ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
آپﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو سات قراء تیں سکھائی تھیں وہ نہ صرف یہ کہ سہولت کی ایک صورت تھی بلکہ وہ القرآن یفسر بعضہ بعضا (قرآن بھی خود اپنی تفسیر بیان کرتا ہے) کہ بہترین کیفیت اور حکم قرآنی’’فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ‘‘(سورۃ المزمل) کی تعمیل بھی ہے۔
مسئلہ ’سبعہ احرف‘ بھی دراصل اعجازالقرآن کا ایک پہلو ہے، جس میں عقل سے زیادہ ’توقیف‘ معتبر ہے۔
مشہور زمانہ قراء ات ’سبعہ عشرہ‘بھی دراصل ان’سبعہ احرف‘ کا حصہ ہیں اور آپﷺکے سکھائے ہوئے سات احرف میں سے وہ بعض قراء تیں ہیں جن پر سات یا دس ائمہ قراء ات نے مہارت اور شہرت حاصل کی۔
اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح مختلف ادوارمیں مختلف ائمہ کرام گزرے ہیں، لیکن فقہ میں جو شہرت اَئمہ اربعہ کو حاصل ہوئی (حدیث میں صحاح ستہ کے مؤلفین کو حاصل ہوئی) وہ کسی دوسرے کونہ ہوسکی۔ بعینہٖ ’قراء ات‘ میں ماہر ان ’ائمہ‘ سبعہ عشرہ کو جو مقام و مقبولیت حاصل ہوئی کسی اور کو نہ ہوئی ، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ علوم فقہ ’ائمہ اربعہ‘ پرمحصور ہیں یاصحیح و معتبر احادیث صرف ’صحاح ستہ‘میں ہیں یا قراء ت سبعہ و عشرہ کے علاوہ ’سبعہ اَحرف‘ نہیں ہیں۔
ان سب کے لیے اصل، تواتر اور معتبر حوالہ ہے، بغیر سند کے کوئی بھی حجت نہیں ہے۔ ان علوم کا سلسلۂ سند رسول اللہﷺسے جاملتا ہو تو وہ ’فقہ‘ بھی معتبر ہے، ’حدیث‘ بھی قابل قبول ہے اور ’قراء ت‘ بھی مسنون و مشروع ہے۔
(٢)اِسلاف امت، جن میں سرفہرست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کے ایمان کو ہمارے لیے ہدایت کا معیار قرار دیاگیاہے ۔قولہ تعالیٰ: ’’ فَاِن آمَنُوا بِمِثْلِ مَا أٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۳۷)
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات سے (جو کہ مقبولیت کے اعلیٰ معیار پرپوری اترتی ہیں اور ’تواتر‘کی حد کو پہنچتی ہیں) ان کی رائے و مؤقف کا ثبوت ملتا ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کے سات احرف پر نزول کا مؤقف اختیار کیا ہے۔ ان کی کثیر تعداد میں سیدنا عمرو فاروق، عثمان غنی، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابن مسعود و ابن عباس رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ رضی للہ عنہم بھی شامل ہیں۔
اس کے بعد ماہرین قراء ات، مفسرین قرآن اورعلوم قرآن کے متخصّصین سے اس بات پر ’اجماع‘ اور کلّی اتفاق چلا آرہا ہے۔
مسئلہ ’سبعہ احرف‘ بھی دراصل اعجازالقرآن کا ایک پہلو ہے، جس میں عقل سے زیادہ ’توقیف‘ معتبر ہے۔
مشہور زمانہ قراء ات ’سبعہ عشرہ‘بھی دراصل ان’سبعہ احرف‘ کا حصہ ہیں اور آپﷺکے سکھائے ہوئے سات احرف میں سے وہ بعض قراء تیں ہیں جن پر سات یا دس ائمہ قراء ات نے مہارت اور شہرت حاصل کی۔
اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح مختلف ادوارمیں مختلف ائمہ کرام گزرے ہیں، لیکن فقہ میں جو شہرت اَئمہ اربعہ کو حاصل ہوئی (حدیث میں صحاح ستہ کے مؤلفین کو حاصل ہوئی) وہ کسی دوسرے کونہ ہوسکی۔ بعینہٖ ’قراء ات‘ میں ماہر ان ’ائمہ‘ سبعہ عشرہ کو جو مقام و مقبولیت حاصل ہوئی کسی اور کو نہ ہوئی ، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ علوم فقہ ’ائمہ اربعہ‘ پرمحصور ہیں یاصحیح و معتبر احادیث صرف ’صحاح ستہ‘میں ہیں یا قراء ت سبعہ و عشرہ کے علاوہ ’سبعہ اَحرف‘ نہیں ہیں۔
ان سب کے لیے اصل، تواتر اور معتبر حوالہ ہے، بغیر سند کے کوئی بھی حجت نہیں ہے۔ ان علوم کا سلسلۂ سند رسول اللہﷺسے جاملتا ہو تو وہ ’فقہ‘ بھی معتبر ہے، ’حدیث‘ بھی قابل قبول ہے اور ’قراء ت‘ بھی مسنون و مشروع ہے۔
(٢)اِسلاف امت، جن میں سرفہرست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کے ایمان کو ہمارے لیے ہدایت کا معیار قرار دیاگیاہے ۔قولہ تعالیٰ: ’’ فَاِن آمَنُوا بِمِثْلِ مَا أٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا‘‘ (سورۃ البقرۃ:۱۳۷)
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات سے (جو کہ مقبولیت کے اعلیٰ معیار پرپوری اترتی ہیں اور ’تواتر‘کی حد کو پہنچتی ہیں) ان کی رائے و مؤقف کا ثبوت ملتا ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کے سات احرف پر نزول کا مؤقف اختیار کیا ہے۔ ان کی کثیر تعداد میں سیدنا عمرو فاروق، عثمان غنی، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابن مسعود و ابن عباس رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ رضی للہ عنہم بھی شامل ہیں۔
اس کے بعد ماہرین قراء ات، مفسرین قرآن اورعلوم قرآن کے متخصّصین سے اس بات پر ’اجماع‘ اور کلّی اتفاق چلا آرہا ہے۔