الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
مختلف تھریڈز پر تم لوگوں سے بحث کر کے یہ بات تو سامنے آگئی علما کو رب تو تم لوگوں نے بنایا ہے جو بات اسماعیل نے کردی بس اس پر ایمان لانا اگلا چاہے قرآن و سنت سے دلائل کا انبار لا دے۔
پھر اگلی بات جب لاجواب ہو جو تو ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیتے ہو۔
تیسری بات بالفرض معجزہ و کرامت رب کا ہی فعل ہے لیکن اس کا اظہار اس نے بندے کے ذریعے کیا۔اور یہ روح کا کمال ہے ۔جب رب عزوجل زندہ کی روح کو اپنی قدرت کا مظہر بنا سکتا ہے تو بعد از بھی وہ بندے کو اپنی قدرت کا مظہر بنا سکتا ہے۔
مجھے میرے رب کی عزت کی قسم پہلے تو صرف یقین تھا آج مکمل اطمینان ہو گیا کہ تم لوگ بتوں والی آیات تو ولیوں پر پڑھ سکتے ہو مگر اپنے جھوٹے موقف پر قرآن و حدیث سے دلیل پیش نہیں کر سکتے ۔
اور جب تمہارا بھا نڈا پھوٹ رہا ہوتا ہے تو اسی وہم بے وہم کی طرح کوئی بندہ ادھر ادھر سے ٹپک کر فضول بکواس شروع کر دیتا ہے۔اتنا ہی اپنے انگریزی اہلحدیث مذہب پر یقین ہے تو دو میرے سوالات کا جواب۔اور تسلی سے کرو گفتگو۔
اگر کوئی لفظ برا لگے تو معذرت۔یہ ہمارا ریکشن ہے ہمیں معذور سمجھا جائے۔
قادری رانا بھائی! آپ تو بہت جذباتی ہو گئے!
قادری رانا بھائی! مذکورہ سوالات پر میں آپ سے گفتگو کرنے کو تیار ہوں! لیکن ایک بات کا اقرار آپ کریں! آپ کو جب ان کے جوابات دیئے جائیں، تو آپ ان جوابات سے اپنی جہالت کا اعلان کرتے جائیں گے کہ بریلوی ملّوں نے اب تک آپ کو جہالت کی وادی میں ہی در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر چھوڑ دیا!
یا تو آپ میرے دئیے ہوئے جواب کو رد کرو گے ، یا پھر اپنی جہالت کا اقرار کورو گے!
سوال نمبر1 :- سب سے پہلے استمداد غیر اللہ پر اپنا عقیدہ واضح کیجیئے تفصیلی طور پر ۔
سوال نمبر2 :- حقیقی اور مجازی اور اسی طرح ذاتی اور عطائی امداد کی بدیہی تقسیم کی معنویت ( حقیقت آپکے نزدیک کیا ہے) واضح کیجیئے۔
سوال نمبر3 :- ماتحت الاسباب اور ما فوق الاسباب کی بدیہی تقسیم میں امداد کے حقیقی ،مستقل اور اصل ماخذ کی نشاندہی کیجیئے ۔
سوال نمبر4 :-ماتحت الاسباب امور میں اسباب ظاہری کے تحت جو مدد طلب کی جاتی ہے اس کی حقیقت واضح کرتے ہوئے اسکا تعین بطور سبب ظاہری یا علت تامہ کے واضح فرمایئے ۔
سوال نمبر5 :- مافوق الاسباب امور میں جو استعانت ظاہری بطور مجاز کہ کی جاتی ہے اس سے انکار پر قرآن و سنت سے واضح اور قطعی نصوص پیش کیجیئے ۔
سوال نمبر6 :- مافوق الاسباب امور میں جو استعانت بطور مجاز کے کی جاتی ہے اس سے انکار کی نوعیت واضح فرماتے ہوئے شرعی و عقلی استحالہ پیش فرمائیے ۔
سوال نمبر7 :-ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی لغویت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس باب میں استعانت کہ اصل مدار کا تعین پیش فرمائیے ۔ سوال نمبر8 :- ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب دونوں طرح کے امور میں استعانت حقیقی اور مجازی کہ تعین کو بطور علت تامہ اور سببیت کہ اللہ اور غیراللہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے فرق واضح فرمایئے ۔
سوال نمبر9 :- مافوق الاسباب امور میں غیراللہ سے استعانت مجازی کے عقیدہ کا رد کرتے ہوئے اسکا حکم واضح کیجیئے ۔
سوال نمبر10 :-مافوق الاسباب امور میں غیراللہ سے استعانت ظاہری کا عقیدہ آپ کے نزدیک جس حکم کا متحمل ہے اسی حکم کے مطابق ادلہ اربعہ میں سے دلیل بھی پیش فرمائیے ۔
سوال نمبر11:- حقیقی اور مجازی کے (بدیہی اور قرانی ) فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان دونوں میں مدار استعانت کہ اصل رکن کی توجیہ بطور استقلال و عدم استقلال کے واضح کیجیئے ۔
سوال نمبر12:- معجزہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کا فرق واضح فرمایئے ۔
سوال نمبر13 :- معجزہ کی تعریف میں نبی کے تحدی (چیلنج ) کی شرط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس تحدی کی حقیقت کا تعین بطور کسب یا خلق کے فرمایئے ۔
سوال نمبر14 :- معجزہ کی اصطلاحی تعریف میں حکم عجز کے مدار کو واضح کیجیئے ۔
سوال نمبر15 :- معجزہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کی وضاحت کیجیئے کہ قرآن کس اعتبار سے معجزہ ہے جبکہ وہ خلق شدہ نہیں ہے ۔
