• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند احمد (مسند الخلفاء الراشدین) یونیکوڈ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(75) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ مُسْلِمٍ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ " فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَيْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ أَكْثَرُ الْأُمَمِ مَمْلُوكِينَ وَأَيْتَامًا؟ قَالَ: " بَلَى، فَأَكْرِمُوهُمْ كَرَامَةَ أَوْلادِكُمْ، وَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ " قَالُوا: فَمَا يَنْفَعُنَا فِي الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " فَرَسٌ صَالِحٌ تَرْتَبِطُهُ تُقَاتِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَمَمْلُوكُك يَكْفِيكَ، فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ، فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ ". [قال الالباني: ضعيف (ابن ماجة: 3691)]
(75) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا، اس پر ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ ہی نے ہمیں نہیں بتایا کہ سب سے زیادہ غلام اور یتیم اس امت میں ہی ہوں گے؟ (یعنی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا ہوجانا ممکن ہی نہیں بلکہ واقع بھی ہے) فرمایا کیوں نہیں! البتہ تم ان کی عزت اسی طرح کرو جیسے اپنی اولاد کی عزت کرتے ہو، اور جو خود کھاتے ہو اسی میں سے انہیں بھی کھلایا کرو، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کا دنیا میں ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ فرمایا وہ نیک گھوڑا جسے تم تیار کرتے ہو، اس پر تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرسکتے ہو اور تمہارا غلام تمہاری کفایت کرسکتا ہے، یاد رکھو! اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو وہ تمہارا بھائی ہے، یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ دہرائی۔


(76) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَرْسَلَ إِلَيْهِ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ عِنْدَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِأَهْلِ الْيَمَامَةِ مِنْ قُرَّاءِ الْقُرْآنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ لَا يُوعَى، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَكَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هُوَ وَاللهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللهُ بِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ فِيهِ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، قَالَ زَيْدٌ: وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لَا يَتَكَلَّمُ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْمَعْهُ. قَالَ زَيْدٌ: فَوَاللهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ". [راجع: 57]
(76) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس جنگ یمامہ کے شہداء کی خبر دے کر قاصد کو بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں بڑی سخت معرکہ آرائی ہوئے ہے اور مسلمانوں میں سے جو قراء تھے وہ بڑی تعداد میں شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف جگہوں میں قراء کرام یوں ہی شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کہیں ضائع نہ ہوجائے کہ اس کا کوئی حافظ ہی نہ رہے، اس لئے میری رائے یہ ہوئی کہ میں آپ کو جمع قرآن کا مشورہ دوں، میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں؟ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ بخدا! یہ کام سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ مجھ سے مسلسل اس پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس مسئلے پر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی شرح صدر عطاء فرمادیا اور اس سلسلے میں میری بھی وہی رائے ہوگئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ادب سے بولتے نہ تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی نے فرمایا کہ آپ ایک سمجھدار نوجوان ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہیں، اس لئے جمع قرآن کا یہ کام آپ سرانجام دیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بخدا! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے منتقل کرنے کا حکم دے دیتے تو وہ مجھ پر جمع قرآن کے اس حکم سے زیادہ بھاری نہ ہوتا، چنانچہ میں نے بھی ان سے یہی کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، آپ وہ کام کیوں کررہے ہیں؟ (لیکن جب میرا بھی شرح صدر ہوگیا تو میں نے یہ کام شروع کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا).


(77) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى الْعَبَّاسِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ، خَاصَمَ الْعَبَّاسُ عَلِيًّا فِي أَشْيَاءَ تَرَكَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: شَيْءٌ تَرَكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُحَرِّكْهُ فَلا أُحَرِّكُهُ. فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: شَيْءٌ لَمْ يُحَرِّكْهُ أَبُو بَكْرٍ فَلَسْتُ أُحَرِّكُهُ، قَالَ: فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُثْمَانُ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَسْكَتَ عُثْمَانُ وَنَكَّسَ رَأْسَهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَخَشِيتُ أَنْ يَأْخُذَهُ، فَضَرَبْتُ بِيَدِي بَيْنَ كَتِفَيِ الْعَبَّاسِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِلَّا سَلَّمْتَهُ لِعَلِيٍّ، قَالَ: فَسَلَّمَهُ لَهُ. [قال شعيب: صحيح وإسناده صحيح]
(77) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک پرواز کر گئی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوگئے، تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز چھوڑ کر گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا۔
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے تو وہ دونوں حضرات ان کے پاس اپنا معاملہ لے کر آئے لیکن انہوں نے یہی فرمایا کہ جس چیز کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا، جب خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو وہ دونوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھی آئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کا موقف سن کر خاموشی اختیار کی اور سر جھکالیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے حکومت کی تحویل میں نہ لے لیں چنانچہ میں اپنے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور ان سے کہا اباجان! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اسے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیجئے چنانچہ انہوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا۔


