السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@ابن داود صاحب ایک ”عالم“سے اس قسم کی بات معیوب ہے۔ یہ رمضان کا برکتوں والا مہینہ ہے اس میں تو کم از کم صاف گوئی سے کام لیں۔
جناب من! ہم آپ سے آپ کی فہم کی رعایت کرتے ہوئے گفتگو کرنے پر مجبور ہیں! اور یہ کوئی معیوب بات نہیں!
خیر اب تک کی گفتگو کا لبِ لباب جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ؛
آپ لوگ اس حدیث کے مطابق تراویح نہیں پڑھتے۔
یہ آپ غلط سمجھیں ہیں! آپ کی سمجھ کے ہم قصوروار نہیں!
حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ”يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات پڑھتے اس طرح کہ ان کی ادائیگی میں خشوع اور طوالت ایسی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔
بالکل جناب ! اور اسی اہل الحدیث کی چار اور چار رکعت ہوتی ہیں، جیسا کہ اس حدیث میں ہے! نہ کہ کسی کج فہم کی کج فہمی کے موافق!
خشوع کی کوشش انسان کرتا ہے یہ ایک توفیقی امر ہے، انسان کوشش کرسکتا ہے! طوالت حسب توفیق ہوتی ہے ، اللہ مزید توفیق دے، آمین!
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ”چار“ رکعات ایک ساتھ پڑھنے کا کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہتا ہے کہ؛
ظہر کی چار رکعت سنت مؤکد اور چار رکعات فرض
یا
جیسے عصر کی چار رکعات سنت غیر مؤکد اور چار فرض
یا
جیسے عشاء کی چار رکعات سنت غیر مؤکد اور چار رکعات فرض۔
شاید آپ کو یہاں بھی چار کا نہیں معلوم! کہ اس میں بھی چار کس طرح ہیں!
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا عَنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنَ النَّهَارِ؟ فَقَالَ : إِنَّكُمْ لاَ تُطِيقُونَ ذَاكَ. فَقُلْنَا: مَنْ أَطَاقَ ذَاكَ مِنَّا. فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الظُّهْرِ صَلَّى أَرْبَعًا، وَصَلَّى أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ، وَالنَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ.
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺکے دن کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا؟ توانہوں نے کہا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے،اس پرہم نے کہا: ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ جب سورج اس طرف (یعنی مشرق کی طرف) اس طرح ہوجاتا جیسے کہ عصر کے وقت اس طرف (یعنی مغرب کی طرف) ہوتا ہے تو دورکعتیں پڑھتے ، اور جب سورج اس طرف (مشرق میں) اس طرح ہوجاتا جیسے کہ اس طرف (مغرب میں) ظہر کے وقت ہوتا ہے تو چار رکعت پڑھتے، اور چار رکعت ظہرسے پہلے پڑھتے اوردورکعت اس کے بعد اور عصر سے پہلے چار رکعت پڑھنے، ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور انبیاء ورسل پراور مومنوں اور مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے ان پر سلام پھیر کرفصل کرتے۔
ملاحظہ فرمائیں: جامع الترمذي » أَبْوَابُ السَّفَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ » بَابٌ كَيْفَ كَانَ تَطَوُّعُ النَّبِيِّ ﷺ بِالنَّهَارِ؟
کسی بھی بھلے مانس سے پوچھ لو کہ وہ انہیں کیسے ادا کرتا ہے؟؟؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ادا کرتے تھے یہ آپ کو بتلایا دیا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں ماننی تو پھر،
آپ کی مرضی خواہ بھلے مانس سے پوچھو، بد مانس سے پوچھو یا چاہو تو بن مانس سے پوچھو!