عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
(75) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ مُسْلِمٍ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ " فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَيْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ أَكْثَرُ الْأُمَمِ مَمْلُوكِينَ وَأَيْتَامًا؟ قَالَ: " بَلَى، فَأَكْرِمُوهُمْ كَرَامَةَ أَوْلادِكُمْ، وَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ " قَالُوا: فَمَا يَنْفَعُنَا فِي الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " فَرَسٌ صَالِحٌ تَرْتَبِطُهُ تُقَاتِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَمَمْلُوكُك يَكْفِيكَ، فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ، فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ ". [قال الالباني: ضعيف (ابن ماجة: 3691)]
(75) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا، اس پر ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ ہی نے ہمیں نہیں بتایا کہ سب سے زیادہ غلام اور یتیم اس امت میں ہی ہوں گے؟ (یعنی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا ہوجانا ممکن ہی نہیں بلکہ واقع بھی ہے) فرمایا کیوں نہیں! البتہ تم ان کی عزت اسی طرح کرو جیسے اپنی اولاد کی عزت کرتے ہو، اور جو خود کھاتے ہو اسی میں سے انہیں بھی کھلایا کرو، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کا دنیا میں ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ فرمایا وہ نیک گھوڑا جسے تم تیار کرتے ہو، اس پر تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرسکتے ہو اور تمہارا غلام تمہاری کفایت کرسکتا ہے، یاد رکھو! اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو وہ تمہارا بھائی ہے، یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ دہرائی۔
(76) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَرْسَلَ إِلَيْهِ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ عِنْدَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِأَهْلِ الْيَمَامَةِ مِنْ قُرَّاءِ الْقُرْآنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ لَا يُوعَى، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَكَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هُوَ وَاللهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللهُ بِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ فِيهِ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، قَالَ زَيْدٌ: وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لَا يَتَكَلَّمُ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْمَعْهُ. قَالَ زَيْدٌ: فَوَاللهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ". [راجع: 57]
(76) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس جنگ یمامہ کے شہداء کی خبر دے کر قاصد کو بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں بڑی سخت معرکہ آرائی ہوئے ہے اور مسلمانوں میں سے جو قراء تھے وہ بڑی تعداد میں شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف جگہوں میں قراء کرام یوں ہی شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کہیں ضائع نہ ہوجائے کہ اس کا کوئی حافظ ہی نہ رہے، اس لئے میری رائے یہ ہوئی کہ میں آپ کو جمع قرآن کا مشورہ دوں، میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں؟ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ بخدا! یہ کام سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ مجھ سے مسلسل اس پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس مسئلے پر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی شرح صدر عطاء فرمادیا اور اس سلسلے میں میری بھی وہی رائے ہوگئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ادب سے بولتے نہ تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی نے فرمایا کہ آپ ایک سمجھدار نوجوان ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہیں، اس لئے جمع قرآن کا یہ کام آپ سرانجام دیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بخدا! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے منتقل کرنے کا حکم دے دیتے تو وہ مجھ پر جمع قرآن کے اس حکم سے زیادہ بھاری نہ ہوتا، چنانچہ میں نے بھی ان سے یہی کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، آپ وہ کام کیوں کررہے ہیں؟ (لیکن جب میرا بھی شرح صدر ہوگیا تو میں نے یہ کام شروع کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا).
