اختلاف امتی رحمۃ - امت کا اختلاف رحمت ہے ؟ موضوع روایت !!
[اس روایت کی کچھ اصل نہیں ہے ! محدثین نے اس کی سند معلوم کرنے کی بسیار کوشش کی لیکن انہیں اس کی سند پر اطلاع نہ ہو سکی یہاں تک کہ امام سیوطی رحمة اللہ نے مایوسی کے عالم میں کہہ دیا :
و لعله خرج في بعض كتب الحفاظ التي لم تصل إلينا ! شائد اس حدیث کی تخریج حفاظ کی بعض ایسی کتب میں ہے جن تک ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔ (بحوالہ : الجامع الصغیر) لیکن امام سیوطی (رحمة اللہ) کے اس قول پر تنقید کرتے ہوئے علامہ البانی (رحمة اللہ) کہتے ہیں :و
هذا بعيد عندي ..إذ يلزم منه أنه ضاع على الأمة بعض أحاديثه صلى الله عليه وسلم , و هذا مما لا يليق بمسلم اعتقاده . امام سیوطی کی یہ بات عقل و دانش سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ اگر امام سیوطی کے اس قول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث پر اطلاع نہیں ہو سکی جبکہ کسی مسلمان کے لیے لائق نہیں کہ وہ اس قسم کا عقیدہ اختیار کرے۔ امام مناوی (رحمة اللہ) نے امام سبکی (رحمة اللہ) سے نقل کیا ہے : و
ليس بمعروف عند المحدثين , و لم أقف له على سند صحيح و لا ضعيف و لا موضوع . و أقره الشيخ زكريا الأنصاري في تعليقه على " تفسير البيضاوي " انہوں نے بیان کیا کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں معروف نہیں ہے اور مجھے اس کی صحیح ، ضعیف اور موضوع سند پر آگاہی حاصل نہیں ہو سکی ہے ، چانچہ شیخ زکریا انصاری نے "تفسیر بیضاوی" ( ق / 92 / 2) کے حواشی میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ یہ حدیث مفہوم کے لحاظ سے بھی محققین علماء کے نزدیک محل انکار میں ہے۔ علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :و
هذا من أفسد قول يكون , لأنه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطا , و هذا ما لا يقوله مسلم , لأنه ليس إلا اتفاق أو اختلاف , و ليس إلا رحمة أو سخط . امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں : ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 ) اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟ شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیے کہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :
وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 ) لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاً مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔بحوالہ : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ، امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
لنک
*حدیث مبارکہ*
"اختلاف امتی رحمة"
*حوالہ جات:*
( "جامع الاحادیث للسیوطی جلد 1 صفحہ 124 حدیث 706 بیروت"، "کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 79 حدیث نمبر 153" الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 108 مطبوعہ المکتب الاسلامی")
*اسانید:*
اس کی مکمل سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی مگر صاحب مدخل نے ابن عباس سے بسند منقطع اور صاحب فردوس نے بسند مرفوع روایت کیں۔
اسی طرح ملا علی قاری نے مسند فردوس کے حوالے سے ہی اس کی ایک سند "بطریق جویبر عن الضحاک عن ابن عباس مرفوعا" بیان کی ہے
لیکن اس میں جویبر بن سعید الازدی کو ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
( "الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 110" )
*اقوال آئمہ:*
صاحبِ کشف الخفاء نے اس کی سند کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ
"رواہ البیہقی فی المدخل بسند منقطع عن ابن عباس لفظ:
"قال رسول اللہ مما اوتیتم من کتاب اللہ فالعمل بہ لا عذر لاحد فی ترکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واختلاف اصحابی لکم رحمتہ"
اس کے بعد کچھ آگے جا کر آپ لکھتے ہیں کہ
وقد اوردہ ابن الحاجب فی المختصر فی مباحث القیاس بلفظ: اختلاف امتی رحمۃ للناس ،وکثر السوال عنہ وزعم کثیر من الائمۃ انہ لااصل لہ لکن ذکرہ الخطابی فی غریب الحدیث مستطردا وقال اعترض علی ھذا الحدیث رجلان احدھما ماجن والآخر ملحد وھما اسحاق الموصلی وعمروبن بحر الحاحظ،وقالا لو کان الاختلاف لکان الاتفاق عذابا ثم تشاغل الخطابی برد ھذ ا الکلام، ولم یشف فی عزوالحدیث، لکنہ أشعر بان لہ اصلا عندہ۔
اس کے بعد آپ نے (کشف الخفاء) مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں علامہ خطابی کا جواب نقل کر کے اپنی طرف سے بھی اس کا جواب نقل کیا ہے جس کو میں آگے چل کے بیان کرتا ہوں اس سے پہلے اس کے متعلق علامہ سیوطی کا موقف جانتے ہیں
اس کی سند کے متعلق خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمتہ الله عليه نے کلھا ہے کہ
اس حدیث کو المقدسی نے الحجة اور البیہقی نے الرسالہ الشعریہ میں بغیر سند کے ذکر کیا اسی طرح حلیمی،قاضی حیسن اور امام الحرمین نے بھی ذکر کیا مگر اس کی سند نہیں بیان کی گئی۔
اس کے بعد آپ لکھتے ہیں کہ
"ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا"
کہ ان آئمہ نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے مگر ہمیں اس کی سند نہیں ملی شاید کہ اس کی تخریج ان کتب حفاظ میں کی گئی ہو جن تک ہماری رسائی نہ ہو۔
یہ بات کہہ کر جہاں علامہ سیوطی نے حسنِ ظن و آدابِ اسلاف کا کمال مظاہرہ کیا ہے وہاں ہی انہوں نے اس حدیث کے متعلق ان آئمہ پر اعتماد کیا ہے۔
اس حدیث کو اور بھی کئی محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے جنہیں صاحب کشف الخفاء نے بیان کیا ہے مثلا:
ومن ھذاالوجہ اخرجہ الطبرانی والدیلمی بلفظہ و فیہ ضعف۔
کہ اسی طریق پہ طبرانی اور دیلمی نے بھی روایت کی انہی الفاظ کے ساتھ اور اس میں ضعف ہے۔۔
وعزاہ العراقی لآدم بن ابی ایاس فی کتاب العلم والحکم بغیر بیان لسندہ ایضا بلفظ :
"اختلاف اصحابی رحمۃ لامتی"
وھو مرسل ضعیف۔
اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعث رحمت ہے
اور ساتھ ہی یحیی بن سعید کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم بھی یہی ہے۔
اسی طرح امام مالک رحمۃ الله عليه کا قول بھی نقل کیا ہے کہ
"ان اختلاف العلماء رحمۃ من اللہ تعالیٰ علی ھذہ الامة"
اسی طرح مسند فردوس نے ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا
اور ابن سعد نے طبقات میں قاسم بن محمد کا قول نقل کیا ہے کہ
"کان اختلاف اصحاب محمد رحمۃ للناس"
اور ابو نعیم ان الفاظ کے ساتھ لے کر آئے کہ
" کان اختلاف اصحاب رسول الله رحمۃ لھؤلاء الناس"
(کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 79،80 تحت حدیث 153)
*ملا علی قاری* نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا اور کہا کہ "بہت سارے آئمہ نے یہ کہا ہے کہ
اس کی کوئی اصل نہیں ہے"
مگر اس کے بعد آپ نے بھی طویل بحث کی اور اس کی نظیر ذکر کیں اور علامہ خطابی کا ذکر بھی کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو غریب الحدیث میں مستطردا ذکر کیا ہے اور انہوں( خطابی) نے یہی اشارہ دیا کہ ان کے نزدیک اس کی اصل موجود ہے۔
"( الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 108،109 مطبوعہ المکتب الاسلامی )"
اب آتے ہیں اس پر آنے والے اعتراض کے جواب کیطرف جس کو صاحب کشف الخفاء نے بھی نقل کیا ہے
لیکن اس سے پہلے اس پر *علامہ البانی* کے اعتراض کو بھی شامل کر لیتے ہیں جو انہوں نے اس حدیث کو موضوع قرار دے کر علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ الله عليه کا بھی رد کیا اور ساتھ میں اعتراض بھی کیا ہے کہ
جلال الدین سیوطی رحمہ الله کا یہ قول
"ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا"
"میری عقل سے بعید ہے"۔
اور ساتھ میں یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ
امت کا اختلاف درست نہیں ہے اللہ ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا
اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔
اور دوسری جگہ
وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔۔
لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاََ مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
"ملخصا السلسۃ الضعیفۃ ( 11 )"
نوٹ
*یہ اعتراض غیر مقلدین کے فتوے سے نقل کیا گیا ہے*
پہلے اعتراض کا جواب تو واضح ہے کہ موصوف متشدد غیر مقلد تھے اور اس حدیث کے مفہوم کو مقلدین حضرات آئمہِ مجتہدین کے درمیان ہونے والے فروعی اختلافات کے حق ہونے پر شاہد گردانتے ہیں اس لیے وہ اس حدیث کو اپنی عقل کی فہم سے بعید سمجھتے تھے
اور
اِن کے اِن دوسرے اعتراضات کا جواب صاحب کشف الخفاء اور علامہ خطابی نے بہت پہلے دے دیا تھا
صاحب کشف الخفاء اس اعتراض کے جواب میں خطابی کا قول نقل کرتے ہیں کہ
"والاختلاف فی الدین ثلاثة اقسام:الاول فی اثبات الصانع ووحدانیتہ، وانکارہ کفر، والثانی فی صفاتہ و مشیئتہ، وانکارھما بدعة، والثالث فی احکام الفروع المحتملة وجوھاً، فھذا جعل الله رحمۃ و کرامة للعلماء، وھو المراد بحدیث:"اختلاف امتی رحمۃ" انتہی۔
مختصرا یہ کہ یہاں صرف آئمہ فقہاء و مجتہدین کا فروعی اختلاف مراد ہے جو کہ امت میں فقہاء و آئمہ مجتہدین کے مابین مشہور و معروف ہے۔
اس کے بعد صاحب کشف الخفاء نے اس اعتراض کا جواب اپنی طرف سے بھی دیا ہے جس کےلیے وہ *شرح مسلم علامہ نووی* کی عبارت نقل کرتے ہیں کہ
"ولا یلزم من کون الشئی رحمۃ ان یکون ضدہ عذابا، ولا یلتزم ھذا و یذکرہ الا جاعل او متجاھل وقد قال اللہ تعالی:
" ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ"
فسمی اللیل رحمۃ ولا یلزم من ذلك ان یکون النہار عذابا" انتہی ۔
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ کسی چیز کے رحمت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی مخالف چیز عذاب ہو، اور اس بات کا التزام اور ذکر صرف جاہل یا متجاہل( جو جان بوجھ کر جاہل بنے) ہی کرے گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ
" ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ"
پس تو یہاں رات کو رحمت قرار دیا گیا ہے اور اس سے دن کا عذاب ہونا لازم نہیں آتا۔
المختصر حدیث کی سند کے ہونے اور نہ ہونے کلام اپنی جگہ ہے مگر یہ مفہوم بلکل درست ہے اور اسے اختلاف نہ کرے گا مگر متعصب۔
*اقول:*
یہ حدیث اگرچہ جمہور محدثین کے نزدیک "لا اصل لہ عندھم" ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کا ذکر کرنے والوں پہ علامہ سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کا اعتماد کرنا اور علامہ خطابی کے کلام سے ان کے نزدیک اس کی اصل کے موجود ہونے کا اشارہ ملنا اور دیگر آئمہ کا اس کو ذکر کرنے کے بعد اس کی نظیرات ذکر کرنا خصوصا صاحب کشف الخفاء کا اس کے مفہوم کے درست ہونے پہ تبصرہ کرنا اور اس کے مماثل ذکر کرنا اس حدیث کو درجہ ضعف میں لائے گا نہ کہ یہ موضوع ہو۔
اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ موضوع ۔۔۔
*حکم الروایة :*
ضعیف
واللہ اعلم بالصواب وارجو العفو بالتواب۔۔۔
*تحقیق :*
*قیصر عباس*