• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

920- سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نمازادا کرتے تھے ہم میں سے کوئی ایک شخص جب سلام پھیرتا تھا ، تو اپنے ہاتھ کے ذریعے دائیں طرف اور بائیں طرف اس طرح کہتا تھا : السلام علیکم ، السلام علیکم ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا وجہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ یوں ہلاتے ہو ، جس طرح یہ سرکش گھوڑوں کی دم ہوتے ہیں ۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ اپنے زانوں پر رکھے اور پھر اپنے دائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرے اور بائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرتے ہوئے ”السلام علیکم و رحمتہ اللہ ، السلام علیکم و رحمتہ اللہ“ کہہ دے ۔“


------------------
سیدنا عبدالرحمٰن بن اظہر رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

921- سیدنا عبدالرحمٰن بن اظہر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : غزوۂ حنین کے موقع پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اس وقت کمسن لڑکا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرمارہے تھے : ”کون شخص خالد بن ولید کی رہائشی جگہ تک مجھے لے کے جائے گا“ ؟ تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے دوڑتا ہوا گیا ۔ میں یہ کہتا جارہا تھا : کون شخص سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی رہائشی جگہ تک پہنچائے گا ؟ یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے وہ اس وقت پالان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ انہیں زخم لاحق ہوئے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعائے رحمت کی ۔
(راوی کہتے ہیں) میرا خیال ہے روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دم کیا (یا ان پر لعاب دہن لگایا) “ ۔


------------------
سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

922-سفیان کہتے ہیں : زہری نے مجھے وہ روایات سنائیں جن میں آگ پریکی ہوئی چیز ( کھانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم ثابت ہوتا ہے ) ان میں سے کچھ روایات میں یہ حکم تھا کہ ایسی صورت میں وضو کرنا پڑتا ہے اور کچھ میں یہ حکم تھا کہ ایسی صورت میں وضو نہیں کرنا پڑتا ، تو یہ روایات میرے لیے خلط ملط ہوگئیں ۔ جن روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آگ پریکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو لازم ہوتا ہے وہ روایات ابوسلمہ ، عمربن عبدالعزیز ، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔
سفیان کہتے ہیں : زہری نے علی بن عبداللہ بن عباس کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے ایک روایت مجھے سنائی اور جعفر بن عمر وبن امیہ ضمری کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے بھی مجھے حدیث سنائی ۔
(راوی بیان کرتے ہیں) ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے شانے کو گوشت کاٹا اور اسے تناول کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور ازسر نو وضو نہیں کیا ۔
دوسرے راوی یہ کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کھایا اور نماز ادا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازسر نو وضو نہیں کیا ۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زہری نے ان دونوں حضرات کے حوالے سے یہ روایات نقل کی ہیں ۔ مجھے شک یہ ہے کہ مجھے یہ نہیں پتہ کہ کون سی روایت کے الفاظ کس سے منقول ہیں؟
سفیان کہتے ہیں : زہری آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو لازم ہونے کے قائل تھے ۔


------------------
سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمردیلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

923- سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمردیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”حج ، وقوف عرفات کا نام ہے ، جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے عرفہ تک پہنچ جاتا ہے ، وہ حج کو پالیتا ہے ۔ منیٰ کے مخصوص دن تین ہیں ۔ جو شخص دودن گزرنے کے بعد جلدی چلاجائے ، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور جو شخص ٹھہرا رہے ، تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے“ ۔


------------------
سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

924- سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں طے کے دوپہاڑوں سے یہاں آیا ہوں ۔ اللہ کی قسم ! جب یہاں پہنچا ہوں ، تو میں اپنے آپ کوتھکا چکا تھا ۔ اپنی سواری کوتھکا چکا تھا میں نے ہر ایک پہاڑ پروقوف کیا ہے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں شریک ہوا اور وہ اس سے پہلے عرفہ میں رات کے وقت یادن کے وقت وقوف کر چکا ہو ، تواس کا حج مکمل ہوگیا ۔ اس نے اپنے ذمے لازم چیز کو پورا کردیا ۔“

925- سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں طے کے دوپہاڑوں سے اس وقت یہاں آیا ہوں ۔ میں نے اپنی سواری کوتھکادیا ہے ، خود کوتھکا دیا ہے ۔ کیا میرا حج ہو گیا ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں شریک ہوا اور اس نے ہمارے ساتھ وقوف کیا اور پھر روانہ ہوا تو اگر وہ روانگی سے پہلے عر فہ میں رات کے وقت یا دن کے وقت وقوف کرچکا ہو ، تو اس کا حج مکمل ہوگیا ۔ اس نے اپنے ذمے لازم چیز کو پورا کردیا ۔“


------------------
سیدنا سراقہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

926- سیدنا سراقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ”جعرانہ“ کے مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سوال کروں میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں اپنے حوض کو بھرتا ہوں اور پھر اپنے جا نور کاانتظار کرتا ہوں کہ وہ اس حوض تک آئے اسی دوران کوئی اور جانور جاتا ہے اور وہ اس میں سے پی لیتا ہے ، تو کیا مجھے اس کا اجر ملے گا ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تمہیں ہر پیاسے جاندار کو پانی پلانے کا اجر ملے گا“ ۔
سفیان کہتے ہیں : روایت کے یہ الفاظ میں زہری کی زبانی یاد رکھے تھے، لیکن اس کے ابتدائی حصے میں سے کچھ الفاظ میرے لئے خلط ملط ہوگئے ، تو وائل بن داؤد نے زہری کے حوالے سے وہ بعض حصہ مجھے سنایا ۔ اب میں وضاحت نہیں کرسکتا کہ زہری کی زبانی مجھے کون سے الفاظ یاد تھے اور وائل نے مجھے کس چیز کے بارے میں بتایا ؟
سیدنا سراقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ”جعرانہ“ کے مقام پر موجود تھے ۔ میں انصار کے جس بھی دستے کے پاس سے گزرا تو انہوں نے میرے سر پر مارتے ہوئے کہا: چلے جاؤ ۔ چلے جاؤ ۔ جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے وہ مکتوب بلند کیا ۔ میں نے عرض کی : میں ہوں ، یاسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایک تحریر میں مجھے امان دے چکے تھے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”سب سے بہترین دن وہ ہوتا ہے جس دن وعدے کوپورا کیا جائے اور سچ بولا جائے“ ۔


------------------
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

927- سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک نما ز پڑھائی میرا خیال ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے نہیں ، تو نماز کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے دو مرتبہ سجدہ سہوکرلیا ۔

928- سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تا ہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس رکعت کے بعد کھڑے ہوگئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنا تھا“ ۔
سفیان نامی راوی بعض اوقات راوی کا نام سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اور بعض اوقات سیدنا عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔


------------------
سیدنا عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

929- سیدنا عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تم اپنی قوم کی امامت کرو اور ان میں سے سب سے کمزور فرد کا حساب رکھنا ، کیونکہ لوگوں میں بڑی عمر کے لوگ ، کمزور لوگ اور کام کاج والے لوگ ہوتے ہیں“ ۔

930- سیدنا عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا : ”تم ایسے شخص کو مؤذن رکھنا جو اذان دینے کا معاوضہ وصول نہ کرے“ ۔


------------------
سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

931-سلیمان بن بریدہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”مجاہدین کی بیویاں پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اپنی ماؤں کی طرح قابل احترام ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں میں سے جو شخص کسی مجاہد کی بیوی کے حوالے سے خیانت کامرتکب ہوگا ، تو قیامت کے دن اسے اس مجاہد کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور اس مجاہد سے کہا جائے گا : اے فلاں ! اس فلاں بن فلاں نے تمہارے ساتھ خیانت کی تھی ، تو تم اس کی نیکیوں میں سے جس قدر چاہو حاصل کرلو“ ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تمہارا کیا گمان ہے“ ؟


------------------
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

932- ابوغالب بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے مشق کی سیڑھی پر خارجیوں کے سر ملاحظہ کیے ، تو ارشاد فرمایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ۔ ”یہ اہل جہنم کے کتے ہیں ۔ یہ اہل جہنم کے کتے ہیں ۔ یہ اہل جہنم کے کتے ہیں ۔“ پھر سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ روپڑے پھر انہوں نے ارشاد فرمایا : ”یہ آسمان کے نیچے قتل ہونے والے بدترین افراد ہیں ۔“ اور سب سے بہتر وہ لوگ ہوں گے جوان کے ساتھ جنگ کریں گے ۔
(میں نے دریافت کیا) کیا آپ نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں (اگر نہ سنی ہو اور پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اسے بیان کروں ) تو پھر تو میں بڑی جرأت کا مظاہرہ کروں گا ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک مرتبہ نہیں ، دومرتبہ نہیں ، تین مرتبہ نہیں (اس سے بھی زیادہ مرتبہ ) یہ بات سنی ہے ۔

933- سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”میرے ساتھیوں میں قدرو منزلت کے اعتبار سے میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل رشک وہ مومن ہے ، جس کی پشت کا بوجھ کم ہو (یعنی جس کا مال اور عیال کم ہوں) جو بکثرت نوافل ادا کرتا ہو اگرچہ وہ لوگوں میں مشہور نہ ہو ۔ جب اسے موت آجائے ، تواس پر رونے والے کم ہوں اور اس کی وراثت کا مال بھی کم ہو ۔“

934- سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”گانے والی عورت کا معاوضہ حلال نہیں ہے اسے فروخت کرنا اور خرید نا بھی حلال نہیں ہے نہ ہی اسے سننا جائز ہے“ ۔


------------------
سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

935- سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں : انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے ۔ ”آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے متعلق کوئی بات کہتا ہے ، جس کے بارے میں وہ یہ گمان نہیں کرتا کہ یہ بات کہاں تک جاسکتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کلمے کی وجہ سے قیامت کے دن تک کے لیے اس سے ناراضگی درج کرلیتا ہے ۔ اور کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے متعلق کوئی بات کہتا ہے اور اسے یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ بات کہاں تک جائے گی ، تو اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے قیامت کے دن تک کے لیے اس شخص کے لیے رضا مندی درج کرلیتا ہے ۔“
امام حمیدی کہتے ہیں : میرے نزدیک یہ روایت ان تک پہنچی ہے جیسا کہ انہوں نے پہلے یہ بات بیان کی ہے ۔

