انور شاہ راشدی
رکن
- شمولیت
- مئی 01، 2014
- پیغامات
- 257
- ری ایکشن اسکور
- 68
- پوائنٹ
- 77
ابن قطلوبغا نے کیا نقل کیا تھا؟
ابن قطلوبغا نے اس نسخے سے اپنا نسخہ نقل کیا تھا۔ابن قطلوبغا نے کیا نقل کیا تھا؟
یہ با ت کس نے کہی ھے؟ اور کہاں ملیگی؟ابن قطلوبغا نے اس نسخے سے اپنا نسخہ نقل کیا تھا۔
یہ بات شیخ ہاشم سندھی نے کہی ہے اور ان کی کتاب درہم الصرہ میں ملے گی۔ انہوں نے یہ شیخ قاسم کا نسخہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یہ بات کہی ہے۔یہ با ت کس نے کہی ھے؟ اور کہاں ملیگی؟
پہلی دو باتوں کے بارے میں شیخ ہاشم کے الفاظ میں نے پہلے بھی نقل کیے تھے:۔ھاشم ٹھٹھوی کی پوری عبارت ذکر کریں.
۲
قائم سندھی کے حوالے سے آپ پیچھے یہ کہ آئے ھیں کہ انہوں نے کہا ھے کہ ابن قطلوبغا کے اپنے نسخے کے ہر صفحے میں تصحیحات وغیرہ کی گئی ھیں.اسکا حوالہ مطلوب ھے.
۳
ابن قطلوبغا کے مزعومہ نسخے کا ناسخ اور سن نسخ وغیرہ بتائیں.
۴
تصحیح وغیرہ کس نے کی ھے؟
باقی بعد میں ان شاء الله تعالي
تیسری اور چوتھی بات کا مجھے علم نہیں۔ ظاہر یہی ہے کہ ابن قطلوبغا نے خود یہ کام کیا ہے۔ اور ظاہر کے خلاف اگر آپ کے پاس دلیل ہے تو مہیا فرمائیے۔اس کے بارے میں شیخ ہاشم کے الفاظ یہ ہیں
المقابلۃ المصححۃ المتعددۃ الموافقۃ التی اتصل بنا سندھا
معیار النقاد (درہم الصرۃ ص 107)
ونحن لم نحتج بامثال ہذہ النسخ غیر المقابلۃ بل بنسخ تخریج الشیخ قاسم المقابلۃ المصححۃ المتعددۃ المتوافقۃ التی اتصل بنا سندہا، فیکون الاخذ عنہا کاخبار الشیخ القاسم ایانامختصر نہیں مکمل عبارت یعنی آگے پیچھے سب الفاظ.
میرا جہاں تک خیال ہے کہ ملا قائم سندھی کا میں نے ماقبل میں کسی عبارت کے حوالے میں تذکرہ نہیں کیا کیوں کہ ان کی کتاب فوز الکرام میرے پاس نہیں تھی اور بغیر خود دیکھے حوالہ دینا مجھے پسند نہیں ہے الا یہ کہ میں اس کی نسبت کسی اور کی جانب کروں۔ تو پھر اس سوال کا مقصد؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟قائم سندھی کا پیچھے غالبا حوالہ نہیں ھے.آپ ذکر کردیں.
ویسے تو اوپر ذکر کی گئی عبارت میں تخریج الشیخ القاسم اور اخبار الشیخ القاسم ایانا کے الفاظ واضح ہیں۔ظاھر ھے.....یہ کوئی دلیل نہیں.آپ ثابت کریں.احتمالات سے بہت کچھ ھوجاتا ھے.
میں کیا امتحان ہال میں بیٹھا ہوں؟ میرے بھائی میں نے پچھلے ہفتے بڑی مشکل سے امتحان دیا ہے اب مزید نہیں دے سکتا۔نسخے پر اعتماد کی کیا شرائط ھوتی ھیں بیان کریں.
جزاک اللہ خیرا محمد وقاص گل بھائی!
