مقدمہ
اِنَّ الْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسَنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا ' مَنْ یَّھْدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ ' وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَـلَا ھَادِیَ لَہٗ ' وَاَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ۔ یَآ اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ o (آل عمران:۱۰۲)
یَآ اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَائَ وَ اتَّقُوْا اﷲَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا o
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ وَقُوْلُوا قَوْلًا سَدِیْدًا یُصْلِحُ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَ مَنْ یُطِعِ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا o (الاحزاب :۷۰-۷۱)
اَمَّا بَعْدُ ' فَاِنَّ خَیْرَ الْکَلَامِ کَلَامُ اﷲِ وَ خَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْاَمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلَّ مُحْدِثَۃٍ بِدْعَۃُ وَ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَا لَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ o
اس کتاب کو پڑھنے والے میرے معزز مسلمان بھائیو!
آپ کے سامنے میں ایک ایسی کتاب پیش کرررہاہوں جس میں میں نے بڑی محنت کی ہے اور اس بات کا التزام کیا ہے کہ اس میں صرف وہی حق باتیں پیش کروں گا جن کی تائید قرآنی دلائل اوربراہین سُنّت اور سلف صالحین کی سیرت ومنہج سے ہوتی ہے ۔
سلف صالح کی تعریف کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا سب کو معلوم ہے کہ سلف صالح سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 'آپ کے اصحاب ؓ کرام اور خیرالقرون کے لوگ ہیں جن کے صاحب خیر ہونے کی شہادت دی جاتی ہے اور جولوگ بھی ان کے طور طریقے پر چلے ۔
یہ کتاب ایک ایسے عظیم موضوع پر بحث کررہی ہے جس میں سلف وخلف کا اختلاف ونزاع قائم رہا ہے اور وہ موضوع ''توسُّل'' کا ہے یعنی اﷲکی مرضی اور پسند کی باتوں کے ذریعہ اﷲکا قرب چاہنا ۔
لیکن اس مطلوب ومقصود تک پہنچنے کی راہ پر سلف سے خلف تک لوگ بہت شاذ ونادر ہی اس پر چلے لوگ ایسی مختلف راہوں پر چلتے رہے یعنی ان راہوں پر جو سیدھی اور صراط مستقیم نہ تھی جو انہیں فوز ورضا کی بلندیوں تک پہنچاسکتی 'جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ان راستوں نے سیدھی راہ سے ہٹادیا اورمقصود مطلوب تک پہنچنے سے بھٹکادیا 'ارشاد الٰہی ہے۔
وَاِنَّ ھٰذَ ا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہٗ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (الانعام :۱۵۳)
ترجمہ: ''اور یہ میری راہ ہے سیدھی پس اسی پر چلواور دوسری راہوں پر مت چلو ورنہ وہ تم کو صراط مستقیم سے جدا کردے گی یہ وہ بات ہے جس کی اﷲنے تم کو تاکید کی ہے تاکہ تم ڈرو۔''
ہمارا یہ موضوع بحث خالص سلفی ہے جو علمی اسلوب پر سہل اورجدید طریقے پر ابواب کی تفصیل کے ساتھ ایسا سلسلہ وار پیش کیا گیا ہے جس سے پڑھنے والا بہت آسان بسیط اور پُرکشش انداز میں موضوع کو سمجھ جاتا ہے 'ساتھ ہی اس میں دلائل واضح ہیں جو سلف کی حجت اورخلف کی رائے پر مشتمل ہیں ۔اس طرح پڑھنے والا خودبخود اس پہلو کو متعین کرلیتا ہے جس پر وہ دلیل سے مطمئن ہوگیا ہے اور تحقیق وتدقیق کے بعد جو راستہ اس نے اختیار کیا اس پر چل پڑتا ہے یہ سمجھ کر کہ یہی اﷲکا متعین کردہ حق راستہ ہے اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ سب ضلالت ہے ۔
میں یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ میں نے کوئی نیا موضوع بحث چھیڑا ہے ۔نہیں ہرگز نہیں یہ بحث تو اس وقت سے چل رہی ہے جب سے حق وباطل اور ہدایت وضلالت کی کشمکش شروع ہوئی ہے اور رسالت ونبوت کا سلسلہ بھی محض اس لئے شروع کیا گیا تھا کہ حق کی راہ کو ضلالت سے الگ کیا جائے اور انسانیت کو صراط مستقیم پر چلایا جائے ۔لہٰذا جس نے مشکاۃ نبوت اورمصابیح رسالت سے روشنی حاصل کی وہ گمراہی اور پستی سے بچ گیا اور جو ان راہوں پر چلتا رہا وہ صراط مستقیم سے الگ ہوگیا
ہماری یہ بحث بھی مقصد واسلوب کے اعتبار سے انبیاء ومرسلین ہی کی راہ پر چل رہی ہے اور ہم اس میں انہیں کی راہ وطریقے کی تحقیق کریں گے جس کی تحقیق کی دعوت انہوں نے حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک دی۔
لہٰذا یہ بحث اِسلام کی خالص دعوت ہے اگر آپ اس پر چلے تو آپ کے لئے یہ پل ثابت ہوگی جس کو عبور کرکے آپ جنت نعیم تک پہنچ جائیں گے 'لیکن اگر آپ نے انبیاومرسلین کی اس راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیارکی تو آپ کو بھی انہیں ہلاکت کی پستیوں میں لے جاگرادیں گی جن میں آپ سے قبل وہ سب لوگ گر کر ہلاک ہوئے جنہوں نے راہ حق کو چھوڑ کر ضلالت وکج روی اختیار کی ۔اس موضوع کا حق ادا کرنے کے لئے میں نے یہ کوشش کی ہے کہ کتاب وسنت کے دلائل کوخوب واضح اور روشن کردوں تاکہ حق وباطل کے درمیان تمیز کرنے کی علامات بالکل عیاں ہوجائیں 'سب سے پہلے میں نے توسُّل کے لغوی معنی اور شرعی معنوں کی تحقیق کی ہے اور اس کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ''مشروع اور ممنوع''اور مشروع وسیلہ کی بھی تین قسمیں کیں ۔
۱۔ اﷲکی ذات اور اس کے اسماء اور صفات کا وسیلہ ۔
۲۔ مومن کے اعمال صالحہ کا وسیلہ۔
۳۔ مومن کی غائبانہ دعاکا وسیلہ۔
پھر ان تینوں قسموں کی الگ الگ تعریف وتفصیل کی اور اس کو آیات قرآنی کے دلائل سے اچھی طرح ثابت کیا اور اس کی کئی کئی مثالیں دیں تاکہ اچھی طرح وہ ذہن نشین ہوجائے۔اسی طرح وسیلہ کے تمام اقسام کے دلائل احادیث صحیحہ سے بھی پیش کئے اور یہ ثابت کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے قبل کے انبیاء اور ان کی امتوں کے لوگ اپنی دعاؤں سے کس طرح بارگاہ الٰہی کا وسیلہ چاہتے تھے کیونکہ وہ سب ہمارے لئے قدوہ اور اسوہ ہیں ۔اسی طرح ممنوعہ وسیلہ کی بھی تین قسمیں کیں
۱۔ اﷲکی بارگاہ میں مخلوقات کی ذات اور شخصیت کا وسیلہ۔
۲۔ بارگاہ الٰہی میں کسی کے جاہ'حق اور حرمت وبرکت کا وسیلہ۔
۳۔ جس کا وسیلہ لیا گیا ہے اﷲپر اس کی قسم کھانا۔
اور میں نے ہرایک کو کتاب وسُنت کے دلائل اور سیرت سلف صالح اور ائمہ مجتہدین کے اقوال سے پوری طرح رد کردیا ہے ۔ساتھ ہی میں ممنوعہ وسیلہ کے قائلین کے بھی اقوال ودلائل جو انہوںنے اپنے زعم کے مطابق قرآن وحدیث سے پیش کئے تھے سب کو نقل کردیا اور تقریبا تیس اعتراضات اور ان کے دعاوی کو میں نے بلا کم وکاست قارئین کے سامنے رکھ دیا پھر ایک ایک کرکے سب کاجواب دیا ہے۔ان کے متن اور سند سب پر بحث کی ہے ۔یہ دلائل انہوںنے بے محل پیش کئے تھے اور احادیث ایسی ضعیف اور ناقابل اعتبار پیش کی تھیں جن کو کسی طرح بھی دلیل وحجت قرار ہی نہیں دیا جاسکتا ۔
پھر ان کے دلائل خواہ مخواہ ضد اور ہٹ دھرمی سے رد نہیں کئے 'اﷲگواہ ہے کہ اگر ان کی ایک دلیل بھی صحیح ہوتی تومیںضرور کھلے دل سے تسلیم کرتا 'لیکن اے کاش ایک دلیل بھی صحیح ہوتی 'پھر ان بیچاروں کا قصور ہی کیا ان کے دلائل ہی سب بناوٹی بے محل اور برخود غلط تھے ان کی تغلیط وتردید میں نے نہیں ماہرین علم حدیث اور اصحاب جرح وتعدیل نے کی ہے ۔
ان کو تو میرا شکر گذار ہونا چاہئے کہ ان کے شبہات اور مزعومات کی میں نے اچھی طرح قلعی کھول کر ان کے لئے حق وہدایت کی راہ روشن کردی اور جب کہ حق ان کے سامنے روشن ہوگیا اور باطل پاش پاش ہوکر ذلیل ورسوا ہوگیا تو ان کو چاہئے کہ مومنین صادقین کی طرح اﷲرب العالمین کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائیں اور اپنے عقائد باطلہ سے صدق دل سے توبہ کریں اﷲتواب ورحیم ہے ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا ۔
یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ حضرات بھی ہماری طرح مشروع وسیلہ کے قائل ہیں لیکن قول وعمل کے تضاد کا یہ حال ہے کہ وسیلہ اختیار کرتے وقت کبھی بھی مشروع وسیلہ پر عمل نہیں کرتے ہم نے زندگی میں ایک بار بھی ہیں سنا کہ انہوں نے اﷲکے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ اور اپنے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنایا ہو جب بھی وہ اپنے نازک وقتوں میں وسیلہ کے محتاج ہوئے تو انبیاء کے حق 'اولیاء کے جاہ ومرتبہ اور صالحین کی برکت ہی کا وسیلہ لیتے ہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ ہستیاں اب دنیا میں موجود نہیںہیں اور انہیں خود اپنا بھی احساس نہیں تو اپنے پکارنے والوں سے کیسے باخبر ہوسکتی ہیں۔
ان کا یہی تضاد عمل ہے جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کتاب کو لکھوں اور ان کو اور خود کو وسیلہ حق سے روشناس کراؤں تاکہ باطل وفاسد عقائد مٹ جائیں اور حق ثابت اور واضح ہوجائے اور ہم سب بیک زبان پکار اٹھیں ۔
قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
وصل علی محمد وعلی الہ وصحبہ ' التابعین وتابعیھم باحسان الی ماشاء اﷲ وسلم تسلیما کثیرا واٰخر دعوٰنا ان الحمد ﷲرب العالمین۔
محمد نسیب الرفاعی