(77) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى الْعَبَّاسِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ، خَاصَمَ الْعَبَّاسُ عَلِيًّا فِي أَشْيَاءَ تَرَكَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: شَيْءٌ تَرَكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُحَرِّكْهُ فَلا أُحَرِّكُهُ. فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: شَيْءٌ لَمْ يُحَرِّكْهُ أَبُو بَكْرٍ فَلَسْتُ أُحَرِّكُهُ، قَالَ: فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُثْمَانُ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَسْكَتَ عُثْمَانُ وَنَكَّسَ رَأْسَهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَخَشِيتُ أَنْ يَأْخُذَهُ، فَضَرَبْتُ بِيَدِي بَيْنَ كَتِفَيِ الْعَبَّاسِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِلَّا سَلَّمْتَهُ لِعَلِيٍّ، قَالَ: فَسَلَّمَهُ لَهُ. [قال شعيب: صحيح وإسناده صحيح]
(77) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک پرواز کر گئی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوگئے، تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز چھوڑ کر گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا۔
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے تو وہ دونوں حضرات ان کے پاس اپنا معاملہ لے کر آئے لیکن انہوں نے یہی فرمایا کہ جس چیز کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا، جب خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو وہ دونوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھی آئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کا موقف سن کر خاموشی اختیار کی اور سر جھکالیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے حکومت کی تحویل میں نہ لے لیں چنانچہ میں اپنے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور ان سے کہا اباجان! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اسے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیجئے چنانچہ انہوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا۔
(78) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي تَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي فُلانٌ، وَفُلانٌ، فَعَدَّ سِتَّةً أَوْ سَبْعَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ، فِيهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ إِذْ دَخَلَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ، قَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: مَهْ يَا عَبَّاسُ، قَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ، تَقُولُ: ابْنُ أَخِي، وَلِي شَطْرُ الْمَالِ، وَقَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ يَا عَلِيُّ، تَقُولُ: ابْنَتُهُ تَحْتِي، وَلَهَا شَطْرُ الْمَالِ، وَهَذَا مَا كَانَ فِي يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَيْنَا كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِيهِ، فَوَلِيَهُ أَبُو بَكْرٍ مِنْ بَعْدِهِ، فَعَمِلَ فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلِيتُهُ مِنْ بَعْدِ أَبِي بَكْرٍ فَأَحْلِفُ بِاللهِ لَأَجْهَدَنَّ أَنْ أَعْمَلَ فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ وَعَمَلِ أَبِي بَكْرٍ. ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ - وَحَلَفَ بِاللهِ أَنَّهُ لَصَادِقٌ - أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُورَثُ، وَإِنَّمَا مِيرَاثُهُ فِي فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ وَالْمَسَاكِينِ "، وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ - وَحَلَفَ بِاللهِ إِنَّهُ صَادِقٌ -: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يَمُوتُ حَتَّى يَؤُمَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهِ ". وَهَذَا مَا كَانَ فِي يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَيْنَا كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِيهِ، فَإِنْ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا لِتَعْمَلا فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمَلِ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قَالَ: فَخَلَوَا ثُمَّ جَاءَا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: ادْفَعْهُ إِلَى عَلِيٍّ، فَإِنِّي قَدْ طِبْتُ نَفْسًا بِهِ لَهُ. [صحيح لغيره دون قوله: "إن النبي لا يموت حتى يؤمه بعض أمته"]
(78) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عباس (رضی اللہ عنہ)! رک جائیے، مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ یہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے بھتیجے تھے اس لئے آپ کو نصف مال ملنا چاہئے، اور اے علی (رضی اللہ عنہ)! مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آپ کے نکاح میں تھیں اور ان کا آدھا حصہ بنتا تھا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں جو کچھ تھا، وہ میرے پاس موجود ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کیا طریقہ کار تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، انہوں نے وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد مجھے خلیفہ بنایا گیا، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا، میں اسی طرح کرنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا۔
پھر فرمایا کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی اور اپنے سچے ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ان کا ترکہ فقراء مسلمین اور مساکین میں تقسیم ہوتاہے، اور مجھ سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بھی بیان کی اور اپنے سچا ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی نبی اس وقت تک دنیا سے رخصت نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے کسی امتی کی اقتداء نہیں کر لیتا۔
بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا، وہ یہ موجود ہے، اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو بھی دیکھا ہے، اب اگر آپ دونوں چاہتے ہیں کہ میں یہ اوقاف آپ کے حوالے کردوں اور آپ اس میں اسی طریقے سے کام کریں گے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے رہے تو میں اسے آپ کے حوالے کردیتا ہوں۔
یہ سن کر وہ دونوں کچھ دیر کے لئے خلوت میں چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ یہ اوقاف علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کردیں، میں اپنے دل کی خوشی سے اس بات کی اجازت دیتا ہوں۔
(79) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالا: إِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنِّي لَا أُورَثُ ". [قال الترمذي: حسن غريب من هذا الوجه (الترمذي: 1608) وقال الألباني: صحيح، قال شعيب: اسناده حسن] [راجع: 60]
