• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہنا اور علماء کے خلاف بولنا

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مظلوم بھی شرعی احکام سے آزاد نہیں ہوتے!
اس کی دلیل آگے بیان ہوگی، ان شاء اللہ!

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ، فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا، وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ»،
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، انھوں نے علقمہ بن وائل حضرمی سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ سلمی بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ سے سوال کیا اور کہا: اللہ کے نبی! آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے حکمران بنیں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ہمارے حق ہمیں نہ دیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس سے اعراض فرمایا۔ اس نے دوبارہ سوال کیا، آپ نے پھر اعراض فرمایا، پھر جب اس نے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو اس کو اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ نے کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جو ذمہ داری ان کو دی گئی اس کا بار ان پر ہے اور جو ذمہ داری تمھیں دی گئی ہے، اس کا بوجھ تم پر ہے،''
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابٌ فِي طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ وَإِنْ مَنَعُوا الْحُقُوقَ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: امراء (حکمرانوں) کی اطاعت، چاہے وہ حقوق ادا نہ کریں)

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ»

شبابہ نے کہا: ہمیں شعبہ نے سماک سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور کہا: اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ نے اس (پوچھنے والے) کو کھینچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سنو اور اطاعت کرو، جو ذمہ داری ان پر ڈالی گئی اس کا بوجھ ان پر ہے اور جو تم پر ڈالی گئی اس کا بوجھ تم پر ہے۔''
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابٌ فِي طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ وَإِنْ مَنَعُوا الْحُقُوقَ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: امراء (حکمرانوں) کی اطاعت، چاہے وہ حقوق ادا نہ کریں)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ خَلَا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَلَا تَسْتَعْمِلُنِي كَمَا اسْتَعْمَلْتَ فُلَانًا؟ فَقَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ»،
محمد بن جعفر نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کررہے تھے، انھوں نے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک انصاری نے تنہائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور عرض کی: کیا جس طرح آپ نے فلاں شخص کو عامل بنایا ہے مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ''میرے بعد تم خود کو (دوسروں پر) ترجیح (دینے کا معاملہ) دیکھو گے تم اس پر صبر کرتے رہنا، یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر مجھ سے آن ملو۔'' (وہاں تمھیں میرے شفاعت پر اس صبر وتحمل کا بے پناہ اجر ملے گا۔)
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ ظُلْمِ الْوُلَاةِ وَاسْتِئْثَارِهِمْ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: حکام کے ظلم اور ان کے خود کو ترجیح دینے پر صبر کا حکم)

اس حدیث میں حاکم عوام کا حق ادا نہ کرکے عوام پر ظلم کرتا ہے، اورعوام مظلوم قرار پاتی ہے، مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم عوام کو آزاد نہیں چھوڑ دیا، کہ جو آپ چاہو، اپنے پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لے لو، بلکہ انہیں پابند بنایا کہ انہوں نے پھر بھی اس کی اطاعت کرنی ہے، اور ظلم پر صبر کرنا ہے۔


وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ»، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»

ابو سلّام سے روایت ہے، کہا: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم شر میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر عطا فرمائی، ہم اس خیر کی حالت میں ہیں، کیا اس خیر کے پیچھے شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہاں۔'' میں نے عرض کی: کیا اس شر کے پیچھے خیر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں۔'' میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے پیچھے پھر شر ہوگا؟ فرمایا: ''ہاں۔'' میں نے پوچھا: وہ کس طرح ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ''میرے بعد ایسے امام (حکمران اور رہنما) ہوں گے جو زندگی گزارنے کے میرے طریقے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے اور جلد ہی ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کی وضع قطع انسانی ہوگی، دل شیطانوں کے دل ہوں گے۔'' (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں وہ زمانہ پاؤں (تو کیا کروں)؟ آپ نے فرمایا: ''امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا۔''
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: فتنے نمودار ہونے کے وقت اور ہر حالت میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے کا حکم اور اطاعت سے نکل جانے اور (مسلمانوں کی) جمعیت کو چھوڑنے کی حرمت)

اس حدیث میں یہاں تک بیان ہے کہ حاکم پیٹھ بھی لال کر دے، مال بھی چھین لے، تب بھی اس کی اطاعت کرنی ہے، یعنی کہ ایسا مظلوم جس پر جسمانی تشدد بھی کیا جائے، اور اس کا مال بھی چھین لیا جائے ،وہ بھی شریعت کے احکام کے تابع ہے!