تخریج:
920- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 430، 431، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 733، 1544، 1708، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1878، 1879، 1880، 1881، 2154، 2162، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 815 ، 1183 ، 1184 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 661، 998 1000، 4823، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 992، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3009، 3010، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21138، 21155، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7482)
921- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7090، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17085، 19394)
922- (إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 207، 208، 675، 2923، 5404، 5405، 5408، 5422، 5462، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 354، 355، 359، ومالك فى «الموطأ» برقم: 71 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 38، 1 / 160، برقم: 39، 1 / 162، برقم: 40، 1 / 163، برقم: 41، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1141، 1150، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 184 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 187، 4673، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1836، والدارمي فى «مسنده» برقم: 754، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 488، 490، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 721، 722، 723، 14743، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2013، 2019، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2352، 2733، 6878)
923- (إسناده صحيح و أخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2822، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3892، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1709، 3118، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3016 ، 3044 ، والنسائي فى «الكبریٰ» 3997، 3998، 4036، 4166، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1949، والترمذي فى «جامعه» برقم: 889، 890، 2975، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1929، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3015، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9562، 9787)
924- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3851، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1706، 1707، 1708، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3039 ، 3040 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4031، 4032، 4033، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1950، والترمذي فى «جامعه» برقم: 891، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1930، 1931، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3016، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9563، 9564، 9921، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2514، 2515، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16458، 16459)
925- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
926-(ابن سراقة ما عرفته، غير أن الحديث صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 542، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6662، 6663، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3686، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7901، 7902، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17855، 17858)
927- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 829، 830، 1224، 1225، 1230، 6670، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 570، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1938، 1939، 1941، 2676، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1208، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1176 ، 1177 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1034، والترمذي فى «جامعه» برقم: 391، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1540، 1541، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1206، 1207، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2846، 2847 وأحمد فى «مسنده» برقم: 23385، 23386)
928- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
929- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 468، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 423، 1608، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 727، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 671 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1648، وأبو داود فى «سننه» برقم: 531، والترمذي فى «جامعه» برقم: 209، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 714، 987، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2050، 5351، 5352، 5361، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16528، 16529)
930- (في إسناده علتان : أشعث بن سوار وهو ضعيف وعنعنة الحسن البصري رحمه الله وقد أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 209، وابن ماجه فى «سننه» ، برقم: 714، 987، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 2384، 4693، وأخرجه الطبراني فى الكبير برقم: 8376
- وقال الترمذي: ”حديث عثمان حديث حسن صحيح“ )
931- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1897، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4634، 4635، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3189 ، 3190 ، 4385، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2496، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18652، 18653، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23443)
932- (إسناده حسن من أجل أبى غالب وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2669، 2670، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3000، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 176، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16883 ، 16884، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5205، برقم: 22581، 22613، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 8036)
933- (إسناده ضعيف بل فيه ضعيفان : أبو مهلب و شيخه و أخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7241، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2347، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4117، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22597، 22627، 22628، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1229، والطبراني فى "الكبير" برقم: 7829، 7860)
934- (في إسناده ضعيفان: أبو مهلب:المطرح و شيخه وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 1282، 3195، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2168، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11170، 11171، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22599، 22648، والطبراني فى "الكبير" برقم: 7805)
935-(إسناده حسن وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 3611 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 280، 281، 287، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 136، 137، 138، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2319، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3969، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 706، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16763، 16764، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16094)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا ایاس بن عبد مزنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

936- سیدنا ایاس بن عبد مزنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے انہوں نے کچھ لوگوں کو پانی فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا : پانی فروخت نہ کرو کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی فروخت کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے ۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ اس سے مراد کون سا پانی ہے ؟

937-سفیا ن کہتے ہیں : ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ پانی ہے ، جسے اسی جگہ فروخت کیا جائے ، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے نکالا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بھی نقل کی گئی ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اضافی پانی کو فروخت کرنے سے منع کیا ہے ۔


------------------
سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

938- سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لاٹھی کے ذریعے شکار کرنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”: تم اسے نہ کھاؤ صرف وہ کھاؤ جسے تم نے ذبح کیا ہو“ ۔

939- سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لاٹھی کے ذریعے شکار کرنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جو شکار اس کی دھار کے ذریعے مرا ہوا سے کھالو اور چوڑائی کی سمت لگنے سے مرا ہوا سے نہ کھاؤ کیونکہ وہ چوٹ کھا کر مرا ہوا جانور ہوگا“ ۔

940- سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : ”ا س وقت تمہارا کیا حال ہوگا ، جب ایک عورت یمن کے دور دراز کے علاقے سے چل کر ”حیرہ“ کے محلات تک آئے گی اور اسے صر ف اللہ تعالیٰ کاخوف ہوگا“ ۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اس وقت طے قبیلے کے ڈاکوؤں اور ( لٹیرے ) افرا د کا کیا بنے گا ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس عورت کے لیے اللہ تعالیٰ طے قبیلے اور باقی سب افراد کے حوالے سے کافی ہوگا“ ۔
مجاہد نامی راوی کہتے ہیں : (ایک ایساو قت بھی آیا) کہ جب کوئی عورت ”حضرموت“ سے روانہ ہوتی تھی اور ”حیرہ“ تک آجاتی تھی ۔

941- سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (یعنی یہ تلاوت کی) ”جب تک سفیدد ھا گے سے ممتاز نہیں ہوجاتا ۔“
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے دو دھاگے لیے ان میں سے ایک سفید تھا اور دوسرا سیاہ تھا ۔ میں ان دونوں کا جائز لیتا رہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کچھ ارشاد فرمایا)
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مجھے یاد نہیں ہیں بہرحال اس سے مراد رات اور دن تھا ۔
سفیان سے دریافت کیاگیا : کیا آپ نے مجاہد کی زبانی یہ بات سنی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔ انہوں نے اسے بڑے اچھے طریقے سے بیان کیا تھا ، لیکن میں روایت کے مکمل الفاظ یاد نہیں رکھ سکا ۔

942- سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ کتے کے شکار کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب تم اپنے تربیت یافتہ کتے کوچھوڑتے ہوئے اس پر اللہ کا نام لے لو تو جو شکار وہ تمہارے لیے کرے اسے تم کھالو ۔ اگر وہ خود (اس شکار میں سے کچھ) کھالے ، تو تم اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکاراس نے اپنے لیے کیا ہے“ ۔
میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے کہ اگر ہمارے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے بھی آکر مل جاتے ہیں ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم نے اپنے کتے پر اللہ کا نام ذکر کیا تھا“ ۔




تخریج:

936- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4952، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2299، 2300، 2373، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4675 ، 4676 ، 4677 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6212، 6213، 6214، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3478، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1271، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2654، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2476، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11172، 11173، 11174، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15683، 17509)
937- (إسناده صحيح و أخرجه ابن حبان فى ” صحيحه“ : 4955)
938- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 175، 2054، 5475، 5476، 5477، 5483، 5484، 5486، 5487، 7397، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1929، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 5880، 5881 وأبو داود فى «سننه» برقم: 2847، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2045، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1465، 1468، 1469، 1470، 1471 وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3208، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 19916)
939- (إسناده ضعيف لضعف مجالد ، ولكن الحديث متفق عليه ، فقد أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 175، 2054، 5475، 5476، 5477، 5483، 5484، 5486، 5487، 7397، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1929، وابن حبان فى "صحيحه برقم: 5880، 5881، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4274 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2847، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1465، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2045، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3208، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18934، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18534)
940- (إسناده ضعيف لضعف مجالد ، ولكن الحديث صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1413، 1417، 3595، 6023، 6539، 6540، 6563، 7443، 7512، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1016، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2428، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 473، 666، 2804، 6679، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2551 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2415 (م) ، 2953 (م 2) ، 2954، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1698، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 185، 1843، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7837، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18535، والطبراني فى "الصغير" برقم: 917)
941-(إسناده ضعيف لضعف مجالد، ولكن الحديث متفق عليه ، فقد أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1916، 4509، 4510، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1090، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1925، 1926، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3462، 3463، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2168 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2490، 10954، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2349، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2970، 2970 (م) ، 2971، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1736، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 277، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8096، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19680، 19685)
942-(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 175، 2054، 5475، 5476، 5477، 5483، 5484، 5486، 5487، 7397، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1929، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5880، 5881، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4274 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2847، 2848، 2849، 2850، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1465، 1468، 1469، 1470، 1471، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2045، 2046، 2052، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3208، 3212، 3213، 3214، 3215، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18934، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18534)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

943- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر یہ بات ارشاد فرمائی : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”حلال واضح ہے ، حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں ، تو جو شخص ایسی چیز کو ترک کردے جس کے گناہ ہونے کا شبہ ہو ، تو وہ اس چیز کو بدرجہ اولیٰ ترک کرے گا ، واضح طور پر گناہ ہے ۔ اور جو شخص مشکوک معاملے کے بارے میں جرأت کا مظاہرہ کرے ، تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ آگے چل کر حرام میں مبتلا ہوجائے ۔ ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ وہ امور ہیں ، جنہیں اس نے گناہ قرار دیا ہے ۔“

944- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر یہ بات بیان کی : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”اہل ایمان کے باہمی تعلق ان کی ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے پر رحم کرنے کی مثال اس انسان کی طرح ہے ، جس کے اعضاء میں سے کوئی ایک عضو بیمار ہوجائے ، تو پورا جسم بخاراور تجگے کا شکار ہوجاتا ہے ۔“

945- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح و سالم رہے ، تو سارا جسم صحیح و سالم رہتا ہے ۔ اگر وہ بیمار ہوجائے ، تو سارا جسم بیمار اور خراب ہوجاتا ہے ۔ وہ دل ہے ۔“

946- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کرنے والا اور ان کی خلاف ورزی کرنے والا ایسے افراد کی مانند ہیں جوایک کشتی میں حصے کر لیتے ہیں کچھ لوگ اوپر والے حصے میں چلے جاتے ہیں اور کچھ نیچے والے حصے میں چلے جاتے ہیں جو کم بہتر ہے ۔ کشتی والوں کے گزرنے کی جگہ اور پانی کے حصول کی جگہ نیچے والا حصہ ہے ۔ نیچے والے لوگ جب اپنی چگہ پر آتے ہیں ، تو وہ کلہاڑا لیتے ہیں دوسرے لوگ اس سے پوچھتے ہیں : تم کیا کرنے لگے ہو ؟ تو وہ کہتا ہے : میں اپنی مخصوص جگہ میں سوراخ کرنے لگا ہوں تاکہ میں پانی کے قریب ہوجاؤں اور میری گزر گاہ اور پانی کے بہاؤ کی جگہ دستیاب ہو (تو دوسرے لوگوں میں سے ) کچھ یہ کہتے ہیں : اسے چھوڑدو ۔ اللہ تعالیٰ اسے دور کرے یہ اپنے حصے میں جو چیز چاہے تو ڑ دے ، لیکن دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں : تم اسے ایسے نہ چھوڑو کہ یہ اسے توڑ دے ، ورنہ یہ ہمیں اور خود کو ہلاکت کاشکار کردے گا“ ۔
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ) ”اگر وہ دوسرے لوگ اسے روک دیتے ہیں تو وہ شخص بھی نجات پائے گا اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی نجات پائیں گے ، لیکن اگر وہ لوگ اسے روکتے نہیں ہیں تو وہ شخص بھی ہلاکت کا شکار ہوگا اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے“ ۔

947- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں ، تو جو شخص ایسی چیز کو ترک کردے جس کے گناہ ہونے کا شبہ ہو ، تو واضح گناہ کو بدرجہ اولیٰ ترک کرے گا اور جو شخص مشکوک چیز کے بارے میں واضح جرات کا مظاہرہ کرے ، تو وہ آگے چل کر حرام میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔ جیسے کوئی شخص چراگاہ کے اردگرد جانور چرارہا ہو ، تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ جانور چراگاہ کے اندر داخل ہو جائیں ۔ بے شک ہر بادشاہ کی مخصوص چراگاہ ہوتی ہے اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی مخصوص چراگاہ وہ امور ہیں ، جنہیں اس نے گناہ قرار دیا ہے ۔“
948- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میرے والد نے ایک غلام مجھے عطیے کے طور پر دیا تو میری والدہ سیدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے گزارش کی آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر انہیں گواہ بنالیں ، تو میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانے کے لیے حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا تم نے اپنی ہرا ولاد کو اسی کی مانند عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی : جی نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں صرف حق بات پر گواہ بن سکتا ہوں“ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر گواہ بننے سے انکار کردیا ۔

949- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (امام حمیدی کہتے ہیں : سفیان اس روایت میں غلطی کرتے ہیں)
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز میں سورہ الاعلیٰ اور سورہ الغاشیہ کی تلاوت کی تھی ۔ جب جمعے کے دن عید آئی تھی اس دن بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی دو سورتوں کی تلاوت کی تھی“ ۔

950-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

951- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ان کے والد نے انہیں کوئی عطیہ دیا پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانے کے لئے حاضر ہوئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : کیا تم نے اپنی ہر اولاد کو اسی کی مانند عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی نہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اسے واپس لے لو“ ۔

تخریج:

943- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 52، 2051، 6011، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1599، 2586، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 233، 297، 721، 5569، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465 ، 5726 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5200، 5997، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10925، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638، 18646)
944- (إسناده ضعيف ، غير أن الحديث متفق عليه ، فقد أخرجه البخاري 6011، و أخرجه مسلم 2586، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 233 297 والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465 ، ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10925، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638)
945- (صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 52، 2051، 6011، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1599، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 233، 297، 721، 5569، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465 ، 5726 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5200، 5997، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10925، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638، 18646)
946- (صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2493، 2686، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 297، 298، 301، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2173، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20245، 21451، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18652، 18661، ، والطبراني فى "الصغير" برقم: 849)
947-(صحيح، وقد تقدم برقم : 946 وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 52، 2051، 6011، ومسلم فى «صحيحه» 1599، 2586، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 233، 297، 721، 5569، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465 ، 5726 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5200، 5997، وأبو داود فى "سننه برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، 10511، 10512، 10926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638، 18646، والحميدي فى "مسنده برقم: 943، 944، 945، والطبراني فى "الصغير" برقم: 382)
948- (صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2586، 2587، 2650، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1623، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2782 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5097، 5098، 5099، 5100، 5102، 5103، 5104، 5105، 5106، 5107، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3674 ، 3675 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3542، 3543، 3544، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2375، 2376، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12115، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18645، 18649)
949- (في إسناده زيادة عن أبيه، بعد حبيب بن سالم، كاتب النعمان ومولاه، ولذلك قال الحمدي: كان سفيان يغلط فيه - ولكن الحديث صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 878، ومالك فى «الموطأ» برقم: 371 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1463، 1845، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2807، 2821، 2822، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1422 ، 1423 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1122، 1123، والترمذي فى «جامعه» برقم: 533، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1607، 1608، 1609، 1648، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1119، 1281، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5804، 5805، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18672، 18674، والحميدي فى «مسنده» برقم: 950)
950- (صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 878، ومالك فى «الموطأ» برقم: 371 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1463، 1845، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2807، 2821، 2822، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1422 ، 1423 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1122، 1123، والترمذي فى «جامعه» برقم: 533، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1607، 1608، 1609، 1648، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1119، 1281، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5804، 5805، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18672، 18674، والحميدي فى «مسنده» برقم: 949)
951- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2586، 2587، 2650، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1623، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2782 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5097، 5098، 5099، 5100، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3674 ، 3675 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3542، 3543، 3544، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2375، 2376، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12115، 12116، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18645، 18649)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا عبداللہ بن اقرم خزاعی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

952-عبید اللہ بن عبداللہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”نمرہ“ میں کھلی جگہ پر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی ۔


------------------
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

953- سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حجرۂ مبارک کے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کنگھی کے ذریعے اپنے سر کو کھجارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ تم یوں دیکھ رہے ہو ، تو میں یہ تمہاری آنکھوں میں چبھو دیتا ۔ اجازت لینے کا حکم اسی لیے مقر کیا گیا ہے ، تاکہ (گھر والوں پر) نظر نہ پڑسکے“ ۔

954- سیدنا سہیل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”مجھے اور قیامت کو اس طرح معبوث کیا گیا ہے جیسے یہ اور یہ ہیں ۔“
سفیان نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ذریعے اشارہ کرکے یہ بات بیان کی ۔

955-ابوحازم بیان کرتے ہیں : لوگوں نے سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامنبر کس چیز سے بنایا گیا تھا ، تو انہوں نے فرمایا : اب لوگوں میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہا جو اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہو ، یہ نواحی جنگلات کی لکڑی سے بنایا گیا تھا ، جسے فلاں شخص نے بنایا تھا ، جو فلاں خاتون کا غلام تھا ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے قدموں نیچے اترے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر منبر پر چڑھ گئے، پھر تلاوت کی پھر رکوع کیا پھر الٹے قدموں نیچے اترے پھر سجدہ کیا۔

956- سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے کیونکہ ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا ، یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے کو پتھر بھی مارے تھے ۔ اس دوران نماز کا وقت ہوگیا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رکے رہے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان میں سے گزرتے ہوئے تشریف لائے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے والی صف تک پہنچے ، تو لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک ایسے فرد تھے ، جو نماز کے دوران ادھر ادھر توجہ نہیں کرتے تھے ، جب انہوں نے تالیوں کی آواز سنی اور توجہ کی ، تو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر رہو ۔ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور الٹے قدموں پیچھے ہٹ گئے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے ابوبکر ! جب میں نے تمہیں اشارہ کیا پھر تم کو کس بات نے روکا“ ؟ (کہ تم میرے حکم پر عمل کرو) تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : اللہ تعالیٰ ، ابوقحافہ کے بیٹے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نہیں دیکھے گا ۔
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اے لوگو ! کیا وجہ ہے کہ جب نماز کے دوران تمہیں ضرورت پیش آئی تو تم نے تالیاں بجانا شروع کردیں ؟ تالیا ں بجانے کاحکم خواتین کے لیے ہے ، مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنے کاحکم ہے ۔ جس شخص کو نماز کے دوران (امام کو متوجہ کرنے کے لیے ) کوئی ضرورت پیش آجائے ، تو وہ سبحان اللہ کہے“ ۔

957- سیدنا سہیل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود افراد میں شامل تھا ۔ ایک خاتون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کرتی ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں اپنی رائے کا جائزہ لے لیں ۔ ایک صاحب کھڑے ہوئے ، انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اس کے ساتھ میری شادی کردیں ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے وہ عورت پھر کھڑی ہوئی اس نے پھر یہی گزارش کی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحب سے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ، جسے تم (مہر کے طور پر) اسے دے سکو ؟ انہوں نے عرض کی : جی نہیں !
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جاؤ اور جاکر کچھ تلاش کرو“ ! وہ صاحب گئے پھر واپس تشریف لائے ، انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجھے کوئی چیز نہیں ملی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جاؤ اور تلاش کرو ، اگر چہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو“ ۔
وہ صاحب گئے پھر آئے اور عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجھے کوئی چیز نہیں ملی ، لوہے کی کوئی انگوٹھی بھی نہیں ملی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تمہیں قرآن آتا ہے“ ؟ انہوں نے عرض کی : جی ہاں فلاں ، فلاں سورۃ آتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ ! تمہیں جو قرآن آتا ہے اس کی وجہ سے میں نے تمہاری شادی اس کے ساتھ کردی“ ۔

958- ابوحازم بیا ن کرتے ہیں : لوگوں کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہوگیا کہ غزوۂ احد کے دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کس طرح کیا گیا تھا ؟ لوگوں نے اس بارے میں سیدنا سہیل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ۔ وہ مدینہ منورہ میں باقی رہ جانے والے آخری صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ تو سیدنا سہیل رضی اللہ عنہ نے بتایا : اب کوئی ایسا شخص باقی نہیں رہا جو اس بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو ۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک سے خون دھویا تھا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لے کرآئے تھے ، پھر چٹائی لے کر اسے جلایا گیا اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم پر لگا دیا گیا ۔

959- سیدنا سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا اور ا س کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۔“


------------------
سیدنا قارب ثقفی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

960- وہب بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کایہ بیان نقل کرتے ہیں : حجۃ الوداع کے موقع پر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ”اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے ۔“ پھر امام حمیدی نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اس طرح اشارہ کیا انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کوپھیلایا ۔
لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! بال چھوٹے کروانے والوں کے لیے بھی (دعا کر دیجئے ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پررحم کرے“ ۔
لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! بال چھوٹے کروانے والوں کے لیے بھی (دعا کر دیجئے ) ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پررحم کرے“ ۔
لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! بال چھوٹے کروانے والوں کے لیے بھی (دعا کر دیجئے ) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” (اللہ تعالیٰ ) بال چھوٹے کروانے والوں ( پربھی رحم کرے ) “
اس مرتبہ حمیدی نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ کیا لیکن انہوں نے پہلی مرتبہ کی مانند اسے نہیں پھیلایا ۔
سفیان کہتے ہیں : میں نے اپنی تحریر میں راوی کا نام ”مارب“ دیکھا ہے اور میری یاداشت کے مطابق ان کا نام ”قارب“ ہے ۔ لوگ بھی انہیں ”قارب“ ہی بیان کرتے ہیں : جس طرح مجھے یاد ہے ۔ تاہم میں یہ کہتا ہوں کہ اس کا نام یا ”قارب“ ہے یا ”مارب“ ہے ۔


