی نظریات کی جنگ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری یہ ’اسلامی حکومتیں‘ اور نام نہاد ’اسلامی نظام‘ کس قدر اسلام کے لیے مناسبت رکھتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، رپورٹ حاصل کریں، کہ انہوں نے اسلام کے نفاذ میں کتنی سفارشات پیش کی ہیں، اور پارلیمنٹ نے اسے کتنا قبول یا نافذ کیا ہے؟ یہاں حرمت رسول کے متعلق بڑے بڑے بلنڈر ہوجاتے ہیں، لیکن اس ’اسلامی نظام حکومت‘ میں کوئی آئینی شق ایسی نہیں جو اس کو روک سکے۔ آخر لوگوں کو ’غیر اسلامی احتجاج‘ کرکے اس کو رکوانا پڑتا ہے۔
7۔ خروج و تکفیر یہ خالص اسلامی اصطلاحات ہیں، اگر ایک مناسب اسلامی نظام قائم ہو، تو اس میں ان کا استعمال و تطبیق مناسب رہےگا، ورنہ اسلامی غیرت رکھنے والا ہر دوسرا بندہ خارجی و تکفیری بن جائے گا۔ خود جن لوگوں کو خارجی یا تکفیری کہا جاتاہے، انہیں بھی کوشش کرنی چاہیے، اسلام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، ہر ممکنہ کوشش کریں کہ خروج و تکفیر کے الزام سے بچ سکیں۔
کیونکہ اس وقت حقیقتا کسی کے خلاف خروج یا کسی کی تکفیر مسائل کا پائیدار حل نظر نہیں آتی۔ واللہ اعلم۔
8۔ میں علی وجہ البصیرۃ سمجھتا ہوں کہ اس وقت جو لوگ آپس میں الجھ رہے ہیں، ان سب کا اصل مسئلہ ’احیاء اسلامیت‘ اور ’بقائے دین‘ ہے، انہیں آپس میں الجھنے کی بجائے، مشترکہ کاز اور ہدف کو سنبھالنا چاہیے۔ اختلافی امور میں ایک دوسرے کی تنقید یا اصلاح سے حتی الامکان مستفید ہونے کی کوشش کریں، لیکن پھر بھی جہاں اتفاق نہیں ہوسکتا، وہاں الجھنے سے گریز کریں۔ اس وقت مسائل کا حل اسلام پسندوں کا مل کر لادینیت و کفر کے خلاف تحریک کھڑی کرنا ہے، ورنہ اسلامیت کا آئے دن سرنگوں ہوتا پرچم ، ایک وقت میں اسلام پسندوں کا کفن بن جائے گا، اور سوائے نوحہ خانی کے کچھ کرنے کو باقی نہیں رہےگا۔
یہ سب باتیں آپ قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں سمجھائیں۔ بڑی مہربانی ہوگی۔ ورنہ باتیں اور مشورے ہمارے پاس بھی ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
یہ سب باتیں آپ قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں سمجھائیں۔ بڑی مہربانی ہوگی۔ ورنہ باتیں اور مشورے ہمارے پاس بھی ہیں۔


اگر باتیں اور مشورے ہیں تو تردد اور پس وپیش کیسا؟ پیش کریں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اپنا مدعا تو میں بعد میں بیان کرتا ہوں، فی الحال @عبدالمنان بھائی سے عرض ہے کہ:
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق دلیل خواہی
 
Last edited:

