اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
محترم بھائی کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کتنی عجیب سی بات کر رہے ہیں؟ بے شمار کتب کے نسخہ جات کی تحقیق اس زمانے میں ہوئی ہے۔ اس سے پہلے وہ گمنام تھے۔ کیا اس بات کی بنا پر ان نسخہ جات کو رد کر دیا جائے گا؟ کیا تحقیق کا کوئی اصول یہ بھی کہتا ہے؟اھل علم یعنی علم کے پھیلاؤ میں بخل نہیں کرتے.
یہ آپ کہرھے ھیں.اور ھے بھی درست.
تو پھر وہ نسخہ اتنا عرصہ انکے اھلیان نے کیوں چھپا کر رکھا
جس سے ابن قطلوبغا والا نسخہ نقل ھے.؟ ابن قطلوبغا نے جس نسخے کا حوالہ دیا اور حوالے والا جس سے نقل ھے اس کی بات کررھا ھوں.آپ لکھتے ھیں لیکن معلوم نہیں آپکی بات آپ پررد کررھی ھے.
شرح العقائد النسفیہ کی ایک شرح ہے جس کا نام نبراس ہے۔ سندھ کے ایک عالم عبد العزیز پرہارویؒ کی تصنیف ہے۔ ایک عرصہ تک اس کا نسخہ صرف رکھا رہا اور گمنام رہا۔ اور پھر ایک ناشر نے چھاپ دیا۔ کیا اس سے نسخے کی صحت مشکوک ہو جاتی ہے؟
ایک نسخہ رکھا رہا۔ کسی نے پڑھا نہیں یا بغور نہیں پڑھا یا پڑھا تو استحضار نہیں رہا۔ یہ تینوں باتیں نسخے کے ضعیف ہونے پر ہرگز دلالت نہیں کرتیں۔ جب کسی نے بغور پڑھ لیا تو لکھ لیا اور بتا دیا۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کی یہ بات اس فن کے ماہرین کے لیے قابل قبول ہو۔
لیکن بالفرض۔۔۔۔۔ ہم آپ کی بات کو مان بھی لیں تب بھی مرتضی زبیدی اور عابد سندھی کے نسخہ جات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