------------------
سیدنا ابن خنبش رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

961- سیدنا ابن خنبش رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا حج کی مانند ہے“ ۔

تخریج:

952- (إسناده صحيح و أخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 831، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1107 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 699، والترمذي فى «جامعه» برقم: 274، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 881، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2752، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16663، 16664، 16665، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2923، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 2657، والطبراني فى «الكبير » برقم: 15051)
953- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5924، 6241، 6901، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2156، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5809، 6001، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4874، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7035، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2709، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2429، 2430، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17728، 17729، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23265، 23297، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1042، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7510، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 933، 934، 935، والطبراني فى « الكبير » برقم: 5663)
954- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4936، 5301، 6503، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2950، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6642، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23259، 23298، 23326، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7523، والطبراني فى "الكبير" برقم: 5912، 5953، 5988، والطبراني فى "الأوسط" برقم: 5801)
955- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 377، 448، 917، 2094، 2569، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 544، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2142، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 738 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 820، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1080، والدارمي فى «مسنده» برقم: 41، 1293، 1606، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1416، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5310، 5311، 5312، 5779، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23263، 23318، 23335)
956- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 684، 1201، 1204، 1218، 1234، 2690، 2693، 7190، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 421، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2260، 2261، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4485، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 783 ، 792 ، 1182 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 940، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1035، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3380، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23264، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7513، 7517، 7524، 7545)
957- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري 5149، 2310 و أخرجه مسلم 1425، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4093، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3200 ، 3280 ، 3339 ، 3359 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2111، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1114، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2247، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1889، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7521، 7522، 7539)
958- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 243، 2903، 2911، 3037، 4075، 5248، 5722، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1790، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 973، 6578، 6579، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6504، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9191، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2085، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3464، 3465، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2847، 2848، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4152، 17929، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23262، 23293)
959- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2794، 2892، 3250، 6415، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1881، 1882، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3118 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4311، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1648، 1664، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2443، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2756، 4330، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17960، 18563، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15800، 15804، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7514، 7531، 7534)
960- (إسناده جيد، وأخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 27846، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: برقم: 5671، وله شواهد من حديث ابن عمر و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3880، والترمذي فى «جامعه» برقم: 913، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3044، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1263، 2718، 2476)
961- (إسناده ضعيف لضعف داؤد بن يزيد الأودي الزعافري وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4211، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2991، 2992، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8835، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17873، 17874، 17875، 17936، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13188، والطبراني فى «الكبير» برقم: 357، 358، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 370، 3944)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

962- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : جب قرأت کرنے والا (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو ۔ کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں ، تو جس شخص کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے ساتھ ہوا س شخص کے گزشتہ گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔

963- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : جب جمعہ کا دن آتا ہے ، تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر ایک دروازے پر فرشتے موجود ہوتے ہیں جو لوگوں کی آمد کے اعتبار سے ان کے نام نوٹ کرتے ہیں ۔ پہلے آنے والوں کا نام پہلے کانام پہلے لکھا جاتا ہے ، پھر امام آجاتا ہے ، تو (فرشتوں کے ) صحیفے لپیٹ لیے جاتے ہیں اور وہ خطہ سننے لگتے ہیں ، تو جمعے کے دن جلدی جانے والا اس طرح ہے جیسے وہ اونٹ کی قربانی کرتا ہے ، پھر اس کے بعد والا اس طرح ہے جیسے وہ گائے کی قربانی کرتا ہے ، پھراس کے بعد والا اس طرح ہے جیسے وہ دنبے کی قربانی کرتا ہے ، ، یہاں تک کہ راوی نے مرغی اور انڈے کا بھی ذکر کیا ۔
امام حمیدی کہتے ہیں : سفیان سے کہا گیا : دیگر محدثین نے اس روایت کے بارے میں یہ بات بیان کی ہے کہ یہ روایت ”اغر“ نامی راوی سے منقول ہے ، تو سفیان نے کہا: میں نے زہری کو کھبی بھی ”اغر“ کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں سنا ۔ میں نے تو انہیں یہی سنا ہے کہ انہوں نے اسے سعید کے حوالے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔

964- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ چلتے ہوئے آؤ تم پر سکون لازم ہے جتنا حصہ تمہیں ملے اسے ادا کر لو اور جو گزر جائے اسے بعد میں ادا کرلو“ ۔

965- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”فطرت پانچ چیز یں ہیں“ ۔ (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) ”پانچ چیز یں فطرت کا حصہ ہیں ، ختنہ کرنا ، زیر ناف بال صاف کرنا ، ناخن تراشنا ، بغلوں کے بال صا ف کرنا اور مونچھیں چھوٹی کرنا“ ۔

966- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : کیا کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز ادا کرسکتا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دوکپڑے ہوتے ہیں“ ؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے فرمایا : جس نے ان سے سوال کیا تھا ، کیا تم ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) کو جانتے ہو ؟ وہ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرلیتا ہے ۔ حالانکہ اس کا دوسرا کپڑا کھونٹی پر لٹکا ہوا ہوتا ہے ۔

967- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ۔ اس نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس نے دعا مانگی ۔ ”اے اللہ ! مجھ پر اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ اور کسی پر رحم نہ کرنا“ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ”تم نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کردیا ہے“ ۔
اس کے بعد وہ مسجد میں ہی پیشاب کرنے لگا ، تو لوگ تیزی سے اس کی طرف لپکنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اس پر پانی کا ایک ڈول بہادو“ ۔ (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تمہیں آسانی فراہم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے تمہیں تنگی کرنے کے لیے نہیں بھیجاگیا ۔“

تخریج:

962- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 722، 734، 780، 781، 782، 796، 2957، 3228، 4475، 6402، 7137، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 409، 410، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1804، 1907، 1909، 1911، 2107، 2115، 4556، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 920 ، 921 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 603، 848، 935، 936، 2757، والترمذي فى «جامعه» برقم: 250، 267، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1281، 1282، 1350، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3، 846، 851، 852، 875، 960، 1239، 2859، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2314، 2473، 2474، 2475، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7265، 7308)
963- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 929، 3211، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 850، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1727، 1768، 1769، 1770، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2770، 2774، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 863 ، 1384 ، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1584، 1585، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1092، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5941، 5942، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7378، 7379)
964- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 636، 908، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 602، ومالك فى «الموطأ» برقم: 221 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1065، 1505، 1646، 1772، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2145، 2146 2148، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 860 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 572، 573، والترمذي فى «جامعه» برقم: 327، 328، 329، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1319، وابن ماجه فى «سننه» 775، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1947، 3243، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7350، برقم: 7370)
965- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5889، 5891، 6297، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 257، ومالك فى «الموطأ» برقم: 711، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5479، 5480، 5481، 5482، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 9 ، 10 ، 11 ، 5058 ، 5059 ، 5240 ، ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4198، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2756، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 292، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 697، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7260)
966- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 358، 365، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 515، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 758، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1714، 2295، 2296، 2298، 2303، 2306، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 762 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 625، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1410، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1047، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3326، 3328، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7270، 7371)
967- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 220، 6010، 6128، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 297، 298، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 985، 987، 1399، 1400، 1402، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 56 ، 329 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 380، 882، والترمذي فى «جامعه» برقم: 147، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 529، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4306، 4307، 4308، 4309، وأحمد فى «مسنده» 7375، 7914)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
968- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں دوسری رکعت سے سراٹھایا تو یہ پڑھا ۔ ”اے اللہ ! ولید بن ولید ، سلمہ بن ہشام ، عیاش بن ابوربیعہ اور مکہ میں موجود کمزور افراد کو نجات عطا کر ۔ اے اللہ مضر قبیلے کے افراد پر اپنی سختی نازل کردے اور ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے کی سی قحط سالی نازل کر دے ۔“

969- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میری اس مسجد میں نماز ادا کرنا اس کے علاوہ کسی بھی مسجد میں ایک ہزار نماز یں ادا کرنے سے زیادہ بہتر ہے ۔ البتہ مسجد حرام کا حکم مختلف ہے“ ۔

970-سلیمان بن غتیق بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا : وہ کہتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سنا ہے ۔ ”مسجد حرام میں ایک نماز ادا کرنا اور کسی بھی مسجد میں ایک سو نمازیں ادا کرنے سے افضل ہے ۔“
امام حمیدی کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ، علماء اس بات کے قائل ہیں : مسجد حرام میں نماز ادا کرنا اور کسی بھی مسجد میں ایک لاکھ نماز یں ادا کرنے سے افضل ہے ، البتہ مسجد نبوی کا حکم مختلف ہے ۔ کیونکہ مسجد نبوی کے مقابلے میں مسجد حرام کوایک سوگنا فضیلت حاصل ہے ۔

971- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جب گرمی شدید ہو ، تو نماز کو ٹھنڈا کرکے ادا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش کا حصہ ہے“ ۔

972- (راوی بیان کرتے ہیں : ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے : جہنم نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں شکایت کی ، اس نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میرا ایک حصہ دوسرے کو کھا جاتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے دومرتبہ سانس لینے کی اجازت دی ۔ ایک سانس سردی میں ہوتی ہے اور ایک سانس گرمی میں ہوتی ہے ۔ تو جب تم شدید ترین گرمی پاتے ہو ، تو وہ اس کی گرم سانس کا نتیجہ ہوتی ہے اور جب تم شدید ترین سردی پاتے ہو ، تو وہ اس کی ٹھنڈی سانس کا نتیجہ ہوتی ہے ۔

973- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جاسکتا ہے ۔ مسجد حرام ، میری یہ مسجد اور مسجد اقصیٰ“ ۔

974- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا بصرہ بن ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جاسکتا ہے ۔ مسجد حرام ، میری یہ مسجد اور مسجد بیت المقدس“ ۔

975- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”مجھے پانچ چیز ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں میرے لیے تمام زمین کو جائے نماز اور طہارت کے حصول کا ذریعہ بنایا گیا ہے ، رغب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے مال غنیمت کوحلال قرار دیا گیا ہے اور مجھے ہر سفید فام اور سیاہ فام (یعنی تمام بنی نوع انسان ) کی طرف معبوث کیا گیا ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے“ ۔

976- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جو شخص کسی نماز کی ایک رکعت پالے وہ اس نماز کو پالیتا ہے“ ۔

977- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”شیطان کسی شخص کی نماز کے دوران اس کے پاس آتا ہے اور اس کی نماز کا معاملہ اس کے لیے مشتبہ کر دیتا ہے یہاں تک کہ آدمی کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کتنی نماز ادا کی ہے ، تو جب کسی شخص کو اس طرح کی صورتحال کاسامنا ہو ، تو جس وقت وہ بیٹھا ہوا ہواس وقت سجدہ سہو کرلے“ ۔

978- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ” (امام کو متوجہ کرنے کے لیے ) نماز کے دوران سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لیے ہے اور تالی بجانے کا حکم خواتین کے لیے ہے ۔“

979- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”اللہ تعالیٰ کسی بھی بات کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جتنی توجہ سے وہ اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنتا ہے ، جو خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا ہے“ ۔

980- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس شخص کے گزشتہ گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے ۔ جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی امید رکھتے ہوئے شب قدر میں نوافل ادا کرتا ہے اس کے گزشتہ گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے“ ۔

981- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جب کو ئی شخص نیند سے بیدار ہو ، تو اپنا ہاتھ اس وقت تک برتن میں نہ ڈالے ، جب تک پہلے اسے تین مرتبہ دھونہ لے کیونکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات بھر کہاں رہا ہے“ ۔

982-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : اس سے اس شخص کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے ، جواس بات کا قائل ہے کہ شرمگاہ کو چھونے پر وضو کرنا لازم ہوتا ہے ۔

983- سیدنا ابویرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو ارشاد فرمایا : ”کیا میرے ساتھ تم میں سے کسی ایک نے تلاوت کی ہے“ ؟ تو ایک صاحب نے عرض کی : جی ہاں ! میں نے کی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ”میں بھی سوچ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ مقابلہ کیا جارہا ہے“ ۔
سفیان کہتے ہیں : پھر زہری نے کوئی بات بیان کی جسے میں سمجھ نہیں سکا ۔ بعد میں معمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یہ کہا تھا: اس کے بعد لوگ ان نمازوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز میں قرأت کرتے تھے ۔
امام حمیدی کہتے ہیں : سفیان اس روایت کو نقل کرتے ہوئے یہ الفاظ نقل کرتے تھے ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی ۔“
سفیان کہتے ہیں : میرا خیال ہے وہ صبح کی نماز تھی ۔ وہ ایک طویل عرصے تک اسی طرح بیان کرتے رہے ، پھر سفیان نے ہمیں بتایا کہ میں نے اپنی تحریر کا جائزہ لیا ہے ، تو اس میں یہ الفاظ موجود تھے ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ۔“

984- سیدنا ابویرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایاہے : ”ہم (دنیا میں) آخر والے ہیں اور (قیامت کے دن) پہلے ہوں گے ۔ وہ اس طرح کہ ان لوگوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ہمیں ان کے بعد کتاب دی گئی ہے اور یہ (یعنی جمعہ کا دن ) وہ دن ہے ، جس کے بارے میں ان لوگوں نے اختلاف کیا ، تو اللہ تعالیٰ نے اس دن کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ، تو اس دن کے حوالے سے لوگ ہمارے پیروکار ہیں ۔ یہودیوں کا (مخصوص مذہبی دن ) کل (یعنی ہفتہ ) کا ہے ۔ اور عیسائیوں کا مخصوص مذہبی دن پرسوں کا (یعنی اتوار ہے ) “

985-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ راوی نے کہا: ہے کہ اس کی وضاحت کیوں کی گئی ہے : اس کی وجہ یہ ہے ۔

تخریج:

968- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 797، 804، 1006، 2932، 3386، 4560، 4598، 6200، 6393، 6940، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 675، 676، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 615، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1969، 1972، 1981، 1983، 1986، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1072 ، 1073 ، 1074 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1440، 1442، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1636، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1244، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3135، 3136، ، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7380، 7581، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5873، 5995)
969- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1190، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1394، ومالك فى «الموطأ» برقم: 670 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1621، 1625، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 693 ، 2899 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 775، 3868، والترمذي فى «جامعه» برقم: 325، 3916 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1458، 1460، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1404، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10374، 10385، 20194، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7373، 7533، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5857، 5875، 6165، 6166، 6167، 6525، 6554)
970- (إسناده صحيح وهو موقوف على عمر، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 7600، وأخرجه الطحاوي فى "شرح معاني الآثار" 3 / 127، برقم: 4801، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 1620)
971- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 533، 536، 3260، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 615، 617، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1504، 1506، 1507، 1510، 7466، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 499 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1499، وأبو داود فى «سننه» برقم: 402، والترمذي فى «جامعه» برقم: 157، 2592، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1243، 2887، 2888، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 677، 678، 4319، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2089، 2090، 2091، 2092، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7251، 7366، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5871، 6074، 6314)
972- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 533، 536، 3260، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 615، 617، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1504، 1506، 1507، 1510، 7466، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 499 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1499، وأبو داود فى «سننه» برقم: 402، والترمذي فى «جامعه» برقم: 157، 2592، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1243، 2887، 2888، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 677، 678، 4319، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2089، 2090، 2091، 2092، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7251، 7366، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5871، 6074، 6314)
973- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1189، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1397، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1619، 1631، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 699 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 781، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2033، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1461، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1409، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10373، 20190، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7312، 7369، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5880، 6558)
974- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 364 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2772، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1429 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1766، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1046، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24371)
975- (إسناده صحيح ، أبو سلمة و سعيد ثقتان، فأياً منهما كان الراوي ، فالإسناد صحيح و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2977، 6998، 7013، 7273، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 523، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2313، 6363، 6401، 6403، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3087 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1553 م، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 567، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2862، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4333، 13445، 17791، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7386، 7521، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6287، 6491)
976- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 556، 580، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 607، 609، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1483، 1485، 1486، 1487، 1586، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1081، 1082، 1083، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 514 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1121، والترمذي فى «جامعه» برقم: 524، والدارمي فى "مسنده برقم: 1256، 1257، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 700 م، 1121، 1122، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1805، 1806، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7404، 7575)
977- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 608، 1222، 1231، 1232، 3285، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 389، ومالك فى «الموطأ» برقم: 223 ، 331 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 392، 1020، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 16، 1662، 1663، 1754، 2683، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 669 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 516، 1030، والترمذي فى «جامعه» برقم: 397، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1240، 1535، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1216، 1217، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2065، 2066، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7406، 7809)
978- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1203، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 422، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 894، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2262، 2263، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1206 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 939، 944، والترمذي فى «جامعه» برقم: 369، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1403، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1034، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3383، 3384، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7405، 7666)
979- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5023 5024 7482 7544 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 792 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 751 752 7196 والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 1016 1017 وأبو داود فى «سننه» برقم: 1473 والدارمي فى «مسنده» برقم: 1529 1532 وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1341 والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2468 4784 وأحمد فى «مسنده» برقم: 7785 7947 وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5959)
980- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 35، 37، 38، 1901، 2008، 2009، 2014، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 759، 760، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1894، 2199، 2201، 2203، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2546، 3432، 3682، ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1601 ، 1602 ، ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1371، 1372، والترمذي فى «جامعه» برقم: 683، 808، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1817، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1326، 1328، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4669، 4670، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1682، 1710)
981- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 162، 580، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 278، 607، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1061، 1062، 1063، 1064، 1065، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1 ، 161 ، 440 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 103، 105، والترمذي فى «جامعه» برقم: 24، والدارمي فى «مسنده» برقم: 793، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 393، 394، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 201، 202، ، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7402، 7556)
982-(إسناده صحيح وانظر التعليق السابق)
983- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 286 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1843، 1849، 1850، 1851، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 918 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 993، وأبو داود فى «سننه» برقم: 826، والترمذي فى «جامعه» برقم: 312، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 848، 849، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2936، 2937، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7390، 7934)
984- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 238، 876، 896، 2956، 3486، 3487، 6624، 6887، 7036، 7495، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 849، 855، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1720، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1234، 2784، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1366 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1664، 1665، 1666، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1083، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1439، 1440، 5647، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7430، 7517)
985- (إسناده صحيح وانظر التعليق السابق)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
986- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا ہے : ”میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں عشاء کی نماز باجماعت کی ہدایت کروں اور پھر میں نوجوانوں کو حکم دوں وہ ان لوگوں کے گھر جائیں جو عشاء کی نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوئے ہیں اور ان پر لکڑیاں رکھ کر انہیں آگ لگا دیں ۔ اگر ان لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ انہیں (باجماعت نماز میں شریک ہونے پر) دوعمدہ قسم کے پائے ملیں گے یاموٹی پر گوشت ہڈی ملے گی ، تو وہ اس نماز میں ضرور شریک ہوں“ ۔

987- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : ”جب کسی شخص نے ڈھیلے استعمال کرنے ہوں ، تو طاق تعداد میں استعمال کرے اور جب کوئی شخص ناک صاف کرے ، تو طاق تعداد میں کرے“ ۔

988- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا ہے : ”امام امیر ہے اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے ، تو تم لوگ بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو اگر وہ کھڑا ہو کر نماز ادا کرتا ہے ، تو تم لوگ بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرو“ ۔

989- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ، تا ہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”امیر کے لیے امامت ہے“ ۔

990- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا ہے : ”شیطان کسی شخص کی گدی پر تین گر ہیں لگاتا ہے وہ ہر گرہ لگاتے ہوئے یہ کہتا ہے : تم آرام کرو ! ابھی رات لمبی ہے ۔ تم سوئے رہو ۔ اگر آدمی رات میں بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرلے ، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اگر وہ وضو کرلے ، تو دوگر ہیں کھل جاتی ہیں اور اگر وہ نماز بھی ادا کرلے ، تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں اور صبح کے وقت آدمی تازہ دم اور خوش وخرم ہوتا ہے ورنہ دوسری صورت میں آدمی کا ہل اور سست ہوتا ہے“ ۔

991- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایاہے : ”تم یہ سمجھتے ہو کہ میں قبلہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہوتا ہوں تمہارا رکوع کرنا اور تمہارا خشوع (راوی کوشک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ سے پوشیدہ نہیں ہیں“ ۔

992-مجاہد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں نقل کرتے ہیں ۔ وَ «تَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ » (26-الشعراء:219) ”اور تمہیں سجدہ کرنے والوں میں پھیرتا ہے“ ۔
مجاہد بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران اپنے پیچھے بھی اسی طرح دیکھ لیتے تھے ، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے کی طرف دیکھ لیتے تھے ۔

993- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”کوئی بھی شخص یہ ہر گز نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے ، تو میری مغفرت کردے ۔ اے اللہ ! اگر تو چاہے ، تو مجھ پر رحم کر ۔ آدمی کو پر عزم طریقے سے مانگنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو مجبور کرنے والا کوئی نہیں ہے“ ۔ (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے )

994- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایاہے : ”کوئی بھی شخص ایک کپڑا پہن کر اس طرح ہزگز نماز ادا نہ کرے کہ اس کے کندھے پر اس کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو“ ۔

995- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اگر مجھے اہل ایمان کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا ، تو میں انہیں عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کرنے کی ہدایت اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کی ہدایت کرتا“ ۔

996- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ” جب تم جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے یہ کہو جبکہ امام اس وقت خطبہ دے رہا ہو کہ ”تم خاموش رہو“ تو تم نے لغوحرکت کی “ ۔
ابوزناد کہتے ہیں : یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لغت ہے ورنہ اصل لفظ ”لغوت“ ہے ۔

997- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کتا کسی شخص کے برتن میں منہ ڈال دے تو آدمی اس برتن کو سات مرتبہ دھوئے“ ۔

998-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔ تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں : ”ان میں سے پہلی مرتبہ یا ان میں سے ایک مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے“ ۔

999- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”کوئی بھی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ وہ پھر اسی میں غسل بھی کرلے“ ۔

1000- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”کوئی بھی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ، جو بہتا نہ ہو ، پیشاب نہ کرے کہ وہ پھر اسی میں غسل بھی کرلے“ ۔

1001-عاصم بن عبیداللہ عمری بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ملا قات ایک خاتون سے ہوئی جو خوشبو میں بسی ہوئی تھی ، تو انہوں نے دریافت کیا : اے اللہ کی کنیز ! تم کہاں جارہی ہو ؟ اس نے جوا ب دیا : مسجد۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : مسجد کے لیے تم نے خوشبو لگائی ہے ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ۔ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم واپس جاؤ اور اسے دھولو ! کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جو عورت خوشبو لگا کر پھر مسجد میں جانے کے ارادے سے نکلتی ہے ، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ اور یہ بھی نہیں ہوتا اور وہ بھی نہیں ہوتا ، جب تک وہ عورت واپس جاکر غسل جنابت کی طرح غسل نہیں کرتی ( یعنی اس خوشبو کے اثرات کو مکمل طور پر نہیں دھوتی) “ ۔

1002- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش کی سختی ، بد بختی لاحق ہونے ، برے فیصلے اور دشمن کی شماتت (طعن و تشنیع ) سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔
سفیان کہتے ہیں : ان چار میں سے تین چیز یں ہیں ۔ (یعنی سفیان یہ کہتے ہیں ان چار میں سے تین تو وہی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہیں ایک مجھ سے زیادہ ہوگئی ہے لیکن مجھے معلوم نہیں وہ کون سی زیادہ ہوئی ہے )

1003- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ” اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے ، جب میرا بندہ پڑھتا ہے ۔
”تما م تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں“ ۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد بیان کی ہے ۔
جب بندہ یہ پڑھتا ہے ۔ ”وہ مہربا ن اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔“
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی ہے ، یا میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے ۔
جب بندہ پڑھتا ہے ۔ ”وہ روز جزا کا مالک ہے ۔“
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے مجھے تفویض کردیا ہے ۔
جب بندہ یہ پڑھتا ہے ۔ ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ۔“
تو یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے ۔ اور میرا بندہ جو مانگ رہا ہے وہ اسے ملے گا ۔
جب بندہ یہ پڑھتا ہے ۔ ”تو سیدھے راستے کی طرف ہمیں ہدایت نصیب کر ! ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ، نہ کہ ان لوگوں کا راستہ ، جن پر غضب کیا گیا اور جو گمراہ ہوئے ۔“
( تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ) یہ چیز میرے بندے کو ملے گی ۔ میرا بندہ جو مانگے گا وہ ا سے ملے گا ۔ “

1004- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہوتی ہے ۔ وہ نا مکمل ہوتی ہے ۔ وہ نامکمل ہوتی ہے“ ۔
عبدالرحمٰن نامی راوی کہتے ہیں : میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : بعض اوقات میں امام کی تلاوت سن رہا ہوتا ہوں (اس وقت میں کیا کروں ؟ ) تو انہوں نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ٹہوکا دے کر ارشاد فرمایا : ”اے فارسی (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) ابن فارسی ! تم دل میں اسے پڑھا لیا کرو“ ۔

1005- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ”مرفوع“ حدیث کے طور پر یہ بات نقل کرتے ہیں : ” ہر پیر اور جمعرات کے دن اعمال (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) پیش کیے جاتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ ان دنوں میں ہر ایسے شخص کی مغفرت کر دیتا ہے ، جو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراتا ہو ، ماسوائے اس شخص کے ، جس کی اپنے کسی بھائی کے ساتھ ناراضگی ہو ، تو حکم ہوتا ہے ان دونوں کو اس وقت تک رہنے دو ، جب تک یہ دونوں صلح نہیں کر لیتے ۔ ان دونوں کو اس وقت تک رہنے دو ، جب تک یہ دونوں صلح نہیں کرلیتے “ ۔

تخریج:

986- (إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 615، 644، 652، 657، 721، 2420، 2689، 7224، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 437، 439، 651 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 391 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1659، 2096، 2097، 2098، 2153، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 923، 1533، 1647، وأبو داود فى «سننه» برقم: 548، 549، والترمذي فى «جامعه» برقم: 217، 225، 226، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1248، 1309، 1310، برقم: وابن ماجه فى «سننه» 791، 797، 998، برقم: والبيهقي فى «سننه الكبير» 2045، 5008، 5009، 5010، 5011، 5012، 5014، 5273، 21450، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7346، 7446، 7853، 8137، 8265، 8918، 8994، 9012 والطبراني فى «الصغير» 931)
987- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 161، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 237 ومالك فى «الموطأ» برقم: 24، 46 ، 49 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 75، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1410، 1438، 1439، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 86 ، 88 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 95، 98، وأبو داود فى «سننه» برقم: 35، 140، والدارمي فى «مسنده» برقم: 689، 730، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 337، 338، 409، 3498، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 223، 235، 509، 511، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7341، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5905، 6255، 6328، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 280، 26152، والطبراني فى «الصغير» برقم: 127)
988-(إسناده صحيح والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 722، 734، 780، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 409، 410، 414، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 569، 570، 575، 1575، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1804، 1907، 1909، 1911، 2107، 2115، 4556 والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 920 ، 921 ، 924 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 654، 995 وأبو داود فى «سننه» برقم: 603، 848، 935، 936، 2757، والترمذي فى «جامعه» برقم: 250، 267، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1281، 1282، 1350، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3، 846، 851، 852، 875، 960، 1239، 2859، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2314، 2473، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7265، 7308، 7364)
989- (إسناده صحيح، وقد أخرجه عبد الرزاق برقم : 4083، وأبو نعيم فى ذكر أخبار أصبهان 390/1 من طريق سفيان بهذا الإسناد، ولكن لفظه مثل لفظ الحديث السابق. فانظره لتمام التخريج)
990- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1142، 3269، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 776، ومالك فى «الموطأ» 605 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1131، 1132، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2553، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1606 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1303، وأبو داود فى «سننه» 1306، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1329، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4717، 4802، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7428، 7558، 10598، 10599، 10602، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6278، 6333، والبزار فى «مسنده» برقم: 7821، 9180، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 340، 341، 346)
991- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 418، 741، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 423، 424، ومالك فى «الموطأ» برقم: 577 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 474، 664، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6337، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 867، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 871 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 947، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3640، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7451، 8139، 8892، 8999، 9049، 9930، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6335، والبزار فى «مسنده» برقم: 8424، 8868)
992- (إسناده صحيح إلى مجاهد، وهو موقوف عليه، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 3676)
993- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 359، 360، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 516، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 765، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2304، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 768، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 847، وأبو داود فى «سننه» برقم: 626، 627، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1411، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3254، 3255، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7427، 7583، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6262، 6353)
994- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 887، 7240، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 252، ومالك فى «الموطأ» برقم: 214، 215 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 139، 140، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1068، 1531، 1538، 1539، 1540، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 518، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 7 ، 533، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6، 3020، 3021، وأبو داود فى «سننه» برقم: 46، والترمذي فى «جامعه» برقم: 22، 167، والدارمي فى «مسنده» برقم: برقم: 710، 1525، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 287، 690، 691، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 145، 146، وأحمد فى «مسنده» 982، 7457)
995- (إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 887، 7240، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 252، ومالك فى «الموطأ» برقم: 214 ، 215 ،وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 139، 140، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1068، 1531، 1538، 1539، 1540، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 518، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 7، 533 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6، 3020، وأبو داود فى «سننه» برقم: 46، والترمذي فى «جامعه» برقم: 22، 167، والدارمي فى «مسنده» برقم: 710، 1525، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 287، 690، 691، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 145، 146، وأحمد فى «مسنده» برقم: 982، 7457، 7460، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6270، 6343، 6576، 6617)
996- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 934، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 851، ومالك فى «الموطأ» برقم: 342 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2793، 2795، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1400، 1401، 1576 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1738، 1739، 1740، 1793، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1112، والترمذي فى «جامعه» برقم: 512، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1589، 1590، 1591، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1110، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5905، 5906، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7450، 7801)
997- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 172، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 279، ومالك فى «الموطأ» برقم: 90، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 95، 96، 97، 98، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1294، 1295، 1296، 1297، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 573، 574، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 63 ، 64 ، 65 ، 66 ، 334، 337، 338، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 65، 66، 67، 68، 69، 9712، وأبو داود فى «سننه» برقم: 71، 73، والترمذي فى «جامعه» برقم: 91، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 363، 364، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 59، 1160، 1161، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7463، 7464، 7564، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6678)
998- (إسناده صحيح و أخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والأثار» برقم: 1735 من طريق سفيان بهذا الإسناد۔ وانظر التعليق السابق)
999- (صحيح ، و أخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والأثار» برقم: 1810 من طريق سفيان بهذا الإسناد وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 239، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 282، 282، 283، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 66، 93، 94، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1251، 1252، 1254، 1256، 1257، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 57 ، 58، 220 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 69، 70، والترمذي فى «جامعه» برقم: 68، والدارمي فى «مسنده» برقم: 757، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 344، 605، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 472، 1132، 1147، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7641، 7642)
1000- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 239، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 282، 282، 283، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 66، 93، 94، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1251، 1252، 1254، 1256، 1257، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 57 ، 58، 220 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 69، 70، والترمذي فى «جامعه» برقم: 68، والدارمي فى «مسنده» برقم: 757، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 344، 605، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 472، 1132، 1147، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7641، 7642)
1001- (إسناده ضعيف لضعف عاصم بن عبيد الله العمري، و عبيد بن أبى عبيد مولى أبى رهم عن أبى هريرة وهو المحفوظ وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1682، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5142 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9362، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4174، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4002، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5458، 5459، 6055، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7473، 8074، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6385، 6479)
1002- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6347، 6616، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2707، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1016، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5506 ، 5507، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7874، 7875، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7472، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6662، والبزار فى «مسنده» برقم: 8971)
1003- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 395، ومالك فى «الموطأ» برقم: 278 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 489، 490، 502، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 776، 1784، 1788، 1789، 1794، 1795، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 875، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 908 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 983، 7958، 7959، 10915، وأبو داود فى «سننه» برقم: 821، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2953، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 838، 3784، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 168، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2403، 2404، ، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7411، 7524، 7951، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6454، 6522)
1004- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 395، ، ومالك فى «الموطأ» برقم: 278 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 489، 490، 502، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 776، 1784، 1788، 1789، 1794، 1795، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 875، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 908 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 983، 7958، وأبو داود فى «سننه» برقم: 821، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2953، 2953 م 1، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 838، 3784، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 168، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2403، 2404، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7411، 7524، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6454، 6522)
1005- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2565، ومالك فى «الموطأ» برقم: 695، 696، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2120، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3644، 5661، 5663، 5666، 5667، 5668، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4916، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2023، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6487، 6488، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7754، 9175، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6684)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1006- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ہدایت کی تھی کہ ہم جمعے کے بعد چار رکعات ادا کریں ۔
سفیان کہتے ہیں : دیگر راویوں نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے : ”تم میں سے جس شخص نے جمعے کے بعد نماز ادا کرنی ہو ، تو اسے چاہیے کہ چار رکعات ادا کرے ۔ “
(راوی کہتے ہیں) یہ روایت زیادہ بہتر ہے ، جوالفاظ میں نے یاد کیے ہیں وہ پہلے والے ہیں ۔