(79) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں، اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا، دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے مال میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔
(80) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى - يَعْنِي ابْنَ الْمُسَيَّبِ - عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: إِنِّي لَجَالِسٌ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَهْرٍ، فَذَكَرَ قِصَّةً، فَنُودِيَ فِي النَّاسِ: أَنَّ الصَّلاةَ جَامِعَةٌ، وَهِيَ أَوَّلُ صَلاةٍ فِي الْمُسْلِمِينَ نُودِيَ بِهَا: أنَّ الصَّلاةَ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، شَيْئًا صُنِعَ لَهُ كَانَ يَخْطُبُ عَلَيْهِ، وَهِيَ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَهَا فِي الْإِسْلامِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، وَلَوَدِدْتُ أَنَّ هَذَا كَفَانِيهِ غَيْرِي، وَلَئِنْ أَخَذْتُمُونِي بِسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُطِيقُهَا، إِنْ كَانَ لَمَعْصُومًا مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنْ كَانَ لَيَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ. [اسناده ضعيف]
(80) قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ایک مہینے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں میں منادی کر دی گئی کہ نماز تیار ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ پہلی نماز تھی جس کے لئے مسلمانوں میں "الصلوۃ جامعۃ" کہہ کر منادی کی گئی تھی، چنانچہ لوگ جمع ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے، یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا جو آپ نے اہل اسلام کے سامنے ارشاد فرمایا: اس خطبے میں آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد وثناء کی، پھر فرمایا لوگو! میری خواہش تھی کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کام کو سنبھال لیتا، اگر آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر رکھ کر دیکھنا چاہیں گے تو میرے اندر اس پر پورا اترنے کی طاقت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو شیطان کے حملوں سے محفوط تھے اور ان پر تو آسمان سے وحی کا نزول ہوتا تھا (اس لئے میں ان کے برابر کہاں ہوسکتا ہوں؟)
(81) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُولَ إِذَا أَصْبَحْتُ، وَإِذَا أَمْسَيْتُ، وَإِذَا أَخَذْتُ مَضْجَعِي مِنَ اللَّيْلِ: " اللهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاواتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا، أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ". [قال شعيب: حسن لغيره] آخِرُ مُسْنَدِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
(81) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعاء پڑھنے کا حکم دیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے، خود اپنی جان پر کسی گناہ کا بوجھ لادنے سے یا کسی مسلمان کو اس میں کھینچ کر مبتلا کرنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں.
(75) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا، اس پر ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ ہی نے ہمیں نہیں بتایا کہ سب سے زیادہ غلام اور یتیم اس امت میں ہی ہوں گے؟ (یعنی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا ہوجانا ممکن ہی نہیں بلکہ واقع بھی ہے) فرمایا کیوں نہیں! البتہ تم ان کی عزت اسی طرح کرو جیسے اپنی اولاد کی عزت کرتے ہو، اور جو خود کھاتے ہو اسی میں سے انہیں بھی کھلایا کرو، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کا دنیا میں ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ فرمایا وہ نیک گھوڑا جسے تم تیار کرتے ہو، اس پر تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرسکتے ہو اور تمہارا غلام تمہاری کفایت کرسکتا ہے، یاد رکھو! اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو وہ تمہارا بھائی ہے، یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ دہرائی۔
(76) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَرْسَلَ إِلَيْهِ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ عِنْدَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِأَهْلِ الْيَمَامَةِ مِنْ قُرَّاءِ الْقُرْآنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ لَا يُوعَى، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَكَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هُوَ وَاللهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللهُ بِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ فِيهِ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، قَالَ زَيْدٌ: وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لَا يَتَكَلَّمُ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْمَعْهُ. قَالَ زَيْدٌ: فَوَاللهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ". [راجع: 57]
(76) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس جنگ یمامہ کے شہداء کی خبر دے کر قاصد کو بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں بڑی سخت معرکہ آرائی ہوئے ہے اور مسلمانوں میں سے جو قراء تھے وہ بڑی تعداد میں شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف جگہوں میں قراء کرام یوں ہی شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کہیں ضائع نہ ہوجائے کہ اس کا کوئی حافظ ہی نہ رہے، اس لئے میری رائے یہ ہوئی کہ میں آپ کو جمع قرآن کا مشورہ دوں، میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں؟ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ بخدا! یہ کام سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ مجھ سے مسلسل اس پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس مسئلے پر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی شرح صدر عطاء فرمادیا اور اس سلسلے میں میری بھی وہی رائے ہوگئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ادب سے بولتے نہ تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی نے فرمایا کہ آپ ایک سمجھدار نوجوان ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہیں، اس لئے جمع قرآن کا یہ کام آپ سرانجام دیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بخدا! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے منتقل کرنے کا حکم دے دیتے تو وہ مجھ پر جمع قرآن کے اس حکم سے زیادہ بھاری نہ ہوتا، چنانچہ میں نے بھی ان سے یہی کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، آپ وہ کام کیوں کررہے ہیں؟ (لیکن جب میرا بھی شرح صدر ہوگیا تو میں نے یہ کام شروع کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا).