سوال نمبر16 :- معجزہ کی تعریف میں آپ نے امام غزالی سے جو فلاسفہ کا رد نقل کرتے ہوئے امور خفیہ کی حقیقت کو بطور (خفی)غیر مادی اسباب کے واضح کیا ہے ان امور کی قرآن پاک سے وابستگی کی حقیقت کو واضح کیجیئے یہ بتلاتے ہوئے کہ ان میں سے کس خفی مادی یا خفی غیر مادی امر کہ تحت قرآن معجزہ ہے ۔
سوال نمبر17 :-معجزہ اور کرامت میں خلق اور کسب کی حقیقت کو واضح کیجیئے ساتھ اس وضاحت کہ ان دونوں میں سے سبب کیا ہے علت تامہ کیا ہے ۔
سوال نمبر18 :-معجزہ اور کرامت میں جن ائمہ نے کسب کہ دخل کو مانا ہے ان سب کی عبارات کا جواب پیش فرمایئے
سوال نمبر19 :-معجزہ اور کرامت میں کسب کہ دخل کو نہ ماننے والے ائمہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے اقوالات کی وجوہ ترجیح کو بیان کیجیئے ۔
سوال نمبر20 :- معجزہ اور کرامت میں کسب کہ دخل کے اکثریتی مذہب پر اپنے عدم اعتماد کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ان سب(مجوزین دخل کسب ائمہ ) کا حکم واضح کیجیئے ساتھ قرآن و سنت کہ واضح دلائل سے ۔ ۔ ۔
سوال نمبر21 :- اگر آپ ذاتی اور عطائی کے بدیہی فرق کو نہیں مانتے تو پھر اپنے اس چھ فٹ کے وجود کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔
سوال نمبر22 :-اگر آپ حقیقی اور مجازی کے فرق کو نہیں مانتے تو پھر اپنے اس چھ فٹ کے وجود پر اپنے تصرف کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔
سوال نمبر23 :- اگر آپ کا وجود آپکا حقیقی ہے عطائی نہیں تو پھر ممکن سے واجب ہونے کے اس امر پر حکم شرعی واضح کیجیئے کہ آپ کیوں مشرک نہیں ساتھ اس اعتقاد کے ۔ ۔؟
سوال نمبر24 :- اگر آپ کے وجود پر آپکا تصرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہے بطور علت تامہ کہ تو پھر اس امر پر حکم شرعی واضح کیجیئے۔ کہ آپ کیوں مشرک نہیں ساتھ اس اعتقاد کے ۔ ۔؟
سوال نمبر25 :- آپ نے فرمایا کہ آپکا ہمارے ساتھ اختلاف یہ ہے کہ آپکے نزدیک ہم معجزات یا کرامات کو انبیاء کا مجازا فعل سمجھتے ہیں (جی ہاں ایسا ہی ہے لیکن بطور کسب اور ہم نے اس پر قرآن و سنت کے ساتھ ائمہ کا مذہب بھی نقل کردیا) اگر آپکو اس سے اختلاف ہے تو اس کا حکم واضح کیجیئے کہ مجاز کو مجاز سمجھنے والے پر آپکے نزدیک کیا حکم ہوگا ۔
سوال نمبر26 :- آپ نے فرمایا کہ معجزات میں انبیاء کرام کی بطور کسب قدرت ماننے سے ان کا خدائی قدرت میں شریک ماننا لازم آئے گا سوال یہ ہے کہ کس طرح سے؟؟؟؟ جب کہ انبیاء کی معجزات میں بطور کسب قدرت بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسے امور عادیہ میں عام انسانوں کی بطور کسب (سبب ) کے تو پھر کیا وجہ ہے کہ امور عادیہ میں انسان فعل میں خدا کا شریک ہوکر بھی مشرک نہ بنے مگر امور غیر عادیہ میں وہ شرک ہو ان دونوں کی وضاحت تفصیل طلب ہے ساتھ سبب اور علت کہ فرق کہ ۔ ۔
سوال نمبر27 :- آپ نے فرمایا کہ میرے دوست ہمیں مجازی اور حقیقی کی تقسیم سے کوئی اختلاف نہیں ۔۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجازی کا مطلب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء کرام کو معجزات اور کرامات پر(مجازی) استقلال حاصل ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک مجاز کی حیثیت مستقل کی سی ہے ایں چہ بوالعجبی است مجاز مستقل کیسے ہوسکتا ہے وضاحت کیجیئے ۔ ۔ ۔
سوال نمبر28 :-سورہ نمل میں حضرت سلمان علیہ السلام کے ایک مافوق الاسباب امر میں غیر اللہ کی طرف رجوع کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔۔۔
سوال نمبر29 :- سورہ نمل میں جن (عفریت) کے قول انا اتیک پر اس کہ اس امر پر قدرت کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔
سوال نمبر30 :- سورہ نمل میں حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کے قول انا اتیک کی واضح توجیہ پیش کیجیئے کہ آیا انکا انا اتیک کہنا بطور اسناد مجازی کہ ہے یا حقیقت کہ اگر آپ کے نزدیک کرامت میں مجازا بھی کسب کا دخل نہیں ہوتا تو انا اتیک کے واضح قول کی توجیہ پیش کیجیئے۔ ۔ ۔
یہ ہیں وہ تیس (30) سوالات کو علم الکلام کو جوہر دکھلاتے ہوئے وارد کئے گئے ہیں!
قادری رانا صاحب! آپ چاہو، تو اس میں اضافہ کرکے پچاس (50) بھی کردیں!
ہماری کی گئی پیشکش کو قبول فرمائیں! تو ہم ان کا جوابات کا آغاز کریں!
(میری دیگر صارفین اور اور انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اب اس تھریڈ کو میرے اور قادری رانا بھائی لئے مختص سمجھا جائے! یعنی کوئی اور اس تھریڈ میں مزید مراسلہ ارسال نہ کرے، مہربانی!)
