• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند احمد (مسند الخلفاء الراشدین) یونیکوڈ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(31) حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ. وَعَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: أخْبَرَنَا فَرْقَدٌ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ". [اسناده ضعيف] [راجع: 13]
(31) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا۔


(32) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خَبٌّ، وَلا بَخِيلٌ، وَلا مَنَّانٌ، وَلا سَيِّئُ الْمَلَكَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَطَاعَ اللهَ وَأَطَاعَ سَيِّدَهُ". [اسناده ضعيف] [راجع: 13]
(32) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی دھوکہ باز، کوئی بخیل، کوئی احسان جتانے والا اور کوئی بداخلاق جنت میں داخل نہ ہوگا، اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص بجائے گا وہ غلام ہوگا، بشرطیکہ وہ اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہو اور اپنے آقا کی بھی اطاعت کرتا ہو۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(33) حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَفَاقَ مِنْ مَرْضَةٍ لَهُ، فَخَرَجَ إِلَى النَّاسِ، فَاعْتَذَرَ بِشَيْءٍ، وَقَالَ: مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا: خُرَاسَانُ، يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ". [قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 12]
(33) عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کچھ بیمار ہوگئے، جب صحت یاب ہوئے تو لوگوں سے ملنے باہر تشریف لائے لوگوں سے معذرت کی اور فرمایا ہم تو صرف خیر ہی چاہتے ہیں، پھر فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے کہ دجال ایک مشرقی علاقے سے خروج کرے گا جس کا نام " خراسان " ہوگا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمانوں کی طرح ہوں گے۔


(34) حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ - رَجُلًا مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً: قَالَ -: سَمِعْتُ أَوْسَطَ الْبَجَلِيَّ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَخْطُبُ النَّاسَ - وَقَالَ مَرَّةً: حِينَ اسْتُخْلِفَ - فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَامَ الْأَوَّلِ مَقَامِي هَذَا - وَبَكَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ - فَقَالَ: "أَسْأَلُ اللهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ، فَإِنَّ النَّاسَ لَمْ يُعْطَوْا بَعْدَ الْيَقِينِ شَيْئًا خَيْرًا مِنَ الْعَافِيَةِ، وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّهُ فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ، وَهُمَا فِي النَّارِ، وَلا تَقَاطَعُوا، وَلا تَبَاغَضُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا إِخْوَانًا كَمَا أَمَرَكُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ". [قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 5]
(34) اوسط کہتے ہیں کہ خلافت کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا میں اللہ سے درگذر اور عافیت کی درخواست کرتا ہوں، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی جنت میں ہوگی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو، اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔


(35) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ - يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ - عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ بَشَّرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ". [صححه ابن حبان (7066) قال شعيب: اسناده حسن] [وانظر: 4255]
(35) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرات شیخین عنہما نے انہیں یہ خوشخبری دی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح نازل ہوا ہے، اسی طرح اس کی تلاوت پر مضبوطی سے جما رہے، اسے چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت ابن ام عبد یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت پر کرے۔


(36) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ. قَالَ: غَضًّا أَوْ رَطْبًا. [قال شعيب: اسناده صحيح] [يأتي في مسند عمر: 175]
(36) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، البتہ اس میں غضایا رطبا دونوں الفاظ آئے ہیں۔


(37) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ وَسَعِيدُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ أَبِي الْحُسَامِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ: تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاذَا يُنْجِينَا مِمَّا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِي أَنْفُسِنَا؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " يُنْجِيكُمْ مِنْ ذَلِكَ أَنْ تَقُولُوا مَا أَمَرْتُ بِهِ عَمِّي أَنْ يَقُولَهُ فلمْ يَقُلْهُ ". [قال شعيب: صحيح لغيره] [راجع: 20]
(37) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس چیز کی بڑی تمنا تھی کہ کاش! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پہلے یہ دریافت کر لیتا کہ شیطان ہمارے دلوں میں جو وساوس اور خیالات ڈالتا ہے، ان سے ہمیں کیا چیز بچا سکتی ہے؟ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ چکا ہوں، جس کا جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دیا تھا کہ تم وہی کلمہ توحید کہتے رہو جو میں نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا لیکن انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کردیا تھا، اس کلمہ کی کثرت ہی تمہیں ان وساوس سے نجات دلا دے گی۔


