• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلکی اختلاف ؟

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
”فروعی مسائل“میں ”اختلاف“ ہو جانا کوئی ” اچنبھے“کی بات نہیں ہر ” عالمِ دین یا مکتبہء فکر“ کی سوچ و بچار اور ”تحقیق “ کاایک مخصوص ” طریقہء کار“ہوتا ہے جس کے ”تحت“وہ تحقیق کا کام ”سر انجام“دیتا ہے۔” شدید کیفیت“ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی اپنی”رائے “ کو فیصلہ کن ”قرار“دے کرکسی دوسرے کے لیے ”تحقیق“کا حق تسلیم نہیں کرتا۔ ”مسلکی اختلاف“ اس وقت تک تو ”صحیح“ہے جب یہ ”حدِ اعتدال“میں رہے مگر جب یہ ”تجاوز“کر جائے تو یہ اختلاف ”افتراق“میں بدل جاتا ہے جو کہ ”اسلام “ میں یقیناً ”قابلِ قبول “ نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شکریہ۔ انشاءاللہ ضرور۔ مگر ویک اینڈ پر تھوڑا تفصیل سے دوں گا۔ لہذا تھوڑا انتظار بھی کر لیجئے۔ :)
اتنا لمبا انتیظار اتنے معمولی سے سوال پر :
ٹھیک ہے بھائی آپ کے جواب کا انتیظار رہے گا
انتظار کرنے والوں میں ہمیں بھی شمار کیا جائے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
  • میرے خیال میں کوئی بھی مسلمان دانستہ قرآن و حدیث کی مخالفت نہیں کرتا ؛حیدر آبادی صاحب نے ذرا سخت الفاظ استعمال کیے جو مناسب نہیں؛دوسروں کی دل آزاری کہاں کی رواداری ہے؟اگر آپ ایک ثابت شدہ سنت چھوڑنے پر دوسروں کی تحسین کرتے ہیں کہ انھوں نے کسی کی دل جوئی کی خاطر ایسا کیا تو سنت نہ چھوڑنے والوں پر اس طرح کے سخت ریمارکس کیوں؟؟ آخر وہ بھی تو سنت کی حمایت ہی میں ایسا کر رہے ہیں!!
  • جہاں تک اصل نکتے کی بات ہے تو میرے خیال میں رواداری کا یہ درست مفہوم نہیں ہے کہ آپ ایک ثابت شدہ چیز کو ترک کر دیں بل کہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں کی علمی اور فقہی راے سے اختلاف رکھنے کے باوصف ان سے حسن اخلاق سے پیش آئیں اور کسی قسم کی بد اخلاقی ان سے روا نہ رکھیں؛علمی طریقے پر ان کی راے سے اختلاف بھی کریں اور ان کے موقف پر تنقید بھی؛یہ ہرگز روداری کے خلاف نہیں۔
  • جو لوگ حامیان سنت ہیں انھیں چاہیے کہ اصل توجہ حقیقی نکتے پر مبذول رکھتے ہوئے بہ انداز احسن اپنے دلائل پیش کریں؛یہ بھی سنت ہے کہ مخالفین و ناقدین کی تند وتیز تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی دعوت پر زور دیا جائے اور اس ضمن میں اپنی ذات کی بھی پروا نہ کی جائے۔
  • میں برملا طور پر سید داود صاحب غزنویؒ کے طرز عمل کو نادرست اور خلاف سنت سمجھتا ہوں ؛گو اسے ان کی اجتہادی خطا گردانتے ہوئے ان کے لیے دعا گو ہوں اور دین وملت کے لیے ان کی مساعی جمیلہ کا دل سے معترف ہوں: أللھم اغفر لہ و ارحمہ و أدخلہ فی الجنۃ الفردوس؛جزاہ اللہ خیراً عنا وعن جمیع المسلمین
جزاکم اللہ خیرا! اللہ تعالیٰ ہم سب کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں۔ آمین!
 

قیصر عباس

مبتدی
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
12
اختلاف امتی رحمۃ - امت کا اختلاف رحمت ہے ؟ موضوع روایت !!

