• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلکی اختلاف ؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بچوں کی مضحکہ خیز اٹھا پٹخ کے درمیان یوسف بھائی اور آپ کے مراسلات کو میں بہرحال سنجیدگی سے پڑھتا ہوں۔ لیکن آپ نے درج ذیل فقرہ لکھ کر حیرت زدہ کر دیا :
لیکن میرے خیال میں ایسی رواداری تو سنت کی قربانی کرکے ہوتی ہے ۔
یہ تو وہی بدگمانی اور عدم رواداری ہے جس کی عموما شکایت کی جاتی ہے۔ فقہی مسائل کو "سنت کی قربانی" سے تشبیہ دینا درست نہیں۔ ہر مسلک کے عوام کی کثیر تعداد کم علم ضرور ہوتی ہے مگر کسی بھی مسلک کے مسلمان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ سنت کو قربان کرے گا یا کر رہا ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
محترم حیدرآبادی بھائی
آپ نے شائد نادانستگی میں بچوں کی طرف سے پیش کردہ قرآن و حدیث کےدلائل کو "مضحکہ خیز اٹھاپٹخ" قرار دیا ہے؟
آپ سے نہایت ادب سے التماس ہے کہ جب بھی بچوں کی محفل میں تشریف لایاکریں تو بچوں کے پیش کردہ دلائل کے رد میں بھی کچھ دلائل ذکر کردیا کریں ۔
دوسرا یہ کہ کسی کے دل میں خیال آئے یا نہ آئےبہرحال جو بات قرآن وسنت کے واضح دلائل کے مخالف ہوگی وہ رد ہی کی جائے گی۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
مسئلہ رفع الیدین آخری قبیل سے ہے ۔ جو سنت سمجھتے ہیں ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر رفع الیدین نماز کبھی نہیں پڑھی ۔ جو اس کے قائل نہیں ان کے نزدیک ’’ یہ پہلے سنت تھی پھر منسوخ ‘‘ ہوگئی ۔
مجھے بتائیں اب جو رفع الیدین کا قائل ہونے کے باوجود اس کو کسی کے احترام یا کسی اور مصلحت میں چھوڑے گا اس نے ’’ سنت ‘‘ کو چھوڑا کہ نہیں ۔؟
اور جو عدم رفع الیدین کا قائل ہے او رمنسوخ سمجھتا ہے اس نے اگر اسی طرح کی کسی مصلحت کی بنا پر رفع الیدین کیا تو گویا دین میں منسوخ چیز کو پھر سے دین کا حصہ بنادیا ۔
ہاں اگر کسی کے پاس دلیل ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کام ہی کرتے تھے تو گویا دونوں ہی سنت ہیں ان کو خاص موقعوں کے لیے خاص کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
ہم دونوں ہی جانتے ہیں کہ یہ سب بیکار کی بحثیں ہیں جو سوشل میڈیا پر سوائے وقت کے زیاں کے اور کچھ نہیں دیتیں۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم کرنے کے اصل کاموں کی جانب توجہ رکھیں۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
آپ سے نہایت ادب سے التماس ہے کہ جب بھی بچوں کی محفل میں تشریف لایاکریں تو بچوں کے پیش کردہ دلائل کے رد میں بھی کچھ دلائل ذکر کردیا کریں ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ! پیارے بھائی میں بھی آپ سے دوبارہ التماس کر رہا ہوں کہ اراکین پر کوئی زبردستی کی پابندی نہ لگائیں۔ نہ ہر کوئی بچوں کے منہ لگنا پسند کرتا ہے اور نہ ہر کسی کے پاس اتنا فالتو وقت مفت میں پڑا ہوتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اس بات پر اس طرح بَابُ طَرْحِ الإِمَامِ المَسْأَلَةَ عَلَى أَصْحَابِهِ لِيَخْتَبِرَ مَا عِنْدَهُمْ مِنَ العِلْمِ باب باندھا ہے کہ بعض اوقات اللہ عزوجل ایک بچے کو دین کی کوئی ایسی بات سجھا دیتے ہیں جو فقہاء کو نہیں سوجھتی۔ اس کے ثبوت میں امام صاحب رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے جو کہ صحیح بخاری کے ایک دوسرے باب سے ہم نقل کر رہے ہیں:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَهِيَ مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟» فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ البَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هِيَ النَّخْلَةُ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: «لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا»

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک دفعہ بیان فرمایا: ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں گرتے اور وہ مسلمان کی مثال ہے۔ اے میرے صحابہ مجھے یہ بتاو کہ وہ درخت کون سا ہے؟ پس لوگ صحرا کے درختوں کا ذکر کرنے لگ گئے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں اس بات کو بیان کرنے سے شرما گیا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ہی بتلا دیں تو آپ نے کہا وہ کھجور کا درخت ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مجلس کے بعد اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات بیان کی ہے میرے دل میں یہ خیال آیا تھا تو انہوں نے کہا: اگر تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں یہ کہہ دیتے تو مجھے فلاں فلاں نعمت سے بھی زیادہ محبوب تھا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اہل حدیث علماء کی ایک خاص صفات یہ بھی ہے کہ ان کے سامنے ایک بچہ بھی حق بات کریں جو کہ قرآن و سنت کے مطابق ہو وہ اس کو بغیر کسی تاویل کے قبول کر لیتے ہیں -

جبکہ اس کے برعکس مقلدین عالم کے سامنے آپ کتنی ہی صحیح حدیث پیش کر دے چاھے وہ کوئی بڑا عالم دین ہی کیوں نہ ہو وہ اس کو قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے مذھب کے خلاف ہوتی ہے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قرآن و صحیح احادیث سے دوری = گمراہی


(فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )

میں تم لوگوں کو واضح ترین راہ پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح روشن ہیں میرے بعد اِس راستے سے ، ہلاک ہونے والا، ہی الگ ہوسکتا ہے


---------------------------------
(الترغيب والترهيب : 1/68 ، ،
صحيح الترغيب (الألباني) : 59))
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى

اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى

ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).

اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى

ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).


مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بچوں کی مضحکہ خیز اٹھا پٹخ کے درمیان یوسف بھائی اور آپ کے مراسلات کو میں بہرحال سنجیدگی سے پڑھتا ہوں۔ لیکن آپ نے درج ذیل فقرہ لکھ کر حیرت زدہ کر دیا :
لیکن میرے خیال میں ایسی رواداری تو سنت کی قربانی کرکے ہوتی ہے ۔
یہ تو وہی بدگمانی اور عدم رواداری ہے جس کی عموما شکایت کی جاتی ہے۔ فقہی مسائل کو "سنت کی قربانی" سے تشبیہ دینا درست نہیں۔ ہر مسلک کے عوام کی کثیر تعداد کم علم ضرور ہوتی ہے مگر کسی بھی مسلک کے مسلمان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ سنت کو قربان کرے گا یا کر رہا ہے۔
دعوت الی اللہ کس پرواجب ہے

کیا ہرمسلمان مرد وعورت پردعوت الی اللہ واجب ہے یا کہ صرف علماء کرام اورطلاب علم پرمنحصر ہے ؟

الحمد للہ :

جب انسان بصيرت كے ساتھ دعوت كا كام كرے توپھر اس میں کوئي‏ فرق نہیں کہ وہ کو‏ئى بڑا عالم ہو یا جس کی بات مانی جاۓ یا پھر وہ کوئي مجتھد طالب علم ہو اوریا کو‏ئى عامی ہو مسئلہ یہ ہے کہ اسے علم یقینی ہونا چاہیے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

( اگرایک آیت کا بھی علم ہے تواسے بھی آگے پہنچادو ) ۔

داعی کے لیے کوئ شرط نہیں کہ وہ ایک بڑا عالم دین ہی ہو لیکن شرط صرف اتنی ہے کہ جس چیزکی وہ دعوت دے رہا ہے اس میں اسے علم چاہیے ، یہ جائزنہیں کہ وہ اپنے دعوتی شوق سے ہی دعوت دینی شروع کردے اوروہ اس مسئلہ ميں جاہل ہو ۔

تواس لیے ہم دیکھتےہیں کہ جنہیں دعوتی کاموں کا شوق ہوتا ہے لیکن ان کے پاس علم بالکل نہیں ہوتا سواۓ قلیل سے علم کے جس قابل ذکرنہیں ہوتا جس کی بنا پروہ ایسی اشیاء حرام کرنا شروع کردیتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے توحرام نہیں کیا ، اوراسی طرح ان اشیاء کوواجب قراردیتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پرواجب نہیں کیا جوکہ ایک بہت ہی خطرناک بات ہے ۔

اس لیے کہ جسے اللہ تعالی نے حلال کیا ہواسے حرام قراردینا اللہ تعالی کی حرام کردہ چيزکوحلال کرنے کے مترادف ہے ، تومثلا جب وہ کسی دوسرے پراس چيزکے حلال ہونے کاانکارکریں گے تو ان کے علاوہ دوسرے ان پراس کے حرام ہونے کابھی انکارکریں گے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے یہ دونوں امربرابر قرار دیتے ہوۓ فرمایا ہے :

{ کسی چيزکے بارہ میں اپنی زبان سے جھوٹ موٹ یہ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اوریہ حرام ہے کہ اللہ تعالی پرجھوٹ بہتان باندھ لو سمجھـ لو کہ اللہ تعالی پربہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں } النحل ( 116 )۔

الشيخ محمد بن صالح بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پیالی میں طوفان اٹھانا تو کوئی ہم سے سیکھے (مسکراہٹ)۔ اس فورم کے قارئیں ہیں ہی کتنے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ ”حق“ سے یا تو آگاہ ہیں، یا ایک مرتبہ بتلادینے سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ جو بقیہ تھوڑے سے ہیں وہ کبھی مانے ہیں نہ مانیں گے۔ لیکن مندرجہ بالا مضمون جہاں چھپا ہے، وہ آفیشلی تو کراچی کا دوسرا بڑا اخبار ہے لیکن عملاً جنگ سے بھی زیادہ چھپتا ہے۔ یعنی ہزاروں عام لوگوں اس مضمون کو پڑھا اور درست سمجھا ہوگا۔ لیکن اُن ”معصوم قارئین“ تک حق بات پہنچانے والا کوئی نہیں۔ چونکہ یہ ایک ”عالم دین“ کا تحریر کردہ مضمون ہے۔ لہٰذا بہتر ہی ہوتا اگر جوابی مضمون بھی کسی عالم دین ہی کی طرف سے اخبار کو جائے، تب ہی اس کے چھپنے کا امکان ہوگا۔
 
Top