یہ ایک علمی موضوع ہے اور اس پر کسی فرد کی بھی کسی جانب کی رائے ہو سکتی ہے جیسے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی رائے میں نے خود اوپر ایک پوسٹ میں ذکر کی ہے۔
سب قابل احترام ہیں اور خود میں کشمیریؒ کی رائے کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں لیکن اس پر جو میرے ذہن میں ہے اس کی بنیاد پر بات عرض کر رہا ہوں۔ اس میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔
آپ نے اثریؒ کے جو صفحات لگائے اگر اس کے جواب میں میں امین اوکاڑویؒ کے صفحات لگاؤں تو غالبا یہ مناسب نہیں ہوگا۔ وہ ان باتوں کا اپنے انداز میں جواب دے چکے ہیں۔
کچھ میں عرض کرتا ہوں۔
اثریؒ کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:۔
شیخ عوامہ کے بارے میں تو اوپر ذکر کرچکا ہوں۔
- شیخ عوامہ کا للاستئناس لا للاعتماد کہنا اور قدیم نسخے پر اعتبار نہ کرنا۔
- بہت سے علماء کا اس کو دلائل میں ذکر نہ کرنا۔
- نیمویؒ وغیرہ کا موقف۔
آپ اسے پچھلی پوسٹس میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے قدیم نسخے پر اعتماد کیوں نہیں کیا۔ ویسے بھی یہ کوئی عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ جو نسخہ جتنا قدیم ہوگا وہ اتنا اغلاط سے پاک ہوگا۔ آخر کیوں؟
حنفی علماء نے ذکر نہیں کیا تو یہ تسلیم ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے دونوں قسم کے نسخے موجود ہیں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پاس کس زمانے میں کونسا نسخہ تھا۔ البتہ یہ بات کہ علامہ قاسم کے پاس یہی نسخہ تھا شیخ عوامہ نے احتمال کے طور پر بیان کی ہے اور یہ قرین قیاس نہیں لگتی کیوں کہ ملا قائم سندھیؒ نے جو خصوصیات اس نسخے کی ذکر کی ہیں کہ ہر صفحے پر علامات تصحیح موجود ہیں وہ اس پر نہیں ملتیں۔ اور اگر اس پر ہوں تو اس کا درست ہونا واضح ہو جائے گا اور تمام اشکالات و احتمالات رفع ہو جائیں گے۔
مزید یہ کہ جو اشکال کیا جاتا ہے کہ یہ دوسرے اثر سے مل گیا ہے یہ فقط احتمال ہے جس کی نفی عابد سندھیؒ کا نسخہ، شیخ قاسم ابن قطلوبغا کا نسخہ اور شیخ قاسم کی عبارت التعریف و الاخبار، کرتے ہیں۔
البتہ ایک اشکال یہ ہے کہ مرتضی زبیدیؒ اور عینیؒ نے ذکر کیوں نہیں کیا جب کہ ان کے پاس یہ نسخہ موجود تھا۔ اس اشکال سے کیا ثابت کیا گیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس نسخے میں یہ الفاظ موجود نہیں تھے تو یہ تو نظر آ رہے ہیں اور بعد میں اگر اضافہ کیا جاتا تو اتنی جگہ پہلے کیوں چھوڑ دی گئی؟ اور اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت درست نہیں تھی تو اس بارے میں کیا خیال ہے کہ جو دیگر روایات دلائل میں ذکر کی گئی ہیں وہ درست ہیں؟ اگر وہ بھی صحیح نہیں ہیں تو پھر اسے درج کرنے میں کیا حرج لازم آتا تھا۔ خلاصۃ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات محتاج وضاحت مع دلیل ہے۔