نوٹ: @محمد نعیم یونس بھائی جان! محدث کی حدیث کی سائٹ پر کوئی مسئلہ ہے، خاص کر صحیح مسلم میں! کافی ابواب اور احادیث ظاہر نہیں ہو رہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ، فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا، وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ»،
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، انھوں نے علقمہ بن وائل حضرمی سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ سلمی بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ سے سوال کیا اور کہا: اللہ کے نبی! آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے حکمران بنیں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ہمارے حق ہمیں نہ دیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس سے اعراض فرمایا۔ اس نے دوبارہ سوال کیا، آپ نے پھر اعراض فرمایا، پھر جب اس نے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو اس کو اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ نے کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جو ذمہ داری ان کو دی گئی اس کا بار ان پر ہے اور جو ذمہ داری تمھیں دی گئی ہے، اس کا بوجھ تم پر ہے،''
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابٌ فِي طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ وَإِنْ مَنَعُوا الْحُقُوقَ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: امراء (حکمرانوں) کی اطاعت، چاہے وہ حقوق ادا نہ کریں)

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ»

شبابہ نے کہا: ہمیں شعبہ نے سماک سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور کہا: اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ نے اس (پوچھنے والے) کو کھینچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سنو اور اطاعت کرو، جو ذمہ داری ان پر ڈالی گئی اس کا بوجھ ان پر ہے اور جو تم پر ڈالی گئی اس کا بوجھ تم پر ہے۔''
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابٌ فِي طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ وَإِنْ مَنَعُوا الْحُقُوقَ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: امراء (حکمرانوں) کی اطاعت، چاہے وہ حقوق ادا نہ کریں)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ خَلَا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَلَا تَسْتَعْمِلُنِي كَمَا اسْتَعْمَلْتَ فُلَانًا؟ فَقَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ»،
محمد بن جعفر نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کررہے تھے، انھوں نے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک انصاری نے تنہائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور عرض کی: کیا جس طرح آپ نے فلاں شخص کو عامل بنایا ہے مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ''میرے بعد تم خود کو (دوسروں پر) ترجیح (دینے کا معاملہ) دیکھو گے تم اس پر صبر کرتے رہنا، یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر مجھ سے آن ملو۔'' (وہاں تمھیں میرے شفاعت پر اس صبر وتحمل کا بے پناہ اجر ملے گا۔)
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ ظُلْمِ الْوُلَاةِ وَاسْتِئْثَارِهِمْ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: حکام کے ظلم اور ان کے خود کو ترجیح دینے پر صبر کا حکم)

اس حدیث میں حاکم عوام کا حق ادا نہ کرکے عوام پر ظلم کرتا ہے، اورعوام مظلوم قرار پاتی ہے، مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم عوام کو آزاد نہیں چھوڑ دیا، کہ جو آپ چاہو، اپنے پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لے لو، بلکہ انہیں پابند بنایا کہ انہوں نے پھر بھی اس کی اطاعت کرنی ہے، اور ظلم پر صبر کرنا ہے۔


وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ»، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»

ابو سلّام سے روایت ہے، کہا: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم شر میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر عطا فرمائی، ہم اس خیر کی حالت میں ہیں، کیا اس خیر کے پیچھے شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہاں۔'' میں نے عرض کی: کیا اس شر کے پیچھے خیر ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں۔'' میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے پیچھے پھر شر ہوگا؟ فرمایا: ''ہاں۔'' میں نے پوچھا: وہ کس طرح ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ''میرے بعد ایسے امام (حکمران اور رہنما) ہوں گے جو زندگی گزارنے کے میرے طریقے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے اور جلد ہی ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کی وضع قطع انسانی ہوگی، دل شیطانوں کے دل ہوں گے۔'' (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں وہ زمانہ پاؤں (تو کیا کروں)؟ آپ نے فرمایا: ''امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا۔''
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: فتنے نمودار ہونے کے وقت اور ہر حالت میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے کا حکم اور اطاعت سے نکل جانے اور (مسلمانوں کی) جمعیت کو چھوڑنے کی حرمت)

اس حدیث میں یہاں تک بیان ہے کہ حاکم پیٹھ بھی لال کر دے، مال بھی چھین لے، تب بھی اس کی اطاعت کرنی ہے، یعنی کہ ایسا مظلوم جس پر جسمانی تشدد بھی کیا جائے، اور اس کا مال بھی چھین لیا جائے ،وہ بھی شریعت کے احکام کے تابع ہے!