[اس روایت کی کچھ اصل نہیں ہے ! محدثین نے اس کی سند معلوم کرنے کی بسیار کوشش کی لیکن انہیں اس کی سند پر اطلاع نہ ہو سکی یہاں تک کہ امام سیوطی رحمة اللہ نے مایوسی کے عالم میں کہہ دیا :و لعله خرج في بعض كتب الحفاظ التي لم تصل إلينا ! شائد اس حدیث کی تخریج حفاظ کی بعض ایسی کتب میں ہے جن تک ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔ (بحوالہ : الجامع الصغیر) لیکن امام سیوطی (رحمة اللہ) کے اس قول پر تنقید کرتے ہوئے علامہ البانی (رحمة اللہ) کہتے ہیں :و هذا بعيد عندي ..إذ يلزم منه أنه ضاع على الأمة بعض أحاديثه صلى الله عليه وسلم , و هذا مما لا يليق بمسلم اعتقاده . امام سیوطی کی یہ بات عقل و دانش سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ اگر امام سیوطی کے اس قول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث پر اطلاع نہیں ہو سکی جبکہ کسی مسلمان کے لیے لائق نہیں کہ وہ اس قسم کا عقیدہ اختیار کرے۔ امام مناوی (رحمة اللہ) نے امام سبکی (رحمة اللہ) سے نقل کیا ہے : و ليس بمعروف عند المحدثين , و لم أقف له على سند صحيح و لا ضعيف و لا موضوع . و أقره الشيخ زكريا الأنصاري في تعليقه على " تفسير البيضاوي " انہوں نے بیان کیا کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں معروف نہیں ہے اور مجھے اس کی صحیح ، ضعیف اور موضوع سند پر آگاہی حاصل نہیں ہو سکی ہے ، چانچہ شیخ زکریا انصاری نے "تفسیر بیضاوی" ( ق / 92 / 2) کے حواشی میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ یہ حدیث مفہوم کے لحاظ سے بھی محققین علماء کے نزدیک محل انکار میں ہے۔ علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :و هذا من أفسد قول يكون , لأنه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطا , و هذا ما لا يقوله مسلم , لأنه ليس إلا اتفاق أو اختلاف , و ليس إلا رحمة أو سخط . امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں : ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 ) اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟ شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیے کہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 ) لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاً مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔بحوالہ : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ، امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
لنک
 

قیصر عباس

مبتدی
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
12
اختلاف امتی رحمۃ - امت کا اختلاف رحمت ہے ؟ موضوع روایت !!

[اس روایت کی کچھ اصل نہیں ہے ! محدثین نے اس کی سند معلوم کرنے کی بسیار کوشش کی لیکن انہیں اس کی سند پر اطلاع نہ ہو سکی یہاں تک کہ امام سیوطی رحمة اللہ نے مایوسی کے عالم میں کہہ دیا :و لعله خرج في بعض كتب الحفاظ التي لم تصل إلينا ! شائد اس حدیث کی تخریج حفاظ کی بعض ایسی کتب میں ہے جن تک ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔ (بحوالہ : الجامع الصغیر) لیکن امام سیوطی (رحمة اللہ) کے اس قول پر تنقید کرتے ہوئے علامہ البانی (رحمة اللہ) کہتے ہیں :و هذا بعيد عندي ..إذ يلزم منه أنه ضاع على الأمة بعض أحاديثه صلى الله عليه وسلم , و هذا مما لا يليق بمسلم اعتقاده . امام سیوطی کی یہ بات عقل و دانش سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ اگر امام سیوطی کے اس قول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث پر اطلاع نہیں ہو سکی جبکہ کسی مسلمان کے لیے لائق نہیں کہ وہ اس قسم کا عقیدہ اختیار کرے۔ امام مناوی (رحمة اللہ) نے امام سبکی (رحمة اللہ) سے نقل کیا ہے : و ليس بمعروف عند المحدثين , و لم أقف له على سند صحيح و لا ضعيف و لا موضوع . و أقره الشيخ زكريا الأنصاري في تعليقه على " تفسير البيضاوي " انہوں نے بیان کیا کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں معروف نہیں ہے اور مجھے اس کی صحیح ، ضعیف اور موضوع سند پر آگاہی حاصل نہیں ہو سکی ہے ، چانچہ شیخ زکریا انصاری نے "تفسیر بیضاوی" ( ق / 92 / 2) کے حواشی میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ یہ حدیث مفہوم کے لحاظ سے بھی محققین علماء کے نزدیک محل انکار میں ہے۔ علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :و هذا من أفسد قول يكون , لأنه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطا , و هذا ما لا يقوله مسلم , لأنه ليس إلا اتفاق أو اختلاف , و ليس إلا رحمة أو سخط . امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں : ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 ) اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟ شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیے کہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 ) لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاً مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔بحوالہ : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ، امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
لنک
*حدیث مبارکہ*