چلیں جی کوئی مسئلہ نہیں چاہے یہ سوال میں نے پوسٹ نہیں کئے مگر پھر بھی میں تیار ہوں ۔رہ گئی جہالت کے اقرار کی بات تو حضرت مجھے اپنی جہالت کے اقرار میں کوئی عار نہیں۔میں نبی نہیں امتی ہوں مجھ سے غلطیاں ہو سکتی ہیں اور انشا اللہ ہم اپنی غلطیوں کا تدارک بھی کریں گئے ۔مگر ایک درخواست ہے کہ 12 تاریخ سے پہلے اگر یہ تھریڈ مکمل ہوجائے تو بہت اچھا کیوں کہ پھر یونیورسٹی اوپن ہو جائے گی اور پھر وہی مصروفیت والی بورنگ ہوسٹل لائف۔لہذا جلد از جلد اس کو مکمل کریں
کشمیر خان صاحب نے غالباً ابھی نیا نیا علم الکلام کا سبق پڑھا ہے، اور اپنے اس سوال نامہ میں اسی علم الکلام کے خوب جوہر دکھلائیں ہیں، اور یہ ہی علم الکلام کا طرہ امتیاز ہے کہ ایک ناقص بنیاد پر اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے بلند و بالا عمارت گھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چون گذارد خشت اول بر زمین معمار کج
گر رساند بر فلک، باشد همان دیوار کج
مگر دلائل کو ایک ہی جھونکا اس عمارت کو نیست و نابود دیتا ہے!
معاملہ یہی ہے کہ کشمیر خان صاحب کو ما فوق الاسباب اور ما تحت الاساب کا فرق یا سمجھ نہیں آیا، یا انہیں قبول نہیں! کشمیر خان صاحب نے خود اس بات کا نہ اقرار کیا ہے نہ انکار، مگر سوالات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے، الا یہ کہ سوالات کوئی استاد اپنے شاگردوں کا امتحان لینے لئے کرے!
بہر حال غیرا للہ سے مدد طلب کرنے والے، یعنی کہ مردوں سے دعا کرنے والے، اس فرق کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ فرماتے ہیں:
پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں۔
صفحہ 76 – 78 مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت – طاہر القادری – منہاج القرآن پبلیکیشنز، لاہور ملاحظہ فرمائیں: اِزالۂ اِشکالات - مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت – طاہر القادری
اس عبارت میں کو بغور دیکھیں، طاہر القادری صاحب کے بقول ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ باقی تمام امور کسی امر کو ما فوق الاسباب ماننے کو ہی تیار نہیں، اور اس طرح وہ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ باقی تمام امور مخلوق کے اوصاف و افعال میں ماننے کو کو شرک سمجھتے ہی نہیں!
کوئی بتلائے کہ مشرکین مکہ کا پھر کیا قصور تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرک قرار دیا!
جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾ بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!
لیکن یہ باتیں تو اسے سمجھ آئیں گی، اور وہ مانے گا جو اللہ تعالیٰ کے قرآن کو اپنی دلیل سمجھے، جن لوگوں کے نزدیک اپنے فقہاء کے باتیں قرآن و حدیث پر مقدم ہوں، انہوں نے تو اس بارے میں علم الکلام کے گھوڑے دوڑانے ہیں! اس قرآن کی آیت مافو ق الاسباب اور ما تحت الاسباب کے اس بیان کے اثبات پر کئی طرح کے بے سروپا سوال کھڑے کردینے ہیں ، کہ اس آیت سے آپ کے استدلال کا طریق کیا ہے، بعبارۃ النص ہے؟ باشارۃ النص ہے؟ بدلالۃ النص ہے ؟ باقتضاء النص ہے؟
یہ بھی بتلا دیا جائے گا، تو پھر حکمت چین و حجت بنگال کے تحت مزید دس سوالات کھڑے کر دیئے جائیں گے!
لیکن ہم بھی ان اٹکل کے گھوڑوں کو اصطبل میں باندھ ہی دیتے ہیں!
ہم بھی ماتحت الاسباب اور ما فوق الاسباب کا فرق انہیں کے فقہاء کی کتب و کلام سے پیش کر دیتے ہیں: (وأسْبَابُ العِلْمِ)
وهو صِفَةٌ يتجلى بها المذكورُ لمَنْ قامت هي به، أي يتضح ويظهر ما يذكر، ويمكن أن يعبر عنه موجوداً كان أو معدوماً، فيشمل إدراك الحواس وإدراك العقل من التصورات والتصديقات اليقينية وغير اليقينية، بخلاف قولهم: صفة توجب تمييزاً لا يحتمل النقيض، فإنَّه وإنْ كان شاملاً لإدراك الحواس بناء على عدم التقييد بالمعاني، وللتصورات بناء على أنها لا نقائض لها على ما زعموا، لكنه لا يشمل غير اليَقِينِيَّات من التصديقات.
هذا ولكن ينبغي أن يحمل التجلِّي على الانكشاف التام الذي لا يشمل الظن، لأنَّ العلم عندهم مقابل للظن.(للخَلْقِ) أي المخلوق، من الملك والإنس والجن، بخلاف علم الخالق تعالى، فإنه لذاته لا لسبب من الأسباب.
(ثَلاثَةٌ: الحَوَاسُّ السَّلِيمَةُ، وَالخَبَرُ الصَّادِقُ، وَالعَقْلُ)بحكم الاستقراء.
ووجه الضبط: أن السبب إن كان من خارج فالخبر الصادق، وإلا: فإن كان آلة غير المدرك فالحواس، وإلا فالعقل.
فإن قيل: السببُ المؤثر في العلوم كلها هو الله تعالى، لأنها بخلقه وإيجاده من غير تأثير للحاسة.
والخبر الصادق والعقل والسبب الظاهري كالنار للإحراق هو العقل لا غير، وإنما الحواس والأخبار آلات وطرق في الإدراك.