نوٹ: @محمد نعیم یونس بھائی جان! محدث کی حدیث کی سائیٹ پر کوئی مسئلہ ہے، خاص کر صحیح مسلم میں! کافی ابواب اور احادیث ظاہر نہیں ہو رہیں!

(جاری ہے)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @قاری مصطفی راسخ حفظہ اللہ سے توجہ کی درخواست ہے!
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
لنک? کتاب ڈاؤنلوڈ کے لئے۔


Sent from my VCR-I0 using Tapatalk

https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=http://pdf9.com/download-pdf-6056-token-o790mfo1rmdmlbxccq62muv40eywm2.html&ved=2ahUKEwi5mtCltqffAhW_WhUIHdS0B64QFjAPegQIARAB&usg=AOvVaw3hVm-7EEmEtKwxQz8E_k2z

گوگل سے لنک ڈھونڈا. اچھے وقتوں کی کتاب ہے. جب انحراف فکر عام نہیں ہوا تھا.
کتاب کے مطالعہ کے ساتھ علماء حق کی رہنمائی بھی لازم ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سوال 1؛ فساد کسے کہتے ہیں؟
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: >الْغَزْوُ غَزْوَانِ, فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ، وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ, وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا، وَرِيَاءً، وَسُمْعَةً، وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ<.
سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” جہاد دو قسم کا ہے: جس نے اللہ کی رضا چاہی، امام کی اطاعت کی، عمدہ مال خرچ کیا، اپنے شریک کار سے نرمی کا برتاؤ کیا اور فساد سے بچتا رہا، تو بلاشبہ ایسے مجاہد کا سونا اور جاگنا سبھی اجر وثواب کا کام ہے لیکن جس نے فخر، دکھلاوے اور شہرت کی نیت رکھی، امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد کیا تو بلاشبہ ایسا آدمی (ثواب تو کیا) برابری کے ساتھ بھی نہیں پلٹا (گناہ سے بچ آنا بھی مشکل ہے) ۔“
مترجم: فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی
حکم: حسن (الألباني)
(قلت: إسناده حسن). إسناده: حدثنا حيوة بن شريح الحضرمي: أخبرنا بقية: حدثني بَحيِر عن خالد بن مَعْدانَ عن أبي بَحْرِيةَ عن معاذ بن جبل. قلت: وهذا إسناد حسن أو صحيح؛ فإن رجاله كلهم ثقات، والمقال الذي في بقية- وهو ابن الوليد- لا يعلُه؛ لأنه بسبب تدليسه إذا عنعن، وهنا قد صرح بالتحديث كما ترى؛ فزالت شبهة تدليسه. وبَحِيرٌ- بكسر المهملة-: هو ابن سَعْد الحمصي، وهو ثقة ثبت. وأبو بَحْرِيةَ- بفتح الموحدة وسكون المهملة وتشديد المثناة-: اسمه عبد الله بن قيس الكِنْدِي الحمصي. والحديث أخرجه النسائي في سننه الصغرى في الجهاد وفي البيعة، وفي الكبرى أيضاً، وفي السير (2/52/1)، والدارمي (2/208)، وأحمد (5/234) من طرق عن بقية... به. وكذلك أخرجه البيهقي (9/168)

حکم: ]إسناده ضعيف[ (زبير علی زئي)

تخریج: ]إسناده ضعيف[ أخرجه النسائي، البيعة، باب التشديد في عصيان الإمام، ح 4200 من حديث بقية به، وهو يدلس تدليس التسوية، ولم أحد تصريح سماعه المسلسل، ومع ذلك صححه الحاكم علی شرط مسلم: 2/84، ووافقه الذهبي.
حافظ زبیر علی زئی نے سنن ابو داود، اور سنن نسائی میں بھی ایک جگہ روایات کی اسانید کو ضعیف قرار دیا ہے، اور سنن نسائی میں ہی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي مَنْ يَغْزُو وَيَلْتَمِسُ الدُّنْيَا)
سنن ابو داؤد: کتاب: جہاد کے مسائل (باب: دنیا کی طلب میں غزوہ کرنے والا)

