• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
176- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ۔
(إسناده صحيح ، وانظر حديث سابق)

177- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نفل نماز ادا کیا کرتے تھے ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان چوڑائی کی سمت میں لیٹی ہوتی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وتر ادار کرنے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاؤں کے ذریعے مجھے حرکت دیتے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات نماز ادا کرتے تھے اگر میں جاگ رہی ہوتی ، تو میرے ساتھ بات چیت کرلیتے تھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ جاتے تھے ، پھر (تھوڑی دیر بعد) نماز (فجر باجماعت ادا کرنے کے لیے ) تشریف لے جاتے تھے ۔
سفیان نامی راوی نے نضر کے حوالے سے منقول روایت میں شک کا بھی اظہار کیا ہے اور اضطراب بھی ظاہر کیا ہے بعض اوقات وہ زیادہ سے بھی منقول روایت میں شک کا اظہار کردیتے ہیں ، وہ یہ کہتے ہیں : یہ روایت مجھ سے خلط ملط ہوگئی ہے ، پھر انہوں نے کئی مرتبہ ہم سے یہ کہا: ابونظر کی حدیث اس طرح ہے ، جبکہ زیادہ منقول روایت اس طرح ہے اور محمد بن عمرو کے حوالے سے منقول روایت اس طرح ہے ۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے میں نے ذکر کردیا ہے ۔

( إسناده حسن ، وأخرجه البخاري 384 ، 512 ومسلم : 512 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 2341 ، 2342 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4490 ، 4491 ، 4820 ، 4888)

178- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، پہلے لوگ خود کام کاج کیا کرتے تھے ، تو جمعہ کے دن وہ اسی حالت میں آجایا کرتے تھے ، تو انہیں یہ کہا: گیا : اگر تم غسل کرلو (تو یہ بہتر ہوگا) ۔
(إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري فى ”صحيحه“ برقم : 903 ، 2071 ، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم : 847 ، وابن خزيمة فى ”صحيحه“ : برقم : 1753 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم : 1236)

179- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بيان كرتی ہیں ، ایک یہودی عورت آئی اور بولی: اللہ تعالیٰ تمہیں قبر کے عذاب سے بچائے ، تو میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ہماری قبروں میں عذاب دیا جائے گا ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ کہا: اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ رہے تھے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ایک مرتبہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سواری پر تشریف لے گئے اسی دوران سورج گرہن ہوگیا تو میں اور کچھ دیگر خواتین حجروں میں سے نکلیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سوار پر تیزی سے تشریف لائے اور جائے نماز پر آکر کھڑے ہوئے ، اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے اور طویل رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل سجدہ کیا لیکن یہ پہلے سجدے سے کچھ کم تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کی ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں چار رکوع اور چار سجدے تھے ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، اس کے بعد میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہیں تمہاری قبروں میں اسی طرح آزمائش میں مبتلا کیا جائے گا ، جس طرح دجال کی آزمائش ہے ۔ “
(یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے ، لفظ مسیح استعمال ہوا ہے یا دجال استعمال ہوا ہے ) ۔

( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 1044 ، ومسلم : 903 ، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 2840 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4841)

180- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، جس میں یہ الفاظ ہیں ، جس میں چار رکوع تھے اور چار سجدے تھے ۔ سفیان نامی راوی نے اس کے علاوہ اور کوئی بات ذکر نہیں کی ۔
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 1044 ، ومسلم : 903 ، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 2840 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4841)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
181- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعات (اتنی مختصر ادا کرتے تھے ) میں یہ سوچتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سورۂ فاتحہ پڑھی ہے ؟ یعنی وہ اتنی مختصر ہوتی تھیں ۔
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري : 1171 ، ومسلم : 724 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم : 2465 ، 2466 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم : 4603 ، 4624)

182- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کھانا رکھ دیا جائے اور نماز کے لیے اقامت بھی کہی جاچکی ہو ، تو پہلے کھانا کھالو ۔“
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري : 671 ، 5465 ، ومسلم : 558 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4431 ، وأحمد فى ”مسنده“ 11 / 5833 ، برقم : 24754)

183- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چٹائی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت بچھالیتے تھے اور رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے حجرہ بنالیتے تھے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نماز ادا کیا کرتے تھے ، کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں ، جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے بارے میں اندازہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کردیا اور ارشاد فرمایا : ”مجھے یہ اندیشہ ہے ، ان لوگوں کے بارے میں ایسا حکم نازل ہوگا ، جس کی یہ طاقت نہیں رکھتے ہوں گے ۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم اپنی طاقت کے مطابق عمل کا خود کو پابند کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل تم سے منقطع نہیں ہوتا ، جب تک تم اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوجاتے ۔“
راوی بیان کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل وہ تھا ، جسے باقاعدگی سے سرانجام دیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا کرتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے ۔
( إسناده حسن ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري 5681 ، ومسلم : 782, وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم : 353 ، 1578 ، 2430 ، 2571 ، 2613 ، 2616 ، 2634 ، 3516 ، 3637 ، 3648 ، 6385 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4533 ، 4788)

184- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کرتے تھے (بعض اوقات) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری طرف نکال دیتے تھے ، تو میں اسے دھودیتی تھی ، حالانکہ میں اس وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھی ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري رقم: 295، 2028، 2029،2046، 5925، ومسلم: 297، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1359، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4632)

185- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسی شخص کو نماز پڑھنے کے دوران اونگھ آجائے ، تو اسے نماز ختم کرینی چاہئے، کیونکہ وہ یہ نہیں جانتا، ہوسکتا ہے ، اپنی طرف سے وہ دعائے مغفرت کررہا ہو لیکن اپنے آپ کو برا بھلا کہہ رہا ہو ۔“ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”وہ اپنے لیے بددعا کررہا ہو ۔“
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 212، ومسلم: 786، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 2583، 2584، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:2800)

جاری ہے ۔۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
186- ہمام نامی راوی بیان کرتے ہیں : ایک شخص ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مہمان بنا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے بلانے کے لیے پیغام بھجوایا تو لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ اسے جنابت لاحق ہوگئی تھی ، تو وہ اپنے کپڑے دھونے کے لیے گیا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا : وہ دھو کیوں رہا ہے ؟ میں تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیا کرتی تھی ۔
( إسناده صحيح ، وهمام ھو ابن الحارث ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري 229 ، 230 ، 231 ، ومسلم : 288 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1379 ، 2332 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4854)

187- سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : جب رمضان کا آخری عشرہ آجاتا تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ کو بیدار کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر عبادت کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمر ہمت باندھ لیتے تھے ۔ (یہاں ایک راوی نے لفظ مختلف نقل کیا ہے ) ۔
( إسناده صحيح ، وأبو يغفور هو عبدالرحمٰن بن عبيداللہ ، وأخرجه البخاري 2024 ، ومسلم : 1174 ، وأبوداود : 1376 ، وابن ماجه : 1768 ، ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 2443 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم : 4370)

188- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ہر حصے میں وتر ادا کرلیا کرے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ور کا انتہائی وقت صبح صادق (سے کچھ پہلے تک) ہوتا ہے ۔
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري 996 ، ومسلم : 745 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 2443 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4370)
189- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : میں اپنے ہاں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح صادق کے قریب سوتے ہوئے ہی پایا ہے ۔
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري : 1133 ، ومسلم : 742 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 2637 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4662 ، 4835)

190- عائشہ بنت طلحہ اپنی خالہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا کچھ کھانے کے لیے ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں ، میں نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا جس میں حیس (مخصوص قسم کا حلوہ) موجود تھا ، جسے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سنبھال کر رکھا تھا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک رکھا اور اسے کھالیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میں نے تو (نفلی) روزہ رکھا ہوا تھا ۔“
(إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم 1154، ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 3628،3629، 3630،، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 4563،4596، 4743)

جاری ہے ۔۔۔۔
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
191- عائشہ بنت طلحہ اپنی خالہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتی ہیں ۔ ایک دن نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا کچھ کھانے کے لئے ہے ؟“ میں نے عرض کیا : ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو میں (نفلی) روزہ رکھ لیتا ہوں ۔“
( إسناده صحيح ، وانظر حديث سابق ، وأخرجه مسلم 1154 ، ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 3628 ، 3629 ، 3630 ، ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم : 4563 ، 4596 ، 4743)

192- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت کھڑے ہوکر نماز ادا کیا کرتے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا کرنے لگے یہاں تک کہ جب تیس یا چالیس آیات کی تلاوت باقی رہ جاتی تھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر ان کی تلاوت کرتے تھے ، پھر رکوع میں جاتے تھے ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري : 1118 ، 1119 ، 1148 ، 1161 ، 1168 ومسلم : 731 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 2509 ، 2630 ، 2632 ، ، 2633 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4722)

193- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، فاطمہ بنت «ابوحُبَيْشٍ» کو استخاضہ کی شکایت ہوگئی اس نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : ”یہ کسی دوسری رگ کا مواد ہے ، یہ حیض نہیں ہے ، جب حیض آجائے ، تو تم نماز ترک کردو اور جب وہ رخصت ہوجائے ، تو تم غسل کرکے نماز ادا کرنا شروع کردو ۔“ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں ) ”تم اپنے آپ سے خون کو دھو کر نماز پڑھنا شروع کردو ۔“
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري : 228 ، ومسلم : 333 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1348 ، 1350 ، 1354 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4486)

194- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاں عصر کی بعد کی دو رکعات کبھی ترک نہیں کیں ۔
( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 590 ، ومسلم : 835 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 1570 ، 1571 ، 1572 ، 1573 ، 1577 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4489)

195- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 5 رکعات وتر ادا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آخر میں بیٹھتے تھے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم 737 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 2437 ، 2438 ، 2439 ، 2440 ، 2464 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4526 ، 4560)

196- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ کیا میں نے اس بارے میں سنا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی (کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کروں) تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت عطا کردی ، پھر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اجازت مانگی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عطا کردی ، پھر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عطا کردی ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اعتکاف کے مقام پر تشریف لے جاتے تھے
(اس موقع پر) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چار خیمے لگے ہوئے دیکھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : یہ کس کے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : سیدہ عائشہ ، سیدہ حفصہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہن کے ہیں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا ان خواتین نے ان کے ذریعے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟“ (راوی بیان کرتے ہیں : ) اس عشرے میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف نہیں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے عشرے میں اعتکاف کیا ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : بعض اوقات سفیان نے روایت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں ۔ ”کیا تم ان خواتین کے بارے میں نیکی کی رائے رکھتے ہو ۔“

( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري: 2033، 2034، 2041، 2045، ومسلم: 1172، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 3667، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4506، 4912)

جاری ہے ۔۔۔۔​
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
197- علقمہ بیان کرتے ہیں : ہم لوگ حج کرنے کے لیے روانہ ہوئے ، کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ چھیڑ دیا : آیا روزہ دار شخص (اپنی بیوی کا) بوسہ لے سکتا ہے ؟ حاضرین میں سے ایک صاحب بولے : جی ہاں ! ایک دوسرے صاحب بولے : جو دو سال تک مسلسل نفلی روز رکھتے رہے تھے اور رات بھر نوافل ادا کرتے رہے تھے ، میں نے یہ ارادہ کیا میں اپنی یہ کمان پکڑوں اور اس کے ذریعے تمہیں ماروں(روای کہتے ہیں) جب ہم مدینہ منورہ آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے ان لوگوں نے کہا: اے ابوشبل ! تم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کرو ، میں نے کہا: اللہ کی قسم ! میں کبھی بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کوئی برائی کی بات نہیں کروں گا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے لوگوں کی گفتگو سن لی انہوں نے دریافت کیا : تم لوگ کس موضوع پر بات کررہے ہو ؟ میں تمہاری ماں ہوں ۔ لوگوں نے عرض کی : اے ام المؤمنین ! روزہ دار شخص (اپنی بیوی کا) بوسہ لے سکتا ہے ، تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی زوجہ محترمہ کا) بوسہ لے لیا کرتے تھے ، ان کے ساتھ مباشرت کرلیتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہوا ہوتا تھا اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواہش پر سب سے زیادہ قابوحاصل تھا ۔
( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 1927 ، ومسلم : 1106 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4428 ، 4718)

198- سفیان کہتے ہیں : میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے دریافت کیا : کیا آپ نے اپنے والد کو یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے ، تو وہ ایک گھڑی کے لیے خاموش رہے ، پھر انہوں نے جواب دیا ۔ جی ہاں ۔
(إسناده صحيح ، أخرجه البخاري 1928 ، ومسلم : 1106 وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 3537 ، 3539 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4428)

199- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ایک زوجہ محترمہ کا بوسہ لے لیا کرتے تھے ۔ راوی کہتے ہیں : پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسکرا دیں ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري : 1927 ، 1928 ، ومسلم : 1106 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 3537 ، 3539 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4428)

200- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (بعض اوقات) صبح صادق کے وقت جنابت کی حالت میں ہوتے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے تھے اور اس دن کا روزہ رکھ لیتے تھے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري : 1925، 1930، 1931، ومسلم: 1109، 1110، وابن حبان فى ” صحيحه“ برقم: 3486، 3491، 3493، 3494، 3496، 3497، ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4427، 4551، 4637)

جاری ہے ۔۔۔۔
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
201- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : حمزہ بن عمرو اسلمی جو مسلسل نفلی روزے رکھا کرتے تھے ۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں مسلسل روزے رکھتا ہوں ، تو کیا سفر کے دوران بھی روزہ رکھوں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر تم چاہو تو روزہ رکھ لو ، اگر چاہو تو روزہ نہ رکھو ۔“
(إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 1942 ، 1943 ومسلم 1121 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3560 ، 3567 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4502 ، 4654 )

202- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : عاشورہ کا دن ایسا دن تھا جس میں زمانۂ جاہلیت میں روزہ رکھا جاتا تھا ، یہ رمضان کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے ، جب رمضان کا حکم نازل ہوگیا تو اب جو شخص چاہے اس دن میں روزہ رکھ لے اور جو شخص چاہے اس دن میں روزہ نہ رکھے ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري : 1592 ، 1893 ، 2001 ، 2002 ، ومسلم : 1125 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3621 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4638)

203- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو طواف افاضہ کرنے کے بعد حیض آگیا انہوں نے اپنے حیض کا تذکرہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا اس کی وجہ سے ہمیں رکنا پڑے گا ؟“ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہیں طواف افاضہ کرنے کے بعد حیض آیا ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر وہ روانہ ہوجائے ۔“
(إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 4401 ، ومسلم : 1211 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3900 ، 3902-3905 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم : 4504)

204- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر کوئی(مسئلہ) نہیں ہے“ ۔
(إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 1757 ، ومالك فى الحج : 334 ، وابن حبان في ”صحيحه“ : 3902 ، وانظر حديث سابق)

205- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ہم لوگ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم میں سے جو شخص حج اور عمرے کا تلبیہ پڑھنا چاہے وہ اس کا تلبیہ پڑھے ، تم سے جو صرف حج کا تلبیہ پڑھنا چاہے وہ اس کا تلبیہ پڑھے اور جو شخص صرف عمرے کا تلبیہ پڑھنا چاہے وہ اس کا تلبیہ پڑھے ۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ پڑھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی یہی تلبیہ پڑھا تو کچھ لوگوں نے حج اور عمرے کا تلبیہ پڑھا ، کچھ لوگوں نے صرف عمرے کا تلبیہ پڑھا ۔ میں ان لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے صرف عمرے کا کا تلبیہ پڑھا تھا
(یا اس کی نیت کی تھی) ۔
سفیان کہتے ہیں : پھر میں اس حدیث کے حواے لے معذور ہوگیا ، صرف اس کا یہ حصہ مجھے یاد ہے ۔

(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري:294، ومسلم: 1211، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3792، 3795، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 4504)

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
206- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تم میں سے جو شخص عمرے کا تلبیہ پڑھنا چاہے وہ ایسا کرلے ۔“ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے (کا تلبیہ) نہیں پڑھا تھا ۔
(إسناده صحيح ، و أخرجه مسلم 1211 ، ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 3934 ، 3935 ، 3936 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم : 4361 ، 4362 ، 4543)

207- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ہم لوگ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے ہم میں سے کچھ نے حج افراد کی نیت کی تھی ، کچھ نے حج قران کی نیت کی تھی اور کچھ نے عمرہ کرنے کے نیت کی تھی ، تو جس نے عمرہ کرنے کی نیت کی تھی اس نے بیت اللہ کا طواف کرنے اور صفا و مروہ کی سعی کرنے کے بعد احرام کھول دیا ، جس نے حج افراد یا حج قران کی نیت کی تھی اس نے احرام اس وقت تک نہیں کھولا جب تک اس نے جمرہ کی رمی نہیں کرلی ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري : 1562 ، ومسلم : 1211 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3912 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 3462 )

