• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ممنوع اور مشروع وسیلہ کی حقیقت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
عمل صالح کا وسیلہ ​

مثلاً مسلمان اپنی دُعا میں کہے :''اے اﷲتجھ پر میرے ایمان 'تیرے لئے میری محبت اور تیرے رسول کے لئے میری اِتباع کے وسیلے سے میری مغفرت فرما ۔''یا یوں کہے:''اے اﷲ!تجھ سے سوال کرتا ہوں حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کے لئے میری محبت اور ان پرمیرے ایمان کے وسیلے سے کہ تو میری مصیبت دُور فرما۔''
عمل صالح کا وسیلہ یہ بھی ہے کہ دُعا کرنے والا کسی ایسے صالح عمل کو یاد کرے جس میں اﷲتعالیٰ سے اس کا خوف 'اﷲسے اس کا تقوی اور اﷲکی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دینا تاکہ دُعا کی قبولیت وجابت کے لئے زیادہ باعث اُمید ہو۔یہ نہایت عمدہ وسیلہ ہے جسے اﷲنے مشروع اور پسند فرمایا ہے ۔اس کی مشروعیت پر اﷲکا یہ اِرشاد دلیل ہے:
۱-
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَ ابَ النَّارِ o (آل عمران :۵۳)​
ترجمہ:''جو اﷲسے التجا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم اِیمان لے آئے 'لہٰذا ہمارے گناہ معاف فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔''
۲-
رَبَّنَا اٰمِنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ o (آل عمران:۵۳)​
ترجمہ:''اے ہمارے رب 'ہم اِیمان لے آئے اس کتاب پر جوتو نے نازل فرمائی اور تیرے پیغمبر کے متبع ہوچکے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ۔''
۳-
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمَنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفَّرْ عَنَّا سَیئَاتِنَا وَ تَوَفَنَّا مَعَ الْاَبْرَارِ o(آل عمران :۱۹۳)​
ترجمہ:''اے ہمارے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا کہ اِیمان کے لئے پکار رہا تھا یعنی اپنے پروردگار پر ایمان لاؤتو ہم اِیمان لے آئے ۔اے پروردگار'ہمارے گناہ معاف فرما اورہماری برائیوں کو ہم سے محو کر اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اُٹھا۔''
اس قسم کی دوسری آیات کریمہ ہیں جو اس توسُّل کی مشروعیت کو ثابت کرتی ہیں ۔
اسی طرح بریدہ بن الخصیب ؓ کی وہ حدیث بھی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا جو کہہ رہا تھا:
اَللَّھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ بِأنِّیْ اَشْھَدُ أَنَّکَ أَنْتَ اﷲُ الَّذِیْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا أَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔ فَقَالَ قَدْ سَألَ بِاسْمِہِ الْاَعْظَمِ الَّذِیْ اِذَا سُئِلَ بِـہٖ اَعطَی وَاِذَادُعِیَ بِہٖ أَجَابَ o (احمد)
ترجمہ:''اے اﷲ!میں تجھ سے سوال کرتاہوں اس وسیلہ سے کہ بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا تو ہی وہ اﷲہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا بے نیاز ہے جس کے نہ اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اس کے برابر کوئی ہے ۔تو آپ نے فرمایا :اس نے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے جس سے جب بھی سوال کیا گیا اس نے دیا اور اس کے ذریعہ جب بھی دعاکی گئی اس نے قبول کیا۔''
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اور ان اعمال صالحہ کے ضمن میں اصحاب غار کا قصہ بھی آتا ہے 'جسے حضرت عبداﷲبن عمر ؓروایت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''تم سے پہلے جو لوگ گذر چکے ہیں ان میں سے تین آدمیوں کی ایک جماعت سفر کررہی تھی کہ رات بسر کرنے کے لئے وہ لوگ ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے ۔جب وہ غار میں داخل ہوئے تو پہاڑ پر سے ایک چٹان لڑھک کر گری اور غار کا منہ ان پر بند کردیا 'تب وہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ تُم کو چٹان سے اب صرف یہی عمل بچا سکتا ہے کہ تم اپنے صالح اعمال کے وسیلہ سے اﷲسے دُعا مانگو۔اور'' مسلم ''میں ہے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا :''ایسے صالح اعمال کو دیکھو جو تم نے خالصۃً ﷲکیا ہے اور انہیں اعمال کے وسیلہ سے اﷲسے دعامانگو 'شاید اس چٹان کو تُم سے ہٹا دے ۔''ان میں سے ایک شخص نے کہا :اے اﷲ'میرے ماں باپ دونوں ہی بوڑھے تھے اور شام کا دودھ ان سے پہلے نہ اپنے بال بچوں کو پلاتا نہ دوسروں کو ۔ایک دِن ایک درخت کی تلاش میں دور نکل گیا اورمیں اپنے جانوروں کو لے کر ان کے پاس بہت دیر سے واپس ہوا جبکہ وہ دونوں ہی سوچکے تھے ۔میں نے ان کے لئے دودھ دوہا تو وہ سوئے ہوئے تھے ۔میں نے پسند نہیں کیا کہ ان کو دودھ پلانے سے پہلے اپنے بال بچوں اور دوسروں کو پلاؤں۔میں پیالہ ہاتھ میں لے کر کھڑا ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ فجر روشن ہوگئی ۔