(78) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي تَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي فُلانٌ، وَفُلانٌ، فَعَدَّ سِتَّةً أَوْ سَبْعَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ، فِيهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ إِذْ دَخَلَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ، قَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: مَهْ يَا عَبَّاسُ، قَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ، تَقُولُ: ابْنُ أَخِي، وَلِي شَطْرُ الْمَالِ، وَقَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ يَا عَلِيُّ، تَقُولُ: ابْنَتُهُ تَحْتِي، وَلَهَا شَطْرُ الْمَالِ، وَهَذَا مَا كَانَ فِي يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَيْنَا كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِيهِ، فَوَلِيَهُ أَبُو بَكْرٍ مِنْ بَعْدِهِ، فَعَمِلَ فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلِيتُهُ مِنْ بَعْدِ أَبِي بَكْرٍ فَأَحْلِفُ بِاللهِ لَأَجْهَدَنَّ أَنْ أَعْمَلَ فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ وَعَمَلِ أَبِي بَكْرٍ. ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ - وَحَلَفَ بِاللهِ أَنَّهُ لَصَادِقٌ - أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُورَثُ، وَإِنَّمَا مِيرَاثُهُ فِي فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ وَالْمَسَاكِينِ "، وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ - وَحَلَفَ بِاللهِ إِنَّهُ صَادِقٌ -: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يَمُوتُ حَتَّى يَؤُمَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهِ ". وَهَذَا مَا كَانَ فِي يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَيْنَا كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِيهِ، فَإِنْ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا لِتَعْمَلا فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمَلِ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قَالَ: فَخَلَوَا ثُمَّ جَاءَا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: ادْفَعْهُ إِلَى عَلِيٍّ، فَإِنِّي قَدْ طِبْتُ نَفْسًا بِهِ لَهُ. [صحيح لغيره دون قوله: "إن النبي لا يموت حتى يؤمه بعض أمته"]
(78) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عباس (رضی اللہ عنہ)! رک جائیے، مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ یہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے بھتیجے تھے اس لئے آپ کو نصف مال ملنا چاہئے، اور اے علی (رضی اللہ عنہ)! مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آپ کے نکاح میں تھیں اور ان کا آدھا حصہ بنتا تھا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں جو کچھ تھا، وہ میرے پاس موجود ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کیا طریقہ کار تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، انہوں نے وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد مجھے خلیفہ بنایا گیا، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا، میں اسی طرح کرنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا۔
پھر فرمایا کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی اور اپنے سچے ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ان کا ترکہ فقراء مسلمین اور مساکین میں تقسیم ہوتاہے، اور مجھ سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بھی بیان کی اور اپنے سچا ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی نبی اس وقت تک دنیا سے رخصت نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے کسی امتی کی اقتداء نہیں کر لیتا۔
بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا، وہ یہ موجود ہے، اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو بھی دیکھا ہے، اب اگر آپ دونوں چاہتے ہیں کہ میں یہ اوقاف آپ کے حوالے کردوں اور آپ اس میں اسی طریقے سے کام کریں گے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے رہے تو میں اسے آپ کے حوالے کردیتا ہوں۔
یہ سن کر وہ دونوں کچھ دیر کے لئے خلوت میں چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ یہ اوقاف علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کردیں، میں اپنے دل کی خوشی سے اس بات کی اجازت دیتا ہوں۔


(79) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالا: إِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنِّي لَا أُورَثُ ". [قال الترمذي: حسن غريب من هذا الوجه (الترمذي: 1608) وقال الألباني: صحيح، قال شعيب: اسناده حسن] [راجع: 60]
(79) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں، اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا، دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے مال میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔


(80) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى - يَعْنِي ابْنَ الْمُسَيَّبِ - عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: إِنِّي لَجَالِسٌ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَهْرٍ، فَذَكَرَ قِصَّةً، فَنُودِيَ فِي النَّاسِ: أَنَّ الصَّلاةَ جَامِعَةٌ، وَهِيَ أَوَّلُ صَلاةٍ فِي الْمُسْلِمِينَ نُودِيَ بِهَا: أنَّ الصَّلاةَ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، شَيْئًا صُنِعَ لَهُ كَانَ يَخْطُبُ عَلَيْهِ، وَهِيَ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَهَا فِي الْإِسْلامِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، وَلَوَدِدْتُ أَنَّ هَذَا كَفَانِيهِ غَيْرِي، وَلَئِنْ أَخَذْتُمُونِي بِسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُطِيقُهَا، إِنْ كَانَ لَمَعْصُومًا مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنْ كَانَ لَيَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ. [اسناده ضعيف]
(80) قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ایک مہینے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں میں منادی کر دی گئی کہ نماز تیار ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ پہلی نماز تھی جس کے لئے مسلمانوں میں "الصلوۃ جامعۃ" کہہ کر منادی کی گئی تھی، چنانچہ لوگ جمع ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے، یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا جو آپ نے اہل اسلام کے سامنے ارشاد فرمایا: اس خطبے میں آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد وثناء کی، پھر فرمایا لوگو! میری خواہش تھی کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کام کو سنبھال لیتا، اگر آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر رکھ کر دیکھنا چاہیں گے تو میرے اندر اس پر پورا اترنے کی طاقت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو شیطان کے حملوں سے محفوط تھے اور ان پر تو آسمان سے وحی کا نزول ہوتا تھا (اس لئے میں ان کے برابر کہاں ہوسکتا ہوں؟)


(81) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُولَ إِذَا أَصْبَحْتُ، وَإِذَا أَمْسَيْتُ، وَإِذَا أَخَذْتُ مَضْجَعِي مِنَ اللَّيْلِ: " اللهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاواتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا، أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ". [قال شعيب: حسن لغيره] آخِرُ مُسْنَدِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
(81) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعاء پڑھنے کا حکم دیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے، خود اپنی جان پر کسی گناہ کا بوجھ لادنے سے یا کسی مسلمان کو اس میں کھینچ کر مبتلا کرنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں.
_________________________
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مرویات
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(82) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: إِنَّا قَدْ أَصَبْنَا أَمْوَالًا وَخَيْلًا وَرَقِيقًا نُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَنَا فِيهَا زَكَاةٌ وَطَهُورٌ، قَالَ: مَا فَعَلَهُ صَاحِبَايَ قَبْلِي فَأَفْعَلَهُ. وَاسْتَشَارَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِمْ عَلِيٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ: هُوَ حَسَنٌ، إِنْ لَمْ يَكُنْ جِزْيَةً رَاتِبَةً يُؤْخَذُونَ بِهَا مِنْ بَعْدِكَ. [صححه ابن خزيمة (2290) والحاكم (1/400) قال شعيب: اسناده صحيح] [انظر: 218]
(82) حارثہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام کے کچھ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہنے لگے کہ ہمیں کچھ مال ودولت، گھوڑے اور غلام ملے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہمارے لئے اس میں پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا سامان پیدا ہوجائے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو جس طرح کرتے تھے میں بھی اسی طرح کروں گا، پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، وہ فرمانے لگے کہ یہ مال حلال ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے ٹیکس نہ بنالیں کہ بعد میں بھی لوگوں سے وصول کرتے رہیں ۔


