• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم یا مسلمین ‘‘ کے علاوہ کوئی اور نام رکھنا

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مسلم کے حدیث پر اعتراضات
اعتراض نمبر-1
آپ نے اوپر جو حدیث لکھی ھے کیا یہ اللہ کا کلام ھے؟
یہاں بات حجیت کے حوالے سے ہو رہی ہے کیا صرف اللہ کا کلام ہی حجت ہوتا ہے مثلا آپ اپنے ماں باپ کی بات مانتے ہیں کہ نہیں اگر آپ کہیں کہ میں ماں باپ کی بات نہیں مانتا تو پھر میں کچھ نہیں کر سکتا اور اگر آپ کہیں کہ میں ماں باپ کی بات مانتا ہوں تو میرا سوال ہے کہ کیا وہ اللہ کا کلام ہوتا ہے پس کسی بات کا ہمارے لئے حجت ہونے کے لئے لازم نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کا کلام ہو بلکہ یہ لازم ہوتا ہے کہ اللہ کے کلام سے اسکا حجت ہونا ثابت ہو جائے پھر وہ جس کا مرضی کلام ہو ہم مانیں گے
ویسے میں یہ بھی ثابت کر سکتا ہوں کہ حدیث بھی اکثر وحی غیر متلو ہوتی ہے مگر گھی دوسری طرح نکلے تو کیا مضائقہ ہے
اعتراض نمبر-2
کیا رسول سے منسوب کی گئی اس حدیث کے آپ گواہ ہیں؟ یا راویوں کی گواہی پر آپ ایمان لا رہے ہیں؟
کیا آپ رسول سے منسوب کیے گئے قرآن کے گواہ ہیں یا قرآن کے راویوں کی گواہی پر ایمان لے آئے ہیں

اعتراض نمبر-3
کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ھے کہ راویوں کی باتوں کو آپ رسول کا قول سمجھیں؟
کیا آپ کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ جن راویوں نے قرآن آپ تک پہنچایا ہے ان راویوں کو لازمی سچا مانیں کہ انھوں نے صحیح قرآن پہنچایا ہے دلیل سے جواب دینا ہے جذبات سے نہیں

اعتراض نمبر-4
کیا، اللہ کی یہ سنّت اور تمام رسولوں اور انبیاء کے متعلق بھی رہی ھے؟
جی جب تک تورات نازل نہ ہوئی اس وقت تک بنی اسرائیل کس کے حکم پر عمل کرتی رہی

اعتراض نمبر-5
کیا اوپر لکھی گئی حدیث، قرآن کی طرح لاریب کلام ھے؟ کیا آپ اس کی شہادت دیتے ہیں؟
اس کا جواب اوپر ایک نمبر اعتراض میں دیا جا چکا ہے کہ یہاں بات حجیت کی ہو رہی ہے لاریب ہونے یا نہ ہونے کی نہیں

اعتراض نمبر-6
فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ﴿٧٩۔2﴾
تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے (آئی) ہے، تاکہ اس کے عوض تھوڑی سے قیمت (یعنی دنیوی منفعت) حاصل کریں۔ ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ (بےاصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر) ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ ایسے کام کرتے ہیں۔
جہ اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی باتوں پر تو ہم بھی اعتراض کرتے ہیں جو مولوی قرآن و حدیث کو چھوڑ کر اپنی بات یا رائے بیان کریں ہم انکا انکار ہی کرتے ہیں مگر قرآن کی طرح حدیث کو ہمارے ہاتھ سے لکھا ہوا ثابت کر دیں میں ساری بحث چھوڑ دوں گا اسی کو ثابت کرنے کے لئے تو آپ سے دلائل مانگے ہیں کہ کیا حدیث ہم نے خود لکھی ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے بیان فرمائی ہے

اعتراض نمبر-7
آپ کیا چیز ہیں، تمام جن اور انس مل کر بھی قرآن کی مثل نہیں لاسکتے۔
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨۔17﴾
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کو مددگار ہوں۔یہ تو اللہ کا چیلنج ھے۔ جو آپ جہالت میں قبول کرنے پر تلے ھوئے ھیں۔ عقل سے کام لیں، اللہ سے توبہ کریں۔ اس کے شریک بنانے کی جراءت نہ کریں۔ اللہ شرک معاف نہیں کرے گا۔
آپ جب اپنے والدین کی کبھی کوئی بات مانتے ہیں تو کیا انکو اللہ کا شریک کر رہے ہوتے ہیں اور اگر کبھی نہیں مانتے تو مزید بات کا فائدہ نہیں

اعتراض نمبر-8
کسی محدّث کی آسمانوں اور زمین میں کوئی شرکت نہیں ھے۔
جی نہیں محدث شرکت کے بغیر بھی قرآن جب مبیان کرتا ہے تو آپ لے لیتے ہیں مگر وہی محد جب حدیث بیان کرتا ہے تو آپ نہیں لیتے اسکی وجہ میں بتاتا ہوں
حدیث کو رد کرنے کی وجہ

جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو ایک مجمل قانون ہوتا ہے اور دوسرا تفصیل سے اسکی وضاحت کرتا ہے
اب جب کوئی چاہتا ہے کہ مجم قانون سے میں اپنی مرضی اور خواہش کی بات نکال سکتا ہوں کیونکہ مفہوم ہر طرح کا نکالا جا سکتا ہے تو وہ تفصیلی قانون کو نہیں فالو کرنا چاہے گا کیونکہ وہ اسکی خواہشات کو رد کر کے مجمل قانون کی تفسیر کر دے گا اسی طرح قرآن میں لکھا ہے کہ ربا حرام ہے اب جب ربا کی تفصیل میں حدیث سے ڈھونڈو گا تو مفہوم متعین ہو جائے گا اور میں سود نہیں کھا سکوں گا مگر جب حدیث کے تفصیلی قانون کو چھوڑ دوں گا تو سود کا معنی لغت میں اپنی مرضی سے زیادتی والا لے کر اسکو ڈاکے پ محمول کرتے ہوئے بینک کو جائز کر دوں گا
اسی طرح صلوۃ کا معنی لغت میں چوتڑے ہلانا بھی ہے اور قرآن میں ہے کہ قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا تو میں صبح بھی ریس کورس سیر کو جا کر چوتڑے ہلاتا ہوں اور شام کو بھی سیر کو جا کر ایسا کرتا ہوں تو
نہ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
عبدہ نے کہا۔
جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو ایک مجمل قانون ہوتا ہے اور دوسرا تفصیل سے اسکی وضاحت کرتا ہے
اب جب کوئی چاہتا ہے کہ مجم قانون سے میں اپنی مرضی اور خواہش کی بات نکال سکتا ہوں کیونکہ مفہوم ہر طرح کا نکالا جا سکتا ہے تو وہ تفصیلی قانون کو نہیں فالو کرنا چاہے گا کیونکہ وہ اسکی خواہشات کو رد کر کے مجمل قانون کی تفسیر کر دے گا اسی طرح قرآن میں لکھا ہے کہ ربا حرام ہے اب جب ربا کی تفصیل میں حدیث سے ڈھونڈو گا تو مفہوم متعین ہو جائے گا اور میں سود نہیں کھا سکوں گا مگر جب حدیث کے تفصیلی قانون کو چھوڑ دوں گا تو سود کا معنی لغت میں اپنی مرضی سے زیادتی والا لے کر اسکو ڈاکے پ محمول کرتے ہوئے بینک کو جائز کر دوں گا
اسی طرح صلوۃ کا معنی لغت میں چوتڑے ہلانا بھی ہے اور قرآن میں ہے کہ قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا تو میں صبح بھی ریس کورس سیر کو جا کر چوتڑے ہلاتا ہوں اور شام کو بھی سیر کو جا کر ایسا کرتا ہوں تو
نہ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا
وجا دلھم بالتی ھی احسن
اسلام علیکم۔

1۔ قرآن مجید اللہ کی کتاب ھے۔ اللہ نے نازل کی ھے۔

مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ ﴿٢۔20﴾



(اے محمدﷺ) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔

تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣۔69﴾

اس نے اتارا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے،

لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿٤٢۔41﴾

باطل کو اس کی طرف راہ نہیں نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے اتارا ہوا ہے حکیم حمید کا،

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩۔75﴾

تو اپنی زبان کو اس میں تعجیل کی غرض سے حرکت نہ دے۔ یقینا اس (قرآن) کا جمع کرنا اور پڑھانا ھمارا زمّہ ھے۔ پس جب ھم اسے پڑھیں تو، تو پڑھنے کی پیروی کر۔ پھر بیشک اسے بیان کردینا بھی ھمارے زمّہ ھے۔


الرَّحْمَـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿٢﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ ﴿٣﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿٤۔55﴾

الرّحمٰن نے۔ قرآن تعلیم فرمایا۔ اس نے انسان کو خلق کیا۔ سکھایا بیان کرنا۔

عبدہ بھائی اہل حدیث کی عینک اتار کر دیکھیں۔
قرآن مجید کے نازل ھونے، اس میں باطل کے داخل نہ ھونے، اسکی حفاظت ،اس کا جمع کرنا، اس کا پڑھانا اور اس کا بیان کرنا، یہ سب کچھ اللہ نے اپنے زمّہ لیا ھے اور ان سب پر اللہ کی اتھارٹی ھے۔
جبکہ حدیث کا معاملہ بالکل مختلف ھے۔ یہاں راویوں کا ایک سلسلہ ھے جو کئی نسلوں تک چلا گیا ھے۔ یہ سب انسان تھے۔ اس کام پر اللہ کی کوئی سند نہیں ھے۔ اور نہ ہی نبی کریم کی تصدیق ھے۔ لہٰزا احادیث کا معاملہ ریپورٹنگ جیسا ھے۔ جیسے اخبارات میں واقعات کی ریپورٹنگ کی جاتی ھے۔
لہٰزا احادیث پر اندھا بہرا ھو کر نہیں گرنا چاہیئے، یہ انسانی کام ھے۔ لہٰزا صرف قرآن مجید ہی فرقان ھے۔ اس کے مطابق جو ملے وہ صحیح اور جو اسکے خلاف ملے وہ غلط۔