(77) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى الْعَبَّاسِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ، خَاصَمَ الْعَبَّاسُ عَلِيًّا فِي أَشْيَاءَ تَرَكَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: شَيْءٌ تَرَكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُحَرِّكْهُ فَلا أُحَرِّكُهُ. فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: شَيْءٌ لَمْ يُحَرِّكْهُ أَبُو بَكْرٍ فَلَسْتُ أُحَرِّكُهُ، قَالَ: فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُثْمَانُ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَسْكَتَ عُثْمَانُ وَنَكَّسَ رَأْسَهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَخَشِيتُ أَنْ يَأْخُذَهُ، فَضَرَبْتُ بِيَدِي بَيْنَ كَتِفَيِ الْعَبَّاسِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِلَّا سَلَّمْتَهُ لِعَلِيٍّ، قَالَ: فَسَلَّمَهُ لَهُ. [قال شعيب: صحيح وإسناده صحيح]
(77) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک پرواز کر گئی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوگئے، تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز چھوڑ کر گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا۔
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے تو وہ دونوں حضرات ان کے پاس اپنا معاملہ لے کر آئے لیکن انہوں نے یہی فرمایا کہ جس چیز کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا، جب خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو وہ دونوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھی آئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کا موقف سن کر خاموشی اختیار کی اور سر جھکالیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے حکومت کی تحویل میں نہ لے لیں چنانچہ میں اپنے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور ان سے کہا اباجان! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اسے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیجئے چنانچہ انہوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا۔
(78) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي تَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي فُلانٌ، وَفُلانٌ، فَعَدَّ سِتَّةً أَوْ سَبْعَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ، فِيهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ إِذْ دَخَلَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ، قَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: مَهْ يَا عَبَّاسُ، قَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ، تَقُولُ: ابْنُ أَخِي، وَلِي شَطْرُ الْمَالِ، وَقَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ يَا عَلِيُّ، تَقُولُ: ابْنَتُهُ تَحْتِي، وَلَهَا شَطْرُ الْمَالِ، وَهَذَا مَا كَانَ فِي يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَيْنَا كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِيهِ، فَوَلِيَهُ أَبُو بَكْرٍ مِنْ بَعْدِهِ، فَعَمِلَ فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلِيتُهُ مِنْ بَعْدِ أَبِي بَكْرٍ فَأَحْلِفُ بِاللهِ لَأَجْهَدَنَّ أَنْ أَعْمَلَ فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ وَعَمَلِ أَبِي بَكْرٍ. ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ - وَحَلَفَ بِاللهِ أَنَّهُ لَصَادِقٌ - أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُورَثُ، وَإِنَّمَا مِيرَاثُهُ فِي فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ وَالْمَسَاكِينِ "، وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ - وَحَلَفَ بِاللهِ إِنَّهُ صَادِقٌ -: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يَمُوتُ حَتَّى يَؤُمَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهِ ". وَهَذَا مَا كَانَ فِي يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَيْنَا كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِيهِ، فَإِنْ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا لِتَعْمَلا فِيهِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمَلِ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قَالَ: فَخَلَوَا ثُمَّ جَاءَا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: ادْفَعْهُ إِلَى عَلِيٍّ، فَإِنِّي قَدْ طِبْتُ نَفْسًا بِهِ لَهُ. [صحيح لغيره دون قوله: "إن النبي لا يموت حتى يؤمه بعض أمته"]
(78) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عباس (رضی اللہ عنہ)! رک جائیے، مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ یہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے بھتیجے تھے اس لئے آپ کو نصف مال ملنا چاہئے، اور اے علی (رضی اللہ عنہ)! مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آپ کے نکاح میں تھیں اور ان کا آدھا حصہ بنتا تھا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں جو کچھ تھا، وہ میرے پاس موجود ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کیا طریقہ کار تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، انہوں نے وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد مجھے خلیفہ بنایا گیا، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا، میں اسی طرح کرنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا۔