والسببُ المفضي في الجملة بأن يخلقَ الله فينا العلم معه بطريق جري العادة ليشمل المدرك كالعقل والآلة كالحس والطريق كالخبر لا ينحصر في الثلاثة، بل هاهنا أشياء أخر، مثل الوجدان والحدس والتجربة ونظر العقل بمعنى ترتيب المبادي والمقدمات.
قلنا: هذا على عادة المشايخ في الاقتصار على المقاصد، والإعراض عن تدقيقات الفلاسفة، فإنهم لمَّا وَجَدُوا بعض الإدراكات حاصلة عقيب استعمال الحواس الظاهرة التي لا شك فيها، سواء كانت من ذوي العقول أو غيرهم، جعلوا الحواسَّ أحدَ الأسباب.
ولما كان معظم المعلومات الدينية مستفاداً من الخبر الصَّادِقِ جعلوا مسبباً آخر.
ولما لم يثبت عندهم الحواس الباطنة المسماة بالحِسِّ المُشْترَك والوَهْم وغير ذلك ولم يتعلق لهم غرض بتفاصيل الحدسيات والتجريبات والبديهيات والنظريات، وكان مرجعُ الكُلِّ إلى العقل جعلوه سبباً ثالثاً يفضي إلى العلم بمجرد التفات أو انضمام حدس أو تجربة أو ترتيب مقدمات، فجعلوا السبب في العلم بأن لنا جوعاً وعطشاً وأن الكل أعظم من الجزء وأن نور القمر مستفاد من الشمس وأن السقمونيا مسهل وأن العالم حادث، هو العقل، وإن كان في البعض باستعانة الحس.
(فالحَوَاسُّ) جمع حاسة، بمعنى القوة الحساسة (خمْسٌ)، بمعنى أن العقل حاكم بالضرورة بوجودها، وأما الحواسُّ الباطنة التي ثبتها الفلاسفة فلا يتم دلائلها على الأصول الإسلامية.
(السَّمْعُ)، وهو قوة مودعة في العصب المفروش في مقعر الصماخ، يدرك بها الأصوات بطريق وصول الهواء المتكيف بكيفية الصوت إلى الصماخ، بمعنى أن الله تعالى يخلق الإدراك في النفس عند ذلك.
(والبَصَرُ)، وهو قوة مودعة في العصبتين المجوفتين اللتين تتلاقيان في الدماغ ثم تفترقان فتتأديان إلى العينين، يدرك بها الأضواء والألوان أو الأشكال والمقادير والحركات والحسن والقبح وغير ذلك مما يخلق الله تعالى إدراكها في النفس عند استعمال العبد تلك القوة.
(والشَّمُّ)، وهو قوة مودعةٌ في الزائدتين الناتئتين من مقدم الدماغ الشبهتين بحلمتي الثدي، يدرك بها الروائح بطريق وصول الهواء المتكيف بكيفية ذي الرائحة إلى الخيشوم.
(واللَّمْسُّ)، وهي قوة مثبتةٌ في جميع البدن يدرك بها الحرارة والبرودة والرطوبة واليبوسة ونحو ذلك عند التماس والاتصال به.
(وبكُلِّ حَاسَّةٍ مِنهَا)، أي الحواس الخمس (يُوقَفُ) أي يطلع (عَلَى مَا وُضِعَتْ هِيَ) أي تلك الحاسة (لَهُ).
يعني أن الله تعالى قد خَلَقَ كُلاَّ من تلك الحواس لإدراك أشياء مخصوصة، كالسمع للأصوات والذوق للمطعوم والشم للروائح، لا يدرك بها ما يدرك بالحاسة الأخرى.
وأما أنه هل يجوز أو يمتنع ذلك ؟
ففيه خلاف، والحقُّ الجَوَاز، لما أن ذلك بمحضِ خلق الله من غير تأثير للحواس، فلا يمتنع أن يخلق الله عقيب صرف الباصرة إدراك الأصوات مثلاً.
فإن قيل: أليست الذائقة تُدرَكُ بها حلاوة الشيء وحرارته معاً ؟
قلنا: لا، بل الحلاوة تدرك بالذوق والحرارة باللمس الموجود في الفم واللسان. ملاحظہ فرمائیں: صفحه 39 – 51 جلد 01 شرح العقائد النسفية- سعد الدين التفتازاني - مكتبة البشری، کراتشي ملاحظہ فرمائیں: صفحه 10 – 12 جلد 01 شرح العقائد النسفية- سعد الدين التفتازاني - مكتبة الرشيدية، کوئته ملاحظہ فرمائیں: صفحه 25 – 32 جلد 01 شرح العقائد النسفية مع حاشية الكسّلي - سعد الدين التفتازاني – قريمي يوسف ضيا، معارف نظارات جليله
اور اسباب علم اور وہ (علم) ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے شئ اس شخص کو منکشف اور واضح ہو جاتی ہے، جس کے ساتھ وہ (صفت) قائم ہوتی ہے یعنی واضح اور ظاہر ہو جاتی ہے وہ چیز جو ذکر کی جاتی ہے اور جس کا تعبیر کیا جانا ( زبان سے ذکر کیا جانا) ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ تعریف حواس کے ادراک اور عقل کے ادراک یعنی تصوا اور تصدیقات یقینیہ اور غیر یقینیہ (سب) کو شامل ہوگی۔
برخلاف بعض اشاعرہ کے قول کے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جو ایسی تمیز پیدا کرتی ہے جو نقیض کا احتمال نہیں رکھتا کیونکہ یہ تعریف اگرچہ حواس کے ادراک کو بھی شامل ہے معانی کی قید نہ لگانے کی بناء پر اور تصورات کو بھی شامل ہے، اس بناء پر کہ بعض لوگوں کے بقول تصورات کی نقیض ہی نہیں ہوتی، لیکن یہ تعریف تصدیقات غیر یقینیہ کو شامل نہیں ہوگی۔ لیکن مناسب ہے کہ (پہلی تعرف میں) تجلی کو انکشاف تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اشاعرہ کے نزدیک علم ظن ما مقابل ہے۔ (اور اسباب علم) مخلوق فرشتہ، انسان اور جنات کے لئے استقراء کی رو سے تین ہیں حواس سلیمہ اور خبر صادق اور عقل، بخلاف باری تعالیٰ کے علم کے کہ خود اس کی ذات کی وجہ سے ہے کسی سبب کے سہارے نہیں ہے وجہ حصر یہ ہے کہ سبب اگر (مدرک سے) خارج ہے تو وہ خبر صادق ہے ورنہ اگر وہ آلہ ہے (ادراک کا) کو مدرک کا غیر ہے تو حواس ہیں ورنہ پھر عقل ہے۔
