عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
(120) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ حُمْرَةَ بْنِ عَبْدِ كُلالٍ، قَالَ: سَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى الشَّامِ بَعْدَ مَسِيرِهِ الْأَوَّلِ كَانَ إِلَيْهَا، حَتَّى إِذَا شَارَفَهَا، بَلَغَهُ وَمَنْ مَعَهُ أَنَّ الطَّاعُونَ فَاشٍ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: ارْجِعْ وَلا تَقَحَّمْ عَلَيْهِ، فَلَوْ نَزَلْتَهَا وَهُوَ بِهَا لَمْ نَرَ لَكَ الشُّخُوصَ عَنْهَا. فَانْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَعَرَّسَ مِنْ لَيْلَتِهِ تِلْكَ، وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْهُ، فَلَمَّا انْبَعَثَ، انْبَعَثْتُ مَعَهُ فِي أَثَرِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: رَدُّونِي عَنِ الشَّامِ بَعْدَ أَنْ شَارَفْتُ عَلَيْهِ، لِأَنَّ الطَّاعُونَ فِيهِ، أَلَا وَمَا مُنْصَرَفِي عَنْهُ بمُؤَخِّرٍّ فِي أَجَلِي، وَمَا كَانَ قُدُومِي مِنْهُ بمُعَجِّلِي عَنْ أَجَلِي، أَلا وَلَوْ قَدْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَفَرَغْتُ مِنْ حَاجَاتٍ لَا بُدَّ لِي مِنْهَا، لَقَدْ سِرْتُ حَتَّى أَدْخُلَ الشَّامَ، ثُمَّ أَنْزِلَ حِمْصَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيَبْعَثَنَّ اللهُ مِنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلا عَذَابَ عَلَيْهِمْ، مَبْعَثُهُمْ فِيمَا بَيْنَ الزَّيْتُونِ وَحَائِطِهَا فِي الْبَرْثِ الْأَحْمَرِ مِنْهَا". [إسناده ضعيف، صححه الحاكم (3/88) وقال الذهبي: منكر. وقال ابن الجوزي في "العلل المتناهية" (1/307): هذا حديث لا يصح]
(120) حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد ایک مرتبہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔
چنانچہ مشورہ کے مطابق حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آگئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آجانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں تو تاخیر ہو نہیں سکتی، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آجائے اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو گیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر "حمص" میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا نہ حساب ہوگا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ ونرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہوگی۔
(121) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَقِيلٍ، عَنِ ابْنِ عَمِّهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ: " مَنْ قَامَ إِذَا اسْتَقَلَّتِ الشَّمْسُ فَتَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ فَكَانَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي أَنْ أَسْمَعَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ تُجَاهِي جَالِسًا: أَتَعْجَبُ مِنْ هَذَا؟ فَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْجَبَ مِنْ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَ، فَقُلْتُ: وَمَا ذَاكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ فَقَالَ عُمَرُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ رَفَعَ نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ ". [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 170) قال شعيب: صحيح لغيره]
(121) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حدیث بیان کرنے کے لئے بیٹھے اور فرمایا جو شخص استقلال شمس کے وقت کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پرھ لے، اس کے سارے گناہ اس طرح معاف کردئیے جائیں گے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کی توفیق عطا فرمائی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس مجلس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ آپ کے آنے سے پہلے نبی نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات فرمائی تھی، میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فداء ہوں، وہ کیا بات تھی؟ فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور یہ کہے
اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ
اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔
(122) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ - يَعْنِي أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ - قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُسْلِيِّ عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ضِفْتُ عُمَرَ، فَتَنَاوَلَ امْرَأَتَهُ فَضَرَبَهَا، وَقَالَ: يَا أَشْعَثُ، احْفَظْ عَنِّي ثَلاثًا حَفِظْتُهُنَّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسْأَلِ الرَّجُلَ فِيمَ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ، وَلا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وَتْرٍ " وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ. [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 2147، ابن ماجة: 1986)]
(122) اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعوت کی ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں دعوت میں جانے سے روکا انہیں یہ بات ناگوار گذری اور انہوں نے اپنی بیوی کو مارا، پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث! تین باتیں یاد رکھو جو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہیں ۔
(١) کسی شخص سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے؟
(٢) وتر پڑھے بغیر مت سویا کرو ۔
(٣) تیسری بات میں بھول گیا۔
(123) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا يَزِيدُ - يَعْنِي الرِّشْكَ - عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ أُمِّ عَمْرٍو ابْنَةِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: سَمِعَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ يَلْبَسِ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَلايُكْسَاهُ فِي الْآخِرَةِ. [صححه البخاري (5834) ومسلم (2069)] [راجع: 251، 269]
(123) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔
(124) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيَسِيرَنَّ الرَّاكِبُ فِي جَنَبَاتِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ لَيَقُولُ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا حَاضِرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ كَثِيرٌ ". قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَلَمْ يَجُزْ بِهِ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ جَابِرًا. [قال شعيب: حسن لغيره] [وسيأتي في مسند جابر: 14734]
(124) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ایک سوار مدینہ منورہ کے اطراف وجوانب میں چکر لگاتا ہوگا اور کہتا ہوگا کہ کبھی یہاں بہت سے مومن آباد ہوا کرتے تھے۔
