ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
چنانچہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’المصفی شرح المؤطا‘‘میں لکھا ہے کہ:
’’ودلیل برآنکہ ذکر سبعہ بجہت تکثیر است نہ برائے تحدید اتفاق ائمہ است برقرأت عشر و برقرأت را ازیں عشرہ دور اوی است و ہریکے بادیگرے مختلف است پس مرتقی شد عدد قرأۃ تابیست‘‘ (المصفی ، ص۱۸۷)
اور مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ:
والأظھر أن المراد بالسبعۃ التکثیر لا التحدید (مرقاۃ :۴؍۷۱۱)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری کے اندر لکھا ہے کہ :
ولفظ السبعۃ یطلق علی إرادۃ الکثیرۃ في الآحاد کما یطلق السبعون فی العشرات والسبع مائۃ فی المئات ولا المراد العدد المعین وإلی ھذا مال عیاض و من تبعہ(عمدۃ القاری:۲۰؍۲۸)
اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری (۹؍۱۹) ’’باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کے تحت، اور شیخ الحدیث مولانا زکریارحمہ اللہ نے ’’أوجز المسالک شرح الموطأ لإمام مالک‘‘ کے ذیل میں بھی اسی طرح کی تحریرات نوشتہ فرمائیں ہیں اور یہی قول راجح ہے۔ اس لیے کہ کثرت فی الآحاد کے لیے ’سبعہ‘ کثرت فی العشرات کے لیے ’سبعین‘ جبکہ کثرت المأت کے لیے ’سبعہ مائۃ‘ کا استعمال بھی ہوتاہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ’’إِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اﷲُ لَھُمْ‘‘(التوبۃ پارہ :۱۰) ’’ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُھَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوْہُ‘‘ (پارہ نمبر ۲۹)
اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ : ’’عن أبی سعید الخدری قال قال النبی!: من صام یوماً فی سبیل اﷲ باعد اﷲ بذلک الیوم النار عن وجھہ سبعون حریفاً،وفی روایۃ أخریٰ: زحزح اﷲ وجھہ عن النار سبعین حریفاً (سنن ابن ماجہ کتاب الصوم) ’’وأیضاً قال رسول اﷲ! الرّبا سبعون ھوباً وقال الربا ثلاثۃ وسبعون باباً‘‘ (سنن ماجہ:۱۶۴)
لہٰذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قراء ت عشرہ جو مدارسِ اِسلامیہ میں پڑھائی جاتی ہیں، ثابت بالنص ہیں۔ اس لیے اس سے انکار کرنا جائز نہیں اور ان ہی قراء ت میں قرآن پاک کو پڑھنے والے کو خاطی کہنا بھی درست نہیں۔ کما قال العلامہ جلال الدین السیوطی: اعلم أن القاضی جلال الدین البلقینی قال القراء ۃ تنقسم إلی المتواتر وأحاد وشاذ فالمتواتر القراء ت السبعۃ المشہورۃ والآحاد قراء ۃ الثلاثۃ التي ھي تمام العشر ویلحق بھا قرأۃ الصحابۃ‘‘ (الإتقان في علوم القرآن:۱؍۷۵)
اور صاحب مناھل العرفان نے لکھا ہے کہ :
’’الأوّل المتواتر والثاني المشہور… وھذان النوعان ھما اﷲ ان یقرأ بھا مع وجود اعتقادھما ولا یجوز إنکار شیء منھما‘‘ (مناھل العرفان:۱؍۴۲۳)
’’ودلیل برآنکہ ذکر سبعہ بجہت تکثیر است نہ برائے تحدید اتفاق ائمہ است برقرأت عشر و برقرأت را ازیں عشرہ دور اوی است و ہریکے بادیگرے مختلف است پس مرتقی شد عدد قرأۃ تابیست‘‘ (المصفی ، ص۱۸۷)
اور مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ:
والأظھر أن المراد بالسبعۃ التکثیر لا التحدید (مرقاۃ :۴؍۷۱۱)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری کے اندر لکھا ہے کہ :
ولفظ السبعۃ یطلق علی إرادۃ الکثیرۃ في الآحاد کما یطلق السبعون فی العشرات والسبع مائۃ فی المئات ولا المراد العدد المعین وإلی ھذا مال عیاض و من تبعہ(عمدۃ القاری:۲۰؍۲۸)
اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری (۹؍۱۹) ’’باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کے تحت، اور شیخ الحدیث مولانا زکریارحمہ اللہ نے ’’أوجز المسالک شرح الموطأ لإمام مالک‘‘ کے ذیل میں بھی اسی طرح کی تحریرات نوشتہ فرمائیں ہیں اور یہی قول راجح ہے۔ اس لیے کہ کثرت فی الآحاد کے لیے ’سبعہ‘ کثرت فی العشرات کے لیے ’سبعین‘ جبکہ کثرت المأت کے لیے ’سبعہ مائۃ‘ کا استعمال بھی ہوتاہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ’’إِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اﷲُ لَھُمْ‘‘(التوبۃ پارہ :۱۰) ’’ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُھَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوْہُ‘‘ (پارہ نمبر ۲۹)
اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ : ’’عن أبی سعید الخدری قال قال النبی!: من صام یوماً فی سبیل اﷲ باعد اﷲ بذلک الیوم النار عن وجھہ سبعون حریفاً،وفی روایۃ أخریٰ: زحزح اﷲ وجھہ عن النار سبعین حریفاً (سنن ابن ماجہ کتاب الصوم) ’’وأیضاً قال رسول اﷲ! الرّبا سبعون ھوباً وقال الربا ثلاثۃ وسبعون باباً‘‘ (سنن ماجہ:۱۶۴)
لہٰذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قراء ت عشرہ جو مدارسِ اِسلامیہ میں پڑھائی جاتی ہیں، ثابت بالنص ہیں۔ اس لیے اس سے انکار کرنا جائز نہیں اور ان ہی قراء ت میں قرآن پاک کو پڑھنے والے کو خاطی کہنا بھی درست نہیں۔ کما قال العلامہ جلال الدین السیوطی: اعلم أن القاضی جلال الدین البلقینی قال القراء ۃ تنقسم إلی المتواتر وأحاد وشاذ فالمتواتر القراء ت السبعۃ المشہورۃ والآحاد قراء ۃ الثلاثۃ التي ھي تمام العشر ویلحق بھا قرأۃ الصحابۃ‘‘ (الإتقان في علوم القرآن:۱؍۷۵)
اور صاحب مناھل العرفان نے لکھا ہے کہ :
’’الأوّل المتواتر والثاني المشہور… وھذان النوعان ھما اﷲ ان یقرأ بھا مع وجود اعتقادھما ولا یجوز إنکار شیء منھما‘‘ (مناھل العرفان:۱؍۴۲۳)