پھر فرمایا کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی اور اپنے سچے ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ان کا ترکہ فقراء مسلمین اور مساکین میں تقسیم ہوتاہے، اور مجھ سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بھی بیان کی اور اپنے سچا ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی نبی اس وقت تک دنیا سے رخصت نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے کسی امتی کی اقتداء نہیں کر لیتا۔
بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا، وہ یہ موجود ہے، اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو بھی دیکھا ہے، اب اگر آپ دونوں چاہتے ہیں کہ میں یہ اوقاف آپ کے حوالے کردوں اور آپ اس میں اسی طریقے سے کام کریں گے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے رہے تو میں اسے آپ کے حوالے کردیتا ہوں۔
یہ سن کر وہ دونوں کچھ دیر کے لئے خلوت میں چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ یہ اوقاف علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کردیں، میں اپنے دل کی خوشی سے اس بات کی اجازت دیتا ہوں۔
(79) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالا: إِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنِّي لَا أُورَثُ ". [قال الترمذي: حسن غريب من هذا الوجه (الترمذي: 1608) وقال الألباني: صحيح، قال شعيب: اسناده حسن] [راجع: 60]
(79) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں، اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا، دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے مال میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔
(80) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى - يَعْنِي ابْنَ الْمُسَيَّبِ - عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: إِنِّي لَجَالِسٌ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَهْرٍ، فَذَكَرَ قِصَّةً، فَنُودِيَ فِي النَّاسِ: أَنَّ الصَّلاةَ جَامِعَةٌ، وَهِيَ أَوَّلُ صَلاةٍ فِي الْمُسْلِمِينَ نُودِيَ بِهَا: أنَّ الصَّلاةَ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، شَيْئًا صُنِعَ لَهُ كَانَ يَخْطُبُ عَلَيْهِ، وَهِيَ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَهَا فِي الْإِسْلامِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، وَلَوَدِدْتُ أَنَّ هَذَا كَفَانِيهِ غَيْرِي، وَلَئِنْ أَخَذْتُمُونِي بِسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُطِيقُهَا، إِنْ كَانَ لَمَعْصُومًا مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنْ كَانَ لَيَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ. [اسناده ضعيف]
(80) قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ایک مہینے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں میں منادی کر دی گئی کہ نماز تیار ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ پہلی نماز تھی جس کے لئے مسلمانوں میں "الصلوۃ جامعۃ" کہہ کر منادی کی گئی تھی، چنانچہ لوگ جمع ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے، یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا جو آپ نے اہل اسلام کے سامنے ارشاد فرمایا: اس خطبے میں آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد وثناء کی، پھر فرمایا لوگو! میری خواہش تھی کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کام کو سنبھال لیتا، اگر آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر رکھ کر دیکھنا چاہیں گے تو میرے اندر اس پر پورا اترنے کی طاقت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو شیطان کے حملوں سے محفوط تھے اور ان پر تو آسمان سے وحی کا نزول ہوتا تھا (اس لئے میں ان کے برابر کہاں ہوسکتا ہوں؟)
(81) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُولَ إِذَا أَصْبَحْتُ، وَإِذَا أَمْسَيْتُ، وَإِذَا أَخَذْتُ مَضْجَعِي مِنَ اللَّيْلِ: " اللهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاواتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا، أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ". [قال شعيب: حسن لغيره] آخِرُ مُسْنَدِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
(81) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعاء پڑھنے کا حکم دیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے، خود اپنی جان پر کسی گناہ کا بوجھ لادنے سے یا کسی مسلمان کو اس میں کھینچ کر مبتلا کرنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں.
_________________________