1007-سعید مقبری بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں ایک ایسا شخص ہوں ، جس کے بال زیادہ ہیں ، دونوں ہاتھوں میں تین مرتبہ بھر کے پانی ڈالنا میرے لیے کافی نہیں ہوگا ، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اس سے بھی زیادہ تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بھی زیادہ پاکیزہ تھے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر صرف تین مرتبہ پانی ڈال لیتے تھے ۔

1008- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ کی کنیزوں کو اللہ تعالیٰ کی مساجد میں جانے سے نہ روکو اور خواتین ایسی حالت میں نہ نکلیں کہ ان سے خوشبو پھوٹ رہی ہو“ ۔

1009- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”بے شک اللہ تعالیٰ صبح کے وقت یا شام کے وقت کسی قوم کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے ، تو ان میں سے کچھ لوگ ا س کا انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں : ہم پر فلاں ، فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے ۔ “
محمد بن ابراہیم نامی راوی کہتے ہیں : میں نے یہ روایت سعید بن مسیب کو سنائی تو انہوں نے بتایا : انہوں نے یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے ۔ تاہم ان صاحب نے ہمیں یہ بتایا ہے ، جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس وقت موجود تھے ، جب انہوں نے لوگوں کے لیے بارش کی دعا مانگی تھی ۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا: تھا : اے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ! فلاں ستارے کا کتنا حصہ باقی رہ گیا ہے ؟ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا : اس علم کے ماہرین کا یہ کہنا ہے ، یہ گرنے کے بعد افق میں سات دن تک چوڑائی کی سمت میں رہے گا ۔
راوی کہتے ہیں : سات دن گزرنے سے پہلے ہی ہم پر بارش ہوگئی ۔

1010- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ سے اللہ کے عذاب کی پناہ مانگو ، اللہ تعالیٰ سے موت کے فتنے سے پناہ مانگو ، اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگو ۔ اللہ تعالیٰ سے دجال کے فتنے سے پناہ مانگو“ ۔

1011-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1012-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1013- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی دونمازوں میں سے کوئی ایک نماز ہمیں پڑھائی شائد وہ ظہر کی نماز تھی یا شائد عصر کی نماز تھی ، ویسے میرا غالب گمان یہ ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات پڑھانے کے بعد سلام پھیر دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود تنے کی طرف تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ٹیک لگالی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس و قت غصے کے عالم میں تھے ، جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل گئے وہ یہ کہہ رہے تھے : نماز مختصر ہوگئی ہے ۔ نماز مختصر ہوگئی ہے ۔ حاضرین میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ، لیکن ان دونوں خضرات کی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں بات کریں ۔
سیدنا ذوالیدین رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا نماز مختصر ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ذوالیدین کیا کہہ رہا ہے ؟
لوگوں نے عرض کی : یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دورکعات پڑھائیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عام سجدہ کی مانند سجدہ کیا یا شائد طویل سجدہ کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدہ کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہتے ہوئے سراٹھالیا ۔
محمد بن سیرین نامی راوی کہتے ہیں : مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے : پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تھا ۔

1014-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف دیکھا اور دریافت کیا ۔ ”ذوالیدین کیا کہہ رہا ہے ؟ “

1015- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص رات کے وقت بیدار ہو ، تواسے دومختصر رکعات ادا کرلینی چاہئیں جس کے ذریعے وہ اپنی نماز کاآغاز کرے “ ۔

1016- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جمعے میں ایک مخصوص گھڑی ہے اس وقت جو بھی مسلمان بندہ کھڑا ہوکر نماز ادا کررہا ہو ، تواس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگے گا اللہ تعالیٰ وہ بھلائی اسے عطا کردے گا ۔ “
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کے ذریعے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بہت کم وقت ہوتا ہے ۔

1017-اسماعیل بن ابوخالد اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں ۔ میں مدینہ منورہ آیا میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا ان کے اور میرے موالی کے درمیان قرابت کا رشتہ تھا ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور مختصر نماز پڑھاتے تھے ۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ ! کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھایا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ مختصر نماز پڑھایا کرتے تھے ۔

1018- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ” میں تمہارے لیے باپ کی طرح ہوں ۔ میں تمہاری تعلیم وتربیت کرو ں گا ، جب کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے جائے ، تو وہ پا خانہ کرتے ہوئے اور پیشاب کرتے ہوئے ۔ قبلہ کی طرف رخ نہ کرے اور اس کی طرف پیٹھ نہ کرے “ ۔
راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی کہ ہم تین پتھروں کے ذریعے استنجاء کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مینگنی اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع کیا ۔ اور اس بات سے بھی منع کیا کہ آدمی اپنے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے ۔

1019- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جو شخص امام سے پہلے اپنے سرکو اٹھاتا ہے یا جھکاتا ہے ، تو اس کی پیشانی شیطان کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔
امام ابوبکر حمیدی بیان کرتے ہیں : سفیان بعض اوقات اس روایت کو ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل کرتے ہیں ۔ بعض اوقات ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل نہیں کرتے ۔

1020- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ہر نماز میں تلاوت کرتا ہوں ، تاہم جن نمازوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز میں تلاوت کرتے تھے ہم بھی تمہارے سامنے ان میں بلند آواز میں تلاوت کرتے ہیں اور جن نمازوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پست آواز میں تلاوت کرتے تھے ان نمازوں میں ہم بھی تمہارے سامنے پست آواز میں تلاوت کرتے ہیں ۔ ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ تلاوت نہ کی جائے ، وہ نامکمل ہوتی ہے ۔
ایک صاحب نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : آپ کی کیا رائے ہے ؟ اگر میں صرف سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہوں ، تو کیا میرے لیے یہ جائز ہوگا ، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے : اگر تم صرف اس کی تلاوت کرتے ہو ، تو یہ تمہارے لیے جائز ہوگا ، لیکن اگر تم اس کے ساتھ مزید تلاوت کرو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ۔

1021- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سورہ انشقاق اور سورہ العلق میں سجدۂ تلاوت کیا ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : عطاء بن میناء نامی راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے معروف شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔

1022- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سورہ انشقاق اور سورہ العلق میں سجدۂ تلاوت کیا ہے ۔
امام حمیدی کہتے ہیں : سفیان سے دریافت کیا گیا : کیا روایت میں سورہ العلق کا تذکرہ ہے ، تو انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔

1023- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوالقاسم رضی اللہ عنہ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”جب کوئی شخص نماز ادا کرے ، تو وہ سامنے کی طرف کوئی چیز رکھ لے ، اگر اسے کوئی چیز نہیں ملتی ، تو وہ لاٹھی کھڑی کرلے ، اگر لاٹھی بھی نہیں ملتی ، تو وہ لیکر کھینچ لے ۔ پھر اس کی دوسری طرف سے جو بھی گزرے گا وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا“ ۔

1024- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”ہر چیز کی ایک کو ہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورہ بقرہ ہے ۔ اس میں ایک آیت ہے ، جو قرآن کی تمام آیتوں کی سردار ہے ۔ جس گھر میں شیطان موجود ہو اگر یہ وہاں تلاوت کی جائے ، تو شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے وہ آیت الکرسی ہے “ ۔

تخریج:

1006- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 881، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1873، 1874، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2477، 2478، 2479، 2480، 2481، 2485، 2486، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1425، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 501، 1755، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1131، والترمذي فى «جامعه» برقم: 523، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1616، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1132، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6019، 6020، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7518، 9830، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 5416)
1007- (إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 578، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7536، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6538، والبزار فى «مسنده» برقم: 8491، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 701)
1008- (إسناده حسن من أجل محمد بن عمره بن علقمة ، وقد أخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1679 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2214 وأبو داود فى «سننه» برقم: 565 والدارمي فى «مسنده» برقم: 1315 1316 والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5460 وأحمد فى «مسنده» برقم: 9776 10287 10989 وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5915 5933 والبزار فى «مسنده» برقم: 8569 9262 وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 5121 وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 7691 والطبراني فى «الأوسط» برقم: 568)