تب وہ جاگے اور دودھ پیا ۔اے اﷲ'اگر میں نے ایسا محض تیری رضا کے لئے کیا ہے تو اس چٹان کے سبب ہم جس مصیبت میں ہیں اس کو دُور فرما۔'' چٹان تھوڑی سی کھسک گئی لیکن اتنی نہیں کہ وہ لوگ نکل سکیں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دوسرے شخص نے کہا َ''میرے چچا کی ایک لڑکی تھی جومجھے سب سے زیادہ پیاری تھی ۔میں نے اِس سے برائی کا اِرادہ کیا لیکن اس نے انکار کردیا۔پھر وہ ایک سال بدترین قحط سالی کا شکارہوکر میرے پاس آئی ۔میں نے اس کو ایک سو بیس دینار اس شرط پر دئیے کہ وہ میرے اور اپنے درمیان تخلیہ کرادے۔اس نے ایسا ہی کیا ۔جب میں نے اس پر قابو پالیا توکہنے لگی 'اے بندہ اﷲ! اﷲسے ڈر اور اس مہر کو اس کے حق کے ساتھ ہی توڑ ۔یہ سن کر میں اس پر بار ہونے سے رُک گیا اور اس کو چھوڑ کر واپس ہوگیا حالانکہ وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی اور وہ دینا ر بھی میں نے چھوڑ دیا جو اس کو دے چکا تھا ۔اے اﷲ'اگر میں نے ایسا محض تیری رضا کی خاطر کیا ہے تو ہم جس مصیبت میں ہیں اس کو ہم سے دُور کردے ۔''چٹان کھسک گئی لیکن اتنی نہیں کہ سب نکل سکیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تیسرے شخص نے کہا :''اے اﷲمیں نے بہت سے مزدوروں سے مزدوری کرائی اور سب کو اجرت دے دی سوائے ایک شخص کے جو اپنی مزدوری چھوڑ کر چلاگیا ۔میں نے اس کی مزدوری کو خوب بڑھایا ۔یہاں تک کہ اس کی مزدوری سے مال کی بہتات ہوگئی۔بہت دنوں بعد وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا بندۂ اﷲ'میری مزدوری دیدو۔''میں نے اس سے کہا '''یہ جتنے اونٹ 'گائے 'بکری اور غلام تم دیکھ رہے ہو سب تمہاری ہی مزدوری کے ہیں۔''اس نے کہا '''اﷲکے بندے 'مجھ سے مذاق کرتے ہو ؟''میں نے کہا :''تم سے میں مذاق نہیں کرتا۔''تب اس نے سب کو لیا اور ہانک کرلے گیا اور کچھ نہیں چھوڑا ۔اے اﷲ'اگرمیں نے ایسا محض تیری رضا کے لئے کیا ہے تو اس چٹان کے سبب ہم جس مصیبت میں ہیں اس کو ہم سے دور فرما ۔''چٹان کھسک گئی اور سب لوگ نکل کر چلے گئے ۔
اِس حدیث سے واضح ہوگیا کہ ان تینوں مومن مردوں کو جب مصیبت نے جکڑلیا اور وہ تنگی میں پڑگئے اور اپنی نجات کی تمام راہوں سے وہ مایوس ہوگئے اور صرف اﷲتبارک وتعالیٰ ہی کی راہ کو کھلا پایا تو وہ سب اﷲہی کی طرف رجوع ہوئے اور اس کو پورے خلوص کے ساتھ پکارا اور دعاکرتے وقت اپنے ان اعمال صالح کو یاد کیا ۔جنہیں انہوں نے امن واطمینان کے وقت کیا تھا اِس اُمید پر کہ مصیبت کے وقت میں ان اعمال کے سبب اﷲان پر رحم فرمائے گا 'جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہے ۔''سہولت کے وقت اﷲکی معرفت حاصل کرو 'مشکل کے وقت اﷲتُم کو پہچان لے گا ۔''سب نے اﷲکی بارگاہ میں ان اعمال کا وسیلہ لیا ۔پہلے شخص نے والدین کے ساتھ اپنے حسن سلوک اور اپنی شدید محبت اور نرمی کا وسیلہ لیا ۔ایسی رافت ورحمت تو انبیاء کرام کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا نسان اپنے والدین کے ساتھ کرسکتا ہو۔
دوسرے شخص نے اپنی اس چچازاد محبوبہ کے ساتھ زنا سے بچنے کا وسیلہ لیا جس سے وہ سب سے زیاہ محبت کرتا تھا حالانکہ وہ اس پر پوری طرح قابو پاچکا تھا اور لڑکی اپنی بھوک اورتنگی کے سبب دِل کی کراہت کے باوجود خود کو اس کے سپرد کرچکی تھی 'پھر بھی اس نے اس کو اﷲکی یاد دلائی جس سے اس کا دِل بیدار ہوگیا اور اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑگئے اور اس نے لڑکی کو بھی آزاد کردیا اور اس کو دیا ہوا مال بھی چھوڑ دیا ۔
اور تیسرے شخص نے اپنے مزدور کی چھوڑی ہوئی اُجرت کی نگہداشت کا وسیلہ لیا جو صرف تین صاع چاول کے برابر تھی 'جیسا کہ صحیح روایت میں موجود ہے ۔مزدور تو اپنی مزدوری چھوڑ کر چلاگیا لیکن اس کام کرنے والے نے اس کو اتنا بڑھا یا کہ گائے 'اونٹ اوربکریوں کا ریوڑ بن گیا ۔مزدور کو جب اپنی حقیر ومعمولی مزدوری یاد آئی تو وہ مالک کے پاس آیا اور اپنا حق مانگا ۔مالک نے وہ سارا مال اس کے حوالہ کردیا جس سے وہ گھبراگیا اور سمجھا کہ مالک نے اس کے مال کو بڑھا کر یہ پورا خزانہ بنادیا ہے تو وہ خوش خوش سب لے کر چلا گیا ۔
یہ حقیقت ہے کہ کام کرانے والے کا یہ کارنامہ مزدوروں کے ساتھ احسان کرنے کا ایک نادر واقعہ ہے اورمزدور کی رعایت اور اکرام کی ایک اعلیٰ مثال ہے 'اور جو لوگ آج مزدوروں کی حمایت اور ان کے ساتھ انصاف کا دم بھرتے ہیں اس کے عشر عشیر بھی خدمت وسلوک نہیں کرسکتے۔
ان تینوں نے اپنے ان اعمال صالح کے وسیلہ سے اﷲرب العالمین کوپکارا انہوں نے صاف طور پر واضح کردیا کہ یہ اعمال انہوں نے صرف اﷲکی رضا کی خاطرکئے تھے ۔دنیا کی کسی ادنیٰ غرض یا مصلحت وقت یا جاہ ومال کی قطعا ً نیت ان کے دِل میں نہ تھی ۔اﷲسے انہوں نے دُعا کی کہ ان کی تنگی کو دور فرمائے اور اس مصیبت سے ان کو نجات دے ۔اﷲنے ان کی دعا قبول فرمائی 'ان کی مشکل آسان کی 'اﷲنے ان کے ساتھ ان کے حسن ظن کے مطابق ہی معاملہ کیا۔ان کے لئے عادات کو توڑ ڈالا اور اس کرامت ظاہرہ کے ساتھ ان کو عزت دی اور تین مراحل میں چٹان کو بتدریج اس طرح سرکایا کہ جب ان میں سے کسی نے دعا کی تو چٹان تھوڑی سی سرک گئی 'یہاں تک کہ تیسرے کی دُعا کے وقت پورے طور پر چٹان ہٹ گئی 'حالانکہ وہ یقینی طور پر موت کے منھ میں جاچکے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بہترین قصہ جو پردہ غیب میں تھا اور جس کو اﷲکے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ہم سے محض اس لئے بیان فرمایا تاکہ پچھلی امتوں کے مثالی حضرات کے قابل نمونہ اعمال کی یاد تازہ ہو اور ہم ان کی اقتداء کریں اور ان کے حالات سے بہترین درس اور کامل عبرت وموعظت حاصل کریں ۔
یہاں کسی کو یہ اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ یہ اعمال تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے قبل کے ہیں 'ہم پر کیسے لاگو ہوسکتے ہیں ؟اس لئے کہ علم اصول کا یہ مسئلہ ہے کہ ہم سے پہلے والوں کی شرع ہمارے لئے شرع نہیںہے۔یہ اعتراض اس لئے صحیح نہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ محض مدح وثنا کے طور پر بیان فرمایا ہے اور آپ نے اسے بطور خود ثابت بھی فرمایا ہے 'بلکہ اس کے اقرار واثبات سے بڑھ کر ان کا وہ وسیلہ عمل بھی ہے جسے انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں پیش کیا اور یہ واقعہ وسیلہ والی ان آیات کی عملی شرح وتطبیق بھی ہے جن کا ذکر پہلے آچکا ہے۔اور آسمانی شریعتیں اپنے مقاصد تعلیم وتوجیہ اور اغراض واہداف کے اِعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں ۔اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے کیونکہ یہ سب ایک ہی چشمہ سے پھوٹتی ہیں اور ایک ہی مرکز نور سے نکلتی ہیں اور خاص طور پر ان معاملات میں جو بندوں اور رب العالمین سے متعلق ہیں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مرد صالح کی دُعا کا وسیلہ​

مثلاً کوئی مسلمان کسی شدید تنگی کا شکار ہو یا اس پرکوئی بڑی مصیبت آپڑی ہو اور وہ جانتا ہو کہ اﷲکی اِطاعت میں اس کی طرف بڑی کوتاہی واقع ہوئی ہے' اب وہ چاہتا ہے کہ بارگاہ اِلٰہی تک کوئی مضبوط ذریعہ حاصل کرے لہٰذا وہ کسی ایسے شخص کے پاس جاتا ہے جس کے صلاح وتقوی اور کتاب وسُنّت کے ساتھ اس کے علم وفضل پر اس کو پورا اِعتقاد ہوتاہے اوروہ اس مرد صالح سے درخواست کرتا ہے کہ میرے لئے اﷲے دُعافرمائیں کہ وہ میری مصیبت دور کردے اور غم والم کا ازالہ فرمادے تو یہ بھی مشروع وسیلہ کی ایک قسم ہے ۔شریعت مطاہرہ اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور سُنّت شریفہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔صحابہ کرام رضوان اﷲعلیہم اجمعین کے فعل سے اس کے نمونے ملتے ہیں 'جس کی مثال حضرت انس بن مالکؓ کی یہ روایت بھی ہے ۔وہ فرماتے ہیں ۔
''رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں پر قحط پڑا ۔ایک جمعہ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی منبر کے سامنے والے دروازے سے مسجد میں داخل ہوا ۔آپ کھڑے ہی تھے کہ اس نے سامنے آکرکہا یارسول اﷲ!مال تباہ ہوگیا'بچے بھوکے ہوگئے 'جانور ہلاک ہوگئے 'روزی کے سارے دروازے بند ہوگئے ۔اﷲسے ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ ہمیں بارش سے سیراب فرمائے ۔آپ نے دُعا کے لئے دونوں ہاتھ اُٹھائے اتنے کہ میں نے آپ کے بغل کی چمک دیکھ لی ۔آپ دُعا میں کہہ رہے تھے 'اے اﷲ ہماری فریاد سن لے 'اے اﷲ!ہماری فریاد سن لے ۔''آپ کے ساتھ سبھی لوگ ہاتھ اُٹھائے دُعا کررہے تھے ۔البتہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے اس موقع پر یہ نہیں بتایا کہ آپ نے اپنی چادر پلٹ دی اور نہ ہی یہ کہ قبلہ کو سامنے کرلیا ۔اور واﷲہم نے آسمان میں بدلی وغیرہ کچھ نہیں دیکھی جبکہ ہمارے اورسلع کے درمیان نہ گھر تھا نہ مکان اور آسمان بھی بالکل شیشے کی طرح صاف وشفاف تھا ۔اس کے ساتھ ہی سلع کے پیچھے سے ڈھال کی مانند ایک بدلی نکلی 'آسمان کے بیچ میں آکر پھیل گئی اور بارش ہونے لگی ۔قسم ہے اﷲکی 'بدلی پہاروں کی طرح پھٹ گئی ۔آپ ابھی منبر سے اُترے نہیں تھے کہ بارش آپ کی داڑھی سے ٹپکنے لگی۔''
ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ :''ہوا کا جھکڑ اٹھا جس سے بدلی پھیل گئی اور گھنی ہوگئی اور آسمان نے اپنے دھانے کھول دئیے ۔آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھی 'ہم لوگ مسجد سے نکلے اور پانی میں چلتے ہوئے گھروں تک پہنچے ۔''
ایک اور روایت میں تو یہاں تک ہے کہ ''بارش اتنی ہوئی کہ آدمی کا گھر تک پہنچنا مشکل ہوگیا ۔اس روز پورے دن تک بارش ہوتی رہی 'پھر دوسرے تیسرے دن حتیٰ کہ دوسرے جمعہ تک ہوتی رہی'بند ہی نہیں ہوئی ۔مدینہ کی نالیوںمیں سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی ۔اﷲگواہ ہم نے چھ دن تک سورج نہیں دیکھا۔''
پھر وہی دیہاتی دوسرے جمعہ کو اسی روز دروازے سے مسجد میں داخل ہوا ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے 'وہ آپ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا گھر گر گئے 'راستے کٹ گئے 'مویشی ہلاک ہوگئے اور مال پانی میں غرق ہوگئے ۔آپ اﷲسے دعا فرمائیے کہ بارش بند کردے ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا اُٹھے 'اپنا ہاتھ دُعا کے لئے اُٹھایا اور فرمایا:
اَللَّھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا ' اَللَّھُمَّ عَلٰی رُئُ وْسِ الْجِبَالِ وَالْاٰکَامِ ' وَبُطُوْنِ الْاَوْدِیَۃِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ​
ترجمہ:''اے اﷲ'بارش ہم پر نہیں ہمارے آس پاس برسا ۔اے اﷲ'پہاڑوں اور ٹیلوں کی چوٹیوں پر برسا اور وادیوں کے نشیب اور جنگلوں پر برسا۔''
آپ ہاتھ سے بدلی کی طرف اشارہ کرتے اوربدلی گڑھے کی طرح پھٹتی جاتی تھی ۔حضرت انس رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مدینہ کی سمت کی بدلیاں داہنے بائیں طرف چھٹنے لگیں 'جیسے پردہ ہٹا لیا گیا ہو ۔ہم مسجد سے نکلے تو دُھوپ چمک رہی تھی ۔اﷲنے اپنے نبی کی کرامت اور دُعا کی قبولیت لوگوں پر واضح کردی ۔وادی ایک ماہ تک نہر کی طرح بہتی رہی ۔کوئی کسی بھی سمت سے مدینہ آتا تو اس بارش سے اس کو سابقہ پڑتا۔''
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اور اسی کی وہ حدیث بھی ہے جسے حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے روایت کیا ہے کہ لوگ جب قحط میں مبتلا ہوتے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ بن عبدالمطلب کے ذریعہ بارش طلب کرتے اور یوں دعاکرتے۔''اے اﷲہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے بارش مانگا کرتے تھے تو ہمیں سیراب کرتا تھا اور اب ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے بارش طلب کررہے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش عطافرما ۔'' حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ایسا کہنے پر لوگوں کو بارش ملتی تھی۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے اﷲہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی زندگی میں جایا کرتے تھے اور ان سے درخواست کرتے تھے کہ ہمارے لئے بارش کی دعا فرمائیں اور ان کی دعا کے ذریعے ہم تقریب الٰہی حاصل کرتے تھے 'اور اب جبکہ وہ رفیق اعلیٰ سے جاملے اور ان کے لئے اب ممکن نہ رہا کہ ہمارے لئے دُعا فرمائیں تو اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے پاس جاتے ہیں اور ان سے اپنے لئے دُعا کی درخواست کرتے ہیں ۔
حضرت عمر رضی اﷲ کے مذکورہ بالا قول کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اپنی دعاؤں میںیوں کہا کرتے تھے۔''اے اﷲہمیں اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ سے بارش دے۔''اور اب آپ کی وفات کے بعد لوگ یوں کہنے لگے ''اے اﷲ'حضرت عباس رضی اﷲعنہ کے جاہ سے ہمیں بارش عطاکر۔کیونکہ اس طرح دُعا کرنا بدعت ہے۔کتاب وسُنّت میں اس کی اصل وبنیاد نہیں ہے اورنہ ہی سلف صالح میں کسی ایک نے ایسا کیا ہے۔
اور اسی ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے جس کو حافظ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں سند صحیح کے ساتھ تابعی جلیل سلیم بن عامر الخبائری سے روایت کیا ہے کہ ''آسمانی قحط نازل ہوا تو حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ بن ابی سفیان رضی اﷲعنہ اور اہل دمشق استسقاء کے لئے نکلے ۔جب حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ منبر پر تشریف لے گئے تو فرمایا :یزید بن الاسود الجرشی کہاں ہیں؟لوگوں نے ان کو آواز دی ۔حضرت یزید لوگوں کو پھاندتے ہوئے آئے ۔حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ نے حکم دیا تو وہ بھی منبر پر چڑھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ کے پاؤں کے پاس بیٹھ گئے ۔حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ نے فرمایا :''اے اﷲہم تیرے پاس سفارش لے کر آئے ہیں اپنے سب سے بہتر اور افضل شخص کے ذریعہ ۔اے یزید اپنے دونوں ہاتھوں اﷲکی طرف اُٹھاؤ ۔انہوں نے دونوں ہاتھ اُٹھالئے اور سب لوگوں نے بھی ہاتھ اُٹھالئے ۔تھوڑی ہی دیر بعد مغرب سمت میں ایک بدلی ڈھال کی مانند نکلی اوراس کو ہوا لیکر اُڑی اور ہم کو اس طرح سَیراب کرڈالا کہ لوگ اپنے مکانوں تک پہنچ نہیں پاتے تھے ۔
اور ابن عساکر نے سند صحیح سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ ضحاک بن قیس استسقاء کیلئے لوگوں کو لے کر نکلے اور یزید بن الاسود سے کہا :اے رونے والے اُٹھ ''چنانچہ اُنہوں نے ابھی تین بار ہی دُعاکی تھی کہ اتنی شدید بارش ہونے لگی کہ لوگوں کے ڈوب جانے کا خطرہ معلوم ہونے لگا۔''
دیکھئے حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ نہیں لیتے تھے'بلکہ اس مرد صالح یزید بن الاسود کے وسیلہ سے دُعا مانگتے تھے اور ایسا ہی حضرت ضحاک بن قیس کے عہد ولایت میں بھی ہوا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا اور اﷲنے دونوں کی دُعائیں قبول فرمائیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
خلاصہ کلام​

وسیلہ کی ان تینوں مشروع قسموں کے علاوہ ہر قسم کا وسیلہ حرام وباطل ہے جس کی کتاب وسُنّت سے کوئی دلیل ثابت نہیں اور علماء محققین نے ہر دور میں ان مخالفت شرع وسیلوں کی سخت تردید کی ہے اورمخلوق کے وسیلہ سے سب نے ہی منع کیا ہے
قرآن مجید کی تما م دعائیں پڑھ ڈالئے کسی میں بھی ''کسی کے جاہ 'حق 'یا حرمت و مرتبہ کا وسیلہ کا ذکر نہیں ۔انبیاء سابقین میں سے بھی کسی کی دُعا میں ایسا اشارہ تک موجود نہیں ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جن دعاؤں کی تعلیم دی ہے وہ سب کی سب ان اختراعی اور من گھڑت وسیلوں سے یکسر پاک وصاف ہیں ۔دعاء استخارہ ہو یا دعاء حاجت 'کسی قسم کی دعامیں بھی اس غیر مشروع وسیلہ کا ذکر نہیں ہے ۔اس کے باوجود لوگ مسنون ومشروع وسیلہ کو چھوڑ کر حرام وباطل وسیلہ کو استعمال کررہے ہیں 'جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ مشروع وسیلہ کی حقیقت ہی سے ناآشنا ہوگئے 'اور اب سوائے باطل وحرام وسیلہ کے ان کی زبان پر کوئی مشروع وسیلہ کا ذکر نہیں آتا ۔تابعی جلیل حضرت حسان بن عطیہ المحاربی نے بالکل صحیح کہا ہے ۔''جب لوگ دین میں کسی بدعت کا اضافہ تو اس جیسی کوئی سُنّت ان سے چھین لی جاتی ہے 'پھر قیامت تک وہ سُنّت ان میں لوٹائی نہیں جاتی۔''
اس غیر مشروع وسیلہ کی تردید ہم ہی نہیں بلکہ کبار ائمہ وعلماء راسخین نے بھی کی ہے چنانچہ درمختار (ج۲ص۶۳۰)میں جو حنفیہ کی مشہور کتاب ہے 'حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اﷲعلیہ کا یہ قول موجود ہے ۔''کسی کے لئے مناسب نہیں کہ اﷲ سے اس کے اسماء حسنیٰ کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے دعا کرے ۔کیونکہ ماذون وماثور دُ عا کا طریقہ تو اﷲکے اس ارشاد سے معلوم ہوجاتا ہے :
وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوہُ بِھَا o ​
ترجمہ:
''اﷲکے اچھے نام ہیں 'انہیں ناموں سے اس کو پکارو۔''
اور بشر بن الولید کابیان ہے کہ امام ابویوسف نے کہا کہ ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا: کسی کے لئے جائز نہیں کہ اﷲکے سوا کسی اور واسطے سے دعا کرے ۔اور میں حرام سمجھتا ہوں کہ کوئی یوں دُعا مانگے ۔''اے اﷲ'تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے عرش کی منزل عزت کے وسیلہ سے 'تیری مخلوق کے حق کے وسیلہ سے ۔''اور قدوری نے کہا :''مخلوق کے واسطے سے سوال کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں ۔''
اور زبیدی نے ''شرح الاحیائ''میں لکھا ہے کہ ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ اور ان کے دونوں اصحاب نے اس طرح کہنا حرام قرار دیا ہے ''اے اﷲ'فلاں کے حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں 'یا تیرے انبیاء اور رسول یا بیت الحرام اور مشعرالحرام کے حق سے سوال کرتا ہوں ۔''کیونکہ اﷲپر کسی کا کوئی حق نہیں ۔''
تمت بالخیر الحمدﷲ​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مقدمہ​

اِنَّ الْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسَنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا ' مَنْ یَّھْدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ ' وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَـلَا ھَادِیَ لَہٗ ' وَاَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ۔ یَآ اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ o (آل عمران:۱۰۲)
یَآ اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَائَ وَ اتَّقُوْا اﷲَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا o
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ وَقُوْلُوا قَوْلًا سَدِیْدًا یُصْلِحُ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَ مَنْ یُطِعِ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا o (الاحزاب :۷۰-۷۱)
اَمَّا بَعْدُ ' فَاِنَّ خَیْرَ الْکَلَامِ کَلَامُ اﷲِ وَ خَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْاَمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلَّ مُحْدِثَۃٍ بِدْعَۃُ وَ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَا لَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ o

اس کتاب کو پڑھنے والے میرے معزز مسلمان بھائیو!