"اختلاف امتی رحمة"

*حوالہ جات:*
( "جامع الاحادیث للسیوطی جلد 1 صفحہ 124 حدیث 706 بیروت"، "کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 79 حدیث نمبر 153" الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 108 مطبوعہ المکتب الاسلامی")

*اسانید:*
اس کی مکمل سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی مگر صاحب مدخل نے ابن عباس سے بسند منقطع اور صاحب فردوس نے بسند مرفوع روایت کیں۔

اسی طرح ملا علی قاری نے مسند فردوس کے حوالے سے ہی اس کی ایک سند "بطریق جویبر عن الضحاک عن ابن عباس مرفوعا" بیان کی ہے
لیکن اس میں جویبر بن سعید الازدی کو ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

( "الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 110" )

*اقوال آئمہ:*

صاحبِ کشف الخفاء نے اس کی سند کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ
"رواہ البیہقی فی المدخل بسند منقطع عن ابن عباس لفظ:
"قال رسول اللہ مما اوتیتم من کتاب اللہ فالعمل بہ لا عذر لاحد فی ترکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واختلاف اصحابی لکم رحمتہ"

اس کے بعد کچھ آگے جا کر آپ لکھتے ہیں کہ

وقد اوردہ ابن الحاجب فی المختصر فی مباحث القیاس بلفظ: اختلاف امتی رحمۃ للناس ،وکثر السوال عنہ وزعم کثیر من الائمۃ انہ لااصل لہ لکن ذکرہ الخطابی فی غریب الحدیث مستطردا وقال اعترض علی ھذا الحدیث رجلان احدھما ماجن والآخر ملحد وھما اسحاق الموصلی وعمروبن بحر الحاحظ،وقالا لو کان الاختلاف لکان الاتفاق عذابا ثم تشاغل الخطابی برد ھذ ا الکلام، ولم یشف فی عزوالحدیث، لکنہ أشعر بان لہ اصلا عندہ۔

اس کے بعد آپ نے (کشف الخفاء) مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں علامہ خطابی کا جواب نقل کر کے اپنی طرف سے بھی اس کا جواب نقل کیا ہے جس کو میں آگے چل کے بیان کرتا ہوں اس سے پہلے اس کے متعلق علامہ سیوطی کا موقف جانتے ہیں

اس کی سند کے متعلق خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمتہ الله عليه نے کلھا ہے کہ
اس حدیث کو المقدسی نے الحجة اور البیہقی نے الرسالہ الشعریہ میں بغیر سند کے ذکر کیا اسی طرح حلیمی،قاضی حیسن اور امام الحرمین نے بھی ذکر کیا مگر اس کی سند نہیں بیان کی گئی۔
اس کے بعد آپ لکھتے ہیں کہ
"ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا"

کہ ان آئمہ نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے مگر ہمیں اس کی سند نہیں ملی شاید کہ اس کی تخریج ان کتب حفاظ میں کی گئی ہو جن تک ہماری رسائی نہ ہو۔

یہ بات کہہ کر جہاں علامہ سیوطی نے حسنِ ظن و آدابِ اسلاف کا کمال مظاہرہ کیا ہے وہاں ہی انہوں نے اس حدیث کے متعلق ان آئمہ پر اعتماد کیا ہے۔

اس حدیث کو اور بھی کئی محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے جنہیں صاحب کشف الخفاء نے بیان کیا ہے مثلا:

