مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
------------------
920- سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نمازادا کرتے تھے ہم میں سے کوئی ایک شخص جب سلام پھیرتا تھا ، تو اپنے ہاتھ کے ذریعے دائیں طرف اور بائیں طرف اس طرح کہتا تھا : السلام علیکم ، السلام علیکم ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا وجہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ یوں ہلاتے ہو ، جس طرح یہ سرکش گھوڑوں کی دم ہوتے ہیں ۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ اپنے زانوں پر رکھے اور پھر اپنے دائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرے اور بائیں طرف موجود اپنے بھائی کو سلام کرتے ہوئے ”السلام علیکم و رحمتہ اللہ ، السلام علیکم و رحمتہ اللہ“ کہہ دے ۔“
------------------
سیدنا عبدالرحمٰن بن اظہر رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا عبدالرحمٰن بن اظہر رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
921- سیدنا عبدالرحمٰن بن اظہر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : غزوۂ حنین کے موقع پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اس وقت کمسن لڑکا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرمارہے تھے : ”کون شخص خالد بن ولید کی رہائشی جگہ تک مجھے لے کے جائے گا“ ؟ تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے دوڑتا ہوا گیا ۔ میں یہ کہتا جارہا تھا : کون شخص سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی رہائشی جگہ تک پہنچائے گا ؟ یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے وہ اس وقت پالان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ انہیں زخم لاحق ہوئے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعائے رحمت کی ۔
(راوی کہتے ہیں) میرا خیال ہے روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دم کیا (یا ان پر لعاب دہن لگایا) “ ۔
------------------
سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
922-سفیان کہتے ہیں : زہری نے مجھے وہ روایات سنائیں جن میں آگ پریکی ہوئی چیز ( کھانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم ثابت ہوتا ہے ) ان میں سے کچھ روایات میں یہ حکم تھا کہ ایسی صورت میں وضو کرنا پڑتا ہے اور کچھ میں یہ حکم تھا کہ ایسی صورت میں وضو نہیں کرنا پڑتا ، تو یہ روایات میرے لیے خلط ملط ہوگئیں ۔ جن روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آگ پریکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو لازم ہوتا ہے وہ روایات ابوسلمہ ، عمربن عبدالعزیز ، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔
سفیان کہتے ہیں : زہری نے علی بن عبداللہ بن عباس کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے ایک روایت مجھے سنائی اور جعفر بن عمر وبن امیہ ضمری کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے بھی مجھے حدیث سنائی ۔
(راوی بیان کرتے ہیں) ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے شانے کو گوشت کاٹا اور اسے تناول کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور ازسر نو وضو نہیں کیا ۔
دوسرے راوی یہ کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کھایا اور نماز ادا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازسر نو وضو نہیں کیا ۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زہری نے ان دونوں حضرات کے حوالے سے یہ روایات نقل کی ہیں ۔ مجھے شک یہ ہے کہ مجھے یہ نہیں پتہ کہ کون سی روایت کے الفاظ کس سے منقول ہیں؟
سفیان کہتے ہیں : زہری آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو لازم ہونے کے قائل تھے ۔
------------------
سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمردیلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمردیلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
923- سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمردیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”حج ، وقوف عرفات کا نام ہے ، جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے عرفہ تک پہنچ جاتا ہے ، وہ حج کو پالیتا ہے ۔ منیٰ کے مخصوص دن تین ہیں ۔ جو شخص دودن گزرنے کے بعد جلدی چلاجائے ، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور جو شخص ٹھہرا رہے ، تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے“ ۔
------------------
سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
924- سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں طے کے دوپہاڑوں سے یہاں آیا ہوں ۔ اللہ کی قسم ! جب یہاں پہنچا ہوں ، تو میں اپنے آپ کوتھکا چکا تھا ۔ اپنی سواری کوتھکا چکا تھا میں نے ہر ایک پہاڑ پروقوف کیا ہے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں شریک ہوا اور وہ اس سے پہلے عرفہ میں رات کے وقت یادن کے وقت وقوف کر چکا ہو ، تواس کا حج مکمل ہوگیا ۔ اس نے اپنے ذمے لازم چیز کو پورا کردیا ۔“
925- سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں طے کے دوپہاڑوں سے اس وقت یہاں آیا ہوں ۔ میں نے اپنی سواری کوتھکادیا ہے ، خود کوتھکا دیا ہے ۔ کیا میرا حج ہو گیا ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں شریک ہوا اور اس نے ہمارے ساتھ وقوف کیا اور پھر روانہ ہوا تو اگر وہ روانگی سے پہلے عر فہ میں رات کے وقت یا دن کے وقت وقوف کرچکا ہو ، تو اس کا حج مکمل ہوگیا ۔ اس نے اپنے ذمے لازم چیز کو پورا کردیا ۔“
------------------
سیدنا سراقہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا سراقہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
926- سیدنا سراقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ”جعرانہ“ کے مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سوال کروں میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں اپنے حوض کو بھرتا ہوں اور پھر اپنے جا نور کاانتظار کرتا ہوں کہ وہ اس حوض تک آئے اسی دوران کوئی اور جانور جاتا ہے اور وہ اس میں سے پی لیتا ہے ، تو کیا مجھے اس کا اجر ملے گا ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تمہیں ہر پیاسے جاندار کو پانی پلانے کا اجر ملے گا“ ۔
سفیان کہتے ہیں : روایت کے یہ الفاظ میں زہری کی زبانی یاد رکھے تھے، لیکن اس کے ابتدائی حصے میں سے کچھ الفاظ میرے لئے خلط ملط ہوگئے ، تو وائل بن داؤد نے زہری کے حوالے سے وہ بعض حصہ مجھے سنایا ۔ اب میں وضاحت نہیں کرسکتا کہ زہری کی زبانی مجھے کون سے الفاظ یاد تھے اور وائل نے مجھے کس چیز کے بارے میں بتایا ؟
