اب گلی بات یہ ھے کہ حدیث "لا یمس القرآن الا طاھر "سے مسلم مراد ھے یا مشرک؟
علامہ البانی نے اس سے مسلم مراد لیا ھے کہ وہ چھوسکتا ھے.چاھے بے وضو ھی کیوں نہ ھو.اور اسکی دلیل یہ دی کہ یا یوں سمجہیں ک اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ لیا ک مصححف کو مشرک نہ چھوئے.کیونکہ وہ نجس ھے اور مسلم نجس نہیں.
جزاک اللہ خیرا محترم شیخ صاحب شاید الفاظ آگے پیچھے ہو جاتے ہیں مثلا آپ شاید کہنا یہ چاہتے تھے کہ حدیث میں نہ چھونے کی علت نجس ہونا ہے اور اسکا مفہوم مخآلف یہ لیا کہ مسلم نجس نہیں یعنی مفہوم مخالف مشرک کا نجس ہونا نہیں بلکہ اسکی علت کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ مسلم نجس نہیں
اور صحابہ نے بھی اس حدیث سے مسلم کا نہ چھونا ھی سمجہا ھے.کتب میں انکے آثار موجود ھیں.
مختصر حدیث کا مفہوم مخالف یہ ھے کہ قرآن کو غیر طاہر نہ چہوئے.نہ کہ اسکا مفہوم مخالف یہ ہے کہ نجس نہ چھوئے.کیونکہ طاھر کا مفہوم مخالف غیر طاھر ھے نہ کہ نجس.اور نجس کا غیر نجس.
کیا رائے ھے علماء کی
میرے علم کے مطابق اس کی تفسیر میں اختلاف ہے مجھے زیادہ بہتر ابن عثیمین کی یہ تفسیر لگی ہے
فائدة و إشارة عظيمة للشيخ العثيمين - رحمه الله - في تفسير قوله تعالى : "لا يمسه إلا المطهرون"
قوله : لا يمسه إلا المطهرون
الضمير يعود إلى الكتاب المكنون ، لأنه أقرب شيء ، وهو بالرفع لا يمسه باتفاق القراء ، وإنما نبهنا على ذلك ، لدفع قول من يقول : إنه خبر بمعنى النهي ، والضمير يعود على القرآن ، أي : نهى أن يمس القرآن إلا طاهر ، والآية ليس فيها ما يدل على ذلك ، بل هي ظاهرة في أن المراد به اللوح المحفوظ ، لأنه أقرب مذكور ، ولأنه خبر ، والأصل في الخبر أن يبقى على ظاهره خبراً لا أمراً ولا نهياً حتى يقوم الدليل على خلاف ذلك ، ولم يرد ما يدل على خلاف ذلك ، بل الدليل على أنه لا يراد به إلا ذلك ، وأنه يعود إلى الكتاب المكنون ، ولهذا قال الله إلا المطهرون باسم المفعول ، ولم يقل : إلا المطَّهِّرون ، ولو كان المراد المطَّهِّرون لقال ذلك ، أو قال : إلا المتطهرون ، كما قال تعالى : إن الله يحب التوابين ويحب المتطهرين .
والمطهرون : هم الذين طهرهم الله تعالى ، وهم الملائكة ، طُهِّروا من الذنوب وأدناسها ، قال تعالى : لا يعصون الله ما أمرهم [التحريم : 6 ] .
وقال تعالى : يسبحون الليل والنهار لا يفترون [ الأنبياء : 20 ] ، وقال تعالى بل عباد مكرمون لا يسبقونه بالقول وهم بأمره يعملون [ الأنبياء : 26-27] ، وفرق بين المطِّهر الذي يريد أن يفعل الكمال بنفسه ، وبين المطَّهر الذي كمله غيره وهم الملائكة ، وهذا مما يؤيد ما ذهب إليه ابن القيم أن المراد بالكتاب الكتب التي في أيدي الملائكة ، وفي الآية إشارة على أن من طهر قلبه من المعاصي كان أفهم للقرآن ،وأن من تنجس قلبه بالمعاصي كان أبعد فهماً عن القرآن ، لأنه إذا كانت الصحف التي في أيدى الملائكة لم يمكن الله من مسها إلا هؤلاء المطهرين ، فكذلك معاني القرآن
.
شیخ عثیمین رحمہ اللہ کے نزدیک پہلی بات تو یہ ہے کہ بغیر قرینہ یا دلیل کے اسکو نہی نہیں بنا سکتے اور دوسری بات کہ اس مفعول کا صیغہ استعمال ہوا ہے نہ کی اس فاعل کا- اس آیت لانے کی ایک وجہ تو یہاں بتائی گئی ہے کہ اشارہ ہےکہ جس کے دل گناہوں سے پاک ہوں گے وہ اسکو اچھا سمجھ لے گا جیسے ھدی للمتقین سے بھی پتا چلتا ہو اور کچھ نے یہ بھی کہا ہے کہ جو یہ اعتراض کرتے تھے کہ شیطان قرآن لکھواتا ہے اسکا جواب ہے واللہ اعلم
دوسرا اگر نہی میں بھی لیں تو پھر بھی طاہر کے مفہوم کے لئے یہ دیکھا جائے گا کہ کس تناظر میں بات ہو رہی ہے جیسے مفرد کا معنی مرکب کے تناظر میں اور ہوتا ہے اور واحد تثنیہ کے مقابلے میں اور ہوتا ہے اسی طرح جمع کا لفظ بھی مختلف تناظر میں بولا جاتا ہے میرے خیال میں یہاں طاہر سے مراد غیر جنبی ہو گا غیر نجس یا وضو والا مراد نہیں ہو گا واللہ اعلم