1009-(إسناده ضعيف ، فيه عنعنة إبن إسحاق، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 72، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1523 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1848، 10693، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6545، 6547، 6548، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8860، 8933، 9579، 10954، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 5219)
1010- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1377، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 585، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 721، بدون ترقيم، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1002، 1018، 1019، 1967، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1016، 1961، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1309 ، 2059 ، 2060 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 983، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3604، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1383، 1384، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 909، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2926، 2927، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2378، 7357، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6133، 6279)
1011- (إسناده صحيح ، أخرجه مسلم كما تقدم فى التعليق السابق)
1012- (إسناده صحيح ، و أخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6279 من طريق سفيان بهذا الإسناد ، وهناك استوفينا تخرجه، وانظر التعلقين السابقين)
1013- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 482، 714، 715، 1227، 1228، 1229، 6051، 7250، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 573، ومالك فى «الموطأ» برقم: 309 ، 310، 311، 312، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 860، 1035، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2249، 2251، 2252، 2253، 2254، 2255، 2256، 2675، 2684، 2685، 2686، 2687، 2688، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1223، 1224 ، 1225، 1226، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1008، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1214، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3405، 3887، ، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5046، 7321، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5860)
1014- (إسناده صحيح ، وانظر التعليق السابق)
1015- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 768، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1150، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2606، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1323، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4745، 4746، 4747، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7297، 7863، 9305، والبزار فى «مسنده» برقم: 9993، 10027، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2562، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 6683، 6685، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 268)
1016- (إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 935، 5294، 6400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 852، ومالك فى «الموطأ» برقم: 363 ، 364 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1726، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2772، 2773، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1372 ، 1430 ، 1431، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1046، والترمذي فى «جامعه» برقم: 488، 491، 3339، 3339 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1610، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1137، 1139، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5644، 5645، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7272، 7590، 7803، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5925، 6055، 6286، 6668)
1017-(إسناده جید ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 703، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 467، ومالك فى «الموطأ» برقم: 442 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1760، 2136، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 822 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 899، وأبو داود فى «سننه» برقم: 794، 795، والترمذي فى «جامعه» برقم: 236، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2516، 5349، 5350، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7592، 7782، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6331، 6422)
1018-(إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 265، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 80، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1431، 1435، 1440، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 40، وأبو داود فى «سننه» برقم: 8، والدارمي فى «مسنده» برقم: 701، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 312، 313، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 434، 435، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7485، 7527)
1019- (إسناده حسن ، و أخرجه البخاري فى «صحيحه» 691، أخرجه مسلم فى «صحيحه» 437، أخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 306، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 9404، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 3753، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 7223، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 7692)
1020- (إسناده ضعيف، فيه عنعنة ابن جريج، وقد ساق به حديثين: الأول متفق عليه، أخرجه البخاري فى «الأدان» 772، ومسلم فى «الصلاة » 396، وقد استوفينا تخرجه فى صحيح ابن حبان، برقم 1781 1853،. والثاني تقدم مرفوعة برقم 1015، وهناك خرجناه فعد إليه)
1021- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 766، 768، 1074، 1078، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 578، ومالك فى «الموطأ» برقم: 697 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 554، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2761، 2767، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 960 1، 961 ، 962 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1407، 1408، والترمذي فى «جامعه» برقم: 573، 574، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1509، 1510، 1511، 1512، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1058، 1059، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3783، 3784، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7261، 7488، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5950، 5996)
1022- (إسناده صحيح ، وانظر الحديث السابق)
1023- (إسناده حسن ، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 811، 812، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2361، 2376، وأبو داود فى «سننه» برقم: 689 وابن ماجه فى «سننه» برقم: 943، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3519، 3520، 3521، 3522، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7510، 7511، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2715، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2286، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 8936)
1024- (إسناده ضعيف ، إسناده فيه حكيم بن جبير الأسدي «قال أحمد ضعيف الحديث مضطرب » وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2065، 2066، 3044، 3045، 3048، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2878، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 424، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6019)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1025- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص یہ آیت تلاوت کرے ۔ « لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ » (75-القيامة:1) ”میں قیامت کے دن کی قسم نہیں اٹھاتا“ ۔ یہاں تک کہ وہ اس کے آخر تک پہنچ جائے ۔ «أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى» (75-القيامة:40) ”کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو زندہ کردے“ ؟ تو آدمی کو چاہیے کہ اس وقت یہ کہے : جی ہاں ۔
اور جب کوئی شخص یہ سورت تلاوت کرے ۔ « وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا » (77-المرسلات:1) اور اسے آخر تک تلاوت کرے ۔ « فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ » (77-المرسلات:50) ”اس کے بعد وہ کون سی حدیث پر ایمان رکھیں گے ؟“ تو آدمی کو چاہیے کہ وہ یہ کہے : میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں ۔
اور جب کوئی شخص سورہ تین «وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ» (95-التين:1) کی تلاوت کرے اور اس کے آخرتک پہنچے ۔ « أَلَيْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ» (95-التين:8) ”کیا اللہ تعالیٰ سب سے زبردست حاکم نہیں ہے ؟“ تو آدمی کو چاہیے کہ یہ کہے : جی ہاں ۔
سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ الفاظ نقل کرتے ہیں : ”جی ہاں ! اور میں بھی گواہی دینے والوں کے ساتھ ہوں“ ۔
سفیان کہتے ہیں : اسماعیل نے یہ بات بیان کی ہے میں نے اس دیہاتی سے دریافت کیا : تم یہ حدیث دوبارہ مجھے سناؤ ! تو وہ بولا: اے میرے بھتیجے ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھے یہ حدیث یاد نہیں ہوگی ۔ میں نے ساٹھ حج کیے ہیں اور مجھے ان میں سے ہر ایک حج کے بارے میں یہ یاد ہے کہ میں نے کون سے اونٹ پر بیٹھ کر وہ حج کیا تھا ؟

1026- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوالقاسم صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ نے ارشاد فرمایا ہے : ”جسں شخص کو جنابت لاحق ہو وہ اس وقت تک نہ سوئے جب تک وہ نماز کے وضو کی طرح وضو نہیں کرلیتا ۔“

1027- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہوکر بھی اور بیٹھ کر بھی ، ننگے پاؤں بھی اور جوتا پہن کربھی ، نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے بعد دائیں طرف سے اور بائیں طرف سے بھی اٹھتے ہوئے دیکھا ہے ۔
سفیان نامی روای کہتے ہیں : اس روایت کا ایک راوی ابولادبر ہے ۔ ‬

1028-اشعث بن سلیم محاربی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جواذان ہونے کے بعد مسجد سے باہر چلا گیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس شخص نے سیدنا ابوالقاسم رضی اللہ عنہ کی نافرمانی کی ہے ۔

1029- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے ۔ ”امام ضامن ہے اور مؤذن امانت دار ہے ۔ اے اللہ ! اماموں کی رہنمائی کر اور اذان دینے والوں کی مغفرت کر دے ۔“

1030- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”مردوں کی سب سے زیادہ بہتر ان کی پہلی صف ہوتی ہے اور سب سے کم بہتر آخری ہوتی ہے ۔ جبکہ خواتین کی سب سے زیادہ بہتر آخری ہوتی ہے اور سب سے کم بہتر پہلی ہوتی ہے“ ۔

1031-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔

1032- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”مبرور حج ، کا بدلہ صرف جنت ہے اور ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے“ ۔

1033- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس گزرے جو اپنے قربانی کے جانوروں کو ساتھ لے کر جا رہا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس پر سوار ہو جاؤ“ ! اس نے عرض کی : یہ قربانی کا جانور ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس پر سوار ہوجاؤ“ ۔ اس نے عرض کی : یہ قربانی کا جانور ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس پرسوار ہوجاؤ ۔ تم برباد ہوجاؤ (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) تمہارا ستیاناس ہو ! تم اس پر سوار ہوجاؤ“ ۔

1034- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص اس کا گھر کا حج کرے گا اور اس دوران کوئی فحش گوئی اور نافرمانی گھر لوٹنے تک نہ کرے اور واپس آنے تک اس پر عمل کرے ، تو وہ یوں ہوتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی والدہ نے اسے جنم دیا تھا“ ۔

1035- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ، سیدنا عیسٰی بن مریم علیہ السلام ”فج روحاء“ سے حج یا عمرے کا تلبیہ ضرور پڑھیں گے یا پھر وہ ان دونوں کو جمع کرلیں گے“ ۔

تخریج:

1025- (إسناده ضعيف فيه جهالة ، و أخرجه ابن حاتم فى «علل الحديث» برقم : 1763 من طريق الحميدي هذا ۔ وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم : 3904 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 887 ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 3347 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 3755 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 7509)
1026-(إسناده ضعيف فيه جهالة ، وأخرجه أحمد فى «مسنده» برقم : 9216 ، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم : 770 ، والطبراني فى «الأوسط» برقم : 8403)
1027- (إسناده جيد ، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم : 3610 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 3669 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 7501 ، 7502 ، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم : 6672)
1028- (إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم : 655 ، أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم : 655 ، 655 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم : 1506 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 2062 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم : 682 ، 683 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم : 1659 ، 1660 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 536 ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 204 ، والدارمي فى «مسنده» برقم : 1241 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم : 733 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 5015 ، 5016 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 9439 ، والطبراني فى «الصغير» برقم : 817)
1029- (إسناده صحيح ، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم : 1528 ، 1529 ، 1530 ، 1531 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 1672 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 517 ، بدون ترقيم ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 207 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 2052 ، 2053 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 7290 ، 7933 ، والطبراني فى «الصغير» برقم : 297 ، 595 ، 750 ، 796)
1030- (إسناده حسن ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم : 440 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم : 1561 ، 1693 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 2179 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم : 819 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم : 896 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 678 ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 224 ، والدارمي فى «مسنده» برقم : 1304 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم : 1000 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 5209 ، 5210 ، 5248 ، 5249 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 7479 ، 8544)
1031- (إسناده حسن ، وانظر الحديث السابق)
1032- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم : 1773 ، ومسلم فى «صحيحه» برقم : 1349 ، 1349 ، ومالك فى «الموطأ» برقم : 1257 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم : 2513 ، 3072 ، 3073 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 3695 ، 3696 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم : 2621 ، 2622 ، 2628 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم : 3588 ، 3589 ، 3595 ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 933 ، والدارمي فى «مسنده» برقم : 1836 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم : 2888 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 8815 ، 10491 ، 10492 ، 10493 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 7471 ، 10079 ، 10086 ، والطيالسي فى «مسنده» برقم : 2545 ، 2547 ، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم : 6657 ، 6660 ، 6661)
1033- (إسناده حسن والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم : 1689 ، 1706 ، 2755 ، 6160 ، ومسلم فى «صحيحه» برقم : 1322 ، ومالك فى «الموطأ» برقم : 1398 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 4014 ، 4016 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم : 2798 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم : 3767 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 1760 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم : 3103 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 10314 ، 10315 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 7467 ، 7571 ، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم : 6307 ، 6667)
1034-(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1521، 1819، 1820، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1350، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2514، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3694، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2626 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3593، والترمذي فى «جامعه» برقم: 811، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1837، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2889، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9260، 10494، 10495، 10496، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2714، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7257، 7498، 9435)
1035- (إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1252، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6820، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4184، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8893، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7393، 7796، 10811، 11130)
 
Last edited:
Top