ومن ھذاالوجہ اخرجہ الطبرانی والدیلمی بلفظہ و فیہ ضعف۔

کہ اسی طریق پہ طبرانی اور دیلمی نے بھی روایت کی انہی الفاظ کے ساتھ اور اس میں ضعف ہے۔۔

وعزاہ العراقی لآدم بن ابی ایاس فی کتاب العلم والحکم بغیر بیان لسندہ ایضا بلفظ :
"اختلاف اصحابی رحمۃ لامتی"
وھو مرسل ضعیف۔

اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعث رحمت ہے

اور ساتھ ہی یحیی بن سعید کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم بھی یہی ہے۔

اسی طرح امام مالک رحمۃ الله عليه کا قول بھی نقل کیا ہے کہ
"ان اختلاف العلماء رحمۃ من اللہ تعالیٰ علی ھذہ الامة"

اسی طرح مسند فردوس نے ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا

اور ابن سعد نے طبقات میں قاسم بن محمد کا قول نقل کیا ہے کہ
"کان اختلاف اصحاب محمد رحمۃ للناس"

اور ابو نعیم ان الفاظ کے ساتھ لے کر آئے کہ
" کان اختلاف اصحاب رسول الله رحمۃ لھؤلاء الناس"

(کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 79،80 تحت حدیث 153)

*ملا علی قاری* نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا اور کہا کہ "بہت سارے آئمہ نے یہ کہا ہے کہ
اس کی کوئی اصل نہیں ہے"

مگر اس کے بعد آپ نے بھی طویل بحث کی اور اس کی نظیر ذکر کیں اور علامہ خطابی کا ذکر بھی کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو غریب الحدیث میں مستطردا ذکر کیا ہے اور انہوں( خطابی) نے یہی اشارہ دیا کہ ان کے نزدیک اس کی اصل موجود ہے۔

"( الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ 108،109 مطبوعہ المکتب الاسلامی )"

اب آتے ہیں اس پر آنے والے اعتراض کے جواب کیطرف جس کو صاحب کشف الخفاء نے بھی نقل کیا ہے

لیکن اس سے پہلے اس پر *علامہ البانی* کے اعتراض کو بھی شامل کر لیتے ہیں جو انہوں نے اس حدیث کو موضوع قرار دے کر علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ الله عليه کا بھی رد کیا اور ساتھ میں اعتراض بھی کیا ہے کہ
جلال الدین سیوطی رحمہ الله کا یہ قول
"ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا"

"میری عقل سے بعید ہے"۔

اور ساتھ میں یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ

امت کا اختلاف درست نہیں ہے اللہ ارشاد فرماتا ہے۔

وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا
اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔

اور دوسری جگہ

وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔۔

لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاََ مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

‏ "ملخصا السلسۃ الضعیفۃ ( 11 )"
نوٹ
*یہ اعتراض غیر مقلدین کے فتوے سے نقل کیا گیا ہے*

پہلے اعتراض کا جواب تو واضح ہے کہ موصوف متشدد غیر مقلد تھے اور اس حدیث کے مفہوم کو مقلدین حضرات آئمہِ مجتہدین کے درمیان ہونے والے فروعی اختلافات کے حق ہونے پر شاہد گردانتے ہیں اس لیے وہ اس حدیث کو اپنی عقل کی فہم سے بعید سمجھتے تھے

اور

اِن کے اِن دوسرے اعتراضات کا جواب صاحب کشف الخفاء اور علامہ خطابی نے بہت پہلے دے دیا تھا

صاحب کشف الخفاء اس اعتراض کے جواب میں خطابی کا قول نقل کرتے ہیں کہ
"والاختلاف فی الدین ثلاثة اقسام:الاول فی اثبات الصانع ووحدانیتہ، وانکارہ کفر، والثانی فی صفاتہ و مشیئتہ، وانکارھما بدعة، والثالث فی احکام الفروع المحتملة وجوھاً، فھذا جعل الله رحمۃ و کرامة للعلماء، وھو المراد بحدیث:"اختلاف امتی رحمۃ" انتہی۔