آپ کے سامنے میں ایک ایسی کتاب پیش کرررہاہوں جس میں میں نے بڑی محنت کی ہے اور اس بات کا التزام کیا ہے کہ اس میں صرف وہی حق باتیں پیش کروں گا جن کی تائید قرآنی دلائل اوربراہین سُنّت اور سلف صالحین کی سیرت ومنہج سے ہوتی ہے ۔
سلف صالح کی تعریف کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا سب کو معلوم ہے کہ سلف صالح سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 'آپ کے اصحاب ؓ کرام اور خیرالقرون کے لوگ ہیں جن کے صاحب خیر ہونے کی شہادت دی جاتی ہے اور جولوگ بھی ان کے طور طریقے پر چلے ۔
یہ کتاب ایک ایسے عظیم موضوع پر بحث کررہی ہے جس میں سلف وخلف کا اختلاف ونزاع قائم رہا ہے اور وہ موضوع ''توسُّل'' کا ہے یعنی اﷲکی مرضی اور پسند کی باتوں کے ذریعہ اﷲکا قرب چاہنا ۔
لیکن اس مطلوب ومقصود تک پہنچنے کی راہ پر سلف سے خلف تک لوگ بہت شاذ ونادر ہی اس پر چلے لوگ ایسی مختلف راہوں پر چلتے رہے یعنی ان راہوں پر جو سیدھی اور صراط مستقیم نہ تھی جو انہیں فوز ورضا کی بلندیوں تک پہنچاسکتی 'جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ان راستوں نے سیدھی راہ سے ہٹادیا اورمقصود مطلوب تک پہنچنے سے بھٹکادیا 'ارشاد الٰہی ہے۔
وَاِنَّ ھٰذَ ا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہٗ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (الانعام :۱۵۳)​
ترجمہ: ''اور یہ میری راہ ہے سیدھی پس اسی پر چلواور دوسری راہوں پر مت چلو ورنہ وہ تم کو صراط مستقیم سے جدا کردے گی یہ وہ بات ہے جس کی اﷲنے تم کو تاکید کی ہے تاکہ تم ڈرو۔''
ہمارا یہ موضوع بحث خالص سلفی ہے جو علمی اسلوب پر سہل اورجدید طریقے پر ابواب کی تفصیل کے ساتھ ایسا سلسلہ وار پیش کیا گیا ہے جس سے پڑھنے والا بہت آسان بسیط اور پُرکشش انداز میں موضوع کو سمجھ جاتا ہے 'ساتھ ہی اس میں دلائل واضح ہیں جو سلف کی حجت اورخلف کی رائے پر مشتمل ہیں ۔اس طرح پڑھنے والا خودبخود اس پہلو کو متعین کرلیتا ہے جس پر وہ دلیل سے مطمئن ہوگیا ہے اور تحقیق وتدقیق کے بعد جو راستہ اس نے اختیار کیا اس پر چل پڑتا ہے یہ سمجھ کر کہ یہی اﷲکا متعین کردہ حق راستہ ہے اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ سب ضلالت ہے ۔
میں یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ میں نے کوئی نیا موضوع بحث چھیڑا ہے ۔نہیں ہرگز نہیں یہ بحث تو اس وقت سے چل رہی ہے جب سے حق وباطل اور ہدایت وضلالت کی کشمکش شروع ہوئی ہے اور رسالت ونبوت کا سلسلہ بھی محض اس لئے شروع کیا گیا تھا کہ حق کی راہ کو ضلالت سے الگ کیا جائے اور انسانیت کو صراط مستقیم پر چلایا جائے ۔لہٰذا جس نے مشکاۃ نبوت اورمصابیح رسالت سے روشنی حاصل کی وہ گمراہی اور پستی سے بچ گیا اور جو ان راہوں پر چلتا رہا وہ صراط مستقیم سے الگ ہوگیا
ہماری یہ بحث بھی مقصد واسلوب کے اعتبار سے انبیاء ومرسلین ہی کی راہ پر چل رہی ہے اور ہم اس میں انہیں کی راہ وطریقے کی تحقیق کریں گے جس کی تحقیق کی دعوت انہوں نے حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک دی۔
لہٰذا یہ بحث اِسلام کی خالص دعوت ہے اگر آپ اس پر چلے تو آپ کے لئے یہ پل ثابت ہوگی جس کو عبور کرکے آپ جنت نعیم تک پہنچ جائیں گے 'لیکن اگر آپ نے انبیاومرسلین کی اس راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیارکی تو آپ کو بھی انہیں ہلاکت کی پستیوں میں لے جاگرادیں گی جن میں آپ سے قبل وہ سب لوگ گر کر ہلاک ہوئے جنہوں نے راہ حق کو چھوڑ کر ضلالت وکج روی اختیار کی ۔اس موضوع کا حق ادا کرنے کے لئے میں نے یہ کوشش کی ہے کہ کتاب وسنت کے دلائل کوخوب واضح اور روشن کردوں تاکہ حق وباطل کے درمیان تمیز کرنے کی علامات بالکل عیاں ہوجائیں 'سب سے پہلے میں نے توسُّل کے لغوی معنی اور شرعی معنوں کی تحقیق کی ہے اور اس کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ''مشروع اور ممنوع''اور مشروع وسیلہ کی بھی تین قسمیں کیں ۔
۱۔ اﷲکی ذات اور اس کے اسماء اور صفات کا وسیلہ ۔
۲۔ مومن کے اعمال صالحہ کا وسیلہ۔
۳۔ مومن کی غائبانہ دعاکا وسیلہ۔
پھر ان تینوں قسموں کی الگ الگ تعریف وتفصیل کی اور اس کو آیات قرآنی کے دلائل سے اچھی طرح ثابت کیا اور اس کی کئی کئی مثالیں دیں تاکہ اچھی طرح وہ ذہن نشین ہوجائے۔اسی طرح وسیلہ کے تمام اقسام کے دلائل احادیث صحیحہ سے بھی پیش کئے اور یہ ثابت کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے قبل کے انبیاء اور ان کی امتوں کے لوگ اپنی دعاؤں سے کس طرح بارگاہ الٰہی کا وسیلہ چاہتے تھے کیونکہ وہ سب ہمارے لئے قدوہ اور اسوہ ہیں ۔اسی طرح ممنوعہ وسیلہ کی بھی تین قسمیں کیں
۱۔ اﷲکی بارگاہ میں مخلوقات کی ذات اور شخصیت کا وسیلہ۔
۲۔ بارگاہ الٰہی میں کسی کے جاہ'حق اور حرمت وبرکت کا وسیلہ۔
۳۔ جس کا وسیلہ لیا گیا ہے اﷲپر اس کی قسم کھانا۔
اور میں نے ہرایک کو کتاب وسُنت کے دلائل اور سیرت سلف صالح اور ائمہ مجتہدین کے اقوال سے پوری طرح رد کردیا ہے ۔ساتھ ہی میں ممنوعہ وسیلہ کے قائلین کے بھی اقوال ودلائل جو انہوںنے اپنے زعم کے مطابق قرآن وحدیث سے پیش کئے تھے سب کو نقل کردیا اور تقریبا تیس اعتراضات اور ان کے دعاوی کو میں نے بلا کم وکاست قارئین کے سامنے رکھ دیا پھر ایک ایک کرکے سب کاجواب دیا ہے۔ان کے متن اور سند سب پر بحث کی ہے ۔یہ دلائل انہوںنے بے محل پیش کئے تھے اور احادیث ایسی ضعیف اور ناقابل اعتبار پیش کی تھیں جن کو کسی طرح بھی دلیل وحجت قرار ہی نہیں دیا جاسکتا ۔
پھر ان کے دلائل خواہ مخواہ ضد اور ہٹ دھرمی سے رد نہیں کئے 'اﷲگواہ ہے کہ اگر ان کی ایک دلیل بھی صحیح ہوتی تومیںضرور کھلے دل سے تسلیم کرتا 'لیکن اے کاش ایک دلیل بھی صحیح ہوتی 'پھر ان بیچاروں کا قصور ہی کیا ان کے دلائل ہی سب بناوٹی بے محل اور برخود غلط تھے ان کی تغلیط وتردید میں نے نہیں ماہرین علم حدیث اور اصحاب جرح وتعدیل نے کی ہے ۔
ان کو تو میرا شکر گذار ہونا چاہئے کہ ان کے شبہات اور مزعومات کی میں نے اچھی طرح قلعی کھول کر ان کے لئے حق وہدایت کی راہ روشن کردی اور جب کہ حق ان کے سامنے روشن ہوگیا اور باطل پاش پاش ہوکر ذلیل ورسوا ہوگیا تو ان کو چاہئے کہ مومنین صادقین کی طرح اﷲرب العالمین کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائیں اور اپنے عقائد باطلہ سے صدق دل سے توبہ کریں اﷲتواب ورحیم ہے ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا ۔
یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ حضرات بھی ہماری طرح مشروع وسیلہ کے قائل ہیں لیکن قول وعمل کے تضاد کا یہ حال ہے کہ وسیلہ اختیار کرتے وقت کبھی بھی مشروع وسیلہ پر عمل نہیں کرتے ہم نے زندگی میں ایک بار بھی ہیں سنا کہ انہوں نے اﷲکے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ اور اپنے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنایا ہو جب بھی وہ اپنے نازک وقتوں میں وسیلہ کے محتاج ہوئے تو انبیاء کے حق 'اولیاء کے جاہ ومرتبہ اور صالحین کی برکت ہی کا وسیلہ لیتے ہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ ہستیاں اب دنیا میں موجود نہیںہیں اور انہیں خود اپنا بھی احساس نہیں تو اپنے پکارنے والوں سے کیسے باخبر ہوسکتی ہیں۔
ان کا یہی تضاد عمل ہے جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کتاب کو لکھوں اور ان کو اور خود کو وسیلہ حق سے روشناس کراؤں تاکہ باطل وفاسد عقائد مٹ جائیں اور حق ثابت اور واضح ہوجائے اور ہم سب بیک زبان پکار اٹھیں ۔
قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ​
وصل علی محمد وعلی الہ وصحبہ ' التابعین وتابعیھم باحسان الی ماشاء اﷲ وسلم تسلیما کثیرا واٰخر دعوٰنا ان الحمد ﷲرب العالمین۔​


محمد نسیب الرفاعی​​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وسیلہ کا لغوی معنٰی ​

وسیلہ وہ عمل ہے جس کے ذریعہ کسی کا قرب حاصل کیاجائے ۔کہا جاتا ہے ' تَوَسَّلَ اِلَیْہِ بِوَسِیْلَۃٍ - اَیْ تَقّرَّبَ اِلَیْہِ بِعَمَلٍ یعنی عمل کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کیا ۔ (صحاح للجوہری)
بادشاہ کے نزدیک مرتبہ 'درجہ 'قربت پانا۔ (قاموس)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وسیلہ کا شرعی معنی​

شریعت میں وسیلہ کہتے ہیں 'اﷲکاتقرب حاصل کرنا ۔اس کی اطاعت'عبادت اور اس کے انبیاء ورسل کی اِتباع کرکے اور ہر اُس عمل کے ذریعہ جس کو اﷲپسند کرے اور خوش ہو۔
حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہما کا اِرشاد ہے ۔''وسیلہ قربت کو کہتے ہیں ۔''
قتادہؒ نے ''قربت '' کی تفسیر میں کہا :اﷲکا تقرب حاصل کرو اس کی اطاعت کرکے اور اس عمل کے ذریعہ جس کو اﷲپسند کرتا ہے ۔'' اس لئے کہ شریعت نے جتنے بھی واجبات اور مستحبات کا حکم دیا ہے وہ سب تقرب کا ذریعہ اور شرعی وسیلہ ہیں۔اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :
یَا َیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (المائدۃ:۳۵)​
ترجمہ :''اے ایمان والو! اﷲسے ڈرو اور اس کی طرف پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔''
نیز ارشاد فرمایا:
قُلِ ادْعُوا لَّذِ یْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُوْنِہٖ فَـلَا یَمْلِکُونَ کَشَفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلَا تَحْوِیْلًَاo اُولٰئِکَ الَّذِ یْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمْ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ط اِنَّ عَذَ ابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا o
ترجمہ:''کہہ دیجئے کہ تم اﷲکے سوا جن کو معبود قرار دے رہے ہو ذرا ان کو پکارو 'وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اس کے بدل ڈالنے کا۔یہ لوگ جن کو مشرکین پکار رہے ہیں وہ خود ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب بنتا ہے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوارہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور واقعی آپ کے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے قابل ۔'' (الاسرائ:۵۶'۵۷)
اِس تشریح سے معلوم ہوا کہ لغت اور شریعت دونوں ہی اعتبار سے وسیلہ کا معنی ''تقرب''ہے۔یعنی اعمال صالحہ کے ذریعہ اﷲکا قرب حاصل کرنا ۔
برادران اسلام!سورہ مائدہ والی آیت میں اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کو اِیمان تقوٰی اور جہاد کے ذریعہ اپنی طرف وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا ہے 'اور ان اعمال صالحہ کے انعام میں ان کی کامیابی اور جنت کا وعدہ فرمایا ہے ۔
اور سورہ اسراء والی دونوں آیتوں میں اﷲرب العزت نے مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ مشرکین جو اشخاص ومخلوقات کے ذریعہ اﷲکا قرب ڈھونڈتے ہیں تو ان کا یہ عمل بے فائدہ ہے'کیونکہ یہ اشخاص 'مشرکین کی تکالیف نہ دور کرسکتے نہ ہی ٹال سکتے ۔ان شخصیتوں کو پکارنے سے مشرکین کا نہ کوئی کام آگے ہوسکتا ہے نہ پیچھے اور نہ ہی ے ان کو ان کی منزل مقصود تک پہنچاسکتے ۔کیونکہ مشرکین نے اﷲتک پہنچنے کا راستہ ہی غلط اختیار کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آیات کا تاریخی پس منظر ​

کچھ عرب جنوںکی عبادت کرتے تھے ۔خوش قسمتی سے یہ جن مسلمان ہوگئے 'جبکہ ان کے عبادت گذار انسانوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور وہ بدستور ان جنوں کی عبادت میں لگے رہے تو اﷲنے سورہ اسراء کی ان دونوں آیات میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ ان مشرکین کو متنبہ کیجئے کہ جن جنوں کے ذریعہ یہ اﷲکا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ توخود اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ اﷲکا تقرب حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور وہ تو خود ہی اﷲکی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ۔بھلا وہ تمہاری تکلیفوں کوکیسے دُور کرسکتے ہیں ؟جو چیزیں تم ان کے ذریعہ چاہتے ہو 'ان چیزوں کے تو وہ تم سے زیادہ خود اپنے لئے محتاج ہیں 'جو خود نادار ہے وہ بھلا دوسروں کو کیا دے سکتا ہے؟
 
Top