نتیجہ۔
قرآن سے حدیث کو سمجھیں۔ آپ اس کے برعکس احادیث سے قرآن سمجھنا چاھتے ہیں۔

ما لکم کیف تحکمون۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسلام علیکم۔
عبدہ بھائی اہل حدیث کی عینک اتار کر دیکھیں۔
وًٰعلیکم السلام
میرے بھائی آپ قارئین سے انصاف کروالیں کہ عینک کون استرعمال کر رہا ہے
میں اگر اہل حدیث کی عینک استعمال کرتا تو جواب میں اسی طرح کے دلائل نہ دیتا جس طرح کے آپ نے قرآن کے لئے دیئے ہیں معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ عینک تو آپ اہل قرآن کی استعمال کر رہے ہیں کہ کیوں کہ جب آپ قرآن کے داخلی دلائل دیتے ہیں تو اہل قرآن کی طرح مجھے یہ حق نہیں فیتے کہ میں بھی حدیث میں داخلی دلائل دوں اسی طرح جو اعتراض آپ حدیث پر کرتے ہیں تو مجھے یہ حق نہیں دیتے کہ میں یہ بتلا سکوں کہ یہ جاہلانہ اعتراض تو لوگ قرآن پر بھی کر سکتے ہیں
قارئین سے التماس ہے کہ دیکھیں کہ دلائل کو ن دے رہا ہے اور عینک لگا کر اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم کا مرتکب کون ہو رہا ہے



قرآن مجید کے نازل ھونے، اس میں باطل کے داخل نہ ھونے، اسکی حفاظت ،اس کا جمع کرنا، اس کا پڑھانا اور اس کا بیان کرنا، یہ سب کچھ اللہ نے اپنے زمّہ لیا ھے اور ان سب پر اللہ کی اتھارٹی ھے۔
اوپر والے آپ کے سارے دلائل داخلی دلائل ہیں کہ قرآن خود یہ کہ رہا ہے کہ مجھے اللہ نے نازل کیا ہے اور میں باطل نہیں وغیرہ وغیرہ- اب کسی کتاب کی حجیت میں اسکی اپنی گواہی اگر معتبر ہے تو پھر حدیث کی حجیت میں آپ کے کون سے مفاد کو ٹھیس پہنچتی ہے
دوسرا یہ بتائیں کہ قرآن نے جو اوپر اپنے بارے میں سب کچھ کہا ہے آپ کو اسکو علم کیسے ہوا کیا اللہ نے آپ کو بلمشافہ ملاقات کر کے ایسا بتایا ہے یا پھر کسی راوی کے ذریعے یہ قرآن آپ تک پینچا ہے
اگر لوگوں یعنی راویوں کے ذریعے پہنچا ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ

حدیث میں آپ راویوں پر ایمان نہیں لاتے مگر قرآن کی خاطر انہیں راویوں پر ایمان لے آتے ہیں کہیں یہ ایل قرآن کی عینک تو نہیں



جبکہ حدیث کا معاملہ بالکل مختلف ھے۔ یہاں راویوں کا ایک سلسلہ ھے جو کئی نسلوں تک چلا گیا ھے۔ یہ سب انسان تھے۔لہٰزا احادیث کا معاملہ ریپورٹنگ جیسا ھے۔ جیسے اخبارات میں واقعات کی ریپورٹنگ کی جاتی ھے۔
پھر وہی اہل قرآن کی عینک یعنی حدیث بھی انہیں راویوں سے ہم تک پہنچی اور قرآن بھی انہی راویوں سے ہم تک پہنچا مگر حدیث کے سلسلے میں راویوں پر ایمان اور قرآن کے سلسلے میں وہ راوی صرف رپورٹر بن گئے قارئین میں سے یہ عینک اتروانے میں میری مدد کون کرے گا

اس کام پر اللہ کی کوئی سند نہیں ھے۔ اور نہ ہی نبی کریم کی تصدیق ھے۔
لہٰزا احادیث پر اندھا بہرا ھو کر نہیں گرنا چاہیئے، یہ انسانی کام ھے۔ لہٰزا صرف قرآن مجید ہی فرقان ھے۔ اس کے مطابق جو ملے وہ صحیح اور جو اسکے خلاف ملے وہ غلط۔
آپ قرآن پر اللہ کی سند اور نبی کی تصدیق دکھا دیں تو آپ کی بات ٹھیک ہو جائے گی مگر یاد رکھیں کسی راوی (انسان) کی بات پر اعتبار کی اجازت نہیں کیونکہ ہمیں بھی آپ حدیث میں راویوں (انسانوں ) کی بات پر اعتبار کی اجازت نہیں دیتے