اگر یہ کہا جاوے کہ سبب مؤثر یعنی سبب حقیقی تو تمام علوم میں صرف اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ سارے علوم حاسّہ اور خبر صادق اور عقل کی تاثیر کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے خلق اور اس کی ایجاد کا نتیجہ ہیں اور حواس و اخبار تو ادراک میں آلہ اور طریق ہیں، اور سبب فی الجملہ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے مطابق اس کے ہوتے ہوئے (شئی کا) علم پیدا فرمادیں تاکہ (سبب بایں معنیٰ) مدرک جیسے عقل کو آلہ جیسے حس کو اور طریق جیسے خبر کو شامل ہو جائے۔ تو وہ (سبب بمعنی مذکور) ان ہی تین میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ یہاں کچھ اور چیزیں بھی ہیں، مثلاً وجدان اور حدس اور نظر عقل جنی ترتیب مبادی اور ترتیب مقدمات۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ (اسباب علم کا تین ہونا) مشائخ (اہل حق) کی اس عادت پر مبنی پے جو مقاصد پر اکتفا کرنے اور فلاسفہ کی موشگافیوں سے اعراض کرنے کے سلسلہ میں رہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے بعض ادراکات کو ان حواس ظاہرہ کے استعمال کے بعد حاصل ہوتے دیکھا جن کے وجود میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا غیر ذوی العقول کے ہوں تو انہوں نے حواس کو (علم کا) ایک سبب قرار دیا اور جب کہ دینی معلومات کا بیشتر حصہ خبر صادق سے معلوم ہوا ہے تو خبر صادق کو دوسرا سبب قرار دیا اور چونکہ مشائخ اہل حق کے نزدیک جس مشترک، خیال، اور وہم وغیرہ نامی حواس باطنہ کا وجود ثابت نہیں ہے اور حسیات، تجربات، بیہیات، اور نظریات کی تفصیلات سے ان کا کوئی فائدہ وابستہ نہیں تھا اور ان سب علوم کا مرجع عقل ہی ہے تو عقل کو تیسرا سبب قرار دیا۔ جو محض التفات سے یا حدس یا تجربہ کے انضمام سے یا ترتیب مقدمات کے واسطہ سے علم کا سبب ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کے علم کا کہ ہم کو بھوک اور پیاس لگی ہے۔ اور اس بات کے علم کا کہ کل اپنے جزء سے بڑاہوتا ہے اور اس بات کے علم کا کہ چاند کی روشنی سورج سے مستفاد ہے۔ اور اس بات کے علم کا کہ سقمونیا دست آور ہے سبب عقل ہی کو قرار دیا، اگرچہ ان میں سے بعض میں علم حس کی مدد سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
پس حواس جو حاسّہ بمعنی قوت حاسّہ کی جمع ہے پانچ ہیں بایں معنی کہ عقل بدیہی طور پر ان کے وجود کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ رہے حواس باطنہ، جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں تو ان کے (ثبوت کے) دلائل اسلامی قواعد پر پورے نہیں اترتے۔ (ان حواس خمسہ میں سے ایک) سمع ہے اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو کان کے سوراخ کے باطن میں بچھے ہوئے پٹھوں میں (منجانب اللہ) رکھی ہوئی ہے اس کے ذریعہ کان کے سوراخ میں اس ہوا کے پہونچنے کے واسطہ سے جو آواز کی کیفیت کے ساتھ متصف ہوتی ہے۔ آوازوں کا ادراک کیا جاتا ہے۔ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اس وقت نفس میں ادراک پیدا فرما دیتے ہیں۔
اور (حواس) ظاہرہ خمسہ میں سے دوسرا حاسّہ ) بصر ہے اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو ان دو کھوکھلے پٹھوں میں رکھی ہوئی ہے جو باہم دماغ میں ملے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے جدا ہو کر دونوں آنکھوں میں پہونچتے ہیں۔ اس (قوت) کے ذریعہ روشنیوں، رنگوں اور شکلوں اور مقداروں اور حرکتوں اور خوبصورتی و بدصورتی وغیرہ کا ادراک ہوتا ہے جن کا ادراک بندے کے اس قوت استعمال کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ نفس میں پیدا فرماتے ہیں۔
اور حواس میں سے تیسرا حاسّہ شیم ہے اور وہ مقدم دماغ میں پستان کی گھنڈیوں کے مشابہ پیدا پونے والے گوشت کت دو ٹکڑوں میں ودیعت کی ہوئی وہ قوت ہے جس کے ذریعہ بودار چیز کی کیفیت (بو) کے ساتھ متصف ہونے والی ہوا کے ناک کے بانسہ تک پہونچنے کے واسطہ سے ہر قسم کی بو کا ادراک ہوتا ہے۔