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْغَزْوُ غَزْوَانِ: فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَتَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِيَاءً، وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ جنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی نیت کرے، امام کی اطاعت کرے اور قیمتی مال (جہاد میں) صرف کرے اور فساد سے بچے تو اس کا سونا جاگنا سب اس کے لیے ثواب کا ذریعہ ہیں۔ لیکن جو شخص ریاکاری اور شہرت کے لیے لڑائی کرے، امام کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد پھیلائے، وہ تو پہلی حالت میں بھی واپس نہیں لوٹے گا۔‘‘
مترجم: فضیلۃ الشیخ حافظ محمد امین

حکم: حسن (الألباني)
حکم: ]إسناده ضعيف[ تقدم، ح: 3190، وهو في الكبرٰی، ح: 7818(زبير علی زئي)

سنن النسائي: كِتَابُ الْبَيْعَةِ (بَابُ التَّشْدِيدِ فِي عِصْيَانِ الْإِمَامِ)
سنن نسائی: کتاب: بیعت سے متعلق احکام ومسائل (باب: امام (شرعی حکمران) کی نافرمانی پر سخت وعید)

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ بَحِيرٍ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنْ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ كَانَ نَوْمُهُ وَنُبْهُهُ أَجْرًا كُلُّهُ وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ جنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ جو شخص اللہ کی رضا مندی کا طالب ہو‘امام کی اطاعت کرے اور اچھا مال خرچ کرے اور اپنے ساتھی سے نرمی کرے اور فساد سے بچے تو اس کا سونا اور جاگنا سب کا سب ثواب ہوگا۔ لیکن جو شخص دکھلاوے اور شہرت کے لیے جنگ کرے‘امام کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد کرے تو وہ اپنی پہلی حالت کے ساتھ بھی واپس نہیں آئے گا۔ (چہ جائیکہ وہ کوئی ثواب حاصل کرے) ۔‘‘
مترجم: فضیلۃ الشیخ حافظ محمد امین

حکم: حسن (الألباني)
حکم: ]صحيح[ أخرجه أبو داود، الجهاد، باب: فِيمَنْ يَغْزُو وَيَلْتَمِسُ الدُّنْيَا، ح 2515 من حديث بقية به، وهو في الکبرٰی،ح4397، وصححه الحاكم علی شرط مسلم: 2/85، ووافقه الذهبي. بحير هو ابن سعد، وخالد هو ابن معدان، وبقية وروايته عن بحير صحيحة لأنها من كتابه، وللحديث شاهد ضعيف عند أبي القاسم إسماعيل بن قاسم الحلبي. (زبير علی زئي)

سنن النسائي: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابُ فَضْلِ الصَّدَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ)

سنن نسائی: کتاب: جہاد سے متعلق احکام ومسائل (باب: فی سبیل اللہ صدقہ کرنے کی فضیلت)

موطا امام مالک میں یہ روایت موقوفاً موجود ہے، اس کی سند تو منقطع ہے، لیکن موطا کی شرح
الاستذكارمیں امام ابن عبد البر اس روایت کو مرفوعاً روایت کرکے اسے حسن قرار دیتے ہیں، اور فرماتے ہیں:
وَذَكَرَ مَالِكٌ فِي هَذَا الْبَابِ
عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّهُ قَالَ الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَغَزْوٌ تُنْفَقُ فِيهِ الْكَرِيمَةُ وَيُيَاسَرُ فِيهِ الشَّرِيكُ وَيُطَاعُ فِيهِ ذُو الْأَمْرِ وَيُجْتَنَبُ فِيهِ الْفَسَادُ فَذَلِكَ الْغَزْوُ خَيْرٌ كُلُّهُ وَغَزْوٌ لَا تُنْفَقُ فِيهِ الْكَرِيمَةُ وَلَا يُيَاسَرُ فِيهِ الشَّرِيكُ وَلَا يُطَاعُ فِيهِ ذُو الْأَمْرِ وَلَا يُجْتَنَبُ فِيهِ الْفَسَادُ ذَلِكَ الْغَزْوُ لَا يَرْجِعُ صَاحِبُهُ كَفَافًا
قَالَ أَبُو عُمَرَ هَذَا الْحَدِيثُ مَرْفُوعٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ قَالَ حَدَّثَنَا بحير بْنُ سَعِيدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ ((الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ فإن نومه ونبهه أجر كله وأما مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ))
قَالَ أَبُو عُمَرَ قَوْلُهُ ((يُنْفِقُ الْكَرِيمَةَ)) فَإِنَّهُ أَرَادَ مَا يَكْرُمُ عَلَيْكَ مِنْ مَالِكَ مِمَّا يَقِيكَ اللَّهُ فِيهِ شُحَّ نَفْسِكَ
وَلَقَدْ أَحْسَنَ الْقَائِلُ
(وَقَدْ تَخْرُجُ الْحَاجَاتُ بِأُمِّ مَالِكٍ ... كَرَائِمَ مَنْ ذَبَّ بِهِنَّ ضَنِينُ)
وَأَمَّا ((مُيَاسَرَةُ الشَّرِيكِ)) وَهُوَ هُنَا الرَّفِيقُ فَقُلْنَا الْخِلَافُ مَا يُرِيدُ إِنْفَاقَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَوَجَدَهُ إِنِ احْتَاجَ وَتَرَكَ