سیدنا سراقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ”جعرانہ“ کے مقام پر موجود تھے ۔ میں انصار کے جس بھی دستے کے پاس سے گزرا تو انہوں نے میرے سر پر مارتے ہوئے کہا: چلے جاؤ ۔ چلے جاؤ ۔ جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے وہ مکتوب بلند کیا ۔ میں نے عرض کی : میں ہوں ، یاسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایک تحریر میں مجھے امان دے چکے تھے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”سب سے بہترین دن وہ ہوتا ہے جس دن وعدے کوپورا کیا جائے اور سچ بولا جائے“ ۔
------------------
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
927- سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک نما ز پڑھائی میرا خیال ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے نہیں ، تو نماز کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے دو مرتبہ سجدہ سہوکرلیا ۔
928- سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تا ہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس رکعت کے بعد کھڑے ہوگئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنا تھا“ ۔
سفیان نامی راوی بعض اوقات راوی کا نام سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اور بعض اوقات سیدنا عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔
------------------
سیدنا عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
929- سیدنا عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تم اپنی قوم کی امامت کرو اور ان میں سے سب سے کمزور فرد کا حساب رکھنا ، کیونکہ لوگوں میں بڑی عمر کے لوگ ، کمزور لوگ اور کام کاج والے لوگ ہوتے ہیں“ ۔
930- سیدنا عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا : ”تم ایسے شخص کو مؤذن رکھنا جو اذان دینے کا معاوضہ وصول نہ کرے“ ۔
------------------
سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
931-سلیمان بن بریدہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”مجاہدین کی بیویاں پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اپنی ماؤں کی طرح قابل احترام ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں میں سے جو شخص کسی مجاہد کی بیوی کے حوالے سے خیانت کامرتکب ہوگا ، تو قیامت کے دن اسے اس مجاہد کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور اس مجاہد سے کہا جائے گا : اے فلاں ! اس فلاں بن فلاں نے تمہارے ساتھ خیانت کی تھی ، تو تم اس کی نیکیوں میں سے جس قدر چاہو حاصل کرلو“ ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تمہارا کیا گمان ہے“ ؟
------------------
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
932- ابوغالب بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے مشق کی سیڑھی پر خارجیوں کے سر ملاحظہ کیے ، تو ارشاد فرمایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ۔ ”یہ اہل جہنم کے کتے ہیں ۔ یہ اہل جہنم کے کتے ہیں ۔ یہ اہل جہنم کے کتے ہیں ۔“ پھر سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ روپڑے پھر انہوں نے ارشاد فرمایا : ”یہ آسمان کے نیچے قتل ہونے والے بدترین افراد ہیں ۔“ اور سب سے بہتر وہ لوگ ہوں گے جوان کے ساتھ جنگ کریں گے ۔
(میں نے دریافت کیا) کیا آپ نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں (اگر نہ سنی ہو اور پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اسے بیان کروں ) تو پھر تو میں بڑی جرأت کا مظاہرہ کروں گا ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک مرتبہ نہیں ، دومرتبہ نہیں ، تین مرتبہ نہیں (اس سے بھی زیادہ مرتبہ ) یہ بات سنی ہے ۔
933- سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”میرے ساتھیوں میں قدرو منزلت کے اعتبار سے میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل رشک وہ مومن ہے ، جس کی پشت کا بوجھ کم ہو (یعنی جس کا مال اور عیال کم ہوں) جو بکثرت نوافل ادا کرتا ہو اگرچہ وہ لوگوں میں مشہور نہ ہو ۔ جب اسے موت آجائے ، تواس پر رونے والے کم ہوں اور اس کی وراثت کا مال بھی کم ہو ۔“
934- سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”گانے والی عورت کا معاوضہ حلال نہیں ہے اسے فروخت کرنا اور خرید نا بھی حلال نہیں ہے نہ ہی اسے سننا جائز ہے“ ۔
------------------
سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
935- سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں : انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے ۔ ”آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے متعلق کوئی بات کہتا ہے ، جس کے بارے میں وہ یہ گمان نہیں کرتا کہ یہ بات کہاں تک جاسکتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کلمے کی وجہ سے قیامت کے دن تک کے لیے اس سے ناراضگی درج کرلیتا ہے ۔ اور کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے متعلق کوئی بات کہتا ہے اور اسے یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ بات کہاں تک جائے گی ، تو اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے قیامت کے دن تک کے لیے اس شخص کے لیے رضا مندی درج کرلیتا ہے ۔“
امام حمیدی کہتے ہیں : میرے نزدیک یہ روایت ان تک پہنچی ہے جیسا کہ انہوں نے پہلے یہ بات بیان کی ہے ۔
تخریج:
920- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 430، 431، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 733، 1544، 1708، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1878، 1879، 1880، 1881، 2154، 2162، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 815 ، 1183 ، 1184 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 661، 998 1000، 4823، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 992، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3009، 3010، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21138، 21155، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7482)
921- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7090، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17085، 19394)
922- (إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 207، 208، 675، 2923، 5404، 5405، 5408، 5422، 5462، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 354، 355، 359، ومالك فى «الموطأ» برقم: 71 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 38، 1 / 160، برقم: 39، 1 / 162، برقم: 40، 1 / 163، برقم: 41، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1141، 1150، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 184 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 187، 4673، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1836، والدارمي فى «مسنده» برقم: 754، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 488، 490، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 721، 722، 723، 14743، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2013، 2019، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2352، 2733، 6878)