(83) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ: أَنَّ الصُّبَيَّ بْنَ مَعْبَدٍ، كَانَ نَصْرَانِيًّا تَغْلِبِيًّا أَعْرَابِيًّا فَأَسْلَمَ، فَسَأَلَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقِيلَ لَهُ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ. فَأَرَادَ أَنْ يُجَاهِدَ، فَقِيلَ لَهُ: حَجَجْتَ؟ فَقَالَ: لَا. فَقِيلَ: حُجَّ وَاعْتَمِرْ، ثُمَّ جَاهِدْ. فَانْطَلَقَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْحَوَائطِ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا، فَرَآهُ زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، فَقَالا: لَهُوَ أَضَلُّ مِنْ جَمَلِهِ، أَوْ مَا هُوَ بِأَهْدَى مِنْ نَاقَتِهِ. فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا فَقَالَ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ الْحَكَمُ: فَقُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ: حَدَّثَكَ الصُّبَيُّ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. [صححه ابن خزيمة (3069) قال الالباني: صحيح (أبو داؤد: 1798 و 1799) ابن ماجة: (2970) النسائي: 5/146 و147] [انظر: 169، 227، 254، 256، 379]
(83) حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے بتایا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چنانچہ انہوں نےجہاد کا ارادہ کرلیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں! اس نے کہا آپ پہلے حج اور عمرہ کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔
چنانچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہوگئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔
راوی حدیث حکم کہتے ہیں کہ میں نے ابووائل سے پوچھا کہ یہ روایت آپ کو خود صبی نے سنائی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔


(84) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا عُمَرُ بِجَمْعٍ الصُّبْحَ، ثُمَّ وَقَفَ وَقَالَ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ. [صححه البخاري: 1684] [انظر: 200، 275، 295، 358، 285]
(84) عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی، پھر وقوف کیا اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اس کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(85) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، قَالَ: قَالَ أَبِي: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَمَا أَعْجَبَكَ مِنْ ذَلِكَ؟ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إذَا دَعَا الْأَشْيَاخَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي مَعَهُمْ، فَقَالَ: لَا تَتَكَلَّمْ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا، قَالَ: فَدَعَانَا ذَاتَ يَوْمٍ، أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وِتْرًا، فَفِي أَيِّ الْوِتْرِ تَرَوْنَهَا. [صححه ابن خزيمة (2172) قال شعيب: اسناده قوي] [راجع: 298]
(85) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلاتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ بلا لیتے اور مجھ سے فرماتے کہ جب تک یہ حضرات بات نہ کرلیں، تم کوئی بات نہ کرنا۔ اسی طرح ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بلایا اور فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو، یہ بتائیے کہ آپ کو آخری عشرے کی کس طاق رات میں شب قدر معلوم ہوتی ہے؟ (ظاہرہے کہ ہرصحابی کا جواب مختلف تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو میری رائے اچھی معلوم ہوئی)


(86) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عَمْرٍو الْبَجَلِيَّ، يُحَدِّثُ.عَنْ رَجُلٍ، مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ سَأَلُوا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالُوا لَهُ: إِنَّمَا أَتَيْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ ثَلاثٍ: عَنْ صَلاةِ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا، وَعَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وَعَنِ الرَّجُلِ مَا يَصْلُحُ لَهُ مِنَ امْرَأَتِهِ إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، فَقَالَ: أَسُحَّارٌ أَنْتُمْ؟! لَقَدْ سَأَلْتُمُونِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " صَلاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا نُورٌ، فَمَنْ شَاءَ نَوَّرَ بَيْتَهُ " وَقَالَ فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: " يَغْسِلُ فَرْجَهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاثًا " وَقَالَ فِي الْحَائِضِ: " لَهُ مَا فَوْقَ الْإِزَارِ ". [قال البوصيري: هذا اسناده ضعيف من الطريقين، قال الالباني: ضعيف (ابن ماجة: 1375)
(86) ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم آپ سے تین سوال پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں ۔
(١) گھر میں نفلی نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
(٢) غسل جنابت کا کیاطریقہ ہے؟
(٣) اگر عورت ایام میں ہوں تو مرد کے لئے کہاں تک اجازت ہے؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ بڑے عقلمند محسوس ہوتے ہیں، میں نے ان چیزوں سے متعلق جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا جو آپ لوگوں نے پوچھا ہے، اور فرمایا کہ انسان گھر میں جو نفلی نماز پڑھتا ہے تو وہ نور ہے اس لئے جو چاہے اپنے گھر کو منور کرلے، غسل جنابت کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا پہلے اپنی شرمگاہ کو دھوئے، پھر وضو کرے اور پھر اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈال کر حسب عادت غسل کرے اور ایام والی عورت کے متعلق فرمایا کہ ازار سے اوپر کاجتنا حصہ ہے، مرد اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔


(87) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ بِالْعِرَاقِ حِينَ يَتَوَضَّأُ، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعْنَا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ لِي: سَلْ أَبَاكَ عَمَّا أَنْكَرْتَ عَلَيَّ مِنْ مَسْحِ الْخُفَّيْنِ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ بِشَيْءٍ فَلا تَرُدَّ عَلَيْهِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ. [صححه ابن خزيمة (184) قال شعيب: اسناده حسن] [انظر: 237]
(87) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے عراق میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے تو مجھے اس پر بڑا تعجب اور اچنبھا ہوا، بعد میں جب ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ آپ کو مسح علی الخفین کے بارے مجھ پر جو تعجب ہو رہا تھا، اس کے متعلق اپنے والد صاحب سے پوچھ لیجئے، میں نے ان کے سامنے سارا واقعہ ذکر کر دیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کی تردید مت کیا کریں، کیونکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مورزوں پر مسح فرماتے تھے۔


