• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلکی اختلاف ؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اختلاف امتی رحمۃ - امت کا اختلاف رحمت ہے ؟ موضوع روایت !!

[اس روایت کی کچھ اصل نہیں ہے ! محدثین نے اس کی سند معلوم کرنے کی بسیار کوشش کی لیکن انہیں اس کی سند پر اطلاع نہ ہو سکی یہاں تک کہ امام سیوطی رحمة اللہ نے مایوسی کے عالم میں کہہ دیا :و لعله خرج في بعض كتب الحفاظ التي لم تصل إلينا ! شائد اس حدیث کی تخریج حفاظ کی بعض ایسی کتب میں ہے جن تک ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔ (بحوالہ : الجامع الصغیر) لیکن امام سیوطی (رحمة اللہ) کے اس قول پر تنقید کرتے ہوئے علامہ البانی (رحمة اللہ) کہتے ہیں :و هذا بعيد عندي ..إذ يلزم منه أنه ضاع على الأمة بعض أحاديثه صلى الله عليه وسلم , و هذا مما لا يليق بمسلم اعتقاده . امام سیوطی کی یہ بات عقل و دانش سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ اگر امام سیوطی کے اس قول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث پر اطلاع نہیں ہو سکی جبکہ کسی مسلمان کے لیے لائق نہیں کہ وہ اس قسم کا عقیدہ اختیار کرے۔ امام مناوی (رحمة اللہ) نے امام سبکی (رحمة اللہ) سے نقل کیا ہے : و ليس بمعروف عند المحدثين , و لم أقف له على سند صحيح و لا ضعيف و لا موضوع . و أقره الشيخ زكريا الأنصاري في تعليقه على " تفسير البيضاوي " انہوں نے بیان کیا کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں معروف نہیں ہے اور مجھے اس کی صحیح ، ضعیف اور موضوع سند پر آگاہی حاصل نہیں ہو سکی ہے ، چانچہ شیخ زکریا انصاری نے "تفسیر بیضاوی" ( ق / 92 / 2) کے حواشی میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ یہ حدیث مفہوم کے لحاظ سے بھی محققین علماء کے نزدیک محل انکار میں ہے۔ علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :و هذا من أفسد قول يكون , لأنه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطا , و هذا ما لا يقوله مسلم , لأنه ليس إلا اتفاق أو اختلاف , و ليس إلا رحمة أو سخط . امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں : ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 ) اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟ شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیے کہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 ) لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاً مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔بحوالہ : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ، امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
لنک
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شیرانوالہ میں میرے ساتھ پڑھتے ہوئے آپ نہ رفع الیدین کریں نہ آمین بالجھر کہیں، ہمارے مہمان احمد علی حنفی ہیں، ان کا احترام کیا جائے
فاستغفراللہ و اتوب الیہ
مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚوَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾۔۔۔سورۃ الحشر
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْ فَاِنَ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ (پ3ع4)
اے پیغمبر! لوگوں کو کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی بات مانو اگر وہ نہ مانیں تو اللہ ایسے کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ (بخاری)
جو شخص میری سنت سے روگردانی کرے وہ میری امت سے خارج ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ اَوْ کَفَرْتُمْ (مسلم)
کہ اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دیا تو گمراہ بلکہ کافر ہو جاؤ گے۔

یہی فیصلہ ہے کتاب ہدیٰ کا
مخالف نبی کا ہے دشمن خدا کا
رفع الیدین فی الصلوۃ
عَنْ اَبِی بَکْرِ نِ الصِّدِیْقِ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَکَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلوٰۃَ وَاِذَا رَکَعَ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِن الرُّکُوْعِ
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تمام عمر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ (بیہقی جلد2صفحہ 73 تلخیص الجیرصفحہ 82جزء سبکی صفحہ 6 تاریخ خلفاء صفحہ 40)

عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں
ھٰذا مِنَ السُّنَّۃِ (جز رفع الیدین بخاری ص 22)
کہ رفع الیدین سنت ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَنْ تَرَکَہٗ فَقَدْ تَرَکَ السُنَّۃَ (اعلام الموقعین ص257)
جس نے رفع الیدین کو ترک کیا یقینا اس نے سنت کو ترک کیا۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تَارِکُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الرَّکُوْعِ وَالرَّفْعِ مِنْہُ تَارِکٌ لِلسُّنَّۃِ (اعلام الموقعین ص 257)
کہ جو شخص رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع الیدین نہیں کرتا وہ سنت کا تارک ہے۔

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَنْ تَرَکَ الرَّفْعَ الْیَدَیْنِ فِی الصَّلوٰۃِ فَقَدْ تَرَکَ رُکْنًا مِّنْ اَرْکَانِھَا۔(عینی جلد3ص 7)
کہ جس نے نماز میں رفع الیدین چھوڑ دی بیشک وہ نماز کے رکن کا تارک ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آمین بالجھر
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : مقتدی کا آمین بلند آواز سے کہنا

حدیث نمبر : 782
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سمى، مولى أبي بكر عن أبي صالح، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا قال الإمام ‏{‏غير المغضوب عليهم ولا الضالين‏}‏ فقولوا آمين‏.‏ فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏ تابعه محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ونعيم المجمر عن أبي هريرة رضى الله عنه‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی سے، انہوں نے ابوصالح سمان سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم بھی آمین کہو کیوں کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ آمین کہی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ سمی کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ اور نعیم مجمر نے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہ ساری تحریر ۔۔رواداری ۔۔کے عنوان پر غلط بیانیوں پر مشتمل ہے ۔
حدیث ’‘ اختلاف امتی ’‘ کے متعلق ارسلان بھائی نے خوب وضاحت کردی ہے۔جزاہ اللہ تعالی احسن الجزاء
اور امام ابوحنیفہ کی قبر پر امام شافعی ؒ کا واقعہ بھی غلط ہے ۔اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

پاک و ہند کا فقہی ماحول ہی ایسا ہے ،،کہ جو آدمی تحقیق کے بعد پیارے نبی ﷺ کی سنتیں اپناتا ہے ،اسے ایسی ہی رواداری کا سبق پڑھا کر تلقین کی جاتی ہے ،کہ ماحول کے خلاف یہ نامانوس عمل اپنا کر ’‘ اختلاف ’‘ کو ہوا نہ دو ۔
گویا ۔رواداری اور ۔۔اتفاق ۔۔اسی صورت ممکن ہے کہ ۔۔سنت ۔۔چھوڑدی جائے۔اور ہمیشہ کےلئے اسے بھلا دیا جائے۔
اور مسلکی مولوی صاحب کی ہر صورت ۔۔۔تقلید ۔۔کی جائے۔۔
اور حدیث و سنت کا نام عامی اپنی زبان پر نہ لائے۔۔
بس اسی صورت ’‘چین و سکون ’‘ معاشرے میں قائم رہ سکتا ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حدیث ’‘ اختلاف امتی رحمۃ ’‘کی حقیقت


وأما حديث: "اختلاف أمتي رحمة"، فهو حديث موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم
یہ حدیث بالکل جھوٹی اور نبی کریم پر بہتان ہے
قال الألباني في السلسلة الضعيفة في حديث رقم 57: لا أصل له وقد جهد المحدثون في أن يقفوا له على سند، فلم يوفقوا حتى قال السيوطي في الجامع الصغير: ولعله خرّج في بعض كتب الحفاظ التي لم تصل إلينا. وهذا بعيد عندي إذ يلزم منه أنه ضاع على الأمة بعض أحاديثه صلى الله عليه وسلم، وهذا مما لا يليق بمسلم اعتقاده.
ونقل المناوي عن السبكي أنه قال: "ليس بمعروف عند المحدثين، ولم أقف له على سند صحيح، ولا ضعيف، ولا موضوع.
وأقره الشيخ زكريا الأنصاري في تعليقه على تفسير البيضاوي. انتهى.
وقال فيه ابن حزم: باطل مكذوب.
وهذه العبارة قد أوردها كثير من العلماء والأئمة في كلامهم عن الاختلاف، وقد يشكل معناها خصوصاً مع تضافر نصوص الكتاب والسنة على ذم الاختلاف، وقد وفق بين ذلك ابن حزم في (الإحكام في أصول الأحكام)، فقال بعد ذكر هذه العبارة: وهذا من أفسد قول يكون، لأنه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطاً، وهذا مما لا يقوله مسلم، لأنه ليس إلا اتفاق أو اختلاف، وليس إلا رحمة أو سخط..

.​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ماشاء اللہ اچھے جوابات ہیں۔ کاش کوئی اہل علم انہی جوابات پر مبنی ”جوابی تحریر“ مذکورہ روزنامہ کو بھی ارسال کردے تاکہ اس مضمون کو پڑھنے والے سینکڑوں قارئین کے سامنے اصل صورتحال واضح ہوسکے۔ یہ ”سلسلہ“ پہلے بھی یہاں شروع کیا گیا تھا کہ اخبارات میں چھپنے والے ایسے مضامین کا جواب تیار کرکے بھیجا جائے۔ لیکن یہ سلسلہ بوجوہ رُک گیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شیخین کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے ، اس کی صحت کے بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے ، لیکن میرے خیال میں ایسی رواداری تو سنت کی قربانی کرکے ہوتی ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں اختلاف رکھنے والے جس کو حق سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں ، اور پھر دوسرے کو ناک بھوں چڑھانے کی بجائے رواداری کا مظاہرہ کریں ۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
شیخین کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے ، اس کی صحت کے بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے ، لیکن میرے خیال میں ایسی رواداری تو سنت کی قربانی کرکے ہوتی ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں اختلاف رکھنے والے جس کو حق سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں ، اور پھر دوسرے کو ناک بھوں چڑھانے کی بجائے رواداری کا مظاہرہ کریں ۔
بچوں کی مضحکہ خیز اٹھا پٹخ کے درمیان یوسف بھائی اور آپ کے مراسلات کو میں بہرحال سنجیدگی سے پڑھتا ہوں۔ لیکن آپ نے درج ذیل فقرہ لکھ کر حیرت زدہ کر دیا :
لیکن میرے خیال میں ایسی رواداری تو سنت کی قربانی کرکے ہوتی ہے ۔
یہ تو وہی بدگمانی اور عدم رواداری ہے جس کی عموما شکایت کی جاتی ہے۔ فقہی مسائل کو "سنت کی قربانی" سے تشبیہ دینا درست نہیں۔ ہر مسلک کے عوام کی کثیر تعداد کم علم ضرور ہوتی ہے مگر کسی بھی مسلک کے مسلمان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ سنت کو قربان کرے گا یا کر رہا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بچوں کی مضحکہ خیز اٹھا پٹخ کے درمیان یوسف بھائی اور آپ کے مراسلات کو میں بہرحال سنجیدگی سے پڑھتا ہوں۔ لیکن آپ نے درج ذیل فقرہ لکھ کر حیرت زدہ کر دیا :
لیکن میرے خیال میں ایسی رواداری تو سنت کی قربانی کرکے ہوتی ہے ۔
یہ تو وہی بدگمانی اور عدم رواداری ہے جس کی عموما شکایت کی جاتی ہے۔ فقہی مسائل کو "سنت کی قربانی" سے تشبیہ دینا درست نہیں۔ ہر مسلک کے عوام کی کثیر تعداد کم علم ضرور ہوتی ہے مگر کسی بھی مسلک کے مسلمان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ سنت کو قربان کرے گا یا کر رہا ہے۔
سنجیدگی سے مراسلات ملاحظہ کرنے پر آپ کا بہت شکریہ ، لیکن میرے خیال میں بات سمجھنے سمجھانے میں کوتاہی ہوگئی ہے ۔ کچھ مسائل ہوتے ہیں جن میں اختیار ہوتا ہے ’’ یوں بھی ٹھیک اور یوں بھی ‘‘ لیکن کچھ مسائل میں ’’ حق بات ‘‘ ایک ہی ہوتی ہے ۔ مسئلہ رفع الیدین آخری قبیل سے ہے ۔ جو سنت سمجھتے ہیں ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر رفع الیدین نماز کبھی نہیں پڑھی ۔ جو اس کے قائل نہیں ان کے نزدیک ’’ یہ پہلے سنت تھی پھر منسوخ ‘‘ ہوگئی ۔
مجھے بتائیں اب جو رفع الیدین کا قائل ہونے کے باوجود اس کو کسی کے احترام یا کسی اور مصلحت میں چھوڑے گا اس نے ’’ سنت ‘‘ کو چھوڑا کہ نہیں ۔؟
اور جو عدم رفع الیدین کا قائل ہے او رمنسوخ سمجھتا ہے اس نے اگر اسی طرح کی کسی مصلحت کی بنا پر رفع الیدین کیا تو گویا دین میں منسوخ چیز کو پھر سے دین کا حصہ بنادیا ۔
ہاں اگر کسی کے پاس دلیل ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کام ہی کرتے تھے تو گویا دونوں ہی سنت ہیں ان کو خاص موقعوں کے لیے خاص کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
 
Top