السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
انتہائی معذرت کے ساتھ اس قسم کی تفتیش اگر آپ کے گھر سے شروع ہو پھر یہ آپ کو فساد ہی لگے گا،
میرے گھر کا معاملہ ہو یا آپ کے گھر کا معاملہ شرعی احکام برقرار رہیں گے، خواہ کسی کو کچھ ہی لگے!
آپ جس دور کی مثال دے کر اس کو آج کے دور میں فٹ کرنے چاہ رہے ہیں وہ خیر القرون کا دور تھا
شرعی احکام کے مصادر قرآن و حدیث ہیں، اور اس سے ماخوذ احکام ہر ادار کے لئے ہیں!
یہ ایک عجیب منطق ہے کہ وہ تو خیر القرون کا دور تھا، آج شر القرون کا ہے، لہذا جو خیر القرون کے لئے احکامات تھے، ان سے آج شر القرون بری ہو گئے ہیں!
اور آج کے دور میں وردی میں ہی عزتوں کےلٹیرے موجود ہیں اور آج ایسی متعدد امثال اور واقعات موجود ہیں جن میں ان وردی والے لٹیروں نے گھروں میں گھس کر عصمتیں پامال کی ہیں
میں نے جو شرعی حکم بتلایا ہے، اس میں یہ شامل نہیں کہ کسی کو عورتوں کی عزتیں لوٹنے کا حق ہے، جو بھی اس کا مرتکب ہے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے!
اس لئے آج کے دورکے ان لٹیروں کو اس دور کے نیک لوگوں پر قیاس نہ فرمائیں
میں نے کوئی قیاس نہیں کیا، بلکہ تفتیش کے حوالہ سے ایک شرعی حکم بیان کیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر عورت کو برہنہ بھی کیا جا سکتا ہے!
ایک بات یہاں کہی گئی کہ وہ ایک مشرکہ عورت تھی، اور یہ تاثر دیا گیا کہ مشرکہ عورت کو تو برہنہ کیا جاسکتا ہے لیکن مسلمہ عورت کو نہیں!
یہ تخصیص کسی طرح بھی درست نہیں، کہ جس طرح کسی مسلمان مرد کا مسلمہ عورت کے ساتھ زنا ممنوع و حرام ہے، اسی طرح مشرکہ عورت کے ساتھ بھی زنا ممنوع وحرام ہے!
اور یہ بھی کہا گیا کہ گھروں سے اٹھانا چھوٹی بات نہیں؛
بہر حال کسی عورت کو گھر سے لے جا کر قید کرنا اسے برہنہ کرنے سے تو چھوٹی بات ہے، اور اگر کوئی اس کے برعکس کا بھی قائل ہو تو اس سےفرق نہیں پڑتا کیونکہ فقہی کتب میں عورت کو قید کرنے کے حوالے سے شرعی احکامات موجود ہیں، اور وہ بھی جیل میں قید کرنے کے حوالے سے، اور جب کسی کو قید کیا جاتا ہے، تو اس دعوت نامہ بھیج اس طرح نہیں بلایا جاتا کہ وہ دعوت نامہ قبول کرکے آئے تو اسے قید کرلیا جائے، نہ آئے تو اسے پکڑ کر نہ لایا جائے۔ فتدبر!