ایک بات اور کہی جا سکتی ہے کہ ان کو علم تھا کہ یہ اس اثر کا حصہ نہیں ہے اور شامل ہو گیا ہے تو اس صورت میں عینی وغیرہ نے اتنے حواشی اس نسخے پر لکھے تو ایک حاشیہ اور لگانے میں کیا جاتا تھا۔
اس سب کے بجائے یہ کہنا آسان ہے کہ انہیں اس کا استحضار نہیں رہا تھا اور یہ ایک عام بات ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔
شیخ عوامہ نے بہت پیاری بات لکھی ہے کہ جنہوں نے اس نسخے سے نقل کیا جس میں یہ اضافہ نہیں ہے تو انہوں نے اضافہ نہیں کیا اور جنہوں نے اس سے نقل کیا جس میں اضافہ ہے تو انہوں نے اضافہ کر دیا۔ اضافہ نہ کرنے والے اس میں تو معذور ہیں کہ انہوں نے اضافہ نہیں کیا لیکن اس میں تو معذور نہیں کہ وہ اضافہ کی نفی بھی کر دیں۔
اوکاڑویؒ نے ایک طویل لسٹ دی ہے جنہوں نے اس روایت کے مختلف کتب میں لکھے جانے کے بعد اس کا انکار نہیں کیا۔ کیا ان کا اعتبار نہیں ہوگا؟
نیموی وغیرہ کے موقف کے بارے میں ذکر کرچکا ہوں کہ یہ ان کی رائے ہے۔
ثقات کی مخالفت سے انہوں نے کیا مطلب لیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ کیوں کہ اگر اس ایک لفظ کی زیادتی ابن ابی شیبہ سے ان کی مراد ہے تو یہ زیادتی کسی روایت صحیحہ کے خلاف نہیں ہے اس لیے اصول محدثین کے مطابق قبول ہونی چاہیے۔ اور اس سے مراد کسی ناسخ کی زیادتی ہے تو ناسخین میں شیخ عابد سندھی اور قاسم بن قطلوبغا ایسے نام ہیں جن کی جانب اس کے بلا وجہ اضافے کا گمان کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے درست نسخے میں پائی ہوگی تبھی یہ زیادتی کی ہوگی خاص طور جب کہ شیخ قاسم نے اس کی تصحیح بھی کی ہو اور مقابلہ بھی۔
چناں چہ نیمویؒ کے اس موقف سے متفق ہونا ایک مشکل کام ہے۔
تین نسخوں کا ذکر کشمیریؒ نے کیا ہے۔ اور جو نسخے ہمارے سامنے امید یہی کہ وہ یہ تین نسخے ہوں گے۔ نہ بھی ہوں تو بھی شیخ قائم سندھیؒ کا جملہ اور ہاشم سندھیؒ کا موقف سامنے آجاتا ہے کہ قاسم بن قطلوبغا کا نسخہ مصححہ متعددہ مقابلہ ہے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ اس پر علامات تصحیح موجود ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ ایک نسخہ ان سے کئی نسخوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ پھر ہم انہیں ترجیح کیسے دیں؟ شیخین کریمین کی بات ایسے ہی ہے گویا انہوں نے اس نسخے کی اس بات کو بذریعہ کتاب آگے روایت کیا ہو۔ اس لیے اگر یہ نسخہ موجود نہیں بھی ہے تو ان کی یہ روایت کافی ہے۔
معذرت چاہتا ہوں۔یہ امین اوکاڑویؒ کے جوابات سے لی گئی بات ہے۔ اوپر آپ دیکھ سکتے ہیں۔۱
قائم سندھی کی یہ بات پہر کس نے کی ھے؟ اور آپنے کہاں سے اور کیسے بیان کی؟
۲
ھاشم ٹھٹھوی کے حوالے سے آپ نے کہا ھے کہ اس نے ابن قطلوبغا کا نسخہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے.ذرا وہ اصل عبارت تو بیان کریں.
۳
نسخے کی شرائط کے حوالے سے تو یہ کوئی مناسب جواب نہیں.
پلیز جواب چاھئے.
پچھلے سوالات میں امتحان نہیں تھا اور اب امتحان بن گیا ھے.
۴
باقی جو عبارت آپنے لکھی ھے اس پر بعد میں کلام کرتے ھیں.ان شاء الله تعالي