(88) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَأَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ سَأَلَ عُمَرَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: نَعَمْ، إِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَلا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ. [صححه البخاري (202) و ابن خزيمة (182)]
(88) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح فرمایا ہے، بعد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ بات صحیح ہے، جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھا کریں۔


(89) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ ذَكَرَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رُؤْيَا لَا أُرَاهَا إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، قَالَ: وَذَكَرَ لِي أَنَّهُ دِيكٌ أَحْمَرُ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، فَقَالَتْ: يَقْتُلُكَ رَجُلٌ مِنَ الْعَجَمِ. قَالَ: وَإِنَّ النَّاسَ يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضَيِّعَ دِينَهُ، وَخِلافَتَهُ الَّتِي بَعَثَ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ يَعْجَلْ بِي أَمْرٌ فَإِنَّ الشُّورَى فِي هَؤُلاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَمَنْ بَايَعْتُمْ مِنْهُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّ أُنَاسًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، أَنَا قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلامِ، أُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللهِ الْكُفَّارُ الضُّلَّالُ. وَايْمُ اللهِ، مَا أَتْرُكُ فِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي فَاسْتَخْلَفَنِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنَ الْكَلالَةِ، وَايْمُ اللهِ، مَا أَغْلَظَ لِي نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَحِبْتُهُ أَشَدَّ مَا أَغْلَظَ لِي فِي شَأْنِ الْكَلالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: " تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ، الَّتِي نَزَلَتْ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ " وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ فَسَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَاءٍ يَعْلَمُهُ مَنْ يَقْرَأُ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ. وَإِنِّي أُشْهِدُ اللهَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ إِنِّي إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَيُبَيِّنُوا لَهُمْ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا عُمِّيَ عَلَيْهِمْ. ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ: هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، وَايْمُ اللهِ، لَقَدْ كُنْتُ أَرَى نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِدُ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فَيَأْمُرُ بِهِ فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ فَيُخْرَجُ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يُؤْتَى بِهِ الْبَقِيعَ، فَمَنْ أَكَلَهُمَا لَا بُدَّ، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا. قَالَ: فَخَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ. [صححه مسلم (567) و ابن خزيمة (1666و 626)] [انظر: 179، 186، 341]
(89) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ کی حمد وثناء بیان کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ مرغ سرخ رنگ کا تھا، میں نے یہ خواب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ کو ایک عجمی شخص شہید کردے گا۔
پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ نہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوریٰ ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔
میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہو، اور اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت "جو گرمی میں نازل ہوئی تھی" کافی ہے۔
اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلہ کا ایسا حل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔
لوگو! تم دو ایسے درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں ایک لہسن اور دوسرا پیاز (کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) بخدا! میں نے دیکھاہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔
راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔


(90) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ والْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى أَمْوَالِنَا بِخَيْبَرَ نَتَعَاهَدُهَا، فَلَمَّا قَدِمْنَاهَا تَفَرَّقْنَا فِي أَمْوَالِنَا، قَالَ: فَعُدِيَ عَلَيَّ تَحْتَ اللَّيْلِ، وَأَنَا نَائِمٌ عَلَى فِرَاشِي، فَفُدِعَتْ يَدَايَ مِنْ مِرْفَقَيَّ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اسْتُصْرِخَ عَلَيَّ صَاحِبَايَ، فَأَتَيَانِي، فَسَأَلانِي عَمَّنْ صَنَعَ هَذَا بِكَ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَأَصْلَحَا مِنْ يَدَيَّ، ثُمَّ قَدِمُوا بِي عَلَى عُمَرَ فَقَالَ: هَذَا عَمَلُ يَهُودَ. ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا، وَقَدْ عَدَوْا عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ فَفَدَعُوا يَدَيْهِ كَمَا بَلَغَكُمْ، مَعَ عَدْوَتِهِمْ عَلَى الْأَنْصَارِيِّ قَبْلَهُ، لَا نَشُكُّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهُمْ، لَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ، فَمَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ بِخَيْبَرَ فَلْيَلْحَقْ بِهِ فَإِنِّي مُخْرِجٌ يَهُودَ. فَأَخْرَجَهُمْ. [صححه البخاري (2730)]
(90) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیبر میں اپنے اپنے مال کی دیکھ بھال کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہر ایک اپنی اپنی زمین کی طرف چلا گیا، میں رات کے وقت اپنے بستر پر سو رہا تھا کہ مجھ پر کسی نے حلمہ کردیا، میرے دونوں ہاتھ اپنی کہنیوں سے ہل گئے، جب صبح ہوئی میرے دونوں ساتھیوں کو اس حادثے کی خبردی گئی، وہ آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ کس نے کیا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے کچھ خبر نہیں ہے۔
انہوں نے میرے ہاتھ کی ہڈی کو صحیح جگہ پر بٹھایا اور مجھے لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے، انہوں نے فرمایا یہ یہودیوں کی ہی کارستانی ہے، اس کے بعد وہ لوگوں کے سامنے خطاب کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ معاملہ اس شرط پر کیا تھا کہ ہم جب انہیں چاہیں گے، نکال سکیں گے، اب انہوں نے عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) پر حملہ کیا ہے اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ انہوں نے اس کے ہاتھوں کے جوڑ ہلا دیئے ہیں، جب کہ اس سے قبل وہ ایک انصاری کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرچکے ہیں، ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان ہی کے ساتھی ہیں، ہمارا ان کے علاوہ یہاں کوئی دشمن نہیں ہے، اس لئے خیبر میں جس شخص کا بھی کوئی مال موجود ہو، وہ وہاں چلا جائے کیونکہ اب میں یہودیوں کو وہاں سے نکالنے والا ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے بے دخل کر کے نکال دیا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(91) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ عُمَرُ: لِمَ تَحْتَبِسُونَ عَنِ الصَّلاةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ فَتَوَضَّأْتُ. فَقَالَ: أَيْضًا! أَوَلَمْ تَسْمَعُوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ ". [صححه البخاري (882) ومسلم (845) و ابن خزيمة (1748)] [انظر: 319، 320]
(91) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ نماز کے لئے آنے میں اتنی تاخیر؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا، کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔


(92) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ: يَا عُتْبَةَ بْنَ فَرْقَدٍ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ، وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ، وَلَبُوسَ الْحَرِيرِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ، وَقَالَ: " إِلَّا هَكَذَا " وَرَفَعَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَيْهِ. [صححه البخاري (5829) ومسلم (2069)] [انظر: 242، 243، 301، 356، 357]
(92) ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم آذربائیجان میں تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا اے عتبہ بن فرقد! عیش پرستی، ریشمی لباس، اور مشرکین کے طریقوں کو اختیار کرنے سے اپنے آپ کو بچاتے رہنا اس لئے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی بلند کر کے دکھائی۔


(93) حَدَّثَنَا حَسَنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ: أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى سَفَطٍ أُتِيَ بِهِ مِنْ قَلْعَةٍ مِنَ الْعِرَاقِ، فَكَانَ فِيهِ خَاتَمٌ، فَأَخَذَهُ بَعْضُ بَنِيهِ فَأَدْخَلَهُ فِي فِيهِ فَانْتَزَعَهُ عُمَرُ مِنْهُ ثُمَّ بَكَى عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ مَنْ عِنْدَهُ: لِمَ تَبْكِي وَقَدْ فَتَحَ اللهُ لَكَ، وَأَظْهَرَكَ عَلَى عَدُوِّكَ، وَأَقَرَّ عَيْنَكَ؟ فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تُفْتَحُ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ إِلَّا أَلْقَى الله عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "، وَأَنَا أُشْفِقُ مِنْ ذَلِكَ. [قال شعيب: اسناده ضعيف]
(93) ایک مرتبہ ابوسنان دؤلی رحمہ اللہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت مہاجرین اولین کی ایک جماعت ان کی خدمت میں موجود اور حاضر تھی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک بکس منگوایا جو ان کے پاس عراق سے لایا گیا تھا، جب اسے کھولا گیا تو اس میں سے ایک انگوٹھی نکلی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کسی بیٹے پوتے نے وہ لے کر اپنے منہ میں ڈال لی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہ واپس لے لی اور رونے لگے۔
حاضرین نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی فتوحات عطاء فرمائیں، دشمن پر آپ کو غلبہ عطاء فرمایا اور آپ کی آنکھوں کوٹھنڈا کیا؟ فرمایا میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص پر اللہ دنیا کا دروازہ کھول دیتا ہے، وہاں آپس میں قیامت تک کے لئے دشمنیاں اور نفرتیں ڈال دیتا ہے، مجھے اسی کا خطرہ ہے۔


(94) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ يَصْنَعُ أَحَدُنَا إِذَا هُوَ أَجْنَبَ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَنَامَ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلاةِ، ثُمَّ لِيَنَمْ ". [قال الترمذي: حديث عمر احسن شيء في هذا الباب واصح، صححه ابن خزيمة (211، 212) قال الالباني: صحيح (الترمذي: 120) قال شعيب: اسناده حسن] [انظر: 105، 165، 230، 235، 236، 263، 306]
(94) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر ہم میں سے کوئی شخص ناپاک ہوجائے اور وہ غسل کرنے سے پہلے سونا چاہے تو کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز والا وضو کر کے سوجائے۔
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(95) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ، دُعِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلاةِ عَلَيْهِ، فَقَامَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَعَلَى عَدُوِّ اللهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا - يُعَدِّدُ أَيَّامَهُ - قَالَ: وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: " أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ، إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، قَدْ قِيلَ {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ} [التوبة: 80] ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ ". قَالَ: ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ، وَمَشَى مَعَهُ، فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ. قَالَ: فَعَجَبٌ لِي وَجَرَاءَتِي عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَوَاللهِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الْآيَتَانِ: {وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ} ، فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ، وَلا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ. [صححه البخاري (1366) وابن حبان (3176)]
(95) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے پاس جا کر نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں اپنی جگہ سے گھوم کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اس اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے فلاں دن یہ کہا تھا اور فلاں دن یہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی بکواسات گنوانا شروع کردیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے لیکن جب میں برابر اصرار کرتا ہی رہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عمر! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اس بارے اختیار دیا گیا ہے، اور میں نے ایک شق کو ترجیح دے لی ہے، مجھ سے کہا گیا ہے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں دونوں صورتیں برابر ہیں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لئے بخشش کی درخواست کریں گے تب بھی اللہ ان کی بخشش نہیں فرمائے گا، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے پر اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں ستر سے زائد مرتبہ اس کے لئے استغفار کرتا۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، جنازے کے ساتھ گئے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے تا آنکہ وہاں سے فراغت ہوگئی، مجھے خود پر اور اپنی جرات پر تعجب ہو رہا تھا، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ بہتر جانتے تھے، بخدا! ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ مندرجہ ذیل دو آیتیں نازل ہوگئیں۔
"ان منافقین میں سے اگر کوئی مرجائے تو آپ کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں نہ اس کی قبر پہ کھڑے نہ ہوں، بیشک یہ لوگ تو اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں، اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔"
اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور اسی طرح منافقین کی قبروں پر بھی کبھی نہیں کھڑے ہوئے۔