وَأَمَّا طَاعَةُ الْإِمَامِ فَوَاجِبَةٌ فِي كُلِّ مَا يَأْمُرُ بِهِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ مَعْصِيَةً بَيِّنَةً لَا شَكَّ فِيهَا وَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُبَارِزَ الْعَدُوَّ وَلَا يَخْرُجَ فِي سَرِيَّةٍ عَنْ عَسْكَرِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ
وَأَمَّا ((اجْتِنَابُ الْفَسَادِ)) فَكَلِمَةٌ جَامِعَةٌ لِكُلِّ حَرَامٍ وَبَاطِلٍ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الفساد

اور امام کی اطاعت اس کے ہر حکم میں واجب ہے، الا کہ وہ واضح معصیت ہو، جس کی معصیت ہونے میں کوئی شک نہ ہو، اور نہ دشمن سے مقابلہ کیا جانا چاہیئے، اور نہ ہی اس کے لشکر سے کسی معرکہ کے لئے جانا چاہیئے، مگر اس کی اجازت سے۔
اور
اجْتِنَابُ الْفَسَادِ تمام حرام وباطل کے لئے ایک جامع کلمہ (عبارت، لفظ) ہے، اور اللہ فساد کی کوئی صورت پسند نہیں کرتا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 299 – 301 جلد 14 الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار وعلماء الأقطار فيما تضمنه الموطأ من معاني الرأي والآثار وشرح ذلك كله بالإيجاز والإختصار - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) – دار قتيبة للطباعة والنشر، بيروت – دار الوعي، حلب - القاهرة


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سوال 2؛ کھڑے کیسے ہونا چاہیے؟
آسان فہم نظیر امام احمد بن حنبل کی ہے، کہ وہ خلق قرآن کے فتنہ کے آگے کھڑے ہو گئے، اور استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا، حکمرانوں کا جبر بھی برداشت کیا، اور صبر و استقامت کے ساتھ حق بیان کرتے رہے، لیکن نہ حاکم کی اطاعت کا انکار کیا، نہ ان کی حکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا، نہ عوام کو ان کی اطاعت چھوڑنے کا کہا!
اس کی ایک نظیر فقہی اختلافی امور میں بھی دیکھی جاسکتی ہے، مثلاً جو فریق فاتحہ خلف امام کے وجوب کا قائل ہے، وہ اس کو بیان کرتا ہے، اور جو اسے واجب نہیں مانتا وہ اسے بیان کرتا ہے، لیکن ڈانگا سوٹی پکڑ کر امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قراءت کرنے پر مجبور کیا جائے، یا روکا جائے تو یہ فساد پربا کرنا ہوگا!
کسی ایسے حکمران کے خلاف جوکفر بواح کا مرتکب ہو جہاد بالسیف کرنا کیا اپ کے نذدیک فساد ہے؟
جب کسی شخص کی بالحق تکفیر معین کی جائے تو اس پر مرتد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے!
لیکن وہ واقعی تکفیر بالحق ہو، تکفیر بلاحق نہ ہو جیسا کا خوارج کا عمل ہے!
اور اگر یہ معاملہ حاکم سے متعلق ہو، تو اس پر مرتد کے احکام کے اطلاق کے لئے، لازم ہے کہ اس کو معزول کیا جائے، اور معزول کرنے کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں معرکہ شروع کردینا جائز نہیں، کہ ایسے مرتد حاکم کو معزول تو نہ کر پائیں، الٹا مسلمانوں کو ایسی جنگ میں جھونک دیا جائے، جس میں مسلمانوں کا نقصان ہو!
ہاں! اگر استطاعت ہو، مرتد حاکم کو بالسیف معزول کر کرے اس پر مرتد کے احکام کا اطلاق کیا جانا شرعی عمل ہوگا، نہ کہ فساد!