نتیجہ۔
قرآن سے حدیث کو سمجھیں۔ آپ اس کے برعکس احادیث سے قرآن سمجھنا چاھتے ہیں۔
ما لکم کیف تحکمون۔
ہمارا مقصد شریعت پر چلنا ہے پس ہمیں سب سے پہلے ایک سکیل پر اتفاق کرنا ہے پھر باقی تمام باتوں کو اس سکیل کے مطابق پرکھنا ہے جو اسکے مطابق ہو وہ ٹھیک جو نہ ہو وہ رد ہے پس یہ میرے اور آپ کے درمیان محل نزاع نہیں
مسئلہ یہ ہے کہ آپ سکیل صرف قرآن کو کہتے ہیں اور میں قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی کہتا ہوں
پس آپ ان دلائل سے قرآن کی حجیت ثابت کریں جس قسم کے دلائل پھر حدیث کے لئے نہ دئے جا سکتے ہوں لیکن یہ آپ کے لئے ممکن نہیں پس آپ داخلی دلائل قرآن کے لئے دیتے ہیں تو میں بھی اسی ھرح کی دلیل حدیث کے لئے لے آتا ہوں پس آپ کا کام نہیں چلتا پس پھر آپ اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم کا ارتکاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کے لئے راویوں کی بات کو مان لو مگر حدیث کے لئے نہیں اور قرآن کے لئے داخلی دلائل ٹھیک ہیں مگر حدیث کے لئے نہیں
اب آپ بتائیں کہ مندرجہ ذیل آیت جو آپ نے لکھی ہے وہ میرے لئے لکھی ہے یا اپنے لئے
مالکم کیف تحکمون
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پھر وہی اہل قرآن کی عینک یعنی حدیث بھی انہیں راویوں سے ہم تک پہنچی اور قرآن بھی انہی راویوں سے ہم تک پہنچا مگر حدیث کے سلسلے میں راویوں پر ایمان اور قرآن کے سلسلے میں وہ راوی صرف رپورٹر بن گئے قارئین میں سے یہ عینک اتروانے میں میری مدد کون کرے گا
غالباً آپ واقعی دخل در نامعقولات تو نہیں چاہتے ہوں گے۔ لیکن اس مقام پر ایک سوال ہے اگر مسلم صاحب اس کا جواب دے سکیں تو یہ راویوں پر ایمان لانے والا مسئلہ بہت آسانی سے سلجھ سکتا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ منکرین حدیث کو چودہ سو سال قبل کی کوئی چیز ثابت ہی نہیں کرنی پڑتی کبھی۔ حدیث یہ مانتے نہیں۔ قرآن سب کے نزدیک محفوظ کتاب ہے، لہٰذا اسے for granted لے لیا جاتاہے۔
مسلم صاحب یہ سوال قرآن سے متعلق ہے۔ آپ قرآن کو محفوظ بھی مانتے ہیں اور اختلاف قراءت کے بھی انکاری ہیں (میرے علم کی حد تک)۔
لہٰذا آپ مختصر ترین الفاظ میں یہ بتائیے کہ سورہ روم آیت 54 میں جو تین دفعہ لفظ ضعف آیا ہے۔ اس میں حرف ضواد پر پیش ہے یا زبر؟ کیونکہ آج جو دنیا بھر میں قرآن کے نسخے پائے جاتے ہیں، ان میں بعض میں یہاں پیش ہے اور بعض میں زبر۔ آپ یہ ثابت کیجئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر تلاوت کیسے کی تھی۔ اور یاد رہے کہ قرآن کے ثبوت کے لئے مسجد حرام کے ائمہ پر ایمان لانے کا مت کہئے گا۔
اس سوال کا جواب آپ پر بہت پہلے سے ادھار ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مسلم صاحب یہ سوال قرآن سے متعلق ہے۔ آپ قرآن کو محفوظ بھی مانتے ہیں اور اختلاف قراءت کے بھی انکاری ہیں (میرے علم کی حد تک)۔
لہٰذا آپ مختصر ترین الفاظ میں یہ بتائیے کہ سورہ روم آیت 54 میں جو تین دفعہ لفظ ضعف آیا ہے۔ اس میں حرف ضواد پر پیش ہے یا زبر؟ کیونکہ آج جو دنیا بھر میں قرآن کے نسخے پائے جاتے ہیں، ان میں بعض میں یہاں پیش ہے اور بعض میں زبر۔ آپ یہ ثابت کیجئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر تلاوت کیسے کی تھی۔
محترم شاکر بھائی آپ ایک متعین زبر زیر ثابت کرنے کی بات کر رہے ہیں میرا تو یہ چیلنج ہے کہ قرآن کی کوئی بھی زبر زیر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کر سکتے بلکہ اسکے لئے بھی ان کو راویوں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کافی عرصہ تک تو قرآن پر زبر زیر نہیں لگائے گئے تھے تو قرآن بھی راویوں کے سینہ بہ سینہ چلا تھا
پس اگر کوئی عیسائی کہے کہ راویوں نے زبر زیر میں ملاوٹ کی ہے اور سورۃ توبہ کی آیت ان اللہ بریء من المشرکین ورسولہ میں رسول کے اوپر جان بوجھ کر پیش کر دیا ہے اصل میں زیر تھی جس کا معنی تھا کہ اللہ مشرکین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سے بیزار ہے جیسا کہ ایک اعرابی نے ایسا پڑھ بھی دیا تھا جس کی وجہ سے نحو کی ضرورت محسوس کی گئی تھی تو یہ لوگ اسکا کیا جواب دیں گے

