محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
دعوت الى اللہ كا كام كرنے والا شخص اپنى دعوت ميں علم و بصيرت كا محتاج ہوتا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہوشمند اور عقل و خرد كے مالك اور دعوت الى اللہ كا خيال ركھنے والے مسلمان نوجوان ذرا اس فرمان بارى تعالى پر تامل اور غور كرو:
﴿ كہہ ديجئے ميرى راہ يہى ہے ميں اور ميرے متبعين اللہ كى طرف پورے يقين اور اعتماد و بصيرت كے ساتھ دعوت ديتے ہيں اللہ پاك ہے اور ميں مشركوں ميں سے نہيں ﴾يوسف ( 108 ).
يعنى جس كى دعوت دے رہے ہو اس كى بصيرت ہو، اور جسے دعوت دے رہے ہو اس كے حال كى بھى بصيرت ركھتے ہو، اور دعوت كى كيفيت كى بھى بصيرت ہونى چاہيے، تو اس سے يہ علم ہوا كہ دعوت كى كچھ شروط ہيں جن كا پايا جانا ضرورى ہے ان ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
اول:
جس كى دعوت دى جا رہى ہے اس كى بصيرت ہونى چاہيے يعنى جس كى دعوت دے رہا ہے اس حكم شرعى كا عالم ہو؛ كيونكہ ہو سكتا ہے وہ كسى ايسى چيز كى دعوت دے رہا ہو جس كے متعلق اس كا خيال ہو كہ وہ واجب ہے، ليكن شرع ميں وہ واجب نہ ہو.
اس طرح وہ اللہ كے بندوں پر وہ كام لازم كر دے جسے اللہ نے لازم نہيں كيا، اور ہو سكتا ہے وہ كسى چيز اور كام كے ترك كرنے كى دعوت دے جس كے متعلق اس كا خيال ہو كہ وہ حرام ہے، ليكن اللہ كے دين ميں وہ حرام نہ ہو، اس طرح وہ اللہ كے بندوں پر اللہ نے جو حلال كيا ہے اسے حرام كر دے.
دوم:
اسے مدعو يعنى جسے دعوت دى جا رہى ہے كے حال كا بھى علم و بصيرت ہونى چاہيے: آپ كے ليے مدعو كى حالت كا علم ركھنا ضرورى ہے، اس كى تعليمى قابليت كيا ہے ؟ وہ بحث كى كتنى قابليت ركھتا ہے ؟ تا كہ آپ اس كے ساتھ بحث و مناقشہ كرنے كى تيارى كر سكيں؛ كيونكہ اگر آپ اس طرح كے شخص كے ساتھ بحث و مناقشہ كرنے لگيں تو اس كے قوت مناظرہ اور مناقشہ كى بنا پر معاملہ آپ كے خلاف ہو جائيگا.
تو اس طرح آپ كے سبب حق پر آزمائش و مصيبت ہو گى يہ خيال مت كريں كہ باطل پر چلنے والا شخص ہر حال ميں نرم اور ايزى ہوتا ہے.
سوم:
دعوت دينے والا دعوت كى كيفت كى بصيرت ركھتا ہو، اس ليے ميں اپنے دعوت دينے والے بھائيوں كو ابھارتا ہوں كہ وہ دعوت ميں حكمت نرمى اختيار كريں انہيں علم ہو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اللہ جسے چاہتا ہے حكمت عطا فرماتا ہے، اور جسے حكمت دے دى جائے تو اسے خير كثير عطا كر دى گئى اور اس سے نصيحت صرف عقلمند ہى حاصل كرتے ہيں ﴾البقرۃ ( 269 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہوشمند اور عقل و خرد كے مالك اور دعوت الى اللہ كا خيال ركھنے والے مسلمان نوجوان ذرا اس فرمان بارى تعالى پر تامل اور غور كرو:
﴿ كہہ ديجئے ميرى راہ يہى ہے ميں اور ميرے متبعين اللہ كى طرف پورے يقين اور اعتماد و بصيرت كے ساتھ دعوت ديتے ہيں اللہ پاك ہے اور ميں مشركوں ميں سے نہيں ﴾يوسف ( 108 ).
يعنى جس كى دعوت دے رہے ہو اس كى بصيرت ہو، اور جسے دعوت دے رہے ہو اس كے حال كى بھى بصيرت ركھتے ہو، اور دعوت كى كيفيت كى بھى بصيرت ہونى چاہيے، تو اس سے يہ علم ہوا كہ دعوت كى كچھ شروط ہيں جن كا پايا جانا ضرورى ہے ان ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
اول:
جس كى دعوت دى جا رہى ہے اس كى بصيرت ہونى چاہيے يعنى جس كى دعوت دے رہا ہے اس حكم شرعى كا عالم ہو؛ كيونكہ ہو سكتا ہے وہ كسى ايسى چيز كى دعوت دے رہا ہو جس كے متعلق اس كا خيال ہو كہ وہ واجب ہے، ليكن شرع ميں وہ واجب نہ ہو.
اس طرح وہ اللہ كے بندوں پر وہ كام لازم كر دے جسے اللہ نے لازم نہيں كيا، اور ہو سكتا ہے وہ كسى چيز اور كام كے ترك كرنے كى دعوت دے جس كے متعلق اس كا خيال ہو كہ وہ حرام ہے، ليكن اللہ كے دين ميں وہ حرام نہ ہو، اس طرح وہ اللہ كے بندوں پر اللہ نے جو حلال كيا ہے اسے حرام كر دے.
دوم:
اسے مدعو يعنى جسے دعوت دى جا رہى ہے كے حال كا بھى علم و بصيرت ہونى چاہيے: آپ كے ليے مدعو كى حالت كا علم ركھنا ضرورى ہے، اس كى تعليمى قابليت كيا ہے ؟ وہ بحث كى كتنى قابليت ركھتا ہے ؟ تا كہ آپ اس كے ساتھ بحث و مناقشہ كرنے كى تيارى كر سكيں؛ كيونكہ اگر آپ اس طرح كے شخص كے ساتھ بحث و مناقشہ كرنے لگيں تو اس كے قوت مناظرہ اور مناقشہ كى بنا پر معاملہ آپ كے خلاف ہو جائيگا.
تو اس طرح آپ كے سبب حق پر آزمائش و مصيبت ہو گى يہ خيال مت كريں كہ باطل پر چلنے والا شخص ہر حال ميں نرم اور ايزى ہوتا ہے.
سوم:
دعوت دينے والا دعوت كى كيفت كى بصيرت ركھتا ہو، اس ليے ميں اپنے دعوت دينے والے بھائيوں كو ابھارتا ہوں كہ وہ دعوت ميں حكمت نرمى اختيار كريں انہيں علم ہو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اللہ جسے چاہتا ہے حكمت عطا فرماتا ہے، اور جسے حكمت دے دى جائے تو اسے خير كثير عطا كر دى گئى اور اس سے نصيحت صرف عقلمند ہى حاصل كرتے ہيں ﴾البقرۃ ( 269 ).