208- عبدالرحمان بن قاسم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کیا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم بھی روانہ ہوئے ، ہمارا ارادہ صرف حج کرنے کا تھا یہاں تک کہ جب میں ”سرف“ کے مقام پر پہنچی یا اس کے قریب پہنچی تو مجھے حیض آگیا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، تو میں رو رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ”: تمہیں کیا ہوا ہے ؟ کیا تمہیں حیض آگیا ہے ؟“ میں نے عرض کیا : جی ہاں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ ایک ایسی چیز ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کا مقدر کردیا ہے ، تم وہ مناسک ادا کرو ، جو حاجی کرتے ہیں ، البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ۔“
سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے قربان کی ۔

(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري:294، 305، ومسلم: 1211، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3834، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4719)

209- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ہم لوگ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، جب ذیقعدہ ختم ہونے میں پانچ دن باقی رہ گئے تھے ، ہمارا ارادہ صرف حج کرنے کا تھا ، جب ہم ”سرف“ کے مقام پر پہنچے یا اس کے قریب پہنچے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم دیا جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں ہے وہ اسے عمرہ میں تبدیل کرلے پھر جب ہم منیٰ میں تھے ، تو گائے کا گوشت لایا گیا ۔ میں نے دریافت کیا : یہ کہاں سے آیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے قربان کی ہے ۔
یحییٰ نامی راوی کہتے ہیں: میں نے یہ روایت قاسم کو سانئی تو وہ بولے : اللہ کی قسم ! اس خاتون نے تمہیں یہ روایت بالکل صحیح سنائی ہے ۔

( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري : 1709، ومسلم: 1211، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 3929، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4504، 4719)


210- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : میں اپنے ان دونوں ہاتھوں کے ساتھ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے لیے ہار بنایا کرتی تھی پھر اس کے بعد نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی کسی چیز سے اجتناب نہیں کرتے تھے ، جس سے احرام والا شخص اجتناب کرتا ہے ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري:1696، ومسلم: 1321، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 4003، 4009-4013، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4394، 4505، 4658، 4659، 4852، 4853، 4889، 4942)

جاری ہے ۔۔۔​
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
211- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : میں اپنے ان دو ہاتھوں کے ذریعے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے لیے ہار تیار کیا کرتی تھی ، پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی چیز سے الگ نہیں ہوتے تھے ، جس سے احرام والا شخص علیحدگی اختیار کرتا ہے اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی کسی چیز کو چھوڑتے نہیں تھے (جسے احرام والا شخص چھوڑتا ہے )
سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں : ہمارے علم کے مطابق حاجی شخص اس وقت مکمل طور پر حلال ہوتا ہے ، جب وہ بیت اللہ کا طواف کرلیتا ہے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 1696 ، ومسلم : 1321 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 4009 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4394)

212- عبدالرحمٰن بن قاسم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سنا انہوں نے اپنے ہاتھ پھیلا کر فرمایا : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے وقت اپنے ان دو ہاتھوں کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت اللہ کے طواف کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کھولنے کے وقت پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : ہم اسی کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں ۔ (إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري : 1539 ، ومسلم : 1189 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 3766 ، 3768 ، 3770 ، 3771 ، 3772 ، 3881 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم : 4391 ، 4712 ، 4833)

213- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، میں نے اپنے ان دو ہاتھوں کے ذریعے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت اللہ کے طواف کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کھولنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : سفیان پہلے اس روایت کو زہری کے حوالے سے نقل نہیں کرتے تھے ایک مرتبہ ہم نے انہیں تنبیہ کی ، تو انہوں نے بتایا : میں زہری کی زبانی یہ بات سنی ہے ہے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 1539 ، ومسلم : 1189 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 3766 ، 3768 ، 3770 ، 3771 ، 3772 ، 3881 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم : 4391 ، 4712 ، 4833)

214- سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : جب تم جمرہ کو کنکریاں مارلو اور جانور ذبح کرلو اور سر منڈوالو ، تو جو بھی چیز تمہارے لیے حرام قرار دی گئی تھی ، وہ سب تمہارے لیے حلال ہوجائیں گی ، صرف خواتین اور خوشبو کا حکم مختلف ہے ۔
سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے وقت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمرہ کی رمی کرنے کے بعد اور طواف زیارت کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کھولنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی ۔
سالم کہتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ۔
( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري : 1539،1754، 5922،5928، 5930، ومسلم: 1189 وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 3766، 3768، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4391، 4712، 4833)

215- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے وقت اور احرام کھولنے کے وقت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی ۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے دریافت کیا: کون سی خوشبو؟ انہوں نے فرمایا: سب سے بہترین خوشبو۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 5928، ومسلم: 1189، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 3766، 3768، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 4391،4712، 4833)

جاری ہے ۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
216- سفیان کہتے ہیں : عثمان بن عروہ نے مجھے یہ بات بتائی کہ ہشام بن عروہ نے یہ روایت صرف میرے حوالے سے نقل کی ہے ۔
( إسناده صحيح ، وانظر حديث سابق)

217- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ مبارک میں تین دن گزرنے کے بعد بھی میں نے خوشبو کی چمک دیکھی تھی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت احرام کی حالت میں تھے ۔
(إسناده ضعيف ، وأخرجه وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1376 ، 1377 ، 3767 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4391 ، 4712)

218- ابراھیم بن محمد اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے احرام والے شخص کے احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانے کے بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے فرمایا : مجھے یہ بات پسند نہیں ہے ، میں احرام کی حالت میں صبح کروں اور مجھ سے خوشبو آرہی ہو میں تارکول لگالوں یہ میرے لیے اس زیادہ پسندیدہ ہوگا ۔
میرے والد کہتے ہیں : سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادوں میں سے کسی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھجوایا ، تاکہ وہ اپنے والد کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب کے بارے میں بتاسکیں ، تو پیغام رساں آیا اور اس نے بتایا : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات بیان کی ہے ، میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی تھی ، تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما خاموش رہے ۔ (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري : 267 ، 270 ومسلم : 1192 ، وأحمد فى ”مسنده“ 11 / 6124 ، برقم : 26058)

219- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہدی میں بکریاں بھجوائی تھیں ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ابومعاویہ نامی راوی نے اس روایت میں یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں ۔ ”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہار پہنائے تھے ۔“
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 1701 ، 1702 ، ومسلم : 1321 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 4003 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 1394 ، 4889)

220- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی بکریوں کے لیے ہار بنایا کرتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی چیز سے اجتناب نہیں کرتے تھے ، جس سے احرام والا شخص اجتناب کرتا ہے ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري: 1696، 1698، ومسلم: 1321، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4003، 4009،4010، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4394، 4852)

221- عروہ بیان کرتے ہیں : میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ آیت تلاوت کی : «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ”صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں ۔“ (2-البقرة:158)
تو میں نے کہا: میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اگر میں ان دونوں کا طواف نہیں کرتا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے میرے بھانجے تم نے بہت غلط بات کہی ہے ۔ جو شخص ”مشلل“ میں موجود منات طاغیہ سے احرام باندھتا تھا وہ صفا و مروہ کی سعی نہیں کیا کرتا تھا ( یہ زمانہ جاہلیت کی بات ہے ) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ”صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناه نہیں ۔“ (2-البقرة:158)، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان دونوں) کا طواف کیا ہے اور مسلمانوں نے بھی ان کا طواف کیا ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : مجاہد نے یہ بات بیان کی ہے : یہ سنت ہے ۔
زہری کہتے ہیں: میں نے یہ روایت ابوبکر بن عبدالرحمان کو سنائی تو وہ بولے : یہ علم ہے میں نے کئی اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے ، جو عرب صفا و مروہ کا طواف نہیں کیا کرتے تھے وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہمارا ان دو پتھروں (یعنی پہاڑوں) کا طواف کرنا زمانۂ جاہلیت کا کام ہے ۔
جبکہ کچھ انصار کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہمیں صفا و مروہ کا چکر لگانے کا حکم نہیں دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : : «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ» ”صفا اور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔“
ابوبکر بن عبدالرحمان نے فرمایا: شاید یہ آیت ان لوگوں اور ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري:1643، 1790، 4495، 4861، ومسلم: 1277، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 3739، 3740، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4730)

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
222- ابن ابوملیکہ کہتے ہیں : میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے میں شریک ہوا جنازے میں سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تھے ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھ گیا ۔ خواتین نے رونا شروع کیا ، تو سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے : زندہ شخص کے میت پر رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے ۔ راوی کہتے ہیں : سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا : (ایک مرتبہ) ہم لوگ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ(مکہ سے ) واپس آرہے تھے ، جب ہم ”بیداء“ کے مقام پر پہنچے تو وہاں کچھ سوار ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیے ہوئے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے عبداللہ ! تم جاؤ اور جا کر دیکھو کہ یہ سوار کون ہیں ؟ پھر میرے پاس آؤ ۔ سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں گیا ، میں نے واپس آکر بتایا کہ وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ہیں ، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم ان سے کہو کہ ہمارے ساتھ املیں ، جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے تو کچھ ہی عرصے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کردیا گیا ۔ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ آئے وہ کہ کہہ رہے تھے : ہائے میرا بھائی ! ہائے میرا ساتھی ! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے : رک جاؤ اے صہیب ! میت کو زندہ شخص کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔
سيدنا عبدااللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا : میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو وہ بولیں : اللہ تعالیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”بے شک اللہ تعالیٰ کافر کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کردیتا ہے ۔ “ (یعنی عذاب کے ساتھ اسے اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بھی تکلیف ہوتی ہے ) ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ دے دیا ہے ۔ «وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى» ”کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ “ (6-الأنعام : 164)
( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 1286 ، 1287 ، 1288 ، ومسلم : 929 ، 930 ، 932 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3135 ، 3136 ، 3137 ، وأحمد فى ”مسنده“ 1 / 100 ، برقم : 295)

223- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عورت کے بارے میں یہ فرمایا تھا حالانکہ اس کے گھر والے اس پر رورہے تھے ، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ) ”اس وقت اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے ۔ “
( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 1286 ، 1289 ، ومسلم : 928 ، 929 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3123 ، 3133 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4499 ، 4711 ، 5681)

224- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”جس بھی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس پر لوگوں کا اتنا گروہ نماز جنازہ ادا کرلے جو ایک سو تک پہنچے ہوں ، تو وہ اگر اس میت کے لیے سفارش کریں ، تو ان کی سفارش قبول کی جاتی ہے ۔ “
(إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم 947 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3081 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 4398)

225- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ (ہجرت کرکے ) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو بخار رہنے لگا ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے لئے ان کے پاس تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ابوبکر کیا حال ہے ؟“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ہر شخص اپنے گھر میں صبح کرتا ہے ، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ اس سے قریب ہوتی ہے ۔
پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ (کی عیادت کے لئے ) ان کے پاس تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تمہارا کیا حال ہے ؟“ تو انہوں نے عرض کیا : میں نے موت کو چکھنے سے پہلے ہی اس کا ذائقہ چکھ لیا ہے ، بے شک بزدل کی موت اس پر سے ایسے نکلتی ہے جیسے بیل اپنی کھال کو اپنے گوبر سے بچاتا ہے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارا کیا حال ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا : کیا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا ، جب میں ”فخ“ (مکہ مکرمہ کی ایک وادی) میں رات بسر کروں گا ۔ (یہاں سفیان نامی راوی بعض اوقات لفظ وادی نقل کیا ہے ) اور میرے اردگرد ”اذخر“ اور ”جلیل“ (مکہ مکرمہ کی گھاس کے مخصوص نام) ہوں گے ۔
راوی بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : ”اے اللہ ! بے شک سیدنا ابرھیم علیہ السلام تیرے بندے اور خلیل تھے ۔ انہوں نے اہل مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی تھی میں تیرا بندہ اور تیرا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں میں اہل مدینہ کے لیے تجھ سے دعا کرتا ہوں ، اسی کی مانند جو انہوں نے اہل مکہ کے لئے تجھ سے کی تھی ۔ اے اللہ ہمارے ”صاع“ میں برکت دے ، ہمارے ”مد“ میں برکت دے ، ہمارے مدینے میں برکت دے دے ۔ “
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : میرے خیال میں روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :
”ہمارے برتنوں میں برکت دیدے ۔ اے اللہ ! ہمارے نزدیک اسی طرح محبوب کردے جس طرح تونے مکہ کو ہمارے نزدیک محبوب کیا تھا ، یا اس سے بھی زیادہ کردے اور یہاں کی آب و ہوا کو صحت افزاء کردے اور یہاں کی وباء اور بخار کو خم (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جحفہ کی طرف منتقل کردے ۔ “
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 1889 ، 3926، 5654 ، 5677، 6372، ومسلم: 1376، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 3724، 5600)

جاری ہے ۔۔۔
 
Top