کسی کافر ملک کے خلاف جنگ و جہاد میں بھی استطاعت کا عمل دخل ہے، کہ مسلمانوں کو ایسی جنگ میں جھونک دینا کہ جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے، مسلمانوں کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے، جس میں مسلمانوں کاہی نقصان ہے!
یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ جہاد دشمن پر غالب ہونے کے لئے کیا جاتا ہے، دشمن کے ہاتھوں شہید ہونے کے لئے نہیں!
شہید ہونے کے لئے جہاد نہیں کیا جاتا، بلکہ جہاد میں شہید بھی ہوا جاتا ہے!
ایک فقہی نظیر کہ جیسے حلالہ کیا نہیں جاتا، بلکہ حلالہ ہو جاتا ہے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
. آپ نے کہا کہ درباری علماء کی اصطلاح گھڑی گئی ہے.
میرا سوال ہے کہ کیوں اور کیسے گھڑی گئی ہے؟ جبکہ درباری علماء کے بارے میں کبھی کسی نے نفی نہیں کی. بلکہ عربی میں تو علماء سلاطین، اس سے بھی بڑھ کر علماء شیطینھم، اور انگلش زبان میں coconut sheikhs کہا جاتا ہے. علماء سوء کی ہی ایک قبیل ہے. جو عموماً سرفہرست ہے کیونکہ یہ معروف ہوتے ہیں.
اس کاجواب تو میرے مدعا میں ہی موجود ہے کہ یہ کیونکر گھڑی گئی!
کیسے گھڑی گئی، تو قرآن میں ایک آیت ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴿سورة الأنعام 121﴾
اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہوجاؤ گے۔ (ترجمہ: محمد جونا گڑھی)
اہل بدعت نے ایک اصطلاح اور گھڑی ہے، ''وھابی ووھابیہ'' کی، یہ اہل بدعت کے ہاں مستعمل بھی ہے، معروف و مشہور بھی ہے!
فساد کِسے کہتے ہیں اور اس سے احتراز کیسے ممکن ہے جبکہ فساد برپا ہونے کے تمام امکانات موجود بھی ہوں ؟
فساد کیا ہوتا ہے؟ یہ اوپر بیان کیا ہے، اور اس سے احتراز کیسے کیا جائے، یہ بھی اوپر بیان ہوا ہے!
اور جو فساد کے بغیر نہ کر پائے تو اسے صبر کرنا چاہیئے!
3. اپنے ہی وردی پوش باڑ کھیتوں کو کھا رہی. مفسدین کے خاتمہ کرنے میں اہل جھاد کو خوب خوب رگیدا گیا ہے. محافظین کے اس فساد کو فساد کیوں نہیں کہا جا رھا؟ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انکے جرائم پر تنقید کیوں نہیں کی جاتی؟
اول تو آپ اردو میں ''جہاد'' کو ''جھاد'' لکھتی ہیں، اس کی تصحیح فرمالیں!
مسئلہ یہاں یہ ہے کہ جنہیں ''اہل جہاد'' کہا جا رہا ہے، کیا وہ واقعی اہل جہاد ہیں، یا وہ ہی مفسدین ہیں!
جن نام نہاد ''اہل جہاد'' کو پاکستان میں ''جہاد'' کا علم بلند کرتے دیکھا ہے، وہ تو مفسدین فی الارض ثابت ہوئے ہیں، اور اس طرح ''داعش'' وغیرہ بھی!

https://www.google.com/url?sa=t&sou...FjAPegQIARAB&usg=AOvVaw3hVm-7EEmEtKwxQz8E_k2z