اور حواس میں سے چوتھا حاسّہ ذوق ہے اور وہ ایسی قوت ہے جو زبان کے اوپر بچھے ہوئے پٹھے میں ودیعت کی ہوئی ہے اس کے ذریعہ کھائی جانے والی یا ذائقہ والی چیز کے ساتھ منہ کے اندر کی لعابی رطوبت کے اختلاط کرنے اور اس رطوبت کے مذکورہ پٹھے تک پہونچنے کے واسطے سے (ہر قسم کے) ذائقوں کا ادراک ہوتا ہے اور حواس خمسہ سے پانچواں حاسّہ لمس ہے اور یہ ایسی قوت ہے جو تمام بدن میں پھیلی ہوئی ہے اس کے ذریعہ بدن کے ساتھ مس اور اتصال کرنے کے وقت حرارت، برودت، رطوبت، یبوست وغیرہ کا ادراک ہوتا ہے۔
اور ان حواس خمسہ میں سے ہر حاسّہ ک ذریعہ اسی چیز کی آگاہی ہوتی ہے جس کے لئے وہ حاسّہ پیدا کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے ان حواس میں سے ہر ایک کو کچھ مخصوص اشیاء کے ادراک کے لئے پیدا کیا ہے۔ مثلاً حسّہ سمع کو آوازوں کے (ادراک کے) لئے اور خاسّہ صوق کو ذائقوں کے (ادراک کے) لئے اور قوت شامّہ کو خوشبوؤں ، بدبوؤں کے (ادراک کے) لئے (پیدا کیا ہے) ان (میں سے کسی) کے ذریعہ ایسی چیز کا ادراک نہیں ہوتا جس کا ادراک دوسرے حاسّہ سے ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ کیا ایسا ممکن ہے (یا نہیں؟) تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اور حق امکان ہے۔ کیونکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ حواس کے مؤثر ہونے کی وجہ سے نہیں۔ پس یہ بات محال نہیں کہ قوت باصرہ کو متوجہ کرنے کے بعد مثلاً آواز کا ادراک پیدا فرمادیں، پھر اعتراض کیا ہمارے کہ کیا قوت ذائقی ایک شئ کی حلاوت اور حرارت کا ایک ساتھ ادراک نہیں کرتی، ہم جواب دیں گے کہ نہیں، بلکہ حلاوت کا ادراک قوت ذائقہ کے ذریعہ ہوتا ہے اور حرارت کا ادراک اس قوت لامسہ کے ذریعہ ہوتا ہے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔ صفحہ 49 - 64 بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی، استاذ دار العلوم دیوبند – مکتبہ سید احمد شہید
اور علم کے اسباب اور علم ایسی صفت ہے جس کے ذریعہ منکشف ہو جائے مذکور اس شخص پر جس کے ساتھ یہ صفت قائم ہے یعنی واضح اور ظاہر ہو جائے وہ چیز جس کا ذکر کیا جا سکے اور جس کو تعبیر کرنا ممکن ہو موجود ہو یا معدوم ہو، تو یہ تعریف شامل ہے حواس کے ادراک کو اور عقل کے ادراک کو یعنی تصورات یقینیہ کو بخلاف ان کے اس قول کے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جو ایسی تمیز کو ثابت کرے جس میں یقیض کا احتمال نہ ہو پس یہ تعریف اگرچہ شامل ہے حواس کے ادراک کو بناء کرتے ہوئے معانی کے ساتھ مفید کرنے کے ساتھ۔ (اور شامل ہے) تصورات کو بناء کرتے ہوئے اس پر کہ تصورات کی نقیض نہیں ہیں جیسا کہ مناطقہ نے گمان کیا ہے لیکن یہ تعریف شامل نہیں ہے تصدیقات میں سے یقینیات کو اسے محفوظ کرلو۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ تجلی کو (جو پہلی تعریف میں ہے) اس انکشافِ تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہ ہو اس لئے کہ علم ان کے نزدیک ظن کا مقابل ہے ( علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے بخلاف حق تعالیٰ کے علم کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں۔ تین (3) ہیں، حواس سلیمہ اور خبر صادق اور عقل اسقراء کے حکم سے اور ضبط کی دلیل یہ ہے کہ سبب اگر خارجی ہو تو وہ خبر صادق ہے ورنہ اگر وہ آلۂ غیر مدرک ہو تو حواس ہیں ورنہ تو عقل ہے۔
پس اگر اعتراض کیا جائے کہ وہ سبب جو تمام علوم میں مؤثر ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے اس لئے کہ تمام علوم اس کے خلق اور ایجاد کے سبب سے ہیں بغیر حاسہ اور خبر اور عقل کی تاثیر کے۔
اور سبب ظاہری جیسے إحراق (جلانا) کے لئے آگ ہے وہ صرف عقل ہے نہ کہ غیر اور حواس اور اخبار ادراک کے آلات اور طرق ہیں۔
اور سبب مفضی فی الجملہ اس طریقہ پر کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ عادۃ اللہ کے جاری ہونے کے طریقہ پر ہمارے اندر علم کا خلق فرما دے تاکہ (یہ سبب) مشتمل ہو جائے مُدرک کو جیسے عقل اور آلہ کو جیسے حِس اور طریق کو جیسے خبر (لہٰذا سبب فی الجملہ) تین میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسری چیزیں ہیں اور آلہ کو جیسے وجدان اور حدس اور تجربہ اور نظر العقل مبادی اور مقدمات کو ترتیب دینے کے معنی میں۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ مشایخ کی عادت کے مطابق ہے مقاصد پر اکتفاء کرنے میں اور فلاسفہ کی بریکیوں سے اعراض کرنے میں، پس بیشک مشایخ نے جب پایا بعض ادراکات کو حاصل ہونے والے ان حواسِ طاہرہ کے استعمال کے بعد جن میں کوئی شک نہیں خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا ان کے غیر کے، تو انہوں نے حواس کو اسباب میں سے ایک قرار دیا۔
