محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
میرے جتنے بھی بھائی ہیں وہ اس پوسٹ کو بار بار پڑھیں کیا ھم اس وعید کے مستحق تو نہیں -
میں نے کب آپ سے بات کرنے کی درخواست کی محترم؟کیا آپ بھی عامی مقلد ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی جاہل ہیں، اس لیے ہم جاہل سے بات ہی نہیں کرتے
جزاک اللہ خیرا۔ یہ مکمل نہیں ہے؟
کوئی خاص نہیں۔ بس ایک بحث چل رہی ہے۔بھائی اتنی بات سے آپ نے کیا اندازہ لگایا ہیں آپ نے
اول تو قرآن کے کلام اور انسانی کلام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔انسانی کلام میں ظاہری معنوں کے علاوہ بھی بہت سے احتمالات پائے جا سکتے ہیں جن کا سیاق وسباق اور دوسری حقیقتوں کے ذریعے تعین کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے آپکو قرآن کی مثال پیش نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ میں انسانی کلام کی بات کررہا ہوں۔انبیاء علیہ السلام بلاشبہ بنی نوع انسان میں سے تھے تو آپ کی عقل کے مطابق قرآن مجید میں جہاں الناس کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہاں انبیاء مراد ہوں گے ؟؟؟؟؟؟؟
آپ کی عقل کو سلام
مطلب یہ ہوا کہ چونکہ مجتہدین کا شمار بھی لوگوں میں ہوتا ہے اس لئے لوگوں کے مفہوم میں عام لوگ بھی شامل ہیں اور خاص لوگ یعنی مجتہدین بھی۔ جبکہ آپ لوگوں میں مجتہدین کو شمار ہی نہیں کررہے بلکہ لوگوں سے مراد صرف عام لوگ لے رہے ہیں۔ اس لئے لوگوں کے مقلدین کو مجتہدین کے مقلدین سے الگ شمار کررہے ہیں۔اس کا اس کے علاوہ اور کیا مطلب ہوگا کہ آپ کے نزدیک مجتہدین کا شمار انسانوں میں نہیں ہوتا۔پس اسی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی شخص دین میں عام لوگوں کی تقلید نہیں کرتا بلکہ لوگوں میں سے کسی خاص شخص کی تقلید کرتا ہے۔
آپ خود فرما رہے ہیں کہ تمام انبیاء علیہ السلام بنی نوع انسان سے ہی تھے اس لئے اس کا تو یہی مطلب نکلتا ہے کہ قرآن جب بھی مطلق طور پر بنی نوانسان کا تذکرہ کرے گا تو اس میں عام انسانوں کے علاوہ انبیاء علیہ السلام بھی شامل ہونگے کیونکہ انبیاء بھی انسان ہی تھے۔انبیاء علیہ السلام بلاشبہ بنی نوع انسان میں سے تھے تو آپ کی عقل کے مطابق قرآن مجید میں جہاں الناس کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہاں انبیاء مراد ہوں گے ؟؟؟؟؟؟؟
آپ کی عقل کو سلام
کوئی خاص نہیں۔ بس ایک بحث چل رہی ہے۔
بالکل درست محترم بھائیبھائی بحث تو چل رہی ہے مگر کیا ھمارے مقلد بھائی نے اس میں اقرار نہیں کیا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمان کے آگے کسی کی بات نہیں ماننی چاھیے یہی تو ھماری دعوت بلکہ سب کی دعوت کا اصول یہی ھونا چاھیے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فرمان آ جائے ھم اس کو قبول کر لے اور امام کے اس قول کو چھوڑ دے جو قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو -
مثال کے طور پر یہ صحیح حدیث ہے - اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے - کیا آپ اس صحیح حدیث پر عمل کریں گے - یا اس کے اپنے امام کے فتویٰ کی وجہ سے چھوڑ دے گے-
لنک کو اوپن کریں !
الحمد للہ :
نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت نماز كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، چاہے نمازى امام ہو يا مقتدى، يا منفرد؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے فاتحہ الكتاب نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ).
بھائی جواب ضرور دینا - آپکا مخلص دوست
بالکل درست محترم بھائی
اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن مجھے ذرا ان شقوں کا جواب دیجیے کہ ان صورتوں میں کیا کیا جائے گا۔
نمبر وار جواب عنایت فرمائیے گا۔
- اگر اس حدیث کے مخالف حدیث یا آیت موجود ہو؟
- اگر اس حدیث سے بعض صحابہ نے کچھ اور مطلب لیا ہو؟
- اگر اس روایت سے بعض فقہاء نے کچھ اور مطلب لیا ہو دیگر قرائن کی روشنی میں؟
- اگر اس روایت کو کسی فقیہ یا محدث نے معلول قرار دیا ہو؟
- اگر اس روایات کی تطبیق دوسری روایات کے ساتھ کسی فقیہ نے کسی خاص انداز سے کی ہو؟
- اگر اس روایت کے خلاف واضح عمل صحابہ موجود ہو اور صحابہ نے اس روایت کو اختیار نہیں کیا ہو؟