(96) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، كَمَا حَدَّثَنِي عَنْهُ نَافِعٌ مَوْلاهُ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ يَقُولُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ لِلرَّجُلِ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ، فَلْيَأْتَزِرْ بِهِ ثُمَّ لِيُصَلِّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ ذَلِكَ، وَيَقُولُ: لَا تَلْتَحِفُوا بِالثَّوْبِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ كَمَا تَفْعَلُ الْيَهُودُ. قَالَ نَافِعٌ: وَلَوْ قُلْتُ لَكُ: إِنَّهُ أَسْنَدَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَجَوْتُ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُ. [قال شعيب: اسناده حسن] [وسيأتي في مسند ابن عمر: 6356]
(96) نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے اگر کسی آدمی کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہو، وہ اسی کو تہبند کے طور پر باندھ لے اور نماز پڑھ لے، کیونکہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے، اور وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر ایک ہی کپڑا ہو تو اسے لحاف کی طرح مت لپیٹے جیسے یہودی کرتے ہیں، نافع کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے تو امید ہے کہ میں جھوٹا نہیں ہوں گا۔


(97) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ، عَنْ شَهْرٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ مَاتَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، قِيلَ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شِئْتَ". [قال شعيب: حسن لغيره]
(97) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے آٹھ میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجاؤ۔


(98) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرٌ - يَعْنِي الْأَحْمَرَ - عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَذَفَ رَجُلٌ ابْنًا لَهُ بِسَيْفٍ فَقَتَلَهُ، فَرُفِعَ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ: لَوْلا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يُقَادُ الْوَالِدُ مِنْ وَلَدِهِ " لَقَتَلْتُكَ قَبْلَ أَنْ تَبْرَحَ. [قال شعيب: حسن لغيره]
(98) مجاہد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے تلوار کے وار کر کے اپنے بیٹے کو مار ڈالا، اسے پکڑ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ والد سے اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا تو میں تجھے بھی قتل کردیتا اور تو یہاں سے اٹھنے بھی نہ پاتا۔


(99) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ نَظَرَ إِلَى الْحَجَرِ، فَقَالَ: أَمَا وَاللهِ لَوْلا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ. ثُمَّ قَبَّلَهُ. [صححه البخاري (1597) ومسلم (1270) و ابن حبان (3822، 274، 382)] [انظر: 176، 325]
(99) عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی نظریں حجر اسود پر جما رکھی ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں بخدا! اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے بوسہ دیا۔


(100) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي خِلافَتِهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ كَرِهْتَهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا، وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عَمَالَتِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ. فَقَالَ عُمَرُ: فَلا تَفْعَلْ، فَإِنِّي قَدْ كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلا سَائِلٍ، فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ". [صححه البخاري (7163) ومسلم (1045) و ابن خزيمة (2364، 2365، 2366)] [انظر: 279، 280]
(100) ایک مرتبہ عبداللہ بن سعد رحمہ اللہ خلافت فاروقی کے زمانے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہوجائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال ودولت عطاء فرمایا: میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو، اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(101) حَدَّثَنَا سَكَنُ بْنُ نَافِعٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ دَرَّاجٍ: أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ سَبَّحَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، فَرَآهُ عُمَرُ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللهِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا. [اسناده ضعيف] [انظر: 106]
(101) ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔


(102) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: مَاجِدَةُ، قَالَ: عَارَمْتُ غُلامًا بِمَكَّةَ فَعَضَّ أُذُنِي فَقَطَعَ مِنْهَا - أَوْ عَضِضْتُ أُذُنَهُ فَقَطَعْتُ مِنْهَا - فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَاجًّا رُفِعْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا بِهِمَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَإِنْ كَانَ الْجَارِحُ بَلَغَ أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ فَلْيَقْتَصَّ، قَالَ: فَلَمَّا انْتُهِيَ بِنَا إِلَى عُمَرَ نَظَرَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ بَلَغَ هَذَا أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ، ادْعُوا لِي حَجَّامًا. فَلَمَّا ذَكَرَ الْحَجَّامَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَدْ أَعْطَيْتُ خَالَتِي غُلامًا، وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَارِكَ اللهُ لَهَا فِيهِ، وَقَدْ نَهَيْتُهَا أَنْ تَجْعَلَهُ حَجَّامًا أَوْ قَصَّابًا أَوْ صَائِغًا ". [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 3430، 3431، 3432) وارسله ابو حاتم] [انظر: 103]
(102) ماجدہ نامی ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں ایک لڑکے کی ہڈی سے گوشت چھیل ڈالا، اس نے میرا کان اپنے دانتوں میں چبا کر کاٹ ڈالا، جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے ہمارے یہاں تشریف لائے تو یہ معاملہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ، اگر زخم لگانے والا قصاص کے درجے تک پہنچتا ہو تو اس سے قصاص لینا چاہیے۔
جب ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لے جایا گیا اور انہوں نے ہمارے احوال سنے تو فرمایا ہاں! یہ قصاص کے درجے تک پہنچتاہے، اور فرمایا کہ میرے پاس حجام کو بلا کر لاؤ، جب حجام کا ذکر آیا تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ان کے لئے باعث برکت بنائے گا اور میں نے انہیں اس بات سے منع کیا ہے کہ اسے حجام یا قصائی یا رنگ ریز بنائیں۔


(103) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ عَنِ ابْنِ مَاجِدَةَ السَّهْمِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: حَجَّ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ فِي خِلافَتِهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. [قال شعيب: اسناده ضعيف] [انظر: 102]
(103) گذشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی منقول ہے جو عبارت میں ذکر ہوئی۔