گوگل سے لنک ڈھونڈا. اچھے وقتوں کی کتاب ہے. جب انحراف فکر عام نہیں ہوا تھا.
کتاب کے مطالعہ کے ساتھ علماء حق کی رہنمائی بھی لازم ہے.
یہ ''موحدین'' کی ویب سائٹ اور ان کی تحاریر اور کتب تو خارجی و تکفیری سوچ کی حامل و ترویج کرنے کے والی ہیں!
غیر پختہ ذہن اور کم علم و کم فہم لوگوں کو تو ان کی کتب و تحاریر سے احتراز ہی کرنا چاہیئے، کہ وہ بھی خوارج و تکفیری فکر کے جراثیم کے فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے!

جواب مکمل ہوا! الحمدللہ!
 
Last edited:
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

تفتیش میں تو عورت کو بھی برہنہ کیا جاسکتا ہے، پکڑنا اور گرفتار کرنا تو بہت چھوٹی بات ہے، لہٰذا یہ فساد نہ ہوگا بلکہ فساد کا سدِباب قرار پائے گا!
یہ آپکی اپنی رائے ہے؟
کچھ فتاویٰ بھی دیجیے جس میں یہ بات واضح ہو کہ مسلمان عورت کو غنڈوں کی طرح اٹھانا جائز اور فساد کا سدباب ہے.
اسکے علاوہ، اسلامی تاریخ کے کم از کم دو سے تین واقعات بھی درج کیجئے جس سے دلیل پکڑی جائے کہ مسلمان عورت کو تفتیش کے لئے مسلمان محافطین ہی اٹھا سکتے ہیں.

ایک بات یاد رکھیں کہ گھر سے اٹھانا چھوٹی بات نہیں ہے.
وکفی باللہ حسیبا.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
اول تو آپ اردو میں ''جہاد'' کو ''جھاد'' لکھتی ہیں، اس کی تصحیح فرمالیں!
مسئلہ یہاں یہ ہے کہ جنہیں ''اہل جہاد'' کہا جا رہا ہے، کیا وہ واقعی اہل جہاد ہیں، یا وہ ہی مفسدین ہیں!
جن نام نہاد ''اہل جہاد'' کو پاکستان میں ''جہاد'' کا علم بلند کرتے دیکھا ہے، وہ تو مفسدین فی الارض ثابت ہوئے ہیں، اور اس طرح ''داعش'' وغیرہ بھی!
اہل جہاد یہی تو ہیں.
اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ کی بہترین تصویری جھلک،
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
اول تو آپ اردو میں ''جہاد'' کو ''جھاد'' لکھتی ہیں، اس کی تصحیح فرمالیں!
شکریہ بابائے اردو،
میرا پروفائل نیم تبدیل کرنے کی درخواست، "سوکھنے پڑی ہوئی ہے" اور غالباً فورم پر میں ہی ایک خاتون ایکٹو ہوں.
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،



یہ آپکی اپنی رائے ہے؟
کچھ فتاویٰ بھی دیجیے جس میں یہ بات واضح ہو کہ مسلمان عورت کو غنڈوں کی طرح اٹھانا جائز اور فساد کا سدباب ہے.
اسکے علاوہ، اسلامی تاریخ کے کم از کم دو سے تین واقعات بھی درج کیجئے جس سے دلیل پکڑی جائے کہ مسلمان عورت کو تفتیش کے لئے مسلمان محافطین ہی اٹھا سکتے ہیں.

ایک بات یاد رکھیں کہ گھر سے اٹھانا چھوٹی بات نہیں ہے.
وکفی باللہ حسیبا.

صحیح البخاری: 6939

ابو عبدالرحمٰن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابو عبدالرحمٰن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہو گئے ہیں۔ ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پر حبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے، تیرا باپ نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ مجھے، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت (سارہ نامی) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھا گیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار جا رہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کو آنے کی خبر دی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھا دیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔ اس کے بعد یہ لوگ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہو جائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو (ان کے ہاتھ سے) بچا لوں۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں (خوشی سے) آنسو بھر آئے اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے۔

ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ«خاخ» زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے «حاج» ہی بیان کیا ہے اور لفظ «حاج» بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہشیم نے «خاخ»بیان کیا ہے۔
 
Top