اگر یہ لوگ قرآن کی زبر زیر کے لئے تواتر کا سہارا لیں کہ قرآن تواتر سے ثابت ہے تو تواتر کا مطلب بھی راویوں کی کثرت ہوتا ہے اور دوسرا پھ حدیث کا حجت ہونا بھی اسی تواتر سے ثابت ہے جس تواتر سے قرآن کی زبر زیر ثابت ہے تو اس تواتر کو بھی ماننا پڑے گا
غرض دلیل کوئی نہیں جذبات سے لوگوں کو خراب کیا جاتا ہے
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
حدیث میں آپ راویوں پر ایمان نہیں لاتے مگر قرآن کی خاطر انہیں راویوں پر ایمان لے آتے ہیں کہیں یہ ایل قرآن کی عینک تو نہیں

السلام علیکم۔

اب تو ایسا لگ رہا ھے کہ آپ نے نظر کا چشمہ بھی اتار دیا ھے(ابتسامہ)

پچھلی پوسٹ میں آیات کے ساتھ وضاحت ھو چکی ھے کہ،کسی انسان کی اتھارٹی نہیں ھے کہ وہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کرے، یہ اللہ کے ذمّہ ھے۔

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩۔75﴾
تو اپنی زبان کو اس میں تعجیل کی غرض سے حرکت نہ دے۔ یقینا اس (قرآن) کا جمع کرنا اور پڑھانا ھمارا زمّہ ھے۔ پس جب ھم اسے پڑھیں تو، تو پڑھنے کی پیروی کر۔ پھر بیشک اسے بیان کردینا بھی ھمارے زمّہ ھے۔







پھر وہی اہل قرآن کی عینک یعنی حدیث بھی انہیں راویوں سے ہم تک پہنچی اور قرآن بھی انہی راویوں سے ہم تک پہنچا مگر حدیث کے سلسلے میں راویوں پر ایمان اور قرآن کے سلسلے میں وہ راوی صرف رپورٹر بن گئے قارئین میں سے یہ عینک اتروانے میں میری مدد کون کرے گا
راویوں کی اللہ نے کب ذمّہ داری لی ھے؟ اللہ راویوں کا محتاج نہیں ھے۔ وہ جو چاہتا ھے کرتا ھے۔ اس کا کل اختیار ھے۔آپ جو قرآن تلاوت کررھے ہیں یہ صرف اللہ کی رحمت ھے کہ اس نے آپ کو آپ کو یہ نعمت عطا فرمائی، اس میں کوئی راوی شریک نہیں ھے۔ اللہ واحد کا شکر ادا کریں اور راویوں کا پیچھا چھوڑ دیں۔


آپ قرآن پر اللہ کی سند اور نبی کی تصدیق دکھا دیں تو آپ کی بات ٹھیک ہو جائے گی مگر یاد رکھیں کسی راوی (انسان) کی بات پر اعتبار کی اجازت نہیں کیونکہ ہمیں بھی آپ حدیث میں راویوں (انسانوں ) کی بات پر اعتبار کی اجازت نہیں دیتے

افسوس ھے آپ پر جو آپ نے یہ لکھا۔

اللہ کی سند دیکھیں۔

وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٣٧۔10)

اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ کے بغیر ، گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو تصدیق کرنے واﻻ ہے جو اس کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں ھےاور الکتاب کی تفصیل بیان کرنے واﻻ ہے اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے (37)

رسول کی تصدیق۔


قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿١٩۔6﴾


آپ کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواه ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وه تو ایک ہی معبود ہے اور بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔


نتیجہ۔

جب بھی احادیث یا محدّثین یا راویوں کی بات کی جاتی ھے اور یہ بتایا جاتا ھے کہ یہ سارا انسانی کام ھے جو لاریب نہیں ھے اور نہ ہی اللہ کا کلام ھے تو اس کے ردّعمل میں فورا" آپ لوگ قرآن کو نشانہ بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔ بلکہ قرآن کے متعلق کفّار اور مشرکین والے باطل اعتراضات سامنے لے آتے ہیں۔
بھائی ھمارا اور آپ کا قرآن پر کوئی اختلاف نہیں ھے۔ الحمدللہ۔
لہٰزا آپ قرآن پر اعتراضات سے پرہیز کریں۔ اب قرآن پر کسی اعتراض کا میں کوئی جواب نہیں دوں گا، کیونکہ ھمارا قرآن پر کوئی اختلاف نہیں ھے، ہاں اگر آپ قرآن سے کفر کریں گے تو آیات سے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

اب قرآن کو تختہ مشق نہ بنائیں اور محدّثین اور راویوں کے لیئے اور دلائل دیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب تو ایسا لگ رہا ھے کہ آپ نے نظر کا چشمہ بھی اتار دیا ھے(ابتسامہ)
میرے چشمہ کو چھوڑیں آپ کا تو اب اہل قرآن کا چشمہ پکا ہو گیا اسکو نیچے ذرا آپ دیکھ لیں کہ آپ دعوی تو کر رہے ہیں مگر دلیل کہیں نظر نہیں آ رہی
پچھلی پوسٹ میں آیات کے ساتھ وضاحت ھو چکی ھے کہ،کسی انسان کی اتھارٹی نہیں ھے کہ وہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کرے، یہ اللہ کے ذمّہ ھے۔
بہت خوب بھئی مسئلہ یہ نہیں کہ کون سی چیز اللہ کے ذمے ہے یہ تو آپ کا دعوی ہے مسئلہ تو دلیل کا ہے کہ اللہ کے ذمے کس دلیل کے تحت ہے آپ کو کس نے بتایا کہ اللہ کے ذمے ہے کیا آپ کو اللہ نے بتایا ہے یا کسی اور نے بتایا ہے یا خواب آیا ہے

نتیجہ۔
جب بھی احادیث یا محدّثین یا راویوں کی بات کی جاتی ھے اور یہ بتایا جاتا ھے کہ یہ سارا انسانی کام ھے جو لاریب نہیں ھے اور نہ ہی اللہ کا کلام ھے تو اس کے ردّعمل میں فورا" آپ لوگ قرآن کو نشانہ بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔ بلکہ قرآن کے متعلق کفّار اور مشرکین والے باطل اعتراضات سامنے لے آتے ہیں۔
آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ ہم مشرکین کی طرح قرآن پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ آپ جو جاہلانہ اعتراض کرتے ہیں وہ پھر مشرکین قرآن پر بھی کرنے لگ جائیں گے کیونکہ حدیث پر اعتراض کی جو وجہ آپ ذکر کرتے ہیں وہ جاہلانہ وجہ ہے اور وہی مشرکین کو پتا چل جائے تو وہ قرآن پر بھی لاگو کر سکتے ہیں پس ہم مشرکین کی طرح قرآن پر اعتراض نہیں کر رہے بلکہ آپ جو شعوری یا لاشعوری طور پر قرآن پر اعتراضات کی راہ کھول رہے ہیں اسکو بند کر رہے ہیں کیونکہ آپ کے اعتراضات پر کوئی دلیل ہی نہیں ہے

بھائی ھمارا اور آپ کا قرآن پر کوئی اختلاف نہیں ھے۔ الحمدللہ۔
لہٰزا آپ قرآن پر اعتراضات سے پرہیز کریں۔
بھولے بادشاہ (شعوری یا لاشعوری طور پر) یذرا یہ بتائیں کہ قرآن میں اتفاق سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ذرا اس موضوع کو بھی کھول لیتے ہیں قرآن کو ماننے میں مندرجہ ذیل دو چیزیں آتی ہیں
1-قرآن کے الفاظ کو ماننا
2-اس ماننے کی دلیل یا وجہ

پس پہلے نمبر پر اگر اتفاق سے آپ دھوکا دینا چاہ رہے ہیں تو یہ تو بتائیں کہ آپ قرآن کو کیوں مانتے ہیں اور ہم قرآن کو کیوں مانتے ہیں اسی سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا
میں اپنا بتا دیتا ہوں کہ ہم قرآن کو کیوں مانتے ہیں آپ اپنا بتا دیں کہ کیا آپ بھی اسی وجہ سے قرآن کے الفاظ کو مانتے ہیں
ہمارا دعوی

ہم اس قرآن کے الفاظ کو اس لئے مانتے ہیں کہ یہ ہم تک تواتر (ثقہ راویوں کی اسناد کی کثرت) سے پہنچا ہے

میرا سوال

کیا آپ کا اور ہمارا قرآن کے اس معاملے پر کوئی اختلاف نہیں

آپ کا جواب

اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو پھر حدیث بھی اسی طرح ثابت ہو جائے گی
اگر آپ کا جواب ناں ہے تو میرا سوال ہے کہ
1-آپ قرآن کے الفاظ کو کس دلیل سے مانتے ہیں کیونکہ ہماری دلیل کے علاوہ کوئی اور دلیل ہو ہی نہیں سکتی اگر ہے تو بتائیں
2-آپ نے اوپر قرآن پر اتفاق کا نعرہ لگا کر دھوکا دینے کی کوشش کیوں کی ہے اس دھوکے کو میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں

آپ کے اتفاق کے دھوکے کی بذریعہ مثال وضاحت

زید اور بکر کا دو پلاٹوں پر حق ملکیت کا جھگڑا ہوتا ہے پہلے پلاٹ کی رجسٹری بکر کے نام اور دوسرے کی زید کے نام ہوتی ہے- مگر بکر دونوں پلاٹ اپنے بتاتا ہے پس بات پنجائت میں جاتی ہے پنجائت میں مندرجہ ذیل دلائل دئے جاتے ہیں
1-بکر کا پنجائت میں دعوی
زید کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پہلا پلاٹ میرا ہے پس پنجائت بے شک پہلے زید سے پوچھ لے
زید کا اقرار
زید کہتا ہے کہ جی پہلا پلاٹ واقعی بکر کا ہے (چونکہ وہ رجسٹری کو حجت تصور کرتا ہے)
بکر کا دوسرا دعوی
دوسرا پلاٹ میرا ہے اگر زید کے پاس کوئی دلیل ہے تو وہ پیش کرے
زید کا جوب
میری دلیل رجسٹری ہے
بکر کا جواب
میں دنیاوی کاغذ یا رجسٹری کو نہیں مانتا کوئی اللہ نے تم کو کہا ہے کہ یہ پلاٹ تمھارا ہے
زید کا جواب
پھر تو پہلے پلاٹ پر بھی تم بتاؤ کہ اللہ نے تم کو کہا ہے کہ پہلا پلاٹ تمھارا ہے
بکر کا جواب
جناب پہلے پلاٹ پر تو آپ اتفاق کر چکے ہیں اب آپ منکرین قانون کی طرح اس اتفاق کا تو انکار نہ کریں

کیا یہ اتفاق کا دعوی ٹھیک ہے
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
بہت خوب بھئی مسئلہ یہ نہیں کہ کون سی چیز اللہ کے ذمے ہے یہ تو آپ کا دعوی ہے مسئلہ تو دلیل کا ہے کہ اللہ کے ذمے کس دلیل کے تحت ہے آپ کو کس نے بتایاکہ اللہ کے ذمے ہے کیا آپ کو اللہ نے بتایا ہے یا کسی اور نے بتایا ہے یا خواب آیا ہے
السلام علیکم۔
دلیل۔
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩۔75﴾
تو اپنی زبان کو اس میں تعجیل کی غرض سے حرکت نہ دے۔ یقینا اس (قرآن) کا جمع کرنا اور پڑھانا ھمارا زمّہ ھے۔ پس جب ھم اسے پڑھیں تو، تو پڑھنے کی پیروی کر۔ پھر بیشک اسے بیان کردینا بھی ھمارے زمّہ ھے۔
حیرت ھے اتنی واضح آیت آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی ھے؟
قرآن مجید کے ہر پڑھنے والے کو اللہ بتا رہا ھے کہ اس کے جمع کرنا اور پڑھانا اور بیان کرنا، اللہ کے ذمّہ ھے (ہر زمانہ میں)
آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ ہم مشرکین کی طرح قرآن پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ آپ جو جاہلانہ اعتراض کرتے ہیں وہ پھر مشرکین قرآن پر بھی کرنے لگ جائیں گے

مشرکین اور کفّار ھمیشہ قرآن پر اعتراض کرتے ہی رہیں گے۔ ان کے باطل اعتراضات، اللہ کو معلوم ہیں اور اللہ نے اپنی کتاب میں ان کے باطل اعتراضات اور ان اعتراضات کا مشرح جواب دے دیا ھے۔ آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے، بلکہ ان باطل اعتراضات کا جواب، اللہ کی آیات سے دینا چاہیئے۔

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨۔17﴾
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کو مددگار ہوں۔

اب مشرکین اور کفّار کو قرآن کی مثل لانا ھوگا، اور وہ کبھی بھی نہ لا سکیں گے۔

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢٣﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ﴿٢٤۔2﴾
ھم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو (23) پس اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے (24)

اب کفّار کو اس جیسی ایک سورۃ بنا کر لانی ھوگی۔ اور وہ ہرگز ایسا نہ کر سکیں گے۔
وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٣٧۔10)
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ کے بغیر ، گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو تصدیق کرنے واﻻ ہے جو اس کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں ھےاور الکتاب کی تفصیل بیان کرنے واﻻ ہے اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے (37)
اللہ کا چیلنج ھے کہ قرآن اس کے علاوہ کوئی نہیں بنا سکتا۔ کفّار ایسا قرآن نہیں بنا سکیں گے۔آپ ان سے نہ ڈریں۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٣﴾ فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنزِلَ بِعِلْمِ اللَّـهِ وَأَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٤۔11﴾
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کی مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو (13) پھر اگر وه تمہاری اس بات کو قبول نہ کریں تو تم یقین سے جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم کے ساتھ اتارا گیا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پس کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟
کفّار کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ھمیں اور آپ کو ایمان لانا ھے کہ قرآن، اللہ کی طرف سے ھے اور اللہ ہی بتا رہا ھے۔
ہمارا دعوی
ہم اس قرآن کے الفاظ کو اس لئے مانتے ہیں کہ یہ ہم تک تواتر (ثقہ راویوں کی اسناد کی کثرت) سے پہنچا ہے
میرا سوال
کیا آپ کا اور ہمارا قرآن کے اس معاملے پر کوئی اختلاف نہیں

