• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشعال کا قتل، ناحق یا محبت رسول؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مشال خان کی آئی ڈی جعلی تھی تو اس کی اصلی آئی ڈی کیا ہے؟
مشال خان عرصہ تین سال سے اپنے نام سے توہین رسالت مواد کے شئیر ہونے پر خاموش کیوں تھا؟
اس کے نام سے توہین رسالت، پر مبنی مواد کون شئیر کر رہے تھا اور کر رہا ہے؟
مشال خان اگر واقعی معصوم ہے تو پھر اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور ان کی پروردہ این جی اوز کو اس کے قتل پر اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟
پاکستان کی لبرل لابی اس کے حق میں کیوں تحریک چلا رہے ہیں؟
اسلام مخالف عناصر سب ایک ہو کر مشال خان کو معصوم کیوں ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟
یونی ورسٹی انتظامیہ کی قتل کے بعد دئے گئے آرڈرز کیا ظاہر کر رہے ہیں؟
بوقت قتل پولیس کا خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور یہ خاموش رہنے کے احکام کس نے جاری کیے تھے؟
ہمرا "محب وطن اور اسلام پسند، میڈیا" کیوں مسلسل اسے اتنا زیادہ ہائی لائٹ کر رہا ہے؟
توہین رسالت پر مجرمین کے ذکر کو شیر مادر کی طرح ہضم کر جانے والے وزیراعظم صاحب اور وفاقی حکومت کو ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ اس نے بھی دھواں دار بیان جاری کیا؟
عدالت عالیہ پر ایسا کون سا دباؤ تھا کہ توہین رسالت کے مجرمین کی خاموش حمایت اور مشال خان کے قتل پر ازخود نوٹس؟
مذہبی اور دینی جماعتیں جو پارلیمنٹ میں ہیں اور پارلیمنٹ سے باہر جو مذہبی جماعتیں ہیں ان کا ردعمل خاموشی پر مبنی کیوں تھا آخر کس اشارے کا انتظار ہے؟
قاتل مذہب بیزار پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں مقتول کا تعلق بھی مذہب بیزار پارٹی سے تعلق پھر دیندار طبقہ کے خلاف مذموم مہم کیوں؟
جماعت اسلامی کے اتحادیوں پر مشال خان یونی ورسٹی بنانے کا بھوت سوار تو جماعت اسلامی کا ردعمل اس پر کیا رہا؟
عوام نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا اور انہیں اس حد تک کس نے پہنچایا؟
سوالات ہی سوالات ہیں اگر حکومت پاکستان ان بدبخت، مجرمین توہین رسالت کو سزا نہیں دیتی

ڈاکٹر شاہ فیض
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم مشال خان نے گستاخی کری یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے
آپ ادھر پڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی پڑھے آپ کہ اس کو بلیک میل کیا جاتا تھا لنک
پیارے بھائی جان اللہ آپ کو جزائے خیر دے میرے خیال میں ثبوت اکٹھے کرتے وقت قرآن کی ایک آیت کو دیکھنا لازمی ہوتا ہے کہ ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا
پس میڈیا کی بات پہ اعتبار نہیں اور جو لوگ کہ رہے ہیں کہ اس کے کمرے کی دیواروں پہ اللہ اور رسول کی محبت کی باتیں لکھی تھی تو ان سے جاہل کوئی نہیں کیونکہ اسکے خلاف اسکی پوسٹیں موجود ہیں اور پولیس والوں کے لئے اسکے کمرے سے گنبد خضرا نکالنا بھی کوئی مشکل نہیں آپ لوگوں نے دیکھا کہ ممتاز قادری کی پھانسی پہ میڈیا کو کس طرح کنڑول کیا گیا تو یہاں کونسا مشکل کام ہے
باقی اوپر بلال خان بھائی نے اسکی جعلی آئی ڈی اور اسکی وارننگ کی وضاحت اچھی طرح کر دی ہے

