محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
سوال نمبر1 :- سب سے پہلے استمداد غیر اللہ پر اپنا عقیدہ واضح کیجیئے تفصیلی طور پر ۔
غیراللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟
ياايها الناس ضرب مثل فاستمعوا له ان الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذبابا ولو اجتمعوا له وان يسلبهم الذباب شيئا لا يستنقذوه منه ضعف الطالب والمطلوب (الحج: 73-74)
ترجمہ: لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
اس آیت سے چند باتیں واضح ہوئیں۔ مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ وہ جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو:
وہ کوئی چیز بنا نہیں سکتے کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں۔ تخلیق ایک مافوق الاسباب (یعنی انسانی کو جو اسباب میسر ہیں ان سے بالا) امر ہے جو صرف اللہ رب العزت ہی کی صفت ہے۔ انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔ مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق بھی اگر کوئی چیز لے جائے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔
قل افرءيتم ما تدعون من دون الله ان ارادني الله بضر هل هن كاشفات ضره او ارادني برحمة هل هن ممسكات رحمته قل حسبي الله عليه يتوكل المتوكلون (الزمر: 38)
ترجمہ: کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
اس آیت میں مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ:
وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے یعنی وہ مشکل کشا نہیں ہوسکتے۔ مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتے۔· مشرک کا بھروسہ غیراللہ پر ہوتا ہے۔ مومن کا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتاہے۔
صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جنگ احد کے دن ایک موقعے پر ابوسفیان نے کچھ باتیں کہیں اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا جواب دیا گیا۔ غور سے پڑھیے!
قال ابو سفيان اعل هبل (صنمهم الذي يعبدونه )
ترجمہ: ابوسفیان نے کہا: ہبل (بت کا نام) سربلند ہو (ھبل سے مدد مانگی)
فقال النبي ﷺ اجيبوه قالوا ما نقول
ترجمہ: اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:’’کیا کہیں؟‘‘
قال قولوا الله اعلى و اجل
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو، اللہ ہی کے لیے سربلندی ہے وہی بزرگ (بھی) ہے‘‘
قال ابو سفيان لنا العزى ، ولا عزى لكم
ترجمہ: اس پر ابوسفیان بولا: ’’ہمارے پاس عزی (ان کے بت کا نام) ہے اور تم لوگوں کے پاس کوئی عزی نہیں۔‘‘ (تم لوگ بے یار و مددگار ہو)
فقال النبي ﷺ اجيبوه ، قالوا : ما نقول؟ ، قال : قولوا : الله مولانا ولا مولى لكم
ترجمہ:اس پررسول اللہﷺنےحکم فرمایا: ’’اس کوجواب دو۔‘‘ لوگوں نےپوچھا:’’کیاکہیں؟‘‘ رسول اللہﷺنےفرمایا: ’’کہو، اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔‘‘(حاشیہ: [1])
مشرکین عرب اور کلمہ گو مشرک :
مشرکین عرب بعض معاملات میں اپنے الہوں کو اپنا سفارشی اورمتصرف سمجھتے تھے لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مشکل وقت میں وہ بھی اللہ ہی کو پکارتے تھے۔
مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے پہلی مثال
ارشاد ربانی ہے:
فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين فلما نجاهم الى البر اذا هم يشركون (العنکبوت: 65)
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں
فرمایا:فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين
یعنی مشرکین عرب موجوں کے تھپیڑوں میں خالص اللہ کو یاد کرتے تھے۔
ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں سے بحفاظت منزل تک پہنچادینا مافوق الاسباب امر ہے، کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں یہ بات مشرکین عرب بھی سمجھتے تھے اس لیے ایسے موقعوں پر ان کی امیدوں کا مرکز صرف اللہ ہوتا تھا۔
سنن النسائی کی ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل فتح مکہ کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے سمندر کے راستے فرار ہونے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی طوفان میں پھنس گئی تو ملاحوں نے مسافروں سے کہا:
اخلصوا فان آلهتكم لا تغني عنكم شيئا هاهنا (سنن النسائی)
پورے اخلاص والے ہوجاؤ (یعنی پورے اخلاص سے اللہ تعالیٰ کو پکارو) کیونکہ تمہارے الہ اس موقع پر تمہارے کام نہیں آسکتے۔
کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
- المدد یاغوث اعظم المدد یادستگیر
- تیری نگاہ درکار ہے پیران پیر
- جہاز تاجراں گرداب سے فورا نکل آیا
- وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یاغوث اعظم کا
· قرآن پاک میں آتاہے:
قل ارايتكم ان اتٰكم عذاب الله او اتتكم الساعة اغير الله تدعون ان كنتم صادقين() بل اياه تدعون فيكشف ما تدعون اليه ان شاء وتنسون ما تشركون() (الانعام: 40-41)
ترجمہ: کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)، بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
عن عمران بن حصين: قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي كم تعبد اليوم الها فقال ستة في الارض وواحدا في السماء قال فايهم تعد لرغبتك ورهبتك قال الذي في السماء (سنن الترمذی)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے باپ سے پوچھا: ’’آج کل تم کتنے الہوں کی عبادت کرتے ہو؟‘‘ (میرے باپ نے) کہا: ’’چھ زمین پر اور ایک (وہ جو) آسمان پر ہے( کی)۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے (مزید) پوچھا:’’ان میں خوف و امید کے وقت تم کس الہ کو کام کا سمجھتے ہو؟‘‘ میرے باپ نے کہا:’’وہی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘
یعنی تمام امور میں وہ خوف اور امید اللہ ہی کے ساتھ رکھتے تھے۔ اب پڑھیے کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
انت شافی انت کافی فی مہمات الامور
انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل
یعنی تمام بڑے بڑے مسائل (مہمات الامور) میں مجھے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہی کافی ہیں۔ وہی میرے لیے کافی ہیں وہ میرے رب ہیں۔بہترین سازگار۔
مشرکین مکہ شفا اللہ سے مانگتے تھے
مشرکین عرب نے رسول اللہ ﷺ کی توحید کی دعوت سن کر آپ کو مجنون مشہور کردیا تھا اس پر ضماد نامی ایک کافر جو جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا اس نے کہا:
لوارايت هذاالرجل لعل الله يشفيه على يدي(صحیح مسلم)
ترجمہ: اگر میرا ان پر گزر ہوا تو ممکن ہے اللہ میرے ہاتھوں ان کو شفا دے دے۔
یعنی مشرکین عرب بھی شفا کی امید اللہ تعالیٰ ہی سے رکھتے تھے۔
کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے ملاحظہ فرمائیے:
شفا پاتے ہیں صدہا جاں بلب امراض مہلک سے
عجب دارالشفا ہے آستانہ غوث اعظم کا
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑ بیٹھے تھے اور صرف بتوں کو ہی اپنا سب کچھ نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کے برخلاف آج شرک میں الجھے ہوئے کلمہ گو ہر چیز کی امید غیراللہ ہی سے لگائے بیٹھے ہیں۔
شفاعت کس کو کہتے ہیں؟
مشرکین عرب اپنے معبودوں کو اللہ کے یہاں سفارشی سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس: 18)
ترجمہ: یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
شفاعت کا مطلب ہے کسی دوسرے کو نفع پہنچانے یا اس سے نقصان کو دور کرنے کے لیے سفارش کرنا۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے وہ یا تو وجاہت کے سبب ہوتی ہے یا چاہت کے سبب۔
وجاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والا اتنا بااختیار ہے کہ حاکم وقت اس کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول سکتا۔
چاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والی کی حیثیت ایسی ہے کہ خود حاکم وقت کو اس سے تعلق رکھنے کی ضرورت ہے لہذا وہ اس کی سفارش کو مان لیتا ہے۔یا پھر کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ چکانا مطلوب ہوتا ہے اس لیے اس کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تینوں باتوں سے بالاتر ہے۔ وہ نہ کسی چیز کی امید کرتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کا محتاج ہے۔ سورۃ سبا آیات 23 اور 24 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قل ادعوا الذين زعمتم من دون الله
کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔
لا يملكون مثقال ذرة في السماوات ولا في الارض
وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں
وما لهم فيهما من شرك
اور نہ ان میں ان کی (اللہ کے ساتھ) شرکت ہے
و ما له منهم من ظهير ()
اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
ولا تنفع الشفاعة عنده الا لمن اذن له حتىٰ اذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير()
اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
-------------------------------------------------------------
[1]: غور کریں اہل حق اور اہل ہوی کا یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ ایک طرف اللہ ہی اللہ دوسری طرف غیراللہ!