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
اس تھریڈ میں شروع بحث ایک خاص نوعیت اختیار کرچکی ہے، میں اپنی کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔
1۔دین اسلام کی حفاظت سب سے اہم ہے، انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے، لیکن اسلام کے احیاء و حفاظت کے لیے انسان کا زندگی قربان کردینا بھی باعث ثواب و ترغیب ہے۔
2۔جو لوگ اسلامی عقائد و نظریات میں خلل کا باعث بنے، اسلامی ریاستوں میں ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی اختیار نہیں کی گئی۔ خارجی، قدری، جہمی اور زنادقہ کو کڑی سزائیں دی گئیں، بعض کو قتل تک کردیا گیا کہ وہ ’ہویۃ اسلامیہ‘ کو متاثر کر رہے تھے۔
ان دو نقطوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، اب اس وقت ہم اہل اسلام ( حکام و محکومین) کا رویہ اسلام کےشایانِ شان ہے؟ بلکہ کتنے ہی ایسے ہیں، جو ان دو نقطوں میں بذات خود اسلامی معاشرے میں خلل و فساد کا باعث بن رہے ہیں۔
اس انداز سے غور کرنے سےفما بقاء الأمۃ بعد شتم نبیہا وغیرہ اقوال کی حیثیت سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔
3۔ معاشرے کو دینی و دنیاوی ہر دو طرح کے فساد سے بچانے کے لیے اسلام نےمختلف تعلیمات دی ہیں۔ ان تعلیمات میں آدھی کو چھوڑنا، اور آدھی کولینا، یہ بذات خود ایک نئے فساد کا باعث ہوگا۔
4۔ حاکمان وقت کی اطاعت اور فرمان برداری کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا، تاکہ لوگوں کے مصالح و مفاسد کی حفاظت ہو۔ لیکن اس سمع و طاعت میں قطعا کہیں ایسے جملے نہیں کہ حاکمان وقت اگر دین کا بیڑا غرق کردیں، تو خاموشی سے بیٹھے رہیں۔
حاکم وقت کی اطاعت میں یہ تو کہا گیا کہ اگر وہ تمہارا مال جان لوٹ لےپھر بھی صبر کرو، لیکن جب دین کی باری آئی تو کہیں’ کفر بواح‘ سے اطاعت کو مشروط کیا، کہیں ’ ما أقاموا فیکم الصلاۃ‘ وغیرہ الفاظ بولے گئے۔ احادیث میں بیان کردہ یہ الفاظ دیکھیں، اور پھر ہم مسلمانوں ( حکام و محکومین) کے رویے نوٹ کریں۔
5۔ خیر القرون میں کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی مسلمان حاکم کافروں کا آلہ کار بھی ہوسکتا ہے۔ اب کیسے ہوسکتاہے کہ کافر لوگ مسلم حکمران کو ہاتھ میں کرکے دین اسلام کی بنیاد ڈھا رہے ہوں، اور دیگر مسلمانوں کو کہا جائے کہ اطاعت حاکم میں خاموشی سے بیٹھے رہو۔
6۔ ایک اسلامی ملک یعنی پاکستان جس کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ہے، اور اب اسے ’ریاست مدینہ‘ بنانے کا دعوی بھی کردیا گیاہے۔ اس میں اسلامی و غیر اسلامی نظریات کی جنگ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری یہ ’اسلامی حکومتیں‘ اور نام نہاد ’اسلامی نظام‘ کس قدر اسلام کے لیے مناسبت رکھتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، رپورٹ حاصل کریں، کہ انہوں نے اسلام کے نفاذ میں کتنی سفارشات پیش کی ہیں، اور پارلیمنٹ نے اسے کتنا قبول یا نافذ کیا ہے؟ یہاں حرمت رسول کے متعلق بڑے بڑے بلنڈر ہوجاتے ہیں، لیکن اس ’اسلامی نظام حکومت‘ میں کوئی آئینی شق ایسی نہیں جو اس کو روک سکے۔ آخر لوگوں کو ’غیر اسلامی احتجاج‘ کرکے اس کو رکوانا پڑتا ہے۔
7۔ خروج و تکفیر یہ خالص اسلامی اصطلاحات ہیں، اگر ایک مناسب اسلامی نظام قائم ہو، تو اس میں ان کا استعمال و تطبیق مناسب رہےگا، ورنہ اسلامی غیرت رکھنے والا ہر دوسرا بندہ خارجی و تکفیری بن جائے گا۔ خود جن لوگوں کو خارجی یا تکفیری کہا جاتاہے، انہیں بھی کوشش کرنی چاہیے، اسلام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، ہر ممکنہ کوشش کریں کہ خروج و تکفیر کے الزام سے بچ سکیں۔
کیونکہ اس وقت حقیقتا کسی کے خلاف خروج یا کسی کی تکفیر مسائل کا پائیدار حل نظر نہیں آتی۔ واللہ اعلم۔
8۔ میں علی وجہ البصیرۃ سمجھتا ہوں کہ اس وقت جو لوگ آپس میں الجھ رہے ہیں، ان سب کا اصل مسئلہ ’احیاء اسلامیت‘ اور ’بقائے دین‘ ہے، انہیں آپس میں الجھنے کی بجائے، مشترکہ کاز اور ہدف کو سنبھالنا چاہیے۔ اختلافی امور میں ایک دوسرے کی تنقید یا اصلاح سے حتی الامکان مستفید ہونے کی کوشش کریں، لیکن پھر بھی جہاں اتفاق نہیں ہوسکتا، وہاں الجھنے سے گریز کریں۔ اس وقت مسائل کا حل اسلام پسندوں کا مل کر لادینیت و کفر کے خلاف تحریک کھڑی کرنا ہے، ورنہ اسلامیت کا آئے دن سرنگوں ہوتا پرچم ، ایک وقت میں اسلام پسندوں کا کفن بن جائے گا، اور سوائے نوحہ خانی کے کچھ کرنے کو باقی نہیں رہےگا۔
جزاک اللہ خیرا ،
اسلام ہمارا محتاج نہیں، ہم محتاج ہیں کہ اسلام کے لیے کچھ کر کے وہ مقام پا سکیں جو دیدار الہی کی سب سےبڑی نعمت کے حصول کا سبب بن جائے.

