لوگو تمھیں معلوم ھے کہ میں اوندھے منہ زمین پر خون میں لت پت کیوں پڑاھوں؟
آئیے میں بتادیتاھوں۔
میرانام حافظ بلال ھے
میراتعلق مردان کے گاؤں جمال گڑھی سے ھے۔
میں درس نظامی کے درجہ ثالثہ کا طالب علم ھوں
میں ایک ملک میں رھتاھوں جسے پاکستان کھتے ھیں۔
جسکی آزادی میں خون دینے سے پرچم لھرانے تک سب میرے ھی اکابر کی قربانیاں ھیں۔
گزشتہ دن میں اسی ملک کے صوبہ خیبرپختونخواہ کی ایک سڑک پر جارھاتھا۔
او
جانھیں رھاتھا بلکہ میرے پیارے ابو مجھے مرگی کے علاج کی غرض سے مجھے ھاتھ سے پکڑ کر لے جارھے تھے
مجھے مرگی نے دورہ کیا اور میں نے ابو ھاتھ چھڑایا اور میں بھاگا۔
میری ملک کی بھادر پولیس کے ایک اھلکارنے مجھے صرف اس لئیے دھشگرد سمجھ کر گولیوں سے بھون ڈالا
کہ میرے سرپر ٹوپی تھی
میں نے کرتا پھن رکھاتھا
میرے چھرے پر سنت رسول سجی تھی
میری جیب میں مسواک تھا۔
میں سینے پر ختم نبوت کا بیج تھا۔
لیکن افسوس اس بات بھی ھوا کہ مشال جسے گستاخ سمجھ کر مارا گیا
میراخون اس سے بھت ارزاں سمجھاگیا۔
مشال کے قتل پر میڈیا چلایا۔
لبرل اور موم بتی مافیا کا گویا ابا مرگیا۔
سیاسی لیڈروں نے اسکے گھر کے دورے کئیے۔
اسکے قاتلوں کو گرفتار کیاگیا۔
لیکن میرے ساتھ یہ سب نھیں کیاگیا۔
کیونکہ میں ایک دینی مدرسے کا طالب علم ھوں۔
میں حافظ قرآن ھوں۔میرے پر ٹوپی اور چھرے پر داڈھی ھے۔
اس لئے میں اس ملک کی پولیس کو داد دیتاھوں
جو کبھی حقیق مجرم نھیں مارپائی
چھوٹو گینگ سے مڈبھیڑ میں اپنے اٹھارہ پولیس اھلکاروں کی لاشیں اٹھا واپس بھاگی۔
لیکن نھتے مسلمانوں کو جعلی مقابلوں کے نام پر بیچ چوراھے کاٹ کر پھینک دیا جاتاھے۔
ھتکڑیاں پھناکر خفیہ عقوبت خانوں میں تشدد سے قتل کردیاجاتاھے۔
کھاں ھے وہ لوگ جو کل مجھ سے مطالبہ کررھے تھے
کہ میں ملالہ کی ڈرامہ بازی پر فائیرنگ کرنے والوں کی مذمت کروں
میں مشال کو مظلوم اور شھید کہوں
اسکے قاتلوں کو ظالم اور قاتل کہوں۔
یہ ناانصافی آخر کب تک ھوتی رھے گی؟
ھم ظلم کی اس چکی میں کب تک پستے رھیں گے؟
کب تک حافظ بلال جیسوں کو انکے والد کے سامنے مقدس باوردی اھلکار گولیوں کا نشانہ بناتے رھیں گے۔؟
میں کھاں جاؤں؟
اپنا مقدمہ کس کے آگے رکھوں؟
میرے ٹیکس سے خریدی جانے والی گولی اب میرا ھی سینا چاک کررھی ھے۔