923- (إسناده صحيح و أخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2822، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3892، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1709، 3118، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3016 ، 3044 ، والنسائي فى «الكبریٰ» 3997، 3998، 4036، 4166، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1949، والترمذي فى «جامعه» برقم: 889، 890، 2975، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1929، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3015، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9562، 9787)
924- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3851، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1706، 1707، 1708، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3039 ، 3040 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4031، 4032، 4033، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1950، والترمذي فى «جامعه» برقم: 891، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1930، 1931، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3016، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9563، 9564، 9921، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2514، 2515، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16458، 16459)
925- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
926-(ابن سراقة ما عرفته، غير أن الحديث صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 542، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6662، 6663، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3686، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7901، 7902، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17855، 17858)
927- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 829، 830، 1224، 1225، 1230، 6670، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 570، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1938، 1939، 1941، 2676، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1208، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1176 ، 1177 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1034، والترمذي فى «جامعه» برقم: 391، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1540، 1541، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1206، 1207، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2846، 2847 وأحمد فى «مسنده» برقم: 23385، 23386)
928- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
929- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 468، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 423، 1608، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 727، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 671 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1648، وأبو داود فى «سننه» برقم: 531، والترمذي فى «جامعه» برقم: 209، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 714، 987، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2050، 5351، 5352، 5361، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16528، 16529)
930- (في إسناده علتان : أشعث بن سوار وهو ضعيف وعنعنة الحسن البصري رحمه الله وقد أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 209، وابن ماجه فى «سننه» ، برقم: 714، 987، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 2384، 4693، وأخرجه الطبراني فى الكبير برقم: 8376
- وقال الترمذي: ”حديث عثمان حديث حسن صحيح“ )
931- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1897، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4634، 4635، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3189 ، 3190 ، 4385، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2496، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18652، 18653، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23443)
932- (إسناده حسن من أجل أبى غالب وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2669، 2670، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3000، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 176، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16883 ، 16884، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5205، برقم: 22581، 22613، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 8036)
933- (إسناده ضعيف بل فيه ضعيفان : أبو مهلب و شيخه و أخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7241، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2347، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4117، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22597، 22627، 22628، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1229، والطبراني فى "الكبير" برقم: 7829، 7860)
934- (في إسناده ضعيفان: أبو مهلب:المطرح و شيخه وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 1282، 3195، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2168، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11170، 11171، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22599، 22648، والطبراني فى "الكبير" برقم: 7805)
935-(إسناده حسن وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 3611 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 280، 281، 287، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 136، 137، 138، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2319، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3969، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 706، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16763، 16764، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16094)
Last edited: