• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشرک کی نجاست کا حکم

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
وه حديث یہ ہے :
حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ بَكْرٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جُنُبٌ فَأَخَذَ بِيَدِي فَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّى قَعَدَ فَانْسَلَلْتُ فَأَتَيْتُ الرَّحْلَ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ وَهُوَ قَاعِدٌ فَقَالَ أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هِرٍّ فَقُلْتُ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أَبَا هِرٍّ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَنْجُسُ
صحیح مسلم : ۲۸۵​
یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جنبی تھے ۔ اور انہوں نے اس جنابت کی نجاست حکمی کو نجاست حسی کی طرح سمجھ لیا تھا ۔ تو اس کی نفی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ۔
جزاک اللہ خیرا اس بات کی سمجھ آ گئی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
هي أكبر من أختها -- فالله المستعان !
معاملہ یہ نہیں ۔
بلکہ معاملہ یوں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حکمی نجاست کو حسی نجاست پر قیاس کرکے یہ سمجھا کہ شاید نجاست حکمی اور حسی کا حکم ایک ہی ہے لہذا حکمی نجاست والے کو چھونا بھی درست نہیں ۔ تو اس خیال کی نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرمائی ۔کہ نجاست حکمی کو نجاست حسی نہ سمجھا جائے۔
محترم شیخ صاحب غالبا مجھے یہی غلط فہمی ہو رہی تھی کہ آیا جنابت حکمی نجاست میں سے ہے یا حسی نجاست میں سے-
اوپر محترم شیخ انور شاہ راشدی نے فتح الباری کے حوالے سے بتایا تھا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسکو حسی نجاست سمجھ رہے تھے تو میں سمجھا کہ وہ اسکو حسی نجاست کہ رہے تھے چونکہ یہ بھی حسی ناپاکی ہی ہے اسی لئے میں نے اوپر پوسٹ نمبر 43 میں شاید الٹ بات کہ دی ہو مگر لگتا ہے کہ میں غلط تھا اور ابو ہریرہ اس کو حسی نجاست کہ نہیں رہے تھے بلکہ سمجھ (یعنی حسی پر قیاس) رہے تھے
آپ میری اصلاح کر دیں تاکہ اس حوالے سے بات کو سمجھ سکوں جزاک اللہ خیرا
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
یہ بات درست ہے کہ
ابو ہریرہ اس کو حسی نجاست کہ نہیں رہے تھے بلکہ حسی کی طرح سمجھ (یعنی حسی پر قیاس) رہے تھے
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی ومکرمی
جزاک اللہ خرا.