مختصرا یہ کہ یہاں صرف آئمہ فقہاء و مجتہدین کا فروعی اختلاف مراد ہے جو کہ امت میں فقہاء و آئمہ مجتہدین کے مابین مشہور و معروف ہے۔

اس کے بعد صاحب کشف الخفاء نے اس اعتراض کا جواب اپنی طرف سے بھی دیا ہے جس کےلیے وہ *شرح مسلم علامہ نووی* کی عبارت نقل کرتے ہیں کہ

"ولا یلزم من کون الشئی رحمۃ ان یکون ضدہ عذابا، ولا یلتزم ھذا و یذکرہ الا جاعل او متجاھل وقد قال اللہ تعالی:
" ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ"
فسمی اللیل رحمۃ ولا یلزم من ذلك ان یکون النہار عذابا" انتہی ۔

علامہ نووی فرماتے ہیں کہ کسی چیز کے رحمت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی مخالف چیز عذاب ہو، اور اس بات کا التزام اور ذکر صرف جاہل یا متجاہل( جو جان بوجھ کر جاہل بنے) ہی کرے گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ
" ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ"
پس تو یہاں رات کو رحمت قرار دیا گیا ہے اور اس سے دن کا عذاب ہونا لازم نہیں آتا۔

المختصر حدیث کی سند کے ہونے اور نہ ہونے کلام اپنی جگہ ہے مگر یہ مفہوم بلکل درست ہے اور اسے اختلاف نہ کرے گا مگر متعصب۔

*اقول:*
یہ حدیث اگرچہ جمہور محدثین کے نزدیک "لا اصل لہ عندھم" ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کا ذکر کرنے والوں پہ علامہ سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کا اعتماد کرنا اور علامہ خطابی کے کلام سے ان کے نزدیک اس کی اصل کے موجود ہونے کا اشارہ ملنا اور دیگر آئمہ کا اس کو ذکر کرنے کے بعد اس کی نظیرات ذکر کرنا خصوصا صاحب کشف الخفاء کا اس کے مفہوم کے درست ہونے پہ تبصرہ کرنا اور اس کے مماثل ذکر کرنا اس حدیث کو درجہ ضعف میں لائے گا نہ کہ یہ موضوع ہو۔

اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ موضوع ۔۔۔

*حکم الروایة :*
ضعیف

واللہ اعلم بالصواب وارجو العفو بالتواب۔۔۔

*تحقیق :*
*قیصر عباس*
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
*تحقیق :*
*قیصر عباس*
یہ کیا غضب، ظلم اور اندھیرہے کہ ایک مقلد ’’تحقیق‘‘ کررہا ہے۔
کیا اہل حدیث کی دشمنی میں قیصرعباس صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب سے بغاوت کا علم بلند کیا ہے؟
یاد رہے کہ ہمیں کسی شخص کےتحقیق کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ اندھے مقلدوں کے دوغلے پن پر اعتراض ہے جب تقلیدی مذہب سوائے امام کے کسی مقلد کو تحقیق و اجتہاد کی اجازت ہی نہیں دیتا تو یہ بے شرم کس منہ سے تحقیق کرتے ہیں۔ موصوف قیصر صاحب پہلے اپنے مذہب پر لعنت بھیجئے اس کے بعد جتنی چاہے تحقیق فرمائیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہ کیا غضب، ظلم اور اندھیرہے کہ ایک مقلد ’’تحقیق‘‘ کررہا ہے۔
کیا اہل حدیث کی دشمنی میں قیصرعباس صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب سے بغاوت کا علم بلند کیا ہے؟
یاد رہے کہ ہمیں کسی شخص کےتحقیق کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ اندھے مقلدوں کے دوغلے پن پر اعتراض ہے جب تقلیدی مذہب سوائے امام کے کسی مقلد کو تحقیق و اجتہاد کی اجازت ہی نہیں دیتا تو یہ بے شرم کس منہ سے تحقیق کرتے ہیں۔ موصوف قیصر صاحب پہلے اپنے مذہب پر لعنت بھیجئے اس کے بعد جتنی چاہے تحقیق فرمائیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
افسوس اس بات کا ہے آپ کی زبان بازار حسن کے دلال کی نمائندگی کر رہی ہے ،ایسے علمی فورم پہ اس قسم کا تجزیہ بھی مجھ جیسے طالب علم کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیتا ہے ۔کافی عرصہ قبل ہم بھی اس فارم کی ابحاث میں حصہ لیتے تھے ،لیکن کبھی اس قدر تہذیب سے گری گفتگو مجھ سے کسی نے نہیں کی۔خیر اعتراض کا جواب یہ ہے کہ تقلید غیر منصوص مسائل میں ہے ،روایات کی تحقیق میں نہیں۔اس لئے آپ کا اعتراض انتہائی لغو ہے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
در اصل بطور مثال جو فقرہ لکھا وہ واقعی مثالی ھے ، ملاحظہ فرمائیں :

افسوس اس بات کا ہے آپ کی زبان بازار حسن کے دلال کی نمائندگی کر رہی ہے ،
کیا ہی تجربہ رکھتے ھوں گے آپ نا صرف اس بازار کا بلکہ اس بازار بروکرز کا ، خاص قسم کے "طالب علم" نکلے آپ ۔

ویسے قیصر عباس صاحب کے مراسلہ پر جواب دینے کی ذمہ داری کس نے ڈالی تھی ؟

دلائل کے بغیر فیصلہ بھی صادر فرما گئے "۔۔۔اعتراض انتہائی لغو ھے" ۔
 

قیصر عباس

مبتدی
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
12
محترم طارق صاحب! رانا قادری صاحب درست فرما رہے ہیں کہ آپ کا اعتراض لغو ہے جس کا جواب دینے کی حاجت نہیں ہے
کیونکہ آپ یہ چاہتے ہو کہ ہمارا مذہب بیان بھی آپ اپنی مرضی سے کرو اور اس کے مطابق دلیل بھی ہم دیں جبکہ ہم آپ سے زیادہ جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں کیا جائز ہے کیا جائز نہیں. لأن صاحب الدار ادري ما في الدار من غيره...

بقیہ فضول بحث کا ویسے بھی میں عادی نہیں ہوں۔
آپ اپنی تحقیق پیش کر سکتے ہیں میں اپنی بقیہ اللہ سب کو ہدایت دے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم طارق صاحب! رانا قادری صاحب درست فرما رہے ہیں کہ آپ کا اعتراض لغو ہے جس کا جواب دینے کی حاجت نہیں ہے
کیونکہ آپ یہ چاہتے ہو کہ ہمارا مذہب بیان بھی آپ اپنی مرضی سے کرو اور اس کے مطابق دلیل بھی ہم دیں جبکہ ہم آپ سے زیادہ جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں کیا جائز ہے کیا جائز نہیں. لأن صاحب الدار ادري ما في الدار من غيره...

بقیہ فضول بحث کا ویسے بھی میں عادی نہیں ہوں۔
آپ اپنی تحقیق پیش کر سکتے ہیں میں اپنی بقیہ اللہ سب کو ہدایت دے۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی کسی بات یا دلیل پر اپنی بات پیش کرنے جیسی کوئی احمقانہ کوشش میں نے کی ہی نہیں ، کرنا بھی نہیں چاہتا ۔ آپ بخوشی کسی کو بھی سرٹیفکٹ دیتے رہیں کہ فلاں کی کہی بات درست ھے ۔ میں نے تو محض ان تحریروں پر لکھا جو آپ کے پیش کردہ سرٹیفکٹ ہولڈر نے جناب @شاہد نذیر کے مراسلہ کے جواب میں لکھی تھی ۔ آپ کا مراسلہ میری پوسٹ کے رد میں ھے ، جبکہ میں آپ سے مخاطب ہی نہیں ھوں تو آپ نے اپنا وہ سب ضائع کردیا کیا کہتے ہیں اسے ! یاد آیا "وقت" ، جو بقول آپکے

بقیہ فضول بحث کا ویسے بھی میں عادی نہیں ہوں۔
فضولیات سے عملا بچیں ، محض زبانی دعوی تو فضول ہی کہلائے گا۔
 
Top