اور جبکہ معلوماتِ دینیہ کا زیادہ تر حصہ خبر صادق سے مستفاد ہے تو مشائخ نے خبر کو دوسرا سبب قرار دیا اور جبکہ مشائخ کے نزدیک حواسِ باطنہ جن کا نام رکھا ہوا ہے حس مشترک اور خیال اور وہم اور اس کے علاوہ کے ساتھ ثابت نہیں ہوئے اور مشائخ کو کوئی غرض متعلق نہ ہوئی، حدسیات اور تجربیات اور بدیہیات اور نظریات کی تفاصیل کے متعلق اور ان سب کا مرجع عقل کی طرف تھا انہوں نے عقل کو تیسرا سبب قرار دیا جو مفضی الی العلم ہے اس طریقہ پر کہ ہم کو بھوک اور پیاس ہے اور کل جزء سے بڑا ہے، اور چاند کا نور سورج سے مستفاد ہے اور سقمونیا مُسہِل ہے، اور عالم حادث ہے (تو بنا دیا انہوں نے علم کا سبب) عقل ہی کو اگر چہ عقل بعض چیزوں میں حِس کی مدد سے (علم کا سبب ہے)۔
پس حواس حاسّہ کی جمع ہے، قوت حاسّہ کے معنیٰ میں پانچ ہیں اس معنیٰ کرکے کہ عقل بداہۃ ان کے وجود کا فیصلہ کرتی ہے اور بہر حال حواسِ باطنہ جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں ان کے دلائل اصول اسلامیہ کے مطابق تام نہیں ہیں۔
ادراک کرلیا جاتا ہے اس قوت کے ذریعہ آوازوں کا اس ہوا کے پہونچنے کے طریقہ پر کان کے سوراخ کے باطن کے جانب جو متکیف ہے صوت کی کیفیت کے ساتھ۔
اس معنیٰ کرکہ اللہ تعالیٰ نفس کے انداز اس وقت ادراک کا خلق فرما دیتے ہیں۔
اور بصر وہ قوت ہے جو ان دو پٹھوں میں رکھدی گئی ہے جو کھوکھلے ہیں جو مل جاتے ہیں پھر دونوں جدا ہو جاتے ہیں پھر دونوں آنکھوں کی طرف پہونچ جاتے ہیں۔
ادراک کیا جاتا ہے اس قوت کے ذریعہ روشنیوں اور رنگوں اور شکلوں اور مقادیر اور حرکات اور حسن و قبح اور اس کے علاوہ کا ان چیزوں میں سے کہ جسلے ادراک نفس میں اللہ تعالیٰ خلق فرمادے بندہ کے اس قوت کو استعمال کرنے کے وقت میں۔
اور شم وہ قوت ہے جس کو ان دو گوشت کے ٹکڑوں میں رکھ دیا گیا ہے جو مقدمِ دماغ میں اگتے ہیں جو پستان کے دونوں سروں کے مشابہ ہیں، اس قوت کے ذریعہ بوؤں کا ادراک ہو جاتا ہے اس ہوا کے خیثوم تک پہنونچے کے طریقہ پر جو بو والی چیز کی کیفیت کے ساتھ متکیف ہے۔
اور ذوق وہ قوت ہے جو پھیلی ہوئی ہے اس پٹھے میں جو زبان کے جرم پر بچھا ہوا ہے اس کے ذریعہ ذائقوں کا ادراک کرلیا جاتا ہے اس رطوبۃ لعابیہ کے ملنے کی وجہ سے جو منہ میں ہے مطعوم کے ساتھ اور اس کے پہونچنے کی وجہ سے پٹھے کی طرف۔
اور لمس وہ قوت ہے جو پھیلی ہوئی ہے پورے بدن میں جس کے ذریعہ حرارت اور برودت اور رطوبت اور یبوست اور اس کے مثل کا ادراک کر لیا جاتا ہے چھونے اور ملنے کے وقت اس کے ساتھ۔
اور حواسِ خمسہ میں سے ہر ایک حاسّہ سے واقفیت اور اطلاع ہوتی ہے اس شئ پر کہ یہ حاسہ جس کے کئے وضع کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ حاسوں میں سے ہر ایک کو اشیاء مخصوصہ کے ادراک کے لئے پیدا فرمایا ہے جیسے سمع آوازوں کے لئے اور ذوق ذائقوں کے لئے اور شم بوؤں کے لئے ادراک نہیں کیا جائے گا کسی حاسہ سے اس چیز کا جس کا ادراک دوسرے حس سے کیا جاتا ہے اور بہر حال یہ بات کہ کیا یہ جائز ہے تو اس میں اختلاف ہے علماء کے درمیان اور حق جواز ہے اس لئے کہ یہ محض اللہ کے خلق سے ہے بغیر حواس کی تاثیر کے تو یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قوت باصرہ کے استعمال کے بعد مثلاً آوازوں کے ادراک کا خلق فرمادے۔ پس اگر اعتراض کیا جائے کہ کیا قوتِ ذائقہ شئ کی حلوات اور حرارت دونوں کا ادراک نہیں کرتی تو ہم کہیں گے کہ نہیں بلکہ حلاوت کا ادراک ہوتا ہے ذوق سے اور حرارت کا اس قوتِ لمس سے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔
صفحہ 78 - 93 جواهر الفوائد شرح العقائد – محمد یوسف تاؤلوی، استاذ دار العلوم دیوبند – بک لینڈ، لاہور
اور اسباب علم، اور علم ایسی صفت ہے کہ جس کی وجہ سے منکشف ہو جائے مذکورہ (شئ) اس شخص پر کہ جس کے ساتھ یہ صفت قائم ہے یعنی واضح اور ظاہر ہو جائے وہ چیز کہ جس کا ذکر کیا جا سکے اور جس کو تعبیر کرنا ممکن ہو خواہ وہ موجود ہو یا معدوم ہو تو یہ (تعریف) شامل ہے حواس کے ادراک کو اور عقل کے ادراک کو یعنی تصورات کو اور تصدیقاتِ یقینیہ اور غیر یقینیہ کو۔
