ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
دونوں قراء توں میں تطبیق کاطریقہ
٭ اِمام جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ یجب استعمالھما علی أعمھما حکماً وأکثرھما فائدۃ وھو الغَسل۔‘‘ (أحکام القرآن للجصاص: ۲؍۳۴۶)
’’یہ ضروی ہے کہ ان دونوں قراء توں کوایسے معنی پر محمول کیا جائے جو حکم کے اعتبار سے زیادہ عام ہو، اور اس میں فائدہ زیادہ ہو،اوروہ پیروں کادھوناہی ہے‘‘ ۔
اسی طرح فتح البا ری شرح بخاری میں ہے :
’’بین القرائتین تعارض ظا ہر والحکم فیما ظا ہرہٗ تعارضٌ أنّہ إن أمکن العمل بھما وجب، وإلا عُمِل بالقدر الممکن، ولا یتأتّی الجمع بین الغَسل والمسح في عضو واحدٍ في حالۃ واحدۃٍ؛ لأنہ یؤدّی إلی تکرار المسح لأن الغَسل یتضمّن المسح۔ والأمر المطلق لا یقتضي التّـکرار، فبقي أن یعمل بھما في حالتین توفیقا بین القرائتین وعملا بالقدر الممکن۔‘‘ (فتح الباری لابن حجر: ۱؍ ۳۵۶)
’’دونو ں قرا ء توں میں ظاہری تعا رض ہے ، اور ظا ہر ی تعارض والی چیز کا حکم یہ ہے کہ اگر دونوں پر عمل ممکن ہو تو یہ ہی واجب ہو گا ، ورنہ بقدر اِمکا ن دونو ں پر عمل کیا جا ئے گا ۔ اور یہا ں ایک عضو میں ’غسل‘ اور ’مسح‘ کو ایک ہی حا لت میں جمع نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس سے مسح کا تکرار لا زم آ تا ہے اس لئے کہ ’غسل‘ ’مسح‘ کو بھی شامل ہو تا ہے ، جبکہ اَمر مطلق تکرار کا تقا ضا نہیں کر تا ؛ لہٰذا یہ ہی صورت با قی رہی کہ دونوں قرا ء توں پر دو (مختلف) حالتوں میں عمل کیا جائے تا کہ دونوں قرا ء توں میں موا فقت ہو اور بقدر اِمکان عمل بھی ہو جا ئے ۔ ‘‘
٭ اِمام جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ یجب استعمالھما علی أعمھما حکماً وأکثرھما فائدۃ وھو الغَسل۔‘‘ (أحکام القرآن للجصاص: ۲؍۳۴۶)
’’یہ ضروی ہے کہ ان دونوں قراء توں کوایسے معنی پر محمول کیا جائے جو حکم کے اعتبار سے زیادہ عام ہو، اور اس میں فائدہ زیادہ ہو،اوروہ پیروں کادھوناہی ہے‘‘ ۔
اسی طرح فتح البا ری شرح بخاری میں ہے :
’’بین القرائتین تعارض ظا ہر والحکم فیما ظا ہرہٗ تعارضٌ أنّہ إن أمکن العمل بھما وجب، وإلا عُمِل بالقدر الممکن، ولا یتأتّی الجمع بین الغَسل والمسح في عضو واحدٍ في حالۃ واحدۃٍ؛ لأنہ یؤدّی إلی تکرار المسح لأن الغَسل یتضمّن المسح۔ والأمر المطلق لا یقتضي التّـکرار، فبقي أن یعمل بھما في حالتین توفیقا بین القرائتین وعملا بالقدر الممکن۔‘‘ (فتح الباری لابن حجر: ۱؍ ۳۵۶)
’’دونو ں قرا ء توں میں ظاہری تعا رض ہے ، اور ظا ہر ی تعارض والی چیز کا حکم یہ ہے کہ اگر دونوں پر عمل ممکن ہو تو یہ ہی واجب ہو گا ، ورنہ بقدر اِمکا ن دونو ں پر عمل کیا جا ئے گا ۔ اور یہا ں ایک عضو میں ’غسل‘ اور ’مسح‘ کو ایک ہی حا لت میں جمع نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس سے مسح کا تکرار لا زم آ تا ہے اس لئے کہ ’غسل‘ ’مسح‘ کو بھی شامل ہو تا ہے ، جبکہ اَمر مطلق تکرار کا تقا ضا نہیں کر تا ؛ لہٰذا یہ ہی صورت با قی رہی کہ دونوں قرا ء توں پر دو (مختلف) حالتوں میں عمل کیا جائے تا کہ دونوں قرا ء توں میں موا فقت ہو اور بقدر اِمکان عمل بھی ہو جا ئے ۔ ‘‘