(104) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ رَخَّصَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ كَمَا أَمَرَكُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَحَصِّنُوا فُرُوجَ هَذِهِ النِّسَاءِ. [قال شعيب: اسناده صحيح] [انظر: 369]
(104) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جو رخصت دینی تھی سو دے دی، اور وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے، اس لئے آپ لوگ حج اور عمرہ مکمل کیا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم بھی دیا ہے، اور ان عورتوں کی شرمگاہوں کی حفاطت کرو۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(105) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَرْقُدُ الرَّجُلُ إِذَا أَجْنَبَ؟ قَالَ: نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ". [راجع: 94]
(105) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! وضو کر لے اور سوجائے۔



(106) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ دَرَّاجٍ: أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ عُمَرُ، وَقَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْهَا. [راجع: 101]
(106) ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔


(107) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: خَرَجْتُ أَتَعَرَّضُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَاسْتَفْتَحَ سُورَةَ الْحَاقَّةِ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ تَأْلِيفِ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا وَاللهِ شَاعِرٌ كَمَا قَالَتْ قُرَيْشٌ، قَالَ: فَقَرَأَ: {إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ. وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ} قَالَ: قُلْتُ: كَاهِنٌ، قَالَ: {وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ. تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ. وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ. لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ. ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ. فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ} [الحاقة: 42 - 47] إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، قَالَ: فَوَقَعَ الْإِسْلامُ فِي قَلْبِي كُلَّ مَوْقِعٍ. [اسناده ضعيف]
(107) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں قبول اسلام سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھیڑ چھار کے ارادے سے نکلا لیکن پتہ چلا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مسجد میں جاچکے ہیں، میں جا کر ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ حاقہ کی تلاوت شروع کردی، مجھے نظم قرآن اور اس کے اسلوب سے تعجب ہونے لگا، میں نے اپنے دل میں سوچا واللہ! یہ شخص شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، اتنی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچ گئے کہ "وہ تو ایک معزز قاصد کا قول ہے"کسی شاعر کی بات تھوڑی ہے لیکن تم ایمان بہت کم لاتے ہو"۔
یہ سن کر میں نے اپنے دل میں سوچا یہ تو کاہن ہے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی "اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے" تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو، یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اگر یہ پیغمبر ہماری طرف کسی بات کی جھوٹھی نسبت کرے تو ہم اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیں اور اس کی گردن توڑ ڈالیں اور تم میں سے کوئی ان کی طرف سے رکاوٹ نہ بن سکے" یہ آیات سن کر اسلام نے میرے دل میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنا شروع کردئیے۔


(108) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، وَعِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ وَرَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، وَغَيْرِهِمَا، قَالُوا: لَمَّا بَلَغَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سَرْغَ حُدِّثَ أَنَّ بِالشَّامِ وَبَاءً شَدِيدًا، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ شِدَّةَ الْوَبَاءِ فِي الشَّامِ، فَقُلْتُ: إِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَيٌّ، اسْتَخْلَفْتُهُ، فَإِنْ سَأَلَنِي اللهُ: لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَمِينًا، وَأَمِينِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ" فَأَنْكَرَ الْقَوْمُ ذَلِكَ، وَقَالُوا: مَا بَالُ عُلْيَى قُرَيْشٍ؟! - يَعْنُونَ بَنِي فِهْرٍ - ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي، وَقَدْ تُوُفِّيَ أَبُو عُبَيْدَةَ، اسْتَخْلَفْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَإِنْ سَأَلَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ: لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ؟ قُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّهُ يُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْنَ يَدَيِ الْعُلَمَاءِ نَبْذَةً ". [قال شعيب: حسن لغيره]
(108) شریح بن عبید اور راشد بن سعید وغیرہ کہتے ہیں کہ سفر شام میں جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سرغ نامی مقام پر پہنچے تو آپ کو خبر ملی کہ شام میں طاعون کی بڑی سخت وباء پھیلی ہوئی ہے، یہ خبر سن کر انہوں نے فرمایا کہ مجھے شام میں طاعون کی وباء پھیلنے کی خبر ملی ہے، میری رائے یہ ہے کہ اگر میرا آخری وقت آپہنچا اور ابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوئے تو میں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے اس کے متعلق باز پرس کی کہ تو نے امت مسلمہ پر انہیں اپنا خلیفہ کیوں مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ ہی کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔
لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی اور وہ کہنے لگے کہ اس صورت میں قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنی فہر کا کیا بنے گا؟ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر میری موت سے پہلے ابو عبیدہ فوت ہو گئے تو میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ تو نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے درمیان ایک جماعت کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔


(109) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ وَغَيْرُهُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: وُلِدَ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلامٌ، فَسَمَّوْهُ: الْوَلِيدَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَمَّيْتُمُوهُ بِأَسْمَاءِ فَرَاعِنَتِكُمْ، لَيَكُونَنَّ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: الْوَلِيدُ، لَهُوَ شَرٌّ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ مِنْ فِرْعَوْنَ لِقَوْمِهِ ". [إسناده ضعيف]
(109) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام المؤمبین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے بچے کا نام ولید رکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اس بچے کا نام اپنے فرعونوں کے نام پر رکھا ہے (کیونکہ ولید بن مغیرہ مشرکین مکہ کا سردار اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں بہت سرگرم تھا) میری امت میں ایک آدمی ہوگا جس کا نام ولید ہوگا جو اس امت کے حق میں فرعونوں سے بھی بدتر ہوگا ۔