(125) حَدَّثَنَا هَارُونُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي الْقَاسِمِ السَّبَائِيَّ حَدَّثَهُ، عَنْ قَاصِّ الْأَجْنَادِ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا يَقْعُدَنَّ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا الْخَمْرُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا يَدْخُلِ الْحَمَّامَ إِلَّا بِإِزَارٍ، وَمَنْ كَانَتْ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا تَدْخُلِ الْحَمَّامَ". [قال شعيب: حسن لغيره]
(125) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پیش کی جاتی ہو جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بغیر تہبند کے حمام میں داخل نہ ہو اور جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ حمام میں مت جائے۔
(120) حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد ایک مرتبہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔
چنانچہ مشورہ کے مطابق حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آگئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آجانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں تو تاخیر ہو نہیں سکتی، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آجائے اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو گیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر "حمص" میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا نہ حساب ہوگا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ ونرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہوگی۔
(121) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَقِيلٍ، عَنِ ابْنِ عَمِّهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ: " مَنْ قَامَ إِذَا اسْتَقَلَّتِ الشَّمْسُ فَتَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ فَكَانَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي أَنْ أَسْمَعَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ تُجَاهِي جَالِسًا: أَتَعْجَبُ مِنْ هَذَا؟ فَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْجَبَ مِنْ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَ، فَقُلْتُ: وَمَا ذَاكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ فَقَالَ عُمَرُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ رَفَعَ نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ ". [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 170) قال شعيب: صحيح لغيره]
(121) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حدیث بیان کرنے کے لئے بیٹھے اور فرمایا جو شخص استقلال شمس کے وقت کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پرھ لے، اس کے سارے گناہ اس طرح معاف کردئیے جائیں گے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کی توفیق عطا فرمائی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس مجلس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ آپ کے آنے سے پہلے نبی نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات فرمائی تھی، میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فداء ہوں، وہ کیا بات تھی؟ فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور یہ کہے
اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ
اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔
(122) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ - يَعْنِي أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ - قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُسْلِيِّ عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ضِفْتُ عُمَرَ، فَتَنَاوَلَ امْرَأَتَهُ فَضَرَبَهَا، وَقَالَ: يَا أَشْعَثُ، احْفَظْ عَنِّي ثَلاثًا حَفِظْتُهُنَّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسْأَلِ الرَّجُلَ فِيمَ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ، وَلا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وَتْرٍ " وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ. [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 2147، ابن ماجة: 1986)]
(122) اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعوت کی ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں دعوت میں جانے سے روکا انہیں یہ بات ناگوار گذری اور انہوں نے اپنی بیوی کو مارا، پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث! تین باتیں یاد رکھو جو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہیں ۔
(١) کسی شخص سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے؟
(٢) وتر پڑھے بغیر مت سویا کرو ۔
(٣) تیسری بات میں بھول گیا۔
(123) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا يَزِيدُ - يَعْنِي الرِّشْكَ - عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ أُمِّ عَمْرٍو ابْنَةِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: سَمِعَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ يَلْبَسِ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَلايُكْسَاهُ فِي الْآخِرَةِ. [صححه البخاري (5834) ومسلم (2069)] [راجع: 251، 269]
(123) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔
(124) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيَسِيرَنَّ الرَّاكِبُ فِي جَنَبَاتِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ لَيَقُولُ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا حَاضِرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ كَثِيرٌ ". قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَلَمْ يَجُزْ بِهِ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ جَابِرًا. [قال شعيب: حسن لغيره] [وسيأتي في مسند جابر: 14734]
(124) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ایک سوار مدینہ منورہ کے اطراف وجوانب میں چکر لگاتا ہوگا اور کہتا ہوگا کہ کبھی یہاں بہت سے مومن آباد ہوا کرتے تھے۔
(125) حَدَّثَنَا هَارُونُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي الْقَاسِمِ السَّبَائِيَّ حَدَّثَهُ، عَنْ قَاصِّ الْأَجْنَادِ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا يَقْعُدَنَّ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا الْخَمْرُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا يَدْخُلِ الْحَمَّامَ إِلَّا بِإِزَارٍ، وَمَنْ كَانَتْ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلا تَدْخُلِ الْحَمَّامَ". [قال شعيب: حسن لغيره]
(125) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پیش کی جاتی ہو جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بغیر تہبند کے حمام میں داخل نہ ہو اور جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ حمام میں مت جائے۔