جب تک کوئی مظبوط دلیل نہیں مل جاتی کہ اس نے گستاخی کری یا نہیں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور آپ بھی لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ گستاخ کہہ کر اپنے مفاد یا دشمنی کے لئے قتل کردیتے ہیں ایک دوسرے کو
بھائی جان آپ کے انصاف کے لئے کمپرومائیز نہ کرنے پہ آپ کو اللہ اجر عظیم دے البتہ ایک بات یاد رکھیں کہ آپ کی اوپر والی دلیل بعض دفعہ تو درست ہوتی ہے مگر بعض دفعہ یہ دلیل غلط ہوتی ہے اور اسکو الٹا مجرم اپنا جرم چھپانے کے لئے استعمال کرتے ہیں
مثلا پاکستان دشمن ٹی ٹی پی والے لوگوں کو جب ایجنسیاں پکڑتی ہیں تو انکے خلاف عموما عدالت میں پیش کیے جانے والے ثبوت نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور کچھ ہو بھی تو گواہ اور جج دونوں ڈرتے ہیں پس اسی لئے انکے لئے ایک تو فوجی عدالت کی بات کی جاتی ہے اور دوسری بہت دفعہ ماورائے عدالت پار کرنے کو ہی بہتر سمجھا جاتا ہے اور ایجنسیوں کی اس بات کو تمام درست سمجھتے ہیں لیکن وہی ٹی ٹی پی والے مجرم اوپر دی گئی دلیل کی طرح ہی عوام کی عدالت میں جا کھڑے ہوتے ہیں کہ جی یہ دشمنی میں لوگوں کو مار دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ عدالت میں ان لاپتہ افراد کو کیوں نہیں لاتے اور اسی طرح عوام کی عدالت میں ایجنسیوں کے خلاف لاپتہ افراد کے خلاف کافی پروگرام کئے گئے تھے اور اسکی پاداشت میں حامد میر جیسے ایجنٹ کو سبق بھی سکھانے کے بارے ہم سب جانتےہیں
پس بھائی بعض معاملات میں اوپر والی دلیل درست نہیں ٹھرتی
جہاں تک مشال خان کی نبی ﷺ کو گالی دینے والی پوسٹ کا معاملہ ہے تو میرے جیسا عام انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ مشال کے لئے ایسی پوسٹ لگانا ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل بہت تھی کیونکہ یہاں تو کوئی اصلی کافر بھی یہ جرات نہیں کر سکتا کہ وہ محمد ﷺ کو کھلے عام اس طرح گالی دے اور پھر سر عام یونیورسٹی میں پھر رہا ہو البتہ اسکے علاوہ جو اس کی اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والی باتیں ہیں ان کے حقیقی ہونے پہ ہمیں کوئی شبہ نہیں
پس جو کچھ اسکے ساتھ ہوا وہ اسکے اس ملحدانہ نظریات کی وجہ سے ہوا اگر وہ اس طرح نہ کرتا تو لوگ کبھی بھی اسکی گستاخی والی پوسٹ پہ یقین نہ کرتے مگر جب اسکا ماضی اتنا خراب ہو تو دوسروں کے لئے اس پوسٹ پہ یقین کرنا آسان ہو جاتا ہے خصوصا جب اسکی یونیورسٹی نے بھی اس کی غلط حرکتوں پہ کمیٹی بنا دی ہو اور اس پہ پابندی لگائی ہوئی ہو
اب جہاں تک اسکو قتل کرنے والوں کا حکم ہے تو پیارے بھائی ان پہ پاکستانی آئین کے لحاظ سے قصاص نہیں آتا اور نہ ہی شرعی لحاظ سے ان پہ قصاص آتا ہے زیادہ سے زیادہ دیت آ سکتی ہے وہ بھی بہت مشکل سے (اس پہ کسی کو پوچھنا ہو تو مثال سے سمجھا دوں گا)

میرا دل کافی ہرٹ ہوا آپ کے اس جواب سے کیونکہ آپ عالم دین ہوکر بغیر تحقیق کے ایسی بات کہہ رہے ایک شخص کے بارے میں مجھے کوئی ہمدردی نہیں کسی گستاخ سے لیکن ایسے بے دلیل کسی کو بھی گستاخ کہنا درست نہیں
بھائی جان کچھ باتیں بے دلیل لگتی ہیں مگر وہ بے دلیل نہیں ہوتیں جیسا کہ اوپر سمجھایا ہے کہ انکو عدالتوں میں ثابت کرنے پہ جائیں تو شاید آپ کو وہ بے دلیل لگیں مگر اخلاقی طور پہ اور شرعی طور پہ ان میں دلیل موجود ہوتی ہے جیسا کہ پانامہ کا معاملہ آپ لوگوں کے سامنے ہیں کہ میڈیا والے اور اپوزیشن والے بھی کہ رہے ہیں کہ قانونی طور پہ تو نواز شریف بچ جائے مگر اخلاقی فیصلہ کیا جائے تو اسکو پھانسی ہو جائے یہ اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ کچھ شواہد ایسے موجود ہوتے ہیں کہ جن کی بنیاد پہ کسی معاملے میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے اگرچہ پوری طرح مدلل نہ لگ رہا ہو
پس مشال کا قتل میں گستاخی کے ثبوت نہ ہونا ایک غلطی کہی جا سکتی ہے مگر اس غلطی سے کہیں بڑی غلطی یہ تھی کہ مشال نے اپنے آپ کو ایسا بنایا ہوا تھا کہ لوگوں کو اس غلطی پہ یقین کرنا آسان تھا مثلا کوئی آج کل کے حالات میں منہ پہ کپڑا لپیٹ کر (کسی مجبوری کی وجہ سے) پولیس لائن میں گھسنے کی کوشش کرے یا ناکہ پہ نہ رکے تو اس پہ فائرنگ کی جا سکتی ہے اور اس میں قصور زیادہ اسی کا ہو گا جس نے فائرنگ کرنے والوں کو غلطی کرنے پہ مجبور کیا
ویسے ایک قرآن میں مثال بھی ملتی ہے کہ مسلمانوں سے حرمت والے مہینے میں دو کافر قتل ہو گئے تو انہوں نے واویلا مچایا کہ جی دیکھو بڑے ایماندار بنتے ہیں اور حرمت والے مہینے کی پروا نہیں اللہ کہتا ہے یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ کہ وہ تم سے حرمت والے مہینے میں قتال کرنے پہ اعتراض کرتے ہوئے اسکا حکم پوچھتے ہیں تو اللہ کہتا ہے کہ انکو کہو کہ قل قتال فیہ کبیر وصد عن سبیل اللہ ۔۔۔۔ یعنی اگرچہ حرمت والے مہینے میں قتل کرنا ایک بڑا جرم ہے مگر تم نے جو جرم کیا ہے وہ جرم اس حرمت والے مہینے میں قتل کرنے سے کہیں بڑا ہے اسکی بات کیوں نہیں کرتے

بھائی جان میں ثبوت کا محتاج ہوں ثبوت کے بغیر میں کچھ نہیں کہتا مجھے جو پتہ چلا میں نے ادھرپیش کردیا اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کردے اگر نہیں تو بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں
بھائی جان اس ثبوت کےحرص رکھنے میں آپ حق بجانب ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ خود بھی بعض صورتوں میں ثبوت مانگنے والوں کو غلط سمجھتے ہیں اور بغیر ثبوت کے پار کرنے والوں کو درست سمجھتے ہیں امید ہے آپ بات سمجھ گئے ہوں گے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مشال کے قتل کے واقعے پہ میری تجویز:
بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ انکے لئے اصول تھوڑے سے مختلف بنائے جاتے ہیں مثلا پاکستان کی سالمیت ایک ایسا حساس اور اہم معاملہ ہے کہ اسکے لئے اصول اور قانون باقی قوانین سے یکسر ہٹ کر ہیں اور اسی لئے ایجنسیاں بنائی گئی ہیں جنکو بہت سے اخٹیارات دیے گئے ہیں اور انکے فنڈز کا معاملہ بھی خفیہ ہوتا ہے وہ اگر کوئی بات مورائے عدالت کرتی ہیں تو کوئی مائی کا لال ان پہ انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا اور اس اصول کو سارے محب وطن پاکستانی مانتے ہیں (البتہ ٹی ٹی پی جیسے دشمن پاکستان نہیں مانتے)
بالکل اسی طرح میرا خیال ہے کہ آئی ایس آئی کی طرح ایک اور ایجنسی بنائی جائے جو دیندار علماء کے کنٹرول میں ہو اور اسکا کام صرف گستاخان رسول اور اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والوں کا قلع قمع کرنے پہ لگایا جائے اور انکو اختیارات اور فنڈز بھی آئی ایس آئی کی طرح دئے جائیں تو اسکے بعد آپ دیکھیں گے کہ یہ سارے گستاخ اور تشکیک پھیلانے والے کسی کو نظر ہی نہیں آئیں گے
اس ایجنسی بنانے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح پاکستان کی سالمیت کے لئے فوج ناگزیر ہے اسی طرح اسلام کی سالمیت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے گستاخوں کا قلع قمع کرنا اور ملحدین کا خاتمہ اس سے کہیں زیادہ ناگزیر ہے
اس پہ آپ بھائی اپنی رائے دیں جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
18403737_1886349788247690_5420760002242876957_n.jpg

ہائے حافظ بلال۔ ۔ ۔چوں کہ تم گستاخ رسول نہیں ہو ۔ ۔چوں کہ تم قادیانی یا رافضی یا ملحد نہیں ہو۔ ۔ ۔بلکہ تم تو کلام اللہ کے حافظ ہو۔ ۔تمہاری پیشانی تو تہجد کے سجدوں کی گواہ ہے ۔ ۔ اس لیے تمہارا ماتم کہیں نہیں ہوگا ۔ ۔ نا بے حیا میڈیا میں نا بے ضمیر ججوں میں ۔ ۔ نا اخلاق باختہ موم بتی آنٹیوں میں ۔ ۔ نا شراب و کباب میں مگن سول سوسائٹی میں ۔ ۔ نا تجوریاں بھرنے والے کرپٹ سیاستدان مافیا میں ۔ ۔ ۔تمہارا ذکر اگر ہوگا تو کمزور اور ناتواں لوگوں میں۔ ۔ کیونکہ تم حافظ محمد بلال خان ہو ۔ ۔ مشعال خان نہیں۔ ۔ ویسے بھی تم پر کونسا توہین مذہب یا الہ یا الحاد کا الزام ہے۔ ۔ تم کو کسی ہجوم نے تھوڑا مارا ۔ ۔ تمہیں تو دہشت گرد قرار دے کر قانون کے رکھوالے نے ماورائے عدالت قتل کر دیا۔ ۔ تمہیں تمہارے باپ کے سامنے بھون دیا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہائے سنا ہے جنگلوں میں بھی کوئی قانون ہوتا ہے

Hisham Elahi Zaheer
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
18403688_10213379458259814_7217971484853506311_n.jpg

لوگو تمھیں معلوم ھے کہ میں اوندھے منہ زمین پر خون میں لت پت کیوں پڑاھوں؟
آئیے میں بتادیتاھوں۔
میرانام حافظ بلال ھے
میراتعلق مردان کے گاؤں جمال گڑھی سے ھے۔
میں درس نظامی کے درجہ ثالثہ کا طالب علم ھوں
میں ایک ملک میں رھتاھوں جسے پاکستان کھتے ھیں۔
جسکی آزادی میں خون دینے سے پرچم لھرانے تک سب میرے ھی اکابر کی قربانیاں ھیں۔
گزشتہ دن میں اسی ملک کے صوبہ خیبرپختونخواہ کی ایک سڑک پر جارھاتھا۔
او
جانھیں رھاتھا بلکہ میرے پیارے ابو مجھے مرگی کے علاج کی غرض سے مجھے ھاتھ سے پکڑ کر لے جارھے تھے
مجھے مرگی نے دورہ کیا اور میں نے ابو ھاتھ چھڑایا اور میں بھاگا۔
میری ملک کی بھادر پولیس کے ایک اھلکارنے مجھے صرف اس لئیے دھشگرد سمجھ کر گولیوں سے بھون ڈالا
کہ میرے سرپر ٹوپی تھی
میں نے کرتا پھن رکھاتھا
میرے چھرے پر سنت رسول سجی تھی
میری جیب میں مسواک تھا۔
میں سینے پر ختم نبوت کا بیج تھا۔
لیکن افسوس اس بات بھی ھوا کہ مشال جسے گستاخ سمجھ کر مارا گیا
میراخون اس سے بھت ارزاں سمجھاگیا۔
مشال کے قتل پر میڈیا چلایا۔
لبرل اور موم بتی مافیا کا گویا ابا مرگیا۔
سیاسی لیڈروں نے اسکے گھر کے دورے کئیے۔
اسکے قاتلوں کو گرفتار کیاگیا۔
لیکن میرے ساتھ یہ سب نھیں کیاگیا۔
کیونکہ میں ایک دینی مدرسے کا طالب علم ھوں۔
میں حافظ قرآن ھوں۔میرے پر ٹوپی اور چھرے پر داڈھی ھے۔
اس لئے میں اس ملک کی پولیس کو داد دیتاھوں
جو کبھی حقیق مجرم نھیں مارپائی
چھوٹو گینگ سے مڈبھیڑ میں اپنے اٹھارہ پولیس اھلکاروں کی لاشیں اٹھا واپس بھاگی۔
لیکن نھتے مسلمانوں کو جعلی مقابلوں کے نام پر بیچ چوراھے کاٹ کر پھینک دیا جاتاھے۔
ھتکڑیاں پھناکر خفیہ عقوبت خانوں میں تشدد سے قتل کردیاجاتاھے۔
کھاں ھے وہ لوگ جو کل مجھ سے مطالبہ کررھے تھے
کہ میں ملالہ کی ڈرامہ بازی پر فائیرنگ کرنے والوں کی مذمت کروں
میں مشال کو مظلوم اور شھید کہوں
اسکے قاتلوں کو ظالم اور قاتل کہوں۔
یہ ناانصافی آخر کب تک ھوتی رھے گی؟
ھم ظلم کی اس چکی میں کب تک پستے رھیں گے؟
کب تک حافظ بلال جیسوں کو انکے والد کے سامنے مقدس باوردی اھلکار گولیوں کا نشانہ بناتے رھیں گے۔؟
میں کھاں جاؤں؟
اپنا مقدمہ کس کے آگے رکھوں؟
میرے ٹیکس سے خریدی جانے والی گولی اب میرا ھی سینا چاک کررھی ھے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79

لوگو تمھیں معلوم ھے کہ میں اوندھے منہ زمین پر خون میں لت پت کیوں پڑاھوں؟
آئیے میں بتادیتاھوں۔
میرانام حافظ بلال ھے
میراتعلق مردان کے گاؤں جمال گڑھی سے ھے۔
میں درس نظامی کے درجہ ثالثہ کا طالب علم ھوں
میں ایک ملک میں رھتاھوں جسے پاکستان کھتے ھیں۔
جسکی آزادی میں خون دینے سے پرچم لھرانے تک سب میرے ھی اکابر کی قربانیاں ھیں۔
گزشتہ دن میں اسی ملک کے صوبہ خیبرپختونخواہ کی ایک سڑک پر جارھاتھا۔
او
جانھیں رھاتھا بلکہ میرے پیارے ابو مجھے مرگی کے علاج کی غرض سے مجھے ھاتھ سے پکڑ کر لے جارھے تھے
مجھے مرگی نے دورہ کیا اور میں نے ابو ھاتھ چھڑایا اور میں بھاگا۔
میری ملک کی بھادر پولیس کے ایک اھلکارنے مجھے صرف اس لئیے دھشگرد سمجھ کر گولیوں سے بھون ڈالا
کہ میرے سرپر ٹوپی تھی
میں نے کرتا پھن رکھاتھا
میرے چھرے پر سنت رسول سجی تھی
میری جیب میں مسواک تھا۔
میں سینے پر ختم نبوت کا بیج تھا۔
لیکن افسوس اس بات بھی ھوا کہ مشال جسے گستاخ سمجھ کر مارا گیا
میراخون اس سے بھت ارزاں سمجھاگیا۔
مشال کے قتل پر میڈیا چلایا۔
لبرل اور موم بتی مافیا کا گویا ابا مرگیا۔
سیاسی لیڈروں نے اسکے گھر کے دورے کئیے۔
اسکے قاتلوں کو گرفتار کیاگیا۔
لیکن میرے ساتھ یہ سب نھیں کیاگیا۔
کیونکہ میں ایک دینی مدرسے کا طالب علم ھوں۔
میں حافظ قرآن ھوں۔میرے پر ٹوپی اور چھرے پر داڈھی ھے۔
اس لئے میں اس ملک کی پولیس کو داد دیتاھوں
جو کبھی حقیق مجرم نھیں مارپائی
چھوٹو گینگ سے مڈبھیڑ میں اپنے اٹھارہ پولیس اھلکاروں کی لاشیں اٹھا واپس بھاگی۔
لیکن نھتے مسلمانوں کو جعلی مقابلوں کے نام پر بیچ چوراھے کاٹ کر پھینک دیا جاتاھے۔
ھتکڑیاں پھناکر خفیہ عقوبت خانوں میں تشدد سے قتل کردیاجاتاھے۔
کھاں ھے وہ لوگ جو کل مجھ سے مطالبہ کررھے تھے
کہ میں ملالہ کی ڈرامہ بازی پر فائیرنگ کرنے والوں کی مذمت کروں
میں مشال کو مظلوم اور شھید کہوں
اسکے قاتلوں کو ظالم اور قاتل کہوں۔
یہ ناانصافی آخر کب تک ھوتی رھے گی؟
ھم ظلم کی اس چکی میں کب تک پستے رھیں گے؟
کب تک حافظ بلال جیسوں کو انکے والد کے سامنے مقدس باوردی اھلکار گولیوں کا نشانہ بناتے رھیں گے۔؟
میں کھاں جاؤں؟
اپنا مقدمہ کس کے آگے رکھوں؟
میرے ٹیکس سے خریدی جانے والی گولی اب میرا ھی سینا چاک کررھی ھے۔
السلام علیکم!
میرے بھائی آپ کی بات بھی 100٪ درست ہے ۔
لیکن میرا صرف ایک سوال ہے اگر اس طرح سب خود ہی فیصلے کرنے لگ جائیں تو کیا کوئی شخص محفوظ رہے گا؟
آج مشعال ہے ۔ کل فیضان ہوگا، دو دن بعد آپ ہوں گے چار دین بعد خضر ہوں گے ۔۔کیا یہ درست طریقہ ہے ؟
کیا ہر کسی کو کہیں بھی کسی بھی وجہ سے قتل کیا جا سکتا ہے؟ نہیں
یہ وقت حکومت کا کام ہے ! یہ کام وقت کی عدالت کا کام ہے ؟ مقدمہ چلے اور دلائل سنے جائیں پھر فیصلہ کیا جائے یہ تھا انصاف اور یہی تھا حق۔۔۔۔
کسی کو بھی اس طرح جانوروں کی طرح مانے کا حق کسی کو نہیں۔۔شکریہ
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
جب میں مشال خان بنتے بنتے بچا

“90ء کی دہائی میں، میں لاہور آیا۔ گوجرانوالہ سے بی اے اور درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خوش قسمتی سے لاہور آتے ہی مجھے ایک مسجد میں خطابت مل گئی جہاں میں نے تقریباً 3 سال تک فرائض انجام دیے اور پھر بعد وہاں سے نکال دیا گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ شعبان المعظم کے مہینے میں، میں شبِ برات کے موضوع پہ گفتگو کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران میں نے حاضرین کو بتایا کہ یہ وہ رات ہے جس رات تمام مسلمانوں کے اعمال اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میرا نامہ اعمال بھی پیش ہوتا ہے‘‘۔

میری تقریر کے دوران ہی مجمع میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ پھر کچھ ہی دیر میں، ایک صاحب کھڑے ہو گئے اور غصے میں کہنے لگے”مولانا! آپ نے گستاخی کی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے رسول اللہ ﷺ کا نامہ اعمال پیش ہو۔” بہت ہی مشکل سے جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے، اس کے بعد مجمع اکٹھا ہو گیا۔ ان صاحب نے اپنے حامیوں کی موجودگی میں ایک شاندار اور جذباتی تقریر کی۔ لوگ مجھے خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے اس کا حوالہ پوچھا گیا تو میں نے بتایا کہ یہ بات غنیتہ الطالبین میں لکھی ہے۔ یہ کتاب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے۔ میں بہت پریشان تھا اور ایک مجرم کی طرح انتظار میں تھا کہ یہ مجمع میرے بار ے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ آخر کار لوگوں نے مجھ سے تجدید ایمان کا مطالبہ کیا جو میں نے اسی وقت کلمہ پڑھ کر تجدید ایمان کیا۔ میں اس وقت شادی شدہ نہیں تھا ورنہ تجدید نکاح بھی ہوتا۔ انتظامیہ سے اختلاف کے باعث، جب میں نے مسجد چھوڑی تو اس وقت بھی ایک شخص نے مجھے ’’گستاخِ رسول‘‘ کا طعنہ دیا جس میں واضح دھمکی تھی کہ چپ کر کے نکل جاؤ ورنہ ہمارے ترکش میں یہ تیر ابھی تلک موجود ہے۔ وہاں سے میں بوریا بستر سمیت بھاگا۔”

ایک صاحب کا بتایا ہوا یہ واقعہ مجھے آج مشال خان کی وجہ سے یاد آیا ہے۔ وہ صاحب مجھے اپنے بچ جانے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں:

1۔ میں نے محلے میں کسی سے بگاڑی ہوئی نہیں تھی میری سب سے اچھی سلام دعا تھی۔ اگر میری کچھ لوگوں سے ان بن ہوتی تو آج وہ مجھے سنگسار کرنے اور موت کے گھاٹ اتارنے میں پیش پیش ہوتے۔

2۔ میں نے (اس بات کے علاوہ) کبھی ایسی بات نہیں کہی تھی اور نہ ہی کبھی میں ایسے نظریات زیر بحث لایا تھا۔ جو لوگوں کے معیار سے بلند اور ان کی سوچ سے ماوراء تھے۔ اس لئے لوگ مجھے کسی کا ایجنٹ، دشمن ِدین اور غدارِ وطن خیال نہیں کرتے تھے۔


3۔ میں نے کبھی مذہبی اور سیاسی تقسیم میں خود کو تقسیم نہیں کیا تھا ورنہ مخالف سیاسی جماعت اورمذہبی دھڑے کے لوگ مجھے مذہبی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اپنا راستہ صاف کر لیتے۔

4۔ میں لوگوں کے مروجّہ تصور دین کا ایک عالم اور خطیب تھا۔ میرا مسئلہ معاشی تھا، میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مجھے 1500 کی ضرورت تھی اور میں جلد تعلیم مکمل کر کے کوئی روزگار حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں سوشلزم، کمیونزم، مابعد جدیدیت، الحادیت اور علم الکلام وغیرہ کی جگالی نہیں کرتا تھا۔ میں ایک سیدھا سادہ مولوی تھا۔ میں تقریر میں جس بات کا حوالہ دے کر معتوب ٹھہرا۔ اس حوالے سے ہی اندازہ کر لیں میرا’’مصدرِ علم‘‘ کیا تھا اور کتنا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے، اسی دوران ایک مولانا کو بلایا گیا۔ انہوں نے بھی میری آزادی میں اپنا کردار ادا کیا اور میری اس بات کے حوالے سے فرمایا ’’یہ خاصوں کی بات تھی جوانہوں نے عامیوں کے سامنے کر دی، لوگوں نے ان کی اس بات کا بُرا منانے کے بجائے، واہ واہ کرنا شروع کر دی۔ مجھے حضرت صاحب کی بات اب بھی یاد ہے میں سوچتا ہوں ’’جو بات کتابوں میں آئی وہ خاصوں کی بات کیسے رہی، اگر خاصوں کی بات تھی تو عامیوں کے پاس کیسے آ گئی‘‘۔
بہرحال میں حضرت صاحب کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس موقع پہ میری بے عزتی اور توہین کر کے تجدید ایمان کے ذریعے میری خلاصی کروائی۔ وہ صاحب بتاتے ہیں کہ “میں جب اس واقعے کا تصور کرتا ہوں تو آج بھی کانپ اٹھتا ہوں اگر وہ جذباتی شخص تقریر کے بعد یہ کہہ دیتا ’’مسلمانو! آج تمہارے ایمان کا امتحان ہے، یہ گستاخ آج بچ نہ پائے‘‘ لوگ ڈنڈے، چھرے، راڈ، سلاخیں، اینٹیں، پتھر اورریوالور لے کر میری طرف دوڑ پڑتے یا صرف گھونسوں، مکوں اور لاتوں سے ہی مجھے مارنا شروع کر دیتے تو میں آج آپ کو اپن احال نہ بتا رہا ہوتا۔ یہ سب تکلیف او ر اذیت اس تکلیف اور اذیت سے زیادہ نہ ہوتی کہ دوسرے روز میری لاش کی تصویر کے ساتھ یہ سرخی اخبار میں لکھی ہوتی کہ ’’گستاخ رسول‘‘ کو قتل کر دیا گیا اور میرا جنازہ بھی کوئی پڑھنے کے لئے تیار نہ ہوتا۔ میرے لیئے ہر اذیت سے بڑھ کر یہ عنوان تکلیف دہ ہے کہ ’’مجھے گستاخ رسول سمجھ لیا جاتا‘‘۔

مشال خان کی فیس بک پہ موجود تمام پوسٹوں میں سے ایک پوسٹ قابل اعتراض تھی لیکن 99 پوسٹیں لکھنے والے نوجوان سے کسی نے ایک پوسٹ کے بارے پوچھنا بھی گوارہ نہ کیا کہ آپ ایک سلجھے، سنجیدہ اور تعلیم یافتہ نوجوان ہو آپ کی پوسٹیں آپ کے علم، مطالعہ اور سنجیدگی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں، یہ ایک پوسٹ کیسے لکھ دی جبکہ مشال خان یہ بھی کہہ چکا تھا کہ میری آئی ڈی سے کوئی غلط پوسٹیں لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ آئے روز ہوتا رہتا ہے۔ ہم فیس بک یہ اپنے دوستوں کو Inform کرتے رہتے ہیں کہ اگرمیرے نام سے کوئی پوسٹ پیغام یا ریکوئسٹ آئے تو وہ ہماری نہیں ہو گی۔ اس مشاہدے اور تجربے کے باوجود، ایک پوسٹ کی بنیاد پر اس کی جان لے لی گئی اور اس کی 99 پوسٹوں کو درخور اعتنانہ سمجھا گیا۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے بقول’’ اس کی ہلاکت کے بعد اس کا اکاؤنٹ استعمال ہو رہا ہے‘‘۔ انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخواہ صلاح الدین خان محسود نے اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں بتایا کہ مشال خان پہ توہین رسالت کا الزام غلط ثابت ہوا ہے اور یہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے مرکزی کردار گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

ایک واقعہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کا ہے اور یہ واقعہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ہے۔ وہ واقعہ ایک مسجد کا ہے اور یہ واقعہ ایک یونیورسٹی کا ہے۔ وہ واقعہ عوام کی عدالت کا ہے اور یہ واقعہ خواص (تعلیم یافتہ افراد) کی عدالت کا ہے، وہ واقعہ بھی ایک طالب علم کا ہے اور یہ واقعہ بھی ایک طالب علم کا ہے۔ اُس واقعہ میں بھی لوگوں کا فیصلہ کن کردار تھا۔ اِس واقعہ میں بھی لوگوں نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اُس واقعہ اور اِس واقعہ کے درمیان بھی بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

میں فیصلہ اور نتیجہ آپ کے سپرد کرتا ہوں بس یہ دیکھ لیجئے 1990 ء اور 2017ء ……27 سالوں کا فرق ہے۔ ان 27 سالوں میں ہمارا سماج اقدار، برداشت، قانون کی بالادستی، عقل و ہوش اورتحقیق وتفتیش کے اعلیٰ اخلاقی معیار کی طرف بڑھا ہے یا اُس کا سفر ترقی معکوس کا سفر ہے۔

صاحبزادہ محمد امانت رسول
26 اپریل 2017

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میرا مرثیہ کون کہے گا ؟
کون لکھے گا میرا نوحہ ؟

...
دیکھئے نا جب میں قتل ہوا تب ابھی تک ان کالموں کی سیاہی بھی نہ مٹی تھی جو مشعل خان کے قتل پر لکھے گئے - اس پر پڑھے گئے مرثیوں کی ماتمی لے ابھی تک ہواؤں میں رچی بسی تھی - اور وہ جتنے ٹاک شو ہوۓ تھے نا ، ان میں جو اینکر تھے ..تھے نا ، ان کے منہ سے جذبات میں کف اڑ رہا تھا ، ایسے لگتا تھا جیسے سکرین پھاڑ کے باہر ہی نکل پڑیں گے ، ہاں تو میں آج بھی قبر میں ان کو یاد کر رہا ہوں کہ وہ اینکر جیسے پاگل ہو گئے تھے ...بالکل جھلے ، کیسے چیخ رہے تھے ...جیسے ان کے ابو فوت ہو گئے ...لیکن میں بھی بھلا کیسا سادہ ہوں کوئی ابو کے مرنے پر بھی اتنا روتا ہے جیسے یہ روے تھے ..ویسے بھی ابو کے مرنے پر رونے سے پیسے تو نہیں ملتے نا ، مشعل کے اوپر رونے سے ، لکھنے سے تو پیسے ملتے ہیں ..ریٹنگ بڑھتی ہے جیب بھرتی ہے -
مجھے امید تھی کہ کوئی میرے ابا کے پاس بھی جائے گا ، ان سے بات کر کے ان کے لہجے پر بھی لکھے گا
"کہ حافظ کے والد پغمبرانہ لہجے میں بول رہے تھے "
لیکن کچھ بھی تو نہ ہوا ..میں انتظار ہی کرتا رہ گیا ..مظلوم تو میں بھی مارا گیا تھا ..مجھے بھی شور کر کے ، ہنگامہ کر کے ، گولی ماری گئی .... میں انسان تھا ، تو انسانی حقوق میرے بھی تو تھے ...لیکن یہ کیا کہ نہ کوئی نوحہ لکھا گیا ، نہ مرثیہ کہا گیا کہ :
خون خاک نشیناں تھا ، رزق خاک ہوا
میں قبر میں سوچتا ہی رہ گیا کہ میرے اندر کیا کمی تھی ؟ ... ایک دم سے میرے داہنے پہلو پر ایک روشنی سی ہوئی اور جیسے کوئی سرگوشی میں بولا :
"حافظ غم نہ کر ، اچھا ہے تیرا مرثیہ نہ کہا گیا ، تیرا نوحہ نہ لکھا گیا ... تو مظلوم ہے تیجھے شہادت مبارک ... تو ٹوپی پہنے تھا ، ہلکی ہلکی داڑھی چہرے پر سجانے تھا ، تو مدرسے کا مولوی تھا ...اس لیے بھلا یہ تیرا نوحہ کیسے لکھتے ؟
تو ملحد ہوتا
تو نے مذھب کا مذاق بنایا ہوتا
خدا کا انکار کیا ہوتا
مولوی کو گالی دیتا مرتا
اسلام کا مذاق اڑایا ہوتا
تو تیرا بھی مرثیہ لکھا جاتا ، یہ برائے فروخت اینکر اور اینکرنیں حلق پھاڑ پھاڑ کے باولے ہو جاتے ، ان کا کاٹا پیٹ میں چودہ ٹیکے مانگتا ، تو شہید لکھا جاتا ، موم بتیاں تجھ پر روشن ہوتیں ......لیکن تجھ پر لکھنا تو نرا گھاٹے کا سودا ہے فی الحال ..کہ اس کے پیسے نہیں ملتے ..."
......
..میرا من شانت ہو گیا ...کہ چلو کوئی بات نہیں ، اگر مرثیہ لکھوانے کی قیمت یہ بے ضمیری رہی ہے تو ..........اللہ تو مجھے مولوی ہی مارنا میں مشال نہیں بنتا
..
ابوبکر قدوسی
 
Top