مسیلمہ کذاب کے فتنہ دبانے کے لیے 700 یا زیادہ حفاظ کرام جید صحابہ کی قربانی دی تھی.
اور ہمارے ھاں پیپر ورک میں ایک فتنہ کو کافر لکھ کر ذمہ داری پوری کرنے کا ڈھونگ کیا جاتا ہے. ایک ان پڑھ ملازمہ نے بتایا کہ قریب کے کسی علاقے میں قادیانیوں کی عبادت گاہ میں ہر جمعہ غریب لوگوں کو لے جا کر قادیانیت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ، ایک ہفتے کا راشن دیا جاتا ہے. کسی کو معلوم؟ کوئی سدباب؟

شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کا مؤقف؛
 

abrarahmad.pak313

مبتدی
شمولیت
دسمبر 27، 2018
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
2
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
سوشل میڈیا جیسے فتنے نے ہر عامی کو یہ جرات فراہم کر دی ہے کہ وہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کھلے عام طاغوت کہنے اور علماء کرام پر بہتان باندھنے میں تاخیر نہیں کرتے.
میرا سوال ہے کہ؛
ایسی صورتحال میں ایک مسلمان کی کس حد تک ذمہ داری ہے؟ کہ وہ حکمرانوں کے کھلے عام کفر کو دیکھ کر خاموش رھے یا تنقید کرے؟

عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ لعنت بھیجنے اور بددعا دینے سے بھی نہیں رکتے.
جزاک اللہ خیرا

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
تفتیش میں تو عورت کو بھی برہنہ کیا جاسکتا ہے، پکڑنا اور گرفتار کرنا تو بہت چھوٹی بات ہے، لہٰذا یہ فساد نہ ہوگا بلکہ فساد کا سدِباب قرار پائے گا!
محترم،
انتہائی معذرت کے ساتھ اس قسم کی تفتیش اگر آپ کے گھر سے شروع ہو پھر یہ آپ کو فساد ہی لگے گا،
آپ جس دور کی مثال دے کر اس کو آج کے دور میں فٹ کرنے چاہ رہے ہیں وہ خیر القرون کا دور تھا اور آج کے دور میں وردی میں ہی عزتوں کےلٹیرے موجود ہیں اور آج ایسی متعدد امثال اور واقعات موجود ہیں جن میں ان وردی والے لٹیروں نے گھروں میں گھس کر عصمتیں پامال کی ہیں اس لئے آج کے دورکے ان لٹیروں کو اس دور کے نیک لوگوں پر قیاس نہ فرمائیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
انتہائی معذرت کے ساتھ اس قسم کی تفتیش اگر آپ کے گھر سے شروع ہو پھر یہ آپ کو فساد ہی لگے گا،
میرے گھر کا معاملہ ہو یا آپ کے گھر کا معاملہ شرعی احکام برقرار رہیں گے، خواہ کسی کو کچھ ہی لگے!
آپ جس دور کی مثال دے کر اس کو آج کے دور میں فٹ کرنے چاہ رہے ہیں وہ خیر القرون کا دور تھا
شرعی احکام کے مصادر قرآن و حدیث ہیں، اور اس سے ماخوذ احکام ہر ادار کے لئے ہیں!
یہ ایک عجیب منطق ہے کہ وہ تو خیر القرون کا دور تھا، آج شر القرون کا ہے، لہذا جو خیر القرون کے لئے احکامات تھے، ان سے آج شر القرون بری ہو گئے ہیں!
اور آج کے دور میں وردی میں ہی عزتوں کےلٹیرے موجود ہیں اور آج ایسی متعدد امثال اور واقعات موجود ہیں جن میں ان وردی والے لٹیروں نے گھروں میں گھس کر عصمتیں پامال کی ہیں
میں نے جو شرعی حکم بتلایا ہے، اس میں یہ شامل نہیں کہ کسی کو عورتوں کی عزتیں لوٹنے کا حق ہے، جو بھی اس کا مرتکب ہے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے!
اس لئے آج کے دورکے ان لٹیروں کو اس دور کے نیک لوگوں پر قیاس نہ فرمائیں
میں نے کوئی قیاس نہیں کیا، بلکہ تفتیش کے حوالہ سے ایک شرعی حکم بیان کیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر عورت کو برہنہ بھی کیا جا سکتا ہے!

ایک بات یہاں کہی گئی کہ وہ ایک مشرکہ عورت تھی، اور یہ تاثر دیا گیا کہ مشرکہ عورت کو تو برہنہ کیا جاسکتا ہے لیکن مسلمہ عورت کو نہیں!
یہ تخصیص کسی طرح بھی درست نہیں، کہ جس طرح کسی مسلمان مرد کا مسلمہ عورت کے ساتھ زنا ممنوع و حرام ہے، اسی طرح مشرکہ عورت کے ساتھ بھی زنا ممنوع وحرام ہے!

اور یہ بھی کہا گیا کہ گھروں سے اٹھانا چھوٹی بات نہیں؛
بہر حال کسی عورت کو گھر سے لے جا کر قید کرنا اسے برہنہ کرنے سے تو چھوٹی بات ہے، اور اگر کوئی اس کے برعکس کا بھی قائل ہو تو اس سےفرق نہیں پڑتا کیونکہ فقہی کتب میں عورت کو قید کرنے کے حوالے سے شرعی احکامات موجود ہیں، اور وہ بھی جیل میں قید کرنے کے حوالے سے، اور جب کسی کو قید کیا جاتا ہے، تو اس دعوت نامہ بھیج اس طرح نہیں بلایا جاتا کہ وہ دعوت نامہ قبول کرکے آئے تو اسے قید کرلیا جائے، نہ آئے تو اسے پکڑ کر نہ لایا جائے۔ فتدبر!
 
Top