قرآن پر کوئی اخلاف نہیں ھے اسکی حفاظت اور ھم تک پہنچنے پر اختلاف ضرور ھے،اوپر آیات سے ثابت ھوچکا ھے کہ قرآن کا جمع کرنا، پڑھانا، بیان کرنا، حفاظت کرنا سب کچھ اللہ کے ذمّہ ھے۔ کسی آیت میں نہیں لکھا کہ یہ کام ثقہ راویوں کا ھے۔
میں تو اللہ کی آیات پر ایمان لایا ھوں،کیا آپ اللہ کی جگہ ثقہ راویوں کی اسناد کثرت کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں؟
مالکم کیف تحکمون؟


 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
قرآن پر کوئی اخلاف نہیں ھے اسکی حفاظت اور ھم تک پہنچنے پر اختلاف ضرور ھے،
میں نے اوپر قرآن کے اتفاق کے تحت دو پوانٹ بیان کیے تھے ایک قرآن کے الفاظ کو ماننا اور دوسرا ان الفاظ کو ماننے کی وجہ
آپ نے پہلے پر تو اتفاق کر لیا مگر دوسرے پر اختلاف کیا کہ آپ کے ہاں اسکو اللہ کی کلام ماننے کی وجہ یہ نہیں کہ یہ راویوں کے تحت پہنچا ہے تو بھئی وہ وجہ بھی تو بتائیں
1-آپ قرآن کے الفاظ کو کس دلیل سے مانتے ہیں کیونکہ ہماری دلیل کے علاوہ کوئی اور دلیل ہو ہی نہیں سکتی اگر ہے تو بتائیں
پس میں نے اوپر چیلنج دیا ہوا ہے کہ ہماری دلیل کے علاوہ آپ کوئی دلیل نہیں بتا سکتے جس سے یہ پتا چلے کہ یہ قرآن واقعی اللہ کی وحی ہے


عبدہ کا پہلا سوال
آپ کو کس نے کہا کہ یہ قرآن کی آیت ہے

آپ کا جواب
انسان نے

عبدہ کا دوسرا سوال سوال
حدیث اللہ کی وحی کیوں نہیں ہے

آپ کا جواب
کیونکہ یہ بات انسانوں نے کہی ہے

عبدہ کا تیسرا سوال
جب ایک انسان نے آپ کو ایک آیت بتائی اور کہا کہ یہ اللہ کی وحی ہے تو آپ نے مان لیا مگر جب اسی انسان نے آپ کو ایک حدیث بتائی اور کہا کہ یہ اللہ کی وحی ہے تو آپ نے کہا کہ میں انسان کی بات نہیں مانتا- کیا اہل قرآن کی عینک نہیں اتر سکتی کہ انسان کی ہی ایک بات مان کر آیت کو وحی مان لیا مگر اسی انسان کی دوسری بات کو انسان کی بات کہ کر رد کر دیا مالکم کیف تحکمون

آپ کا جواب
-------------------------------------------------------------
-------------------------------------------
-----------------------------------
------------------------------
شدت سے انتظار رہے گا صرف اسی جواب کا
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
عبدہ کا پہلا سوال
آپ کو کس نے کہا کہ یہ قرآن کی آیت ہے
[/QUOTE

جواب۔ اللہ نے بتایا۔ بار بار آیات سے ثابت کررہا ھوں۔آپ آیات پر توجہ نہیں دے رہے ورنہ یہ سوال نہ کرتے بلکہ آیات پر سرتسلیم خم کرتے۔

الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ ﴿١۔15)
الرٰ، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلے اور روشن قرآن کی۔
امیّد ھے اب آپ کو سمجھ میں آجائے گا، کہ اللہ بتا رہا ھے کہ یہ قرآن ھے۔ کیا اللہ کے بتانے کے بعد بھی آپ کو کسی اور شہادت کی ضرورت ھے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ بات بنالی گئی ھے، کیا دلیل ھے کہ یہ اللہ کہہ رہا ھے؟ تو پھر آپ آگے بڑھیں اور اللہ کا چیلینج قبول کرتے ھوئے اس جیسی ایک سورۃ بنا کر لائیں۔ خالی باتیں نہ کریں ایسا کلام بنا کر لائیں۔(یہ ہی اس کی دلیل ھے، آپ کبھی ایسا نہ کر سکیں گے)
اس کے بعد آپ کے دیگر دو سوالوں کی کوئی حیثیت نہیں ھے۔
 
Top