بخلاف ان (اشاعرہ) کے اس قول کے علم ایک ایسی صفت ہے کہ جو ایسی تمیز کو ثابت کرے کہ جس میں نقیض کا احتمال نہ ہو۔ پس یہ تعریف اگرچہ شامل ہے حواس کے ادراک کو بناء کرتے ہوئے معافی کے ساتھ مقید نہ کرتے ہوئے اور (شامل ہے) تصورات کو، بناء کرتے ہوئے اس پر کہ تصورات کی نقیض نہیں ہے جیسا کہ مناطقہ نے گمان کیا ہے، لیکن یہ (تعریف) شامل نہیں ہے تصدیقات میں سے غیر یقینیات کو۔ یہ محفوظ کرلو۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ (پہلی تعریف میں) ''یتجلّٰی'' کو انکشاف تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہیں ہوتا، اس لئے کہ علم ان (اشاعرہ) کے نزدیک ''ظن'' کا مقابل ہے۔
(اور علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے، بخلاف حق تعالیٰ کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں ہے۔ تین (3) ہیں، حواسِ سلیمہ، خبر صادق اور عقل۔ استقراء کے حکم سے وجہ ضبط (حصر) یہ ہے کہ سبب اگر (مدرک سے) خارج ہے تو وہ خبرِ صادق ہے ورنہ اگر وہ آلۂ غیر مدرک ہو تو وہ حواس ہیں ورنہ پھر عقل ہے۔
پس اگر کہا جائے کہ وہ سبب جو تمام علوم میں مؤثر ہے وہ اللہ تعالیٰ ہیں اس لئے کہ (سارے) علوم اس کے خلق اور اس کے ایجاد کے سبب سے حاسہ اور خبر اور عقل کی تاثیر کے بغیر ہیں۔ اور سبب ظاہری جیسے آگ احراق (جلانے) کے لئے ہے وہ صرف عقل ہے نہ کہ غیر۔ اور حواس اور اخبار صرف ادراک کے آلات اور طرق ہیں۔ اور سبب مفضی فی الجلمہ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اپنی عادت کے جاری ہونے کے طریقہ پر ہمارے اندر علم کا خلق (شئی کا علم) فرما دے تاکہ (یہ سبب) شامل ہو جائے مُدرک کو جیسے عقل ہے اور آلہ کو جیسے حس ہے اور طریق کو جیسے خبر (لہٰذا سبب فی الجملہ) تین (3) میں منحصر نہیں ہے بلکہ یہاں کچھ اور چیزیں بھی ہیں جیسے وجدان اور حدس اور تجربہ اور نظر عقل جو مقدمات کو ترتیب دینے کے معنیٰ میں ہے۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ (اسباب علم کا تین ہونا) مشایخ کی عدت کے مطابق ہے مقاصد پر اکتفاء کرنے میں اور فلاسفہ کی باریکیوں سے اعراض کرنے میں، اس لئے کہ انہوں نے جب بعض ادراکات کو ان حواسِ طاہرہ کے استعمال کے بعد حاصل ہوتے ہوئے پایا کہ جن میں کوئی شک نہیں ہے خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا ان کے غہر کے۔ تو انہوں نے حواس کو اسباب میں سے ایک سبب (علم کا) دوسرا قرار دیا۔ اور جب کہ معلوماتِ دینیہ کا زیادہ تر حصہ خبرِ صادق سے مستفاد ہے تو مشائخ نے خبرِ صادق کو (علم کا) دوسرا سبب قرار دیا اور جبکہ مشائخ کے نزدیک حواسِ باطنہ کہ جن کا نام حس مشترک اور خیال اور وہم اور اس کے علاوہ (جن کا وجود) ثابت نہیں ہے۔ اور مشائخ کی کوئی غرض متعلق نہ ہوئی حدسیات، تجربیات، بدیہیات اور نظریات کی تفاصیل سے۔ اور ان سب کا مرجع عقل ہے۔ تو انہوں نے عقل کو تیسرا سبب قرار دیا جو مفضی الی العلم ہے محض التفات سے یا حدس یا تجربہ کے انضمام سے یا مقدمات کی ترتیب سے تو انہوں نے علم کا سبب بنا دیا، بایں طور کہ ہمیں بھوک اور پیاس لگی اور (اس بات کا علم کہ) کُل اپنے جزء سے بڑا ہوتا ہے اور (اس بات کا علم کہ) چاند کی روشنی سورج سے مستفاد ہے اور (اس بات کا علم کہ) سقمونیا دست آور ہے اور (اس بات کا علم کہ) عالم حادث ہے (سبب) عقل کو قرار دیا۔ اگرچہ ان میں سے بعض چیزوں میں علم حس کی مدد سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
پس حواس، حاسہ کی جمع ہے جو قوت کے معنی میں ہے۔ پانچ ہیں بائیں معنی کہ عقل بداہۃ ان کے وجود کا فیصلہ کرتی ہے اور بہر حال حواسِ باطنہ کہ جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں ان کے (ثبوت کے) دلائل اسلامی اسولوں کے مطابق تام نہیں ہیں (ان حواسِ خمسہ میں سے ایک) سمع ہے اور وہ ایسی قوت ہے کہ جو کان کے سوراخ کے باطن میں بچھے ہوئے پٹھوں میں (من جانب اللہ) رکھدی گئی ہے اس کے ذریعہ کان کے سوراخ میں اس ہوا کے پہنچنے کے طریقہ پر آواز کی کیفیت کے ساتھ متصف ہوتی ہے آوازوں کا ادراک کیا جاتا ہے بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اس وقت نفس میں ادراک پیدا فرما دیتے ہیں۔
اور (حواسِ خمسہ میں سے دوسرا حاسہ) بصر ہے وہ ایسی قوت ہے جو ان دوو کھوکھلے پٹھوں میں رکھی ہوئی ہے جو (دماغ میں) ملے ہوئے ہیں پھر دونوں جدا جاتے ہیں پھر دونوں آنکھوں کی طرف پہنچ جاتے ہیں۔
ادراک کیا جاتا ہے اس قوت (باصرہ) کے ