(1) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ - يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ - عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَؤونَ هَذِهِ الْآيَةَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [المائدة: 105] ، وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُغيِّرُوهُ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابِهِ " أخرجه الحميدي (3)، وأبو داود (4338) والترمذي (2168)
(1) قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔
( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 5-المآئدہ:105) اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔
تحقیق وتخریج: إسناده صحيح على شرط الشيخين. قيس: هو ابن أبي حازم. وأخرجه ابن أبي شيبة 15 / 174 - 175، وعنه ابن ماجه (4005) ، والمروزي في " مسند أبى بكر " (88) عن عبد الله بن نمير، بهذا الإسناد.
وأخرجه الحميدي (3) ، وأبو داود (4338) ، والمروزي (86) و (87) ، والبزار (65) ، وأبو يعلى (132) ، وابن حبان (304) من طرق عن إسماعيل بن أبي خالد، به.
وسيأتي برقم (16) و (29) و (30) و (53).
(2) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللهُ بِمَا شَاءَ مِنْهُ، وَإِذَا حَدَّثَنِي عَنْهُ غَيْرِي اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدَّثَنِي - وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ - أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ، قَالَ مِسْعَرٌ: وَيُصَلِّي، وَقَالَ سُفْيَانُ: ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَيَسْتَغْفِرُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا غُفَرَ لَهُ " أخرجه الطيالسي (1 و 2)، وأبو داود (1521) والترمذي (406)
(2) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا، اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا ۔
مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرمادے گا۔
تحقیق وتخریج: إسناده صحيح، عثمان بن المغيرة الثقفي من رجال البخاري، وباقي رجاله ثقات رجال الشيخين غير أسماء بن الحكم الفزاري، فقد روى له أصحاب السنن، قال الحافظ في " التقريب ": صدوق، وقال العجلي: كوفي تابعي ثقة، وذكره ابن سعد 6 / 157 في طبقة التابعين الذين رووا عن علي رضي الله عنه، وقال: كان قليل الحديث، وصحح حديثه هذا ابن حبان، وحسنه الترمذي وابن عدي، وجوّد إسناده الحافظ ابن حجر في " تهذيب التهذيب " في ترجمة أسماء بن الحكم. وكيع: هو ابن الجراح بن المليح الرؤاسي، ومسعر: هو ابن كدام، وسفيان: هو ابن سعيد بن مسروق الثوري.
وأخرجه الحميدي (4) ، وابن أبي شيبة 2 / 387، وعنه ابن ماجه (1395) ، والمروزي (9) عن وكيع، بهذا الإسناد.
وأخرجه ابن ماجه (1395) ، والمروزي (9) ، والبزار (9) ، وأبو يعلى (12) ، والطبري 4 / 96 من طرق عن وكيع، به.
وأخرجه الحميدي (1) ، والنسائي في " عمل اليوم والليلة " (415) ، والطبراني في " الدعاء " (1842) من طرق عن مسعر، به.
وأخرجه أبو يعلى (15) ، والطبراني (1842) من طرق عن سفيان، به.
وأخرجه البزار (11) ، وأبو يعلى (1) ، والطبراني (1842) من طريقين عن عثمان بن المغيرة، به.
وأخرجه الحميديُّ (5) ، والبزار (6) و (7) ، والطبري 4 / 96 من طريق أبي سعيد المقبري، عن علي بن أبي طالب، عن أبي بكر. وسيأتي برقم (47) و (48) و (56) .
(3) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو سَعِيدٍ - يَعْنِي الْعَنْقَزِيَّ - قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: اشْتَرَى أَبُو بَكْرٍ مِنْ عَازِبٍ سَرْجًا بِثَلاثَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا. قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعَازِبٍ: مُرِ الْبَرَاءَ فَلْيَحْمِلْهُ إِلَى مَنْزِلِي، فَقَالَ: لَا، حَتَّى تُحَدِّثَنَا كَيْفَ صَنَعْتَ حِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ مَعَهُ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَرَجْنَا فَأَدْلَجْنَا، فَأَحْثَثْنَا يَوْمَنَا وَلَيْلَتَنَا، حَتَّى أَظْهَرْنَا، وَقَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ، فَضَرَبْتُ بِبَصَرِي: هَلْ أَرَى ظِلًّا نَأْوِي إِلَيْهِ؟ فَإِذَا أَنَا بِصَخْرَةٍ، فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا فَإِذَا بَقِيَّةُ ظِلِّهَا، فَسَوَّيْتُهُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَرَشْتُ لَهُ فَرْوَةً، وَقُلْتُ: اضْطَجِعْ يَا رَسُولَ اللهِ، فَاضْطَجَعَ، ثُمَّ خَرَجْتُ أَنْظُرُ: هَلْ أَرَى أَحَدًا مِنَ الطَّلَبِ؟ فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلامُ؟ فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ. فَسَمَّاهُ فَعَرَفْتُهُ، فَقُلْتُ: هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: قُلْتُ: هَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِي؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَأَمَرْتُهُ فَاعْتَقَلَ شَاةً مِنْهَا، ثُمَّ أَمَرْتُهُ فَنَفَضَ ضَرْعَهَا مِنَ الْغُبَارِ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ فَنَفَضَ كَفَّيْهِ مِنَ الْغُبَارِ، وَمَعِي إِدَاوَةٌ عَلَى فَمِهَا خِرْقَةٌ، فَحَلَبَ لِي كُثْبَةً مِنَ اللَّبَنِ، فَصَبَبْتُ عَلَى الْقَدَحِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَافَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللهِ. فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ قُلْتُ: هَلْ أَنَى الرَّحِيلُ. قَالَ: فَارْتَحَلْنَا، وَالْقَوْمُ يَطْلُبُونَا، فَلَمْ يُدْرِكْنَا أَحَدٌ مِنْهُمْ إِلَّا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ عَلَى فَرَسٍ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا. فَقَالَ: " لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا " حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَّا فَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ قَدْرُ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا. وَبَكَيْتُ، قَالَ: " لِمَ تَبْكِي؟ " قَالَ: قُلْتُ: أَمَا وَاللهِ مَا عَلَى نَفْسِي أَبْكِي، وَلَكِنْ أَبْكِي عَلَيْكَ. قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اللهُمَّ اكْفِنَاهُ بِمَا شِئْتَ ". فَسَاخَتْ قَوَائِمُ فَرَسِهِ إِلَى بَطْنِهَا فِي أَرْضٍ صَلْدٍ، وَوَثَبَ عَنْهَا، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ هَذَا عَمَلُكَ، فَادْعُ اللهَ أَنْ يُنْجِّيَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ، فَوَاللهِ لَأُعَمِّيَنَّ عَلَى مَنْ وَرَائِي مِنَ الطَّلَبِ، وَهَذِهِ كِنَانَتِي فَخُذْ مِنْهَا سَهْمًا، فَإِنَّكَ سَتَمُرُّ بِإِبِلِي وَغَنَمِي فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا، فَخُذْ مِنْهَا حَاجَتَكَ. قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَاجَةَ لِي فِيهَا ". قَالَ: وَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُطْلِقَ، فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ. وَمَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَتَلَقَّاهُ النَّاسُ، فَخَرَجُوا فِي الطَّرِيقِ، وَعَلَى الْأَجَاجِيرِ، فَاشْتَدَّ الْخَدَمُ وَالصِّبْيَانُ فِي الطَّرِيقِ يَقُولُونَ: اللهُ أَكْبَرُ، جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ مُحَمَّدٌ. قَالَ: وَتَنَازَعَ الْقَوْمُ أَيُّهُمْ يَنْزِلُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْزِلُ اللَّيْلَةَ عَلَى بَنِي النَّجَّارِ، أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لِأُكْرِمَهُمْ بِذَلِكَ " فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا حَيْثُ أُمِرَ. قَالَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ: أَوَّلُ مَنْ كَانَ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، ثُمَّ قَدِمَ عَلَيْنَا ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى أَخُو بَنِي فِهْرٍ، ثُمَّ قَدِمَ عَلَيْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ رَاكِبًا، فَقُلْنَا مَا فَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هُوَ عَلَى أَثَرِي، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ. قَالَ الْبَرَاءُ: وَلَمْ يَقْدَمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَرَأْتُ سُوَرًا مِنَ الْمُفَصَّلِ، قَالَ إِسْرَائِيلُ: وَكَانَ الْبَرَاءُ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ
صححه البخاري (3615) ومسلم (2009) وابن حبان (6281)
(3) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے میرے والد حضرت عازب رضی اللہ عنہ سے تیرہ درہم کے عوض ایک زین خریدی اور میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے براء سے کہہ دیجئے کہ وہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک پہنچادے، انہوں نے کہا کہ پہلے آپ وہ واقعہ سنائیے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور آپ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شب ہجرت ہم لوگ رات کی تاریکی میں نکلے اور سارا دن اور ساری رات تیزی سے سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا، میں نے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کہیں کوئی سایہ نظر آتا ہے یا نہیں؟ مجھے اچانک ایک چٹان نظر آئی، میں اسی کی طرف لپکا تو وہاں کچھ سایہ موجود تھا، میں نے وہ جگہ برابر کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے لئے اپنی پوستین بچھادی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا یا رسول اللہ! کچھ دیر آرام فرما لیجئے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے۔
ادھر میں یہ جائزہ لینے کے لئے نکلا کہ کہیں کوئی جاسوس تو نہیں دکھائی دے رہا؟ اچانک مجھے بکریوں کا ایک چرواہا مل گیا، میں نے اس سے پوچھا بیٹا! تم کس کے ہو؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جسے میں جانتا تھا ، میں نے اس سے فرمائش کی کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، میں نے اس سے دودھ دوہ کر دینے کی فرمائش کی تو اس نے اس کا بھی مثبت جواب دیا، اور میرے کہنے پر اس نے ایک بکری کو قابو میں کرلیا۔
پھر میں نے اس سے بکری کے تھن پر سے غبار صاف کرنے کو کہا جو اس نے کردیا، پھر میں نے اس سے اپنے ہاتھ جھاڑنے کو کہا تاکہ وہ گردوغبار دور ہوجائے چنانچہ اس نے اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لیے، اس وقت میرے پاس ایک برتن تھا، جس کے منہ پر چھوٹا ساکپڑا لیپٹا ہوا تھا، اس برتن میں اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا اور میں نے اس پر پانی چھڑک دیا تاکہ برتن نیچے سے ٹھنڈا ہوجائے۔
اس کے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو، جب میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوچکے تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ دودھ نوش فرمانے کی درخواست کی، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کرلیا اور اتنا دودھ پیا کہ میں مطمئن اور خوش ہوگیا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اب روانگی کا وقت آگیا ہے اور اب ہمیں چلنا چاہئے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر ہم وہاں سے روانہ ہوگئے، پوری قوم ہماری تلاش میں تھی، لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے علاوہ جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا ہمیں کوئی نہ پاسکا، سراقہ کو دیکھ کر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ جاسوس ہم تک پہنچ گیا ہے، اب کیا ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ غمگین اور دل برداشتہ نہ ہوں، اللہ ہمارے ساتھ ہے، ادھر وہ ہمارے اور قریب ہو گیا اور ہمارے اور اس کے درمیان ایک یا دو تین نیزوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا، میں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ توہمارے قریب پہنچ گیا ہے اور یہ کہہ کر میں رو پڑا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا بخدا! میں اپنے لئے نہیں رو رہا، میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے رو رہا ہوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا گیا تو یہ نجانے کیا سلوک کریں گے؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کے لئے بد دعاء فرمائی کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے، اس سے ہماری کفایت اور حفاظت فرما۔
اس وقت اس کے گھوڑے کے پاؤں پیٹ تک زمین میں دھنس گئے، حالانکہ وہ زمین انتہائی سپات اور سخت تھی، اور سراقہ اس سے نیچے گر پڑا اور کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میں جانتاہوں کہ یہ آپ کا کوئی عمل ہے، آپ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے دے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کی تلاش میں اپنے پیچے آنے والے تمام لوگوں پر آپ کو مخفی رکھوں گا اور کسی کو آپ کی خبر نہ ہونے دوں گا، نیز یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر بطور نشانی کے آپ لے لیجئے، فلاں فلاں مقام پر آپ کا گذر میرے اونٹوں اور بکریوں پر ہوگا، آپ کو ان میں سے جس چیز کی جتنی ضرورت ہو، آپ لے لیجئے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اسے رہائی مل گئی، اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس لوٹ گیا اور ہم دونوں اپنی راہ پر ہو لئے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے، لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے، کچھ اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرنے لگے، اور راستے ہی میں بچے اور غلام مل کر زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر لوگوں میں یہ جھگڑا ہونے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس قبیلے کے مہمان بنیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا آج رات تو میں خواجہ عبدالمطلب کے اخوال بنو نجار کا مہمان بنوں گا تاکہ ان کے لئے باعث عزت و شرف ہوجائے، چنانچہ ایساہی ہوا اور جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے جہاں کا آپ کو حکم ملا ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ہمارے یہاں سب سے پہلے حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ اللہ عنہ ”جن کا تعلق بنو عبدالدار سے تھا“ تشریف لائے تھے، پھر بنو فہر سے تعلق رکھنے والے ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیس سواروں کے ساتھ ہمارے یہاں رونق افروز ہوگئے۔
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی پیچھے پیچھے آرہے ہیں، چنانچہ کچھ ہی عرصے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہوگئے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ آئے۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل ہی میں مفصلات کی متعدد سورتیں پڑھ اور یاد کرچکا تھا، راوی حدیث اسرائیل کہتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو حارثہ سے تھا۔
تحقیق وتخریج: إسناده صحيح على شرط مسلم، رجاله ثقات رجال الشيخين غير عمرو بن محمد العنقزي، فمن رجال مسلم.
إسرائيل: هو ابن يونس بن أبي إسحاق السَّبيعي، وسماعه من جده أبي إسحاق - عمرو بن عبد الله - في غاية الإتقان للزومه إياه، وكان خصِّيصاً به. قاله الحافظ ابن حجر في " الفتح " 1 / 351.
وأخرجه البزار (50) عن حوثرة بن محمد المنقري، عن عمرو بن محمد العنقزي، بهذا الإسناد.
وأخرجه ابن أبي شيبة 14 / 327 - 330، والبخاري (3615) و (3652) ومسلم 4 / 2310، والمروزي (62) و (65) ، والبزار (51) ، وأبو يعلى (116) ، وابن حبان (6281) و (6870) ، والبيهقي في " دلائل النبوة " 2 / 483 - 484 من طرق عن إسرائيل، به.
وأخرجه البخاري (3615) ، ومسلم 4 / 2309، والبيهقي 2 / 485 من طريق زهير بن معاوية، عن أبي إسحاق، به مختصراً. وسيأتي برقم (50) .