میں سمجہتا ھوں کہ یقینا الحمدللہ میری طرح قارئین کے اشکالات بھی ختم ہوگئے ھوںگے.
اب گلی بات یہ ھے کہ حدیث "لا یمس القرآن الا طاھر "سے مسلم مراد ھے یا مشرک؟
علامہ البانی نے اس سے مسلم مراد لیا ھے کہ وہ چھوسکتا ھے.چاھے بے وضو ھی کیوں نہ ھو.اور اسکی دلیل یہ دی کہ یا یوں سمجہیں ک اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ لیا ک مصححف کو مشرک نہ چھوئے.کیونکہ وہ نجس ھے اور مسلم نجس نہیں.
لیکن بات یہ ہے کہ مسلم اور مشرک میں نجاست حسی مشترک ہے.دونوں کو جہاں لگے گی وہ جگہ نجس ھوگی.
سارا نجس نہیں ھوگا.اور اگر اسکو نجاست لگی ھی نھیں تو یہ بات بہی ختم ہوجاتی ھے.
اصل بات یہ ھے کہ مشرک میں نجاست حسی ھے.اور وہ نجاست حکمی سے بہی خطرناک ھے.جب تک اسکی نجاست حسی ختم نہین ھوجاتی تب تک اسکے لئے طہارت وغیر طہارت برابر ھے.
تو جب بات یہ ھو مشرک کو مصحف سے منع چہ معنی دارد ؟
جبکہ اگر کسی مشرک میں اسلام لانے کی امید ھو تو اسکو تو قرآن دینا ضروری ھے کہ اسکو ھدایت مل جائے.علامہ البانی نے مشرک کے نہ چھونے کی یہ دلیل بھی دی ھے کہ قرآن مجید کو دشمن کے علاقے میں نہ لیجایا جائے.کہ اسکو وہ لے نا لیں.یعنی وہ اسکو نقصان نہ پہنچائیں.
حالانکہ اسکا بھی زیر بحث مسئلہ سے تعلق نہیں.بالکہ اگر دیکھا تو یہ مشرک کے لئے چھنے کی دلیل ھے نا کہ نا چہونے کی.اس لئے کہ اسکا مفھوم مخالف یہ ھوا کہ اگر نقصان کا اندیشہ نہ ھو تو وہ چھو سکتے ھیں یعنی پڑھ سکتے ھیں.
اور صحابہ نے بھی اس حدیث سے مسلم کا نہ چھونا ھی سمجہا ھے.کتب میں انکے آثار موجود ھیں.
مختصر حدیث کا مفہوم مخالف یہ ھے کہ قرآن کو غیر طاہر نہ چہوئے.نہ کہ اسکا مفہوم مخالف یہ ہے کہ نجس نہ چھوئے.کیونکہ طاھر کا مفہوم مخالف غیر طاھر ھے نہ کہ نجس.اور نجس کا غیر نجس.
کیا رائے ھے علماء کی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب گلی بات یہ ھے کہ حدیث "لا یمس القرآن الا طاھر "سے مسلم مراد ھے یا مشرک؟
علامہ البانی نے اس سے مسلم مراد لیا ھے کہ وہ چھوسکتا ھے.چاھے بے وضو ھی کیوں نہ ھو.اور اسکی دلیل یہ دی کہ یا یوں سمجہیں ک اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ لیا ک مصححف کو مشرک نہ چھوئے.کیونکہ وہ نجس ھے اور مسلم نجس نہیں.
جزاک اللہ خیرا محترم شیخ صاحب شاید الفاظ آگے پیچھے ہو جاتے ہیں مثلا آپ شاید کہنا یہ چاہتے تھے کہ حدیث میں نہ چھونے کی علت نجس ہونا ہے اور اسکا مفہوم مخآلف یہ لیا کہ مسلم نجس نہیں یعنی مفہوم مخالف مشرک کا نجس ہونا نہیں بلکہ اسکی علت کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ مسلم نجس نہیں

اور صحابہ نے بھی اس حدیث سے مسلم کا نہ چھونا ھی سمجہا ھے.کتب میں انکے آثار موجود ھیں.
مختصر حدیث کا مفہوم مخالف یہ ھے کہ قرآن کو غیر طاہر نہ چہوئے.نہ کہ اسکا مفہوم مخالف یہ ہے کہ نجس نہ چھوئے.کیونکہ طاھر کا مفہوم مخالف غیر طاھر ھے نہ کہ نجس.اور نجس کا غیر نجس.
کیا رائے ھے علماء کی
میرے علم کے مطابق اس کی تفسیر میں اختلاف ہے مجھے زیادہ بہتر ابن عثیمین کی یہ تفسیر لگی ہے


فائدة و إشارة عظيمة للشيخ العثيمين - رحمه الله - في تفسير قوله تعالى : "لا يمسه إلا المطهرون"
قوله : لا يمسه إلا المطهرون
الضمير يعود إلى الكتاب المكنون ، لأنه أقرب شيء ، وهو بالرفع لا يمسه باتفاق القراء ، وإنما نبهنا على ذلك ، لدفع قول من يقول : إنه خبر بمعنى النهي ، والضمير يعود على القرآن ، أي : نهى أن يمس القرآن إلا طاهر ، والآية ليس فيها ما يدل على ذلك ، بل هي ظاهرة في أن المراد به اللوح المحفوظ ، لأنه أقرب مذكور ، ولأنه خبر ، والأصل في الخبر أن يبقى على ظاهره خبراً لا أمراً ولا نهياً حتى يقوم الدليل على خلاف ذلك ، ولم يرد ما يدل على خلاف ذلك ، بل الدليل على أنه لا يراد به إلا ذلك ، وأنه يعود إلى الكتاب المكنون ، ولهذا قال الله إلا المطهرون باسم المفعول ، ولم يقل : إلا المطَّهِّرون ، ولو كان المراد المطَّهِّرون لقال ذلك ، أو قال : إلا المتطهرون ، كما قال تعالى : إن الله يحب التوابين ويحب المتطهرين .
والمطهرون : هم الذين طهرهم الله تعالى ، وهم الملائكة ، طُهِّروا من الذنوب وأدناسها ، قال تعالى : لا يعصون الله ما أمرهم [التحريم : 6 ] .
وقال تعالى : يسبحون الليل والنهار لا يفترون [ الأنبياء : 20 ] ، وقال تعالى بل عباد مكرمون لا يسبقونه بالقول وهم بأمره يعملون [ الأنبياء : 26-27] ، وفرق بين المطِّهر الذي يريد أن يفعل الكمال بنفسه ، وبين المطَّهر الذي كمله غيره وهم الملائكة ، وهذا مما يؤيد ما ذهب إليه ابن القيم أن المراد بالكتاب الكتب التي في أيدي الملائكة ، وفي الآية إشارة على أن من طهر قلبه من المعاصي كان أفهم للقرآن ،وأن من تنجس قلبه بالمعاصي كان أبعد فهماً عن القرآن ، لأنه إذا كانت الصحف التي في أيدى الملائكة لم يمكن الله من مسها إلا هؤلاء المطهرين ، فكذلك معاني القرآن

.
شیخ عثیمین رحمہ اللہ کے نزدیک پہلی بات تو یہ ہے کہ بغیر قرینہ یا دلیل کے اسکو نہی نہیں بنا سکتے اور دوسری بات کہ اس مفعول کا صیغہ استعمال ہوا ہے نہ کی اس فاعل کا- اس آیت لانے کی ایک وجہ تو یہاں بتائی گئی ہے کہ اشارہ ہےکہ جس کے دل گناہوں سے پاک ہوں گے وہ اسکو اچھا سمجھ لے گا جیسے ھدی للمتقین سے بھی پتا چلتا ہو اور کچھ نے یہ بھی کہا ہے کہ جو یہ اعتراض کرتے تھے کہ شیطان قرآن لکھواتا ہے اسکا جواب ہے واللہ اعلم

دوسرا اگر نہی میں بھی لیں تو پھر بھی طاہر کے مفہوم کے لئے یہ دیکھا جائے گا کہ کس تناظر میں بات ہو رہی ہے جیسے مفرد کا معنی مرکب کے تناظر میں اور ہوتا ہے اور واحد تثنیہ کے مقابلے میں اور ہوتا ہے اسی طرح جمع کا لفظ بھی مختلف تناظر میں بولا جاتا ہے میرے خیال میں یہاں طاہر سے مراد غیر جنبی ہو گا غیر نجس یا وضو والا مراد نہیں ہو گا واللہ اعلم
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
طاہر کا مفھوم مخالف غیر طاہ ھے نا کہ نجس۔
اور طھارت اسکے لئے مفید ھے جو حکمی نجاست سے پاک ھو۔حکمی نجاست والے کے لئے طہارت کا ھونا نا ھونا برابر ھے۔اور طاہر وغیر طاھر دونوں کا تعلق مسلم سے ھے۔نا کہ مشرک سے۔
کچھ اور بھی قرینے ذکر کئے ھیں۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اس سے یہ واضح ھوا کہ زیر بحث حدیث: لا یمس القرآن الا طاھر " میں ممانعت مسلم کو ھے نہ کہ مشرک کو.
واللہ اعلم.
 
Top