(110) حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِى الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فيهُمْ عُمَرُ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ: أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " لَا صَلاةَ بَعْدَ صَلاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلا صَلاةَ بَعْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ". [صححه البخاري (581) ومسلم (826)] [انظر: 130، 270، 271، 355، 364]
(110) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے "جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں" کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(111) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْكِنْدِيِّ، أَنَّهُ رَكِبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ عَنْ ثَلاثِ خِلالٍ، قَالَ: فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَسَأَلَهُ عُمَرُ: مَا أَقْدَمَكَ؟ قَالَ: لِأَسْأَلَكَ عَنْ ثَلاثِ خِلالٍ، قَالَ: وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: رُبَّمَا كُنْتُ أَنَا وَالْمَرْأَةُ فِي بِنَاءٍ ضَيِّقٍ، فَتَحْضُرُ الصَّلاةُ، فَإِنْ صَلَّيْتُ أَنَا وَهِيَ، كَانَتْ بِحِذَائِي، وَإِنْ صَلَّتْ خَلْفِي، خَرَجَتْ مِنَ الْبِنَاءِ، فَقَالَ عُمَرُ: تَسْتُرُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بِثَوْبٍ، ثُمَّ تُصَلِّي بِحِذَائِكَ إِنْ شِئْتَ. وَعَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: نَهَانِي عَنْهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: وَعَنِ الْقَصَصِ، فَإِنَّهُمْ أَرَادُونِي عَلَى الْقَصَصِ، فَقَالَ: مَا شِئْتَ، كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَمْنَعَهُ، قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَنْتَهِيَ إِلَى قَوْلِكَ، قَالَ: أَخْشَى عَلَيْكَ أَنْ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ عَلَيْهِمْ فِي نَفْسِكَ، ثُمَّ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ، حَتَّى يُخَيَّلَ إِلَيْكَ أَنَّكَ فَوْقَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الثُّرَيَّا، فَيَضَعَكَ اللهُ تَحْتَ أَقْدَامِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ ذَلِكَ. [قال شعيب: اسناده حسن]
(111) حارث بن معاویہ کندی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں تین سوال پوچھنے کے لئے سواری پر سفر کر کے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آنے کی وجہ پوچھی، میں نے عرض کیا کہ تین باتوں کے متعلق پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، فرمایا وہ تین باتیں کیا ہیں؟
میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات میں اور میری بیوی ایک تنگ کمرے میں ہوتے ہیں، نماز کا وقت آجاتا ہے، اگر ہم دونوں وہاں نماز پڑھتے ہوں تو وہ میرے بالکل ساتھ ہوتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے کھڑی ہوتی ہے تو کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اب کیا کیا جائے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ایک کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر اگر تم چاہو تو وہ تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔
پھر میں نے عصر کے بعد دو نفل پڑھنے کے حوالے سے پوچھا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے ان سے وعظ گوئی کے حوالے سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے وعظ کہنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ آپ کی مرضی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ براہ راست منع کرنے کو اچھا نہیں سمجھ رہے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی بات کو حرف آخر سمجھوں گا، فرمایا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اگر تم نے قصہ گوئی یا وعظ شروع کردیا تو تم اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں اونچا سمجھنے لگو گے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم وعظ کہتے وقت اپنے آپ کو ثریا پر پہنچا ہوا سمجھنے لگو گے، جس کے نتیجے میں قیامت کے دن اللہ تمہیں اسی قدر ان کے قدموں کے نیچے ڈال دے گا۔


(112) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ " قَالَ عُمَرُ: فَوَاللهِ مَا حَلَفْتُ بِهَا مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا، وَلا تَكَلَّمْتُ بِهَا ذَاكِرًا وَلا آثِرًا. [صححه البخاري (6647) ومسلم (1646)] [انظر: 241]
(112) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے روکتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس کی ممانعت کا حکم سناہے، میں نے اس طرح کی کوئی قسم نہیں اٹھائی، اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات برسبیل تذکرہ یا کسی سے نقل کر کے کہی ہے۔


(113) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْخُذْ مِنَ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ صَدَقَةً. [قال شعيب: صحيح لغيره]
(113) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے اور غلام پر زکوۃ وصول نہیں فرمائی۔


(114) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ، أخبرنا عَبْدُ اللهِ - يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ - أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامِي فِيكُمْ، فَقَالَ: "اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِي خَيْرًا، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَبْتَدِئُ بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا، فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ بَحْبَحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمُ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، لَا يَخْلُوَنَّ أَحَدُكُمْ بِامْرَأَةٍ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ ثَالِثُهُمَا، وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ، فَهُوَ مُؤْمِنٌ". [قال الالباني: صحيح (الترمذي: 2165)]
(114) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفر جابیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوا ہوں، اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد جھوٹ اتنا عام ہوجائے گا کہ گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہوجائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ "جماعت" کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔


(115) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ عُمَيْرٍ وَضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، قَالا: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى هَدْيِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَدْيِ عَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ ". [إسناده ضعيف]
(115) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دیکھنا چاہتاہے، اسے چاہیے کہ عمرو بن اسود کی سیرت کو دیکھ لے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
(116) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكْبٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَا وَأَبِي، فَقَالَ رَجُلٌ: " لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ "، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [قال شعيب: صحيح لغيره] [انظر: 214، 240، 291]
(116) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، ایک آدمی نے قسم کھاتے ہوئے کہا "لاوابی" تودوسرے آدمی نے اس سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔


(117) حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، وَأَبُو الْيَمَانِ، قَالا: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ "؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ - قَالَ أَبُو الْيَمَانِ: لَأَقْتُلَنَّ - مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا. قَالَ عُمَرُ: فَوَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ. [صححه البخاري (1399) ومسلم (20) و ابن حبان (216)] [انظر: 239، 335]
(117) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ان کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوگئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہوسکتے تھے، سو ہوگئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ لے، اس نے جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، ہاں ! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے، اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا؟
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ "جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے" بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرمادی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔


(118) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا صَلاةَ بَعْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَلا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ ". [قال شعيب: حسن لشواهده]
(118) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔


(119) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي سَبَأٍ عُتْبَةَ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَامِرٍ الْيَزَنِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُغِيثٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ صَاحِبَ الدَّابَّةِ أَحَقُّ بِصَدْرِهَا. [قال شعيب: حسن لشواهده]
(119) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ سواری کی اگلی سیٹ پر بیٹھنے کا حقدار سواری کا مالک ہے۔
 
Last edited:
Top