محمد وقاص گل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 23، 2013
- پیغامات
- 1,033
- ری ایکشن اسکور
- 1,711
- پوائنٹ
- 310
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔میرے محترم یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک ہے اختلاف الفاظ اور دوسری ہے زیادتی اور اضافہ۔
اگر اسی سند کے ساتھ اسی متن میں یہ ذکر ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ علی صدرہ" اور دوسرے نسخے میں ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ تحت السرۃ" تو یہ اختلاف ہے۔ اس صورت میں قرائن کی غیر موجودگی میں دوسری کتب کی روایات کو دیکھا جائے گا اور اس کی بنا پر فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن یہاں یہ نہیں ہے بلکہ اس بات پر معاملہ ٹکا ہوا ہے کہ آیا ابن ابی شیبہ نے لفظ "تحت السرۃ" کو بیان کیا یا چھوڑ دیا۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ لفظ روایت کیا ہے۔ یہاں محدثین کا یہ اصول ہے کہ اگر زیادتی ثقہ دیگر ثقات کی روایات کے خلاف نہ ہو تو قبول ہوگی۔ یہاں امام احمد اور یوسف بن موسی امام ابن ابی شیبہ کے مقابلے میں حدیث روایت کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ زیادتی نہیں کی جبکہ ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔ ان کی یہ زیادتی ان دونوں کی روایت کے کسی حصے کی نفی نہیں کر رہی تو ہم کس بنیاد پر اس زیادتی کا انکار کر رہے ہیں؟ اس طرح تو کوئی زیادتی بھی قابل قبول نہیں ہوگی؟ پھر محدثین کا یہ اصول کس چیز کے بارے میں ہے؟
امید ہے سب بھائی خیریت سے ہونگے۔۔۔۔ ان دنوں کافی مصروفیات ہیں جسکی وجہ سے اس طرف رخ نہ ہو سکا۔۔۔۔
البتہ ابھی جب ادھر دھیان دیا تو حیرانگی کے سوا کچھ نا کر سکا۔۔۔۔
اوپر موجود اقتباس کو پڑھ کر پنجابی کی ایک مشہور مثال یاد آئی ہے لیکن اسکا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔۔
ذیادتی ثقہ اس روایت کو کہنا انتہائی عجیب ہے اور نا ہی اس کو آپ سے قبل کسی نے کہا۔۔۔۔۔۔ اور میں پہلے بھی وضاحت کر چکا ہون کہ ذیادتی ثقہ اور اس تحریف میں بعد المشرقین جتنا فاصلہ ہے۔۔۔
کیا بات ہے کہ امام احمد نے نہیں کی اور امام ابن ابی شیبہ نے کی ہے ۔۔ تو کیا جنہوں نے امام ابن ابی شیبہ سے نقل کی انہوں نے اسکو چھپا لیا؟؟؟؟ عجیب
اور میرے ناقص علم کے مطابق ذیادتی ثقہ کی ایسی مثال کسی نے نہیں دی جس میں دو من و عن سندیں ہیں اور ایک کو ذیادتی ثقہ کہہ کر قبول کر لیا گیا ہو۔۔۔۔ آپ ذیادتی ثقہ کی تعریف کو ایک دفعہ پڑھیں اور اچھی طرح سمجھین۔۔۔۔