• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جناب یہاں برابری ہے اور جو اللہ کے ساتھ برابری کرے وہ مشرک ہے۔جو کسی کو خدا سمجھ کر یا مستقل بالذات سمجھ کر یا یوں سمجھے کہ رب کا ازن نہ بھی ہو تو یہ کام کر دے گا تو یہ شرک ہے۔
مشرکین مکہ کا شرک کیا تھا ؟؟؟

وہ کیا جرم تھا جس کی وجہ سے وہ مشرک ٹھہرائے ؟؟؟

کیا وہ جن بتوں کی عبادت کرتے تھے کیا وہ اس کو رب مانتے تھے ؟؟؟؟

 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
کیسیمدد کا مانگنا شرک ہے

مدد دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک مدد سے شرک ثابت نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم کی مدد سراسر شرک ہے ۔
اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں :

ایک ڈوبتا ہوا شخص جب پاس والے کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔
جیسے درج ذیل آیات :
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟
(سورہ 3 ، آیت : 52)
تمہارے پاس جو رسول آئے ۔۔۔ تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
(سورہ 3 ، آیت : 81)
۔۔۔ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو ۔۔۔
(سورہ 5 ، آیت : 2)

کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی غیر مسلم ہو ، یا کوئی اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں ۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔ اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو اور کسی انسان سے مدد نہ مانگو تو یہ تو انسان کے بس میں ہی نہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن جن معنوں میں اللہ کو بطور ولی و مددگار کافی قرار دیتا ہے ۔ وہ اسباب کے تحت والی مدد کے معنوں میں نہیں کہتا۔ بلکہ مافوق الاسباب یعنی بغیر اسباب والی مدد کے معنوں میں قرار دیتا ہے۔
مثلا یہی ڈوبتا ہوا شخص ، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا موجود نہ ہو۔ تو یہ اب اسباب سے ہٹ کر دور بیٹھے یا قبر میں لیٹے کسی بزرگ ، ولی یا نبی کو پکارنا شروع کر دے۔ تو یہاں پر اسباب موجود نہیں۔
یہ ہے عقیدہ کا مسئلہ۔ اور یہی صریح شرک ہے۔ اس جگہ پر ایسی حالت میں جب وسائل موجود نہیں تو اس کو صرف اور صرف اللہ کو پکارنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔

اب یہ مسئلہ مقید ہو گیا صرف
ماتحت الاسباب
اور
مافوق الاسباب
کی بحث میں ۔

یہ بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کی جار ہی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے :
(مشرکو!) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ۔
(سورہ الاعراف 7 ، آیت : 194)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ کے سوا بندوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ اگر پکارا جانے والا شخص جواب دے سکے، چل سکے، ہاتھ سے پکڑ سکے، آنکھ سے دیکھ سکے یا کان سے سن سکے تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر ان کو پکارا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کسی کوولی بمعنی دوست سمجھ کر پکارا جائے ، تو درست وجائز۔ اور اگر مافوق الفطرت طور پر پکارا جائے جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارا جاتا ہے ۔ تو یہ ناجائز ہے ۔

ایک صاحبِ محترم نے اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ، چھوٹی بڑی چیز کی تفریق اور مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب کی تقسیم کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے ، اور معبود مانے بغیر وسیلہ اور سبب کے درجے میں مانتے ہوئے مخلوق سے سوال درست ہے ۔۔۔
ہم تو قرآن کی آیات سے واضح کر چکے ہیں کہ مدد کے معاملے میں اصل بحث سراسر ۔۔۔ ان ہی دو مطالب میں ہے ، یعنی :
ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب !

اب آئیے ذرا ان صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ۔۔۔ وہ فرماتے ہیں :
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
دوسرے معنوں میں ان کا کہنا ہے کہ جو کسی کو معبود مان کر مدد مانگے وہ مشرک ہے ۔
ان کے اس فلسفے کی رو سے تو وہ سارے ہی روشن خیال غیرمسلم (چاہے وہ بت پرست ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوجنے والے ہوں) ۔۔۔ ان کے نزدیک مشرک نہیں ہوں گے ۔
کیونکہ ۔۔۔
ان صاحب کو یہ کیسے پتا کہ وہ بتوں کو یا کسی نبی کو معبود مانتے ہیں؟
آج کا ایک پڑھا لکھا ہندو یا عیسائی ۔۔۔ اپنے کسی ظاہری عمل سے یہ نہیں جتاتا کہ وہ کس کس کو معبود مانتا ہے ؟
کسی کو معبود ماننا دل کی یا نیت کی بات ہوتی ہے ۔ اور یہ سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔
لہذا جب ہم یہ جانتے ہی نہیں کون کس کو معبود مان رہا ہے ۔۔۔ تو شرک اور مشرک کی یہ ساری بحث ہی ختم ہو جاتی ہے ۔
اس طرح تو ہم میں سے کوئی بھی انسان کسی بھی دوسرے انسان کو (چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) مشرک نہ کہہ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے ۔
پھر یہ جو قرآن اور حدیث بار بار مشرکین سے دور رہنے اور ان کی دوستی سے باز رہنے کا حکم دیتے ہیں ۔۔۔ یہ سب کہاں جائے گا ؟
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟

ثابت ہوا کہ ان صاحب نے یہ قول ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
اپنی عقل سے گھڑا ہے ۔ اس کی تائید میں کوئی دلیل انہوں نے قرآن یا حدیث سے نہیں دی ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی ان سے یہ عقلی سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ :
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟

درحقیقت ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ اسباب کے بغیر پکارنے والا ۔۔۔ پکارے جانے والی ہستی کو معبود بھی مانتا ہے یا نہیں ؟
اس معاملے میں ہم صرف ظاہری عمل کو دیکھ کر فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ اور اس کی دلیل میں بخاری کی یہ حدیث پڑھ لیں ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :
میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کچھ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا ، لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ( اور باطن کے احوال پر مواخذہ ممکن نہیں رہا ) اس لیے اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے ۔
پس جو ہمارے لیے بھلائی ظاہر کرے گا ، ہم اس کو امن دیں گے ( یا اس پر اعتبار و اعتماد کریں گے ) اور اس کو اپنے قریب کریں گے اور ہمیں اس کے اندرونی حالات سے کوئی سروکار نہیں ۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ ہی ان سے کرے گا ۔
اور جو ہمارے لیے برائی ظاہر کرے گا ، ہم نہ اسے امن دیں گے ( نہ اس پر اعتبار کریں گے ) اور نہ اس کی تصدیق کریں گے ، اگرچہ وہ یہ کہے کہ اس کا اندرونی معاملہ (ارادہ) اچھا تھا ۔
صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : الشهداء العدول وقول الله تعالى {واشهدوا ذوى عدل منكم} و{ممن ترضون من الشهداء} ، حدیث : 2680
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جناب اویس تبسم صاحب اگر کسی کی گفتگو کا جواب دینا ہو تو اس کی تمام باتوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے نہ کہ فقط مطلب کی بات کو اٹھایا جائے۔ میں نے کہا تھا
پھر قرآن میں ایاک نستعین ہے کیا اس میں مافوالاسباب کا ذکر ہے؟؟اور ایک بات بتائیں کیا زندہ مافوق الاسباب مدد کر سکتا ہے؟
اس بات کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔آگے آپ نے کہا
کیسیمدد کا مانگنا شرک ہے

مدد دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک مدد سے شرک ثابت نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم کی مدد سراسر شرک ہے ۔
اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں :

ایک ڈوبتا ہوا شخص جب پاس والے کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔
جیسے درج ذیل آیات :
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟
(سورہ 3 ، آیت : 52)
تمہارے پاس جو رسول آئے ۔۔۔ تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
(سورہ 3 ، آیت : 81)
۔۔۔ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو ۔۔۔
(سورہ 5 ، آیت : 2)

کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی غیر مسلم ہو ، یا کوئی اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں ۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔ اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو اور کسی انسان سے مدد نہ مانگو تو یہ تو انسان کے بس میں ہی نہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن جن معنوں میں اللہ کو بطور ولی و مددگار کافی قرار دیتا ہے ۔ وہ اسباب کے تحت والی مدد کے معنوں میں نہیں کہتا۔ بلکہ مافوق الاسباب یعنی بغیر اسباب والی مدد کے معنوں میں قرار دیتا ہے۔
مثلا یہی ڈوبتا ہوا شخص ، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا موجود نہ ہو۔ تو یہ اب اسباب سے ہٹ کر دور بیٹھے یا قبر میں لیٹے کسی بزرگ ، ولی یا نبی کو پکارنا شروع کر دے۔ تو یہاں پر اسباب موجود نہیں۔
یہ ہے عقیدہ کا مسئلہ۔ اور یہی صریح شرک ہے۔ اس جگہ پر ایسی حالت میں جب وسائل موجود نہیں تو اس کو صرف اور صرف اللہ کو پکارنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔

اب یہ مسئلہ مقید ہو گیا صرف
ماتحت الاسباب
اور
مافوق الاسباب
کی بحث میں ۔

یہ بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کی جار ہی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے :
(مشرکو!) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ۔
(سورہ الاعراف 7 ، آیت : 194)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ کے سوا بندوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ اگر پکارا جانے والا شخص جواب دے سکے، چل سکے، ہاتھ سے پکڑ سکے، آنکھ سے دیکھ سکے یا کان سے سن سکے تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر ان کو پکارا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کسی کوولی بمعنی دوست سمجھ کر پکارا جائے ، تو درست وجائز۔ اور اگر مافوق الفطرت طور پر پکارا جائے جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارا جاتا ہے ۔ تو یہ ناجائز ہے ۔

حضرت میں نے ایک سوال کیا تھا کہ زندہ سے مافوق الاسباب مدد جائز ہے کہ نہیں؟؟اس کا جواب دینے کی بھی حضرت جی نے مزحمت نہیں فرمائی ۔پھر اگر مافوق الاسباب مدد شرک ہے تو اس پر میں نے کہا تھا کہ
باقی ہم خدائی اختیارات کے قائل نہیں۔کسی پر تہمت بغیر دلیل کے نہیں لگاتے۔کیا فرشتوں نے بدر میں مدد نہیں؟کیا عصا موسوی سے رب کی مدد کا ظہور نہیں ہوا؟ کیا قمیض یوسفی نے آنکھیں عطا نہیں کیں؟کیا کتاب کا علم رکھنے والے آدمی نے رب کے فضل سے تخت کو حاضر نہیں کردیا ؟کیا یہ سب مافوق الاسباب نہیں؟
۔
اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔اور دوبارہ وہی چاول پکائیں جن کو ہم پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ہاں ایک بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ

ایک صاحبِ محترم نے اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ، چھوٹی بڑی چیز کی تفریق اور مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب کی تقسیم کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے ، اور معبود مانے بغیر وسیلہ اور سبب کے درجے میں مانتے ہوئے مخلوق سے سوال درست ہے ۔۔۔
ہم تو قرآن کی آیات سے واضح کر چکے ہیں کہ مدد کے معاملے میں اصل بحث سراسر ۔۔۔ ان ہی دو مطالب میں ہے ، یعنی :
ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب !

اب آئیے ذرا ان صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ۔۔۔ وہ فرماتے ہیں :
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
دوسرے معنوں میں ان کا کہنا ہے کہ جو کسی کو معبود مان کر مدد مانگے وہ مشرک ہے ۔
ان کے اس فلسفے کی رو سے تو وہ سارے ہی روشن خیال غیرمسلم (چاہے وہ بت پرست ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوجنے والے ہوں) ۔۔۔ ان کے نزدیک مشرک نہیں ہوں گے ۔
کیونکہ ۔۔۔
ان صاحب کو یہ کیسے پتا کہ وہ بتوں کو یا کسی نبی کو معبود مانتے ہیں؟
آج کا ایک پڑھا لکھا ہندو یا عیسائی ۔۔۔ اپنے کسی ظاہری عمل سے یہ نہیں جتاتا کہ وہ کس کس کو معبود مانتا ہے ؟
کسی کو معبود ماننا دل کی یا نیت کی بات ہوتی ہے ۔ اور یہ سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔
لہذا جب ہم یہ جانتے ہی نہیں کون کس کو معبود مان رہا ہے ۔۔۔ تو شرک اور مشرک کی یہ ساری بحث ہی ختم ہو جاتی ہے ۔
اس طرح تو ہم میں سے کوئی بھی انسان کسی بھی دوسرے انسان کو (چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) مشرک نہ کہہ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے ۔
پھر یہ جو قرآن اور حدیث بار بار مشرکین سے دور رہنے اور ان کی دوستی سے باز رہنے کا حکم دیتے ہیں ۔۔۔ یہ سب کہاں جائے گا ؟
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟

ثابت ہوا کہ ان صاحب نے یہ قول ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
اپنی عقل سے گھڑا ہے ۔ اس کی تائید میں کوئی دلیل انہوں نے قرآن یا حدیث سے نہیں دی ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی ان سے یہ عقلی سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ :
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟

درحقیقت ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ اسباب کے بغیر پکارنے والا ۔۔۔ پکارے جانے والی ہستی کو معبود بھی مانتا ہے یا نہیں ؟
اس معاملے میں ہم صرف ظاہری عمل کو دیکھ کر فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ اور اس کی دلیل میں بخاری کی یہ حدیث پڑھ لیں ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :
میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کچھ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا ، لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ( اور باطن کے احوال پر مواخذہ ممکن نہیں رہا ) اس لیے اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے ۔
پس جو ہمارے لیے بھلائی ظاہر کرے گا ، ہم اس کو امن دیں گے ( یا اس پر اعتبار و اعتماد کریں گے ) اور اس کو اپنے قریب کریں گے اور ہمیں اس کے اندرونی حالات سے کوئی سروکار نہیں ۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ ہی ان سے کرے گا ۔
اور جو ہمارے لیے برائی ظاہر کرے گا ، ہم نہ اسے امن دیں گے ( نہ اس پر اعتبار کریں گے ) اور نہ اس کی تصدیق کریں گے ، اگرچہ وہ یہ کہے کہ اس کا اندرونی معاملہ (ارادہ) اچھا تھا ۔
صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : الشهداء العدول وقول الله تعالى {واشهدوا ذوى عدل منكم} و{ممن ترضون من الشهداء} ، حدیث : 2680
جناب عبادت کی تعریف پر بحث کرتے ہوئے شاہ ولی صاحب اللہ حقیقت شرک کے عنوان سے عبادت کی تعریف مییں کہتے کہ عبادت کا مطلب حد درجہ تذلل اور انتہائی درجہ کی تعظیم ہے اور سجدہ اور قیام اس کی مثال ہیں آگے فرماتے ہیں
اور جب ثابت ہو چکا ہے کہ سجدہ سے فرشتوں نے آدم کی اور بردارن یوسف نے حضرت یوسف کی تعظیم کی اور سجدہ سے بڑھ کر کوئی تعظیم نہیں تو ضرور ہوا کہ نیت سے ہی فرق کیا جاوے(حجۃ البالغہ ص 91) لہذا جناب ثابت ہوا کی نیت کا دخل ضرور ہوتا ہے ورنہ جو سجدہ حضرت آدم اور حضرت یوسف کو کیا گیا اس کا کیا معنی؟
اب ہم قرآن کی گوہی پیش کرتے ہیں ملاحظہ کریں رب العزت ارشاد فرماتا ہے
74. وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنصَرُونَO
74. اور انہوں نے اللہ کے سوا بتوں کو معبود بنا لیا ہے اس امید پر کہ ان کی مدد کی جائے گیo(یسین۔74)
ایسے ہی رب تعالی فرماتا ہے
81. وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِّيَكُونُواْ لَهُمْ عِزًّاO
81. اور انہوں نے اللہ کے سوا (کئی اور) معبود بنا لئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعثِ عزت ہوںo
ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ کہ مشر کین بتوں کو الہ سمجھ کر مدد کے لئے پکارتے تھے۔جس کی وجہ سے وہ مشرک تھے۔اس سے عامر صاحب کے سوال کا بھی جواب ہو گیا کہ
مشرکین مکہ کا شرک کیا تھا ؟؟؟

وہ کیا جرم تھا جس کی وجہ سے وہ مشرک ٹھہرائے ؟؟؟

کیا وہ جن بتوں کی عبادت کرتے تھے کیا وہ اس کو رب مانتے تھے ؟؟؟؟

اگلی بات اس ضمن میں ہمارا ایک سوال ہے کہ اگر کوئی بندہ تحت الاسباب بند کسی کو مستقل اور حقیقی سمجھتے ہوئے مانگے تو کیا یہ شرک ہو گا کہ نہیں؟
ایک ہندو کہتا ہے کہ مجھے دوا سے آرام آیا اور ایک مسلمان کہتا ہے کہ مجھے دوا سے آرام آیا کیا دونوں کی باتوں کا مطلب ایک ہے؟
پھر پہلی بات تو یہ کہ مشرکین اپنے بتوں میں اذن کے قائل نہیں تھے دوسرا ان کو اذن ملا بھی نہیں تھا۔
اگلی بات رہ گئی پکارنے کی تو اس کی بہترین و مدلل و ضاحت ہم نے تھریڈ الوہیت کا مدار کیا ہے @ میں کی ہے اس کو ملاحظہ کرے۔کہ پکار تب شرک ہے جب الوہیت کا اعتقاد ہو ۔
اور آخر میں گزارش ہے کہ جس موضو ع کا کشمیر بھائی نے آغاز کیا ہے اس پر بحث کرتے ہوئے سوالات کہ جوابات دیں ۔برائے مہربانی تھریڈ کا مقصد فوت نہ کریں۔
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
جناب اویس تبسم صاحب اگر کسی کی گفتگو کا جواب دینا ہو تو اس کی تمام باتوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے نہ کہ فقط مطلب کی بات کو اٹھایا جائے۔ میں نے کہا تھا
قادری رانا صاحب میں نے آپ کی کسی پوسٹ کا جواب نہیں دیا بلکہ مدد کی وضاحت کی ہے تانکہ آپ لوگ تھوڑی غوروفکر کریں۔
 

وہم

رکن
شمولیت
فروری 22، 2014
پیغامات
127
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
75
ایک انسان کہے کہ دو ضرب دو کتنے ہوتے ہیں اس کا جواب مجھے ریاضی کی ہی کتاب سے دو ، جواب دیا جاتا ہے چار ،،، اب سوال یوں آئے گا کہ اچھا اب ذرا بتاؤ چار کا جو "چ" ہوتا ہے اس کی شکل اور ڈیزائیں ریاضی کے کس اصول و قانون اور کتاب میں ہے ثابت کرو ،
یار اللہ کا خوف کرو
نصاری کا اپنے علماء کو رب بنانا ان کو بالکل ہی اللہ مان لینے جیسا تھا یا کچھ اور تھا؟
معجزات و نشانیان جس کے انبیاء مالک ہی نہیں ہوتے جن کو وہ اپنی مرضی سے لا ہی نہیں سکتے ہیں ان معجزات اور نشانیوں کو خود ساختہ من گھڑت اختیارات پر دلیل بنا کر لے آتے ہو ۔۔۔
اگر کبھی غور کروکہ آخر بتوں کو بنانے کی نوبت آئی کیوں تھی تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ، فرق صرف اب اتنا ہے کہ اس طرح کے بت اب نہیں بنائے جاتے کیونکہ صرف بت بنانا ہی تو اصل "شرک" تھا ، "ورنہ" اسلام نے آ کر یہی تو بتایا تھا نا کہ بتوں بارے جو عقائد تم رکھتے ہو بے شک یہی عقائد رکھو ان نبیوں اور ولیوں ، بزرگوں پر "ان کے بغیر بت بنائے" ،،، تو تب تم مشرک نہیں رہو گے عین مومن کہلاؤ گے ،،، پتہ نہیں ابو جاھل کا عقل گھاس چرنے گیا ہوا تھا جو اتنی مخالفت کر دی تھی اس نے اس وقت اس "اسلام" کی ،
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ایک انسان کہے کہ دو ضرب دو کتنے ہوتے ہیں اس کا جواب مجھے ریاضی کی ہی کتاب سے دو ، جواب دیا جاتا ہے چار ،،، اب سوال یوں آئے گا کہ اچھا اب ذرا بتاؤ چار کا جو "چ" ہوتا ہے اس کی شکل اور ڈیزائیں ریاضی کے کس اصول و قانون اور کتاب میں ہے ثابت کرو ،
یار اللہ کا خوف کرو
نصاری کا اپنے علماء کو رب بنانا ان کو بالکل ہی اللہ مان لینے جیسا تھا یا کچھ اور تھا؟
معجزات و نشانیان جس کے انبیاء مالک ہی نہیں ہوتے جن کو وہ اپنی مرضی سے لا ہی نہیں سکتے ہیں ان معجزات اور نشانیوں کو خود ساختہ من گھڑت اختیارات پر دلیل بنا کر لے آتے ہو ۔۔۔
اگر کبھی غور کروکہ آخر بتوں کو بنانے کی نوبت آئی کیوں تھی تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ، فرق صرف اب اتنا ہے کہ اس طرح کے بت اب نہیں بنائے جاتے کیونکہ صرف بت بنانا ہی تو اصل "شرک" تھا ، "ورنہ" اسلام نے آ کر یہی تو بتایا تھا نا کہ بتوں بارے جو عقائد تم رکھتے ہو بے شک یہی عقائد رکھو ان نبیوں اور ولیوں ، بزرگوں پر "ان کے بغیر بت بنائے" ،،، تو تب تم مشرک نہیں رہو گے عین مومن کہلاؤ گے ،،، پتہ نہیں ابو جاھل کا عقل گھاس چرنے گیا ہوا تھا جو اتنی مخالفت کر دی تھی اس نے اس وقت اس "اسلام" کی ،
مختلف تھریڈز پر تم لوگوں سے بحث کر کے یہ بات تو سامنے آگئی علما کو رب تو تم لوگوں نے بنایا ہے جو بات اسماعیل نے کردی بس اس پر ایمان لانا اگلا چاہے قرآن و سنت سے دلائل کا انبار لا دے۔
پھر اگلی بات جب لاجواب ہو جو تو ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیتے ہو۔
تیسری بات بالفرض معجزہ و کرامت رب کا ہی فعل ہے لیکن اس کا اظہار اس نے بندے کے ذریعے کیا۔اور یہ روح کا کمال ہے ۔جب رب عزوجل زندہ کی روح کو اپنی قدرت کا مظہر بنا سکتا ہے تو بعد از بھی وہ بندے کو اپنی قدرت کا مظہر بنا سکتا ہے۔
مجھے میرے رب کی عزت کی قسم پہلے تو صرف یقین تھا آج مکمل اطمینان ہو گیا کہ تم لوگ بتوں والی آیات تو ولیوں پر پڑھ سکتے ہو مگر اپنے جھوٹے موقف پر قرآن و حدیث سے دلیل پیش نہیں کر سکتے ۔
اور جب تمہارا بھا نڈا پھوٹ رہا ہوتا ہے تو اسی وہم بے وہم کی طرح کوئی بندہ ادھر ادھر سے ٹپک کر فضول بکواس شروع کر دیتا ہے۔اتنا ہی اپنے انگریزی اہلحدیث مذہب پر یقین ہے تو دو میرے سوالات کا جواب۔اور تسلی سے کرو گفتگو۔

اگر کوئی لفظ برا لگے تو معذرت۔یہ ہمارا ریکشن ہے ہمیں معذور سمجھا جائے۔
 

وہم

رکن
شمولیت
فروری 22، 2014
پیغامات
127
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
75
مجھے کیوں برا لگے گا جناب محترم ،
آج میں آپ کو ایک اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں ، مجھے بھی وہابی زہر لگتے تھے ، بس ایک چیز صرف ایک چیز میری ہدایت کا سبب بن گئی ، وہ ہدایت ملنے والی چیز قرآن و صحیح حدیث سے پوری نماز کے دلائل و ثبوت کا مطالبہ و سوال کرنا ، بگلہ تیتر بٹیر حرام یا حلال جیسے سوال کرنا تھی ، کیونکہ میں ششدر رہ گیا تھا کہ اگر قرآن و حدیث سےمکمل نماز کا ثبوت و طریقہ موجود اگر نہیں ہے اور قرآن و صحیح حدیث میں تیتر بگلا فلاں فلاں کا حلال حرام موجود نہیں ہے تو پھر تو پھر ائمہ کرام پر وحی نازل ہوئی تھی؟ سورج کی طرح روشن بات ہے کہ نہیں ،،، تب انہوں نے مکمل نماز کہاں سے لی اور تیتر بگلا بٹیر وغیرہ کیسے حرام حلال کر لئے ؟
آپ کو بھی ششدر ہو جانے کی دعوت دیتا ہوں ، ہدایت ملے گی ان شاء اللہ
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
@قادری رانا صاحب آپ کے خیال میں اگر کسی کو رب کہا جائے تو پھر ہی وہ رب بنتا ہے
نہیں بلکہ اگر کسی کو رب جیسے اختیارات دے دیئے جائیں تب بھی وہ رب بن جاتا ہے زبان سے چاہے اسے رب نہ بھی کہے
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، آپ نے فرمایا: ”عدی! اس بت کو نکال کر پھینک دو، میں نے آپ کو سورۃ برأۃ کی آیت: «اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله» ”انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں کو معبود بنا لیا ہے“ (التوبہ: ۲۵)، پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا: ”وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے، اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے۔﴿سنن الترمذي،حدیث نمبر: 3095
اس طرح وہ احبار و رہبان حلال و حرام ٹھہرا کر اللہ کے اختیار میں شریک بن گئے، اور اس حلال و حرام کو ماننے والے لوگ مشرک اور ان احبار و رہبان کے ”عبادت گزار“ قرار دئیے گئے۔
 
Top