(38) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ النَّاسَ لَمْ يُعْطَوْا فِي الدُّنْيَا خَيْرًا مِنَ الْيَقِينِ وَالْمُعَافَاةِ، فَسَلُوهُمَا اللهَ عَزَّ وَجَلَّ ". [قال شعيب: صحيح لغيره] [راجع: 5]
(38) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگو! انسان کو دنیا میں ایمان اور عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے ان دونوں چیزوں کی دعاء کرتے رہا کرو۔
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(39) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَحْفِرُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ يَضْرَحُ كَحَفْرِ أَهْلِ مَكَّةَ، وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ زَيْدُ بْنُ سَهْلٍ يَحْفِرُ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ فَكَانَ يَلْحَدُ، فَدَعَا الْعَبَّاسُ رَجُلَيْنِ، فَقَالَ لِأَحَدِهِمَا: اذْهَبْ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ، وَلِلْآخَرِ: اذْهَبْ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ، اللهُمَّ خِرْ لِرَسُولِكَ. قَالَ: فَوَجَدَ صَاحِبُ أَبِي طَلْحَةَ أَبَا طَلْحَةَ فَجَاءَ بِهِ، فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [قال شعيب: صحيح بشواهده] [يأتي برقم: 2357]
(39) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب قبر مبارک کی کھدوائی کا ارادہ کیا اور معلوم ہوا کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ صندوقی قبر بناتے ہیں جیسے اہل مکہ، اور حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ "جن کا اصل نام زید بن سہل تھا" اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر بناتے ہیں، تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے دو آدمیوں کو بلایا، ایک کو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور دوسرے کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اللہ عنہ کے پاس، اور دعاء کی کہ اے اللہ! اپنے پیغمبر کے لئے جو بہتر ہو اسی کو پسند فرمالے، چنانچہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس جانے والے آدمی کو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مل گئے اور وہ انہی کو لے کر آگیا، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بغلی قبر تیار کی گئی۔


(40) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ صَلاةِ الْعَصْرِ بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَيَالٍ، وَعَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلامُ يَمْشِي إِلَى جَنْبِهِ، فَمَرَّ بِحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ يَلْعَبُ مَعَ غِلْمَانٍ، فَاحْتَمَلَهُ عَلَى رَقَبَتِهِ وَهُوَ يَقُولُ: وَا بِأَبِي شِبْهُ النَّبِيِّ لَيْسَ شَبِيهًا بِعَلِيِّ قَالَ: وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ. [صححه البخاري (3542) والحاكم (3/168)
(40) حضرت عقبہ بن حارث رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے چند دن بعد عصر کی نماز پڑھ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد نبوی سے نکلا، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ایک جانب تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا گذر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا جو اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمانے لگے میرے باپ قربان ہوں ، یہ تو پورا پورا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہے علی کے مشابہہ تھوڑی ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(41) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، فَجَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ فَاعْتَرَفَ عِنْدَهُ مَرَّةً فَرَدَّهُ، ثُمَّ جَاءَهُ فَاعْتَرَفَ عِنْدَهُ الثَّانِيَةَ فَرَدَّهُ، ثُمَّ جَاءَهُ فَاعْتَرَفَ الثَّالِثَةَ فَرَدَّهُ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّكَ إِنِ اعْتَرَفْتَ الرَّابِعَةَ رَجَمَكَ، قَالَ: فَاعْتَرَفَ الرَّابِعَةَ، فَحَبَسَهُ، ثُمَّ سَأَلَ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، قَالَ: فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ. [قال شعيب: صحيح لغيره]
(41) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنی دیر میں ماعز بن مالک آ گئے اور ایک مرتبہ بدکاری کا اعتراف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بھیج دیا، دوسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا، تیسری مربتہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بھیجا تو میں نے ان سے کہا اگر تم نے چوتھی مرتبہ بھی اعتراف کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں رجم کی سزا دیں گے، تاہم انہوں نے چوتھی مرتبہ آکر بھی اعتراف جرم کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا اور لوگوں سے ان کے متعلق دریافت کیا، لوگوں نے بتایا کہ ہمیں تو ان کے بارے میں خیر ہی کا علم ہے، بہرحال! ضابطے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کرنے کا حکم دے دیا۔


(42) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ ذِي عَصْوَانَ الْعَنْسِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّخْمِيِّ عَنْ رَافِعٍ الطَّائِيِّ رَفِيقِ أَبِي بَكْرٍ فِي غَزْوَةِ السُّلاسِلِ، قَالَ: وَسَأَلْتُهُ عَمَّا قِيلَ مِنْ بَيْعَتِهِمْ، فَقَالَ - وَهُوَ يُحَدِّثُهُ عَمَّا تَكَلَّمَتْ بِهِ الْأَنْصَارُ وَمَا كَلَّمَهُمْ بِهِ، وَمَا كَلَّمَ بِهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْأَنْصَارَ، وَمَا ذَكَّرَهُمْ بِهِ مِنْ إِمَامَتِي إِيَّاهُمْ بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ -: فَبَايَعُونِي لِذَلِكَ، وَقَبِلْتُهَا مِنْهُمْ، وَتَخَوَّفْتُ أَنْ تَكُونَ فِتْنَةٌ، وتَكُونُ بَعْدَهَا رِدَّةٌ. [قال شعيب: اسناده جيد]
(42) حضرت رافع طائی جو غزوہ ذات السلاسل میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے رفیق تھے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے انصار کی بیعت کے بارے میں کہی جانے والی باتوں کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے وہ باتیں بیان فرمائیں جو انصار نے کہی تھیں، یا جو خود انہوں نے فرمائی تھیں، یا جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انصار سے کی تھیں اور انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ کے مرض الوفات میں وہ لوگ میری امامت میں نماز ادا کرتے رہے ہیں، اس پر تمام انصار نے میری بیعت کرلی، اور میں نے اسے ان کی طرف سے قبول کرلیا، بعد میں مجھے اندیشہ ہو کہ کہیں یہ کسی امتحان کا سبب نہ بن جائے چنانچہ اس کے بعد فتنہ ارتداد پیش آکر رہا۔


(43) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي وَحْشِيُّ بْنُ حَرْبِ بْنِ وَحْشِيِّ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ وَحْشِيِّ بْنِ حَرْبٍ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَقَدَ لِخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ عَلَى قِتَالِ أَهْلِ الرِّدَّةِ وَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " نِعْمَ عَبْدُ اللهِ وَأَخُو الْعَشِيرَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَسَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللهِ سَلَّهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى الْكُفَّارِ وَالْمُنَافِقِينَ ". [صححه الحاكم (3/298) قال الهيثمي (9/247): رجاله ثقات، [قال شعيب: صحيح بشواهده]
(43) حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین سے قتال کے لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے اعزاز میں خصوصی طور پر جھنڈا تیار کروایا اور فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کا بہترین بندہ اور اپنے قبیلہ کا بہترین فرد خالد بن ولید ہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جو اللہ نے کفار ومنافقین کے خلاف میان سے نکال کر سونت لی ہے۔


(44) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ - يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ - عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ الْكَلاعِيِّ عَنْ أَوْسَطَ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَنَةٍ، فَأَلْفَيْتُ أَبَا بَكْرٍ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ، فَخَنَقَتْهُ الْعَبْرَةُ ثَلاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، سَلُوا اللهَ الْمُعَافَاةَ، فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ أَحَدٌ مِثْلَ يَقِينٍ بَعْدَ مُعَافَاةٍ، وَلا أَشَدَّ مِنْ رِيبَةٍ بَعْدَ كُفْرٍ، وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّهُ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّهُ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَهُمَا فِي النَّارِ. [صححه ابن حبان (952)، [قال شعيب: اسناده حسن] [راجع: 5]
(44) اوسط کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ حاضر ہوا، تو میں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے پایا، انہوں نے فرمایا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر فرمایا لوگو! اللہ سے درگذر کی درخواست کیا کرو، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، اسی طرح کفر کے بعد شک سے بدترین چیز کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی۔


(45) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ أَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ الْمَكْفُوفُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ قَالُوا: يَوْمُ الِاثْنَيْنِ. قَالَ: فَإِنْ مِتُّ مِنْ لَيْلَتِي، فَلا تَنْتَظِرُوا بِي الْغَدَ، فَإِنَّ أَحَبَّ الْأَيَّامِ وَاللَّيَالِي إِلَيَّ أَقْرَبُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [اسناده ضعيف]
(45) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اس دنیوی زندگی کے آخری لمحات قریب آئے، تو انہوں نے پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ پیر کا دن ہے، فرمایا اگر میں آج ہی رات دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا بلکہ رات ہی کو دفن کردینا کیونکہ مجھے وہ دن اور رات زیادہ محبوب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہو۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(46) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَامٍ، فَقَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامِي عَامَ الْأَوَّلِ، فَقَالَ: " سَلُوا اللهَ الْعَافِيَةَ، فَإِنَّهُ لَمْ يُعْطَ عَبْدٌ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنَ الْعَافِيَةِ، وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ وَالْبِرِّ فَإِنَّهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ وَالْفُجُورَ فَإِنَّهُمَا فِي النَّارِ ". [قال شعيب: صحيح لغيره [انظر: 66] [راجع: 5]
(46) حضرت ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پورے ایک سال بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ گذشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ کسی انسان کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی سچائی اور نیکی کو اختیار کرو اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ اور گناہ سے بچو کیونکہ یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔


(47) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ، مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَسْمَاءَ أَوِ ابْنِ أَسْمَاءَ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: كُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا نَفَعَنِي اللهُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي مِنْهُ، وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ، وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَتَوَضَّأُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللهَ لِذَلِكَ الذَّنْبِ، إِلَّا غَفَرَ لَهُ " وَقَرَأَ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: {وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا} [النساء: 110] ، {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ} [آل عمران: 135]. [قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 2]
(47) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا۔
مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرما دے گا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو آیتیں پڑھیں " جو شخص کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے ، پھر اللہ سے معافی مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا مہربان پائے گا " اور " وہ لوگ کہ جب وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا اپنے اوپر ظلم کریں"۔


(48) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ مِنْ آلِ أَبِي عَقيْلٍ الثَّقَفِيِّ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: قَالَ شُعْبَةُ: وَقَرَأَ إِحْدَى هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ {مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ} [النساء: 123] ، {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً} [آل عمران: 135]. [قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 2]
(48) ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے، البتہ اس میں امام شعبہ رحمہ اللہ کا یہ قول منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو میں سے کسی ایک آیت کی تلاوت فرمائی۔
(وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 4-النسآء:110)۔ یا ۔ ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ 3-آل عمران:135)


(49) حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ خَطَبَنَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا عَامَ أَوَّلَ، فَقَالَ: " أَلا إِنَّهُ لَمْ يُقْسَمْ بَيْنَ النَّاسِ شَيْءٌ أَفْضَلُ مِنَ الْمُعَافَاةِ بَعْدَ الْيَقِينِ، أَلا إِنَّ الصِّدْقَ وَالْبِرَّ فِي الْجَنَّةِ، أَلا إِنَّ الْكَذِبَ وَالْفُجُورَ فِي النَّارِ ". [قال شعيب: صحيح لغيره]
(49) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے، اور فرمایا کہ گذشتہ سال ہمارے درمیان اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ لوگوں کے درمیان ایمان ویقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت تقسیم نہیں کی گئی، یاد رکھو! سچائی جنت میں ہے اور جھوٹ اور گناہ جہنم میں۔


(50) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ عَطِشَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرُّوا بِرَاعِي غَنَمٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: فَأَخَذْتُ قَدَحًا فَحَلَبْتُ فِيهِ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، فَأَتَيْتُهُ بِهِ، فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ. [قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 3]
(50) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرکے آرہے تھے تو راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی، اتفاقا وہاں سے بکریوں کے ایک چرواہے کا گذر ہوا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک پیالہ لے کر اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھوڑا سا دودھ دوہا اور اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(51) حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أخبرني يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَقُولُهُ إِذَا أَصْبَحْتُ، وَإِذَا أَمْسَيْتُ، وَإِذَا أَخَذْتُ مَضْجَعِي. قَالَ: "قُلْ: اللهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاواتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ - أَوْ قَالَ: اللهُمَّ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ - رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ". [قال شعيب: اسناده صحيح] [انظر: 52،63 وسيأتي في مسند أبي هريرة: 7948]
(51) ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے جو میں صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت پڑھ لیا کروں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء سکھائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتاہوں ۔


(52) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَاصِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ... فَذَكَرَ مَعْنَاهُ. [صححه ابن حبان (305) قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 51]
(52) یہی حدیث ایک دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے جو عبارت میں مذکور ہے۔


(53) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ: أَنَّهُ خَطَبَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ، وَتَضَعُونَهَا عَلَى غَيْرِ مَا وَضَعَهَا اللهُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَهُمْ، فَلَمْ يُنْكِرُوهُ، يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابِِ". [راجع: 1]
(53) قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو
(يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 5-المآئدہ:105)
اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اور تم اسے اس صحیح محمل پر محمود نہیں کرتے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔


(54) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَوَّارٍ الْقَاضِيَ، يَقُولُ: عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: أَغْلَظَ رَجُلٌ لِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: أَلا أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ فَانْتَهَرَهُ وَقَالَ: مَا هِيَ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [قال الالباني: صحيح (أبو داؤد: 4363)]
(54) حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی اور انتہائی سخت کلمات کہے، میں نے عرض کیا کہ میں اس کی گردن نہ اڑادوں؟ حضرت صدیق اکبر عنہ نے مجھے پیار سے جھڑک کر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ بات کسی کے لئے نہیں ہے۔ (شان رسالت میں گستاخی کی سزا تو یہی ہے البتہ ہم اپنے لئے اس کی اجازت نہیں دیں گے)


(55) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ " وَإِنِّي وَاللهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَإِنِّي لَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْحَقِّ، وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ. [صححه البخاري (4240) ومسلم (1759)]
(55) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ، فدک اور خیبر کے خمس کی میراث کا مطالبہ لے کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک خادم بھیجا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ سب صدقہ ہوتاہے، البتہ آل محمد اس مال میں سے کھا سکتی ہے، اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا، اور میں اس میں اسی طرح کام کروں گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، گویا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ بھی حضرت فاطمہ عنہا کو دینے سے انکار کردیا جس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طبیعت میں (فطرت انسانی کی بناء پر) ایک بوجھ آیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے سے میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار زیادہ محبوب ہیں، لیکن اس مال کے حوالے سے میرے اور آپ کے درمیان جو اختلاف رائے ہے، اس میں حق سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح کوئی کام کرتے ہوئے سنا ہے، میں اسی طرح اس کام کو کرنا ترک نہیں کروں گا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(56) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا قَالَ: كُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللهُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي مِنْهُ، وَإِذَا حَدَّثَنِي غَيْرُي اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ، وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ، وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَيَسْتَغْفِرُ اللهَ، إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ " ثُمَّ تَلا {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ} [آل عمران: 135]. [قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 2]
(56) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا۔
مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق عنہ اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرمادے گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " اور وہ لوگ کہ جب وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا اپنی جان پر ظلم کریں ۔ ۔ ۔ ۔ "


(57) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا زَيْدُ بْنَ ثَابِتٍ، إنْك غُلامٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ، قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ. [صححه البخاري (4986) وابن حبان (4507)] [انظر: 76]
(57) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھے جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے حفاظ کی خبر بھجوائی اور مجھ سے فرمایا کہ زید! تم ایک سمجھ دار نوجوان ہو، ہم تمہیں کسی غلط کام کے ساتھ متہم بھی نہیں پاتے، تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہو، اس لئے قرآن کریم کو مختلف جگہوں سے تلاش کر کے یکجا اکٹھا کرو۔


(58) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَهُ مِنْ فَدَكَ، وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ، فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، وَإِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ " وَإِنِّي وَاللهِ لَا أَدَعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلَّا صَنَعْتُهُ. [راجع: 9]
(58) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ لے کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لائے اس وقت ان دونوں کا مطالبہ ارض فدک اور خیبر کا حصہ تھا، ان دونوں بزرگوں کی گفتگو سننے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال میں سے کھا سکتی ہے، اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔


(59) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ - يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ -، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: قِيلَ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا خَلِيفَةَ اللهِ. فَقَالَ: أَنَا خَلِيفَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا رَاضٍ بِهِ. [قال شعيب: اسناده ضعيف] [انظر: 64]
(59) ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو "یا خلیفۃ اللہ" کہہ کر پکارا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں بلکہ خلیفہ رسول اللہ ہوں اور میں اسی درجے پر راضی ہوں۔


(60) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ لِأَبِي بَكْرٍ: مَنْ يَرِثُكَ إِذَا مِتَّ؟ قَالَ: وَلَدِي وَأَهْلِي. قَالَتْ: فَمَا لَنَا لَا نَرِثُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُورَثُ "، وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُ، وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ. [قال شعيب: صحيح لغيره] [انظر: 79]
(60) ابوسلمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب آپ اس دنیا سے کوچ فرمائیں گے تو آپ کا وارث کون ہوگا؟ فرمایا میرے بیوی بچے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ پھر ہم کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث نہیں؟ فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عیال داری اور نگہبانی فرماتے تھے میں ان کی عیال داری اور کفالت کرتا رہوں گا، اور جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے میں اس پر خرچ کرتا رہوں گا۔
 
Last edited by a moderator:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(61) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فِي عَمَلِهِ، فَغَضِبَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَدَّ غَضَبُهُ عَلَيْهِ جِدًّا، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ قُلْتُ: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ أَضْرِبُ عُنُقَهُ، فَلَمَّا ذَكَرْتُ الْقَتْلَ صَرَفَ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ أَجْمَعَ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ النَّحْوِ، فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا أَرْسَلَ إِلَيَّ بَعْدَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَرْزَةَ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: وَنَسِيتُ الَّذِي قُلْتُ، قُلْتُ: ذَكِّرْنِيهِ، قَالَ: أَمَا تَذْكُرُ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا وَاللهِ. قَالَ: أَرَأَيْتَ حِينَ رَأَيْتَنِي غَضِبْتُ عَلَى الرَّجُلِ فَقُلْتَ: أَضْرِبُ عُنُقَهُ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ؟ أَمَا تَذْكُرُ ذَاكَ؟ أَوَ كُنْتَ فَاعِلًا ذَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ وَاللهِ، وَالْآنَ إِنْ أَمَرْتَنِي فَعَلْتُ. قَالَ: وَيْحَكَ - أَوْ: وَيْلَكَ - إِنَّ تِلْكَ وَاللهِ مَا هِيَ لِأَحَدٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [راجع: 54]
(61) حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی کام میں مشغول تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اسی دوران ایک مسلمان پر کسی وجہ سے غصہ آگیا اور وہ غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا، جب میں نے صورت حال دیکھی تو عرض کیا یا خلیفۃ رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں گفتگو کا عنوان اور موضوع ہی بدل دیا۔
جب ہم لوگ وہاں سے فراغت کے بعد منتشر ہوگئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ذریعے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا ابوبرزہ! تم کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے عرض کیا واللہ مجھے یاد نہیں ہے۔
فرمایا یاد کرو جب تم نے مجھے ایک شخص پر غصہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا تو تم نے کہا تھا یا خلیفۃ رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ یاد آیا؟ کیا تم واقعی ایسا کر گزرتے؟ میں نے قسم کھا کر عرض کیا جی ہاں ! اگر آپ اب بھی مجھے یہ حکم دیں تو میں اسے پورا کر گذروں، فرمایا افسوس! اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں ہے۔


(62) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ". [راجع: 7]
(62) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسواک منہ کی پاکیزگی اور پروردگار کی خوشنودی کا سبب ہے۔


(63) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَاصِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، قُلْ لِي شَيْئًا أَقُولُهُ إِذَا أَصْبَحْتُ وَإِذَا أَمْسَيْتُ، قَالَ: " قُلِ: اللهُمَّ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، فَاطِرَ السَّمَاواتِ وَالْأَرْضِ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ ". وَأَمَرَهُ أَنْ يَقُولَهُ إِذَا أَصْبَحَ وَإِذَا أَمْسَى، وَإِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ. [راجع: 51]
(63) ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے جو میں صبح وشام پڑھ لیا کروں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ! اے آسمان وزمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور انہیں حکم دیا کہ صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعاء پڑھ لیا کریں۔


(64) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: قِيلَ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا خَلِيفَةَ اللهِ. قال: فَقَالَ: بَلْ خَلِيفَةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أَرْضَى بِهِ. [راجع: 59]
(64) ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یا خلیفۃ اللہ کہہ کر پکارا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں بلکہ خلیفۃ رسول اللہ ہوں اور میں اسی درجے پر راضی ہوں۔

(65) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَانَ رُبَّمَا سَقَطَ الْخِطَامُ مِنْ يَدِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: فَيَضْرِبُ بِذِرَاعِ نَاقَتِهِ فَيُنِيخُهَا فَيَأْخُذُهُ، قَالَ: فَقَالُوا لَهُ: أَفَلا أَمَرْتَنَا نُنَاوِلْكَهُ؟ فَقَالَ: إِنَّ حِبِّي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي أَنْ لَا أَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا. [قال شعيب: حسن لغيره]
(65) ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اگر اونٹنی کی لگام چھوٹ کر گرجاتی، تو آپ اپنی اونٹنی کے اگلے پاؤں پر ہاتھ مارتے، وہ بیٹھ جاتی تو خود اس کی لگام اٹھاتے، ہم عرض کرتے کہ آپ ہمیں کیوں نہیں حکم دیتے کہ ہم آپ کو پکڑادیں؟ فرماتے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(66) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ - عَنْ أَبِي بَكْرٍ - قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَامٍ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ أوَّلَ، فَقَالَ: " إِنَّ ابْنَ آدَمَ لَمْ يُعْطَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنَ الْعَافِيَةِ، فَاسْأَلُوا اللهَ الْعَافِيَةَ، وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ وَالْبِرِّ فَإِنَّهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ وَالْفُجُورَ فَإِنَّهُمَا فِي النَّارِ ". [راجع: 5]
(66) حضرت ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پورے ایک سال بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ گذشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ کسی انسان کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، سچائی اور نیکی اختیار کرو کیونکہ یہ دونوں جنت میں ہوں گی، اور جھوٹ اور گناہ سے بچو کیونکہ یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔


(67) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ ". قَالَ: فَلَمَّا كَانَتِ الرِّدَّةُ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ: تُقَاتِلُهُمْ، وَقَدْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: وَاللهِ لَا أُفَرِّقُ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ، وَلَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا. قَالَ: فَقَاتَلْنَا مَعَهُ، فَرَأَيْنَا ذَلِكَ رَشَدًا. [صححه البخاري (6924) ومسلم (20)] [انظر: 117،239،335]
(67) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ "لا الہ الا اللہ" نہ کہہ لیں، لیکن جب وہ یہ کلمہ کہہ لیں تو انہوں نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، ہاں اگر کوئی حق ان کی طرف متوجہ ہو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، باقی ان کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہے۔
جب فتنہ ارتداد پیش آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کس طرح قتال کر سکتے ہیں جب کہ آپ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن رکھی ہے؟ فرمایا بخدا! میں نماز اور زکوۃ کے درمیان تفریق نہیں کروں گا اور جو ان دونوں کے درمیان تفریق کرے گا، میں اس سے ضرور قتال کروں گا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ان کے ساتھ اس قتال میں شریک ہوگئے تب ہمیں جا کر احساس ہوا کہ اسی میں رشد وہدایت تھی۔


(68) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ الصَّلاحُ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ: {لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ} [النساء: 123] فَكُلُّ سُوءٍ عَمِلْنَا جُزِينَا بِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَفَرَ اللهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْتَ تَمْرَضُ؟ أَلَسْتَ تَنْصَبُ؟ أَلَسْتَ تَحْزَنُ؟ أَلَسْتَ تُصِيبُكَ اللَّأْوَاءُ؟ " قَالَ: بَلَى. قَالَ: " فَهُوَ مَا تُجْزَوْنَ بِهِ ". [صحيح ابن حبان (2899) والحاكم (3/74) قال شعيب: صحيح بطرقه وشواهده] [انظر: 69،70،71]
(68) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا، تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابوبکر! اللہ آپ کی بخشش فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج وتکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟ عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا یہی تو بدلہ ہے۔


(69) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ، أَظُنُّهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ الصَّلاحُ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ؟ قَالَ: " يَرْحَمُكَ اللهُ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْتَ تَمْرَضُ؟ أَلَسْتَ تَحْزَنُ؟ أَلَسْتَ تُصِيبُكَ اللَّأْوَاءُ؟" قَالَ: بَلَى. قَالَ: " فَإِنَّ ذَاكَ بِذَاكَ ". [قال شعيب: صحيح، وإسناده ضعيف] [راجع: 68]
(69) حضرت صدیق اکبر عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے (کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا، تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج وتکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟ عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا یہی تو بدلہ ہے۔


(70) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ الصَّلاحُ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ: {مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ} فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. [قال شعيب: صحيح، وإسناده ضعيف] [راجع: 68]
(70) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔


(71) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ} قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا لَنُجَازَى بِكُلِّ سُوءٍ نَعْمَلُهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرْحَمُكَ اللهُ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْتَ تَنْصَبُ؟ أَلَسْتَ تَحْزَنُ؟ أَلَسْتَ تُصِيبُكَ اللَّأْوَاءُ؟ فَهَذَا مَا تُجْزَوْنَ بِهِ ". [قال شعيب: صحيح، وإسناده ضعيف] [راجع: 68]
(71) ابوبکر بن ابی زہیر کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں ، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا، تو حضرت صدیق اکبر رضي الله عنہ نے عرض کیا یار سول اللہ! کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے؟ کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج وتکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟ یہی تو بدلہ ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(72) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخَذْتُ هَذَا الْكِتَابَ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَ لَهُمْ: إِنَّ هَذِهِ فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، الَّتِي أَمَرَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَ ذَلِكَ فَلا يُعْطِهِ: " فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ فَفِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلاثِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَثَلاثِينَ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَسَبْعِينَ فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ، أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا. وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا جَذَعَةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ وَعِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ، أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا. وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَعِنْدَهُ ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ، أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا. وَمَنْ بَلَغَتْ صَدَقَتُهُ بِنْتَ مَخَاضٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنَ الْإِبِلِ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا. وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ، فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِِذا زَادَتْ فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةٌ، فَفِيهَا ثَلاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، وَلا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلا ذَاتُ عَوَارٍ وَلا تَيْسٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُتَصَدِّقُ، وَلا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، وَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً وَاحِدَةً، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا. وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ، فَإِذَا لَمْ يَكُنِ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةَ دِرْهَمٍ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا". [صحيح، البخاري مفرقاً (1448) وابن خزيمة (2261) و (2273) و (2281) و (2296) وابن حبان (3666)] [انظر: 1448، 1450، 1451، 1453، 1455، 2387، 3106، 2955]
(72) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر فرمایا کہ یہ زکوۃ کے مقررہ اصول ہیں جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے مقرر فرمائے ہیں، یہ وہی اصول ہیں جن کا حکم اللہ نے اپنے پیغمبر کو دیا تھا، ان اصولوں کے مطابق جب مسلمانوں سے زکوۃ وصول کی جائے تو انہیں زکوۃ ادا کردینی چاہئے اور جس سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ زیادہ نہ دے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پچیس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری واجب ہوگی، جب اونٹوں کی تعداد پچیس ہوجائے تو ایک بنت مخاض (جو اونٹنی دوسرے سال میں لگ گئی ہو) واجب ہوگی اور یہی تعداد ٣٥ اونٹوں تک رہے گی، اگر کسی کے پاس بنت مخاض نہ ہو تو وہ ایک ابن لبون مذکر (جو تیسرے سال میں لگ گیا ہو) دے دے، جب اونٹوں کی تعداد ٣٦ ہوجائے تو اس میں ٤٥ تک ایک بنت لبون واجب ہوگی، جب اونٹوں کی تعداد ٤٦ ہوجائے تو اس میں ایک حقہ (چوتھے سال میں لگ جانے والی اونٹنی) کا وجوب ہوگا جس کے پاس رات کو نر جانور آسکے۔
یہ حکم ساٹھ تک رہے گا، جب یہ تعداد ٦١ ہوجائے تو ٧٥ تک اس میں ایک جذعہ (جو پانچویں سال میں لگ جائے) واجب ہوگا، جب یہ تعداد ٧٦ ہو جائے تو ٩٠ تک اس میں دو بنت لبون واجب ہوں گی، جب یہ تعداد ١٩ ہوجائے تو ١٢٠ تک اس میں دو ایسے حقے ہوں گے جن کے پاس نر جانور آسکے، جب یہ تعداد ١٢٠ سے تجاوز کر جائے تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ واجب ہوگا۔
اور اگر زکوۃ کے اونٹوں کی عمریں مختلف ہوں تو جس شخص پر زکوۃ میں جذعہ واجب ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو، حقہ ہو تو اس سے وہی قبول کرلیا جائے گا اور اگر اس کے پاس صرف جذعہ ہو تو اس سے وہ لے کر زکوۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے دے، اور اگر اسی مذکورہ شخص کے پاس بنت لبون ہو تو اس سے وہ لے کر دو بکریاں " بشرطیکہ آسانی سے ممکن ہو " یا بیس درہم وصول کئے جائیں۔
اگر کسی شخص پر بنت لبون واجب ہو مگر اس کے پاس حقہ ہو تو اس سے وہ لے کر اسے زکوۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے دے، اور اگر اسی مذکورہ شخص کے پاس بنت مخاض ہو تو اس سے وہی لے کر وہ بکریاں بشرط آسانی یا بیس درہم بھی وصول کئے جائیں، اور اگر کسی شخص پر بنت مخاض واجب ہو اور اس کے پاس صرف ابن لبون مذکر ہو تو اسی کو قبول کر لیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں لی جائے گی، اور اگر کسی شکص کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اس پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہے ہاں ! البتہ اگر مالک کچھ دینا چاہے تو اس کی مرضی پر موقوف ہے۔
سائمہ (خود چر کر اپنا پیٹ بھرنے والی) بکریوں میں زکوۃ کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب بکریوں کی تعداد چالیس ہوجائے ایک سو بیس تک اس میں صرف ایک بکری واجب ہوگی، ١٢٠ سے زائد ہونے پر ٢٠٠ تک دو بکریاں واجب ہوں گی، ٢٠٠ سے زائد ہونے پر ٣٠٠ تک تین بکریاں واجب ہوں گی، اس کے بعد ہر سو میں ایک بکری دینا واجب ہوگی۔
یاد رہے کہ زکوۃ میں انتہائی بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے، اسی طرح خوب عمدہ جانور بھی نہ لیا جائے ہاں ! اگر زکوۃ دینے والا اپنی مرضی سے دینا چاہے تو اور بات ہے، نیز زکوۃ سے بچنے کے لئے متفرق جانوروں کو جمع اور اکٹھے جانوروں کو متفرق نہ کیا جائے اور یہ کہ اگر دو قسم کے جانور ہوں (مثلا بکریاں بھی اور اونٹ بھی) تو ان دونوں کے درمیاں برابری سے زکوۃ تقسیم ہوجائے گی، نیز یہ کہ اگر کسی شخص کی سائمہ بکریوں کی تعداد٤٠ سے کم ہو تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے الاّ یہ کہ اس کا مالک خود دینا چاہے، نیز چاندی کے ڈھلے ہوئے سکوں میں ربع عشر واجب ہوگا، سو اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک سو نوے درہم ہوں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے الاّ یہ کہ اس کا مالک خود زکوۃ دینا چاہے۔


(73) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَهْلُ مَكَّةَ يَقُولُونَ: أَخَذَ ابْنُ جُرَيْجٍ الصَّلاةَ مِنْ عَطَاءٍ، وَأَخَذَهَا عَطَاءٌ مِنَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَخَذَهَا ابْنُ الزُّبَيْرِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، وَأَخَذَهَا أَبُو بَكْرٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَلاةً مِنَ ابْنِ جُرَيْجٍ.
(73) عبدالرزاق کہتے ہیں کہ اہل مکہ کہا کرتے تھے ابن جریج نے نماز حضرت عطاء بن ابی رباح سے سیکھی ہے، عطاء نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضى اللہ عنہما نے اپنے نانا حضرت صدیق اکبر رضي الله عنہ سے اور حضرت صدیق اکبر رضى الله عنه نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہے، عبدالرزاق کہتے ہیں کہ میں نے ابن جریج سے بڑھ کر بہتر نماز پرھتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا۔


(74) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ أَوْ حُذَيْفَةَ - شَكَّ عَبْدُ الرَّزَّاقِ - وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: فَلَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِي ذَلِكَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، فَلَقِيَنِي، فَقَالَ: مَا أُرِيدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ ابْنَةَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، فَكُنْتُ أَوْجَدَ عَلَيْهِ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، فَخَطَبَهَا إِلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ شَيْئًا حِينَ عَرَضْتَهَا عَلَيَّ إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهَا، وَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا نَكَحْتُهَا. [صححه البخاري (5129) وابن حبان (4039)] [انظر: 4005، 5122، 5145]
(74) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری بیٹی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ یا حذیفہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے اور وہ بیوہ ہوگئیں، یہ بدری صحابی تھے اور مدینہ منورہ میں فوت ہوگئے تھے، میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان کے سامنے اپنی بیٹی سے نکاح کی پیشکش رکھی انہوں نے مجھ سے سوچنے کی مہلت مانگی اور چند روز بعد کہہ دیا کہ آج کل میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس کے بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے بھی یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح آپ سے کردوں، لیکن انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، مجھے ان پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ غصہ آیا۔
چند دن گزرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اپنے لئے پیغام نکاح بھیج دیا، چنانچہ میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا، اتفاقاً ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ شاید آپ کو اس بات پر غصہ آیا ہوگا کہ آپ نے مجھے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کی پیشکش کی اور میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا؟ میں نے کہا ہاں ! ایسا ہی ہے، انہوں نے فرمایا کہ دراصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے یہ پیشکش کی تھی تو مجھے اسے قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں تھا، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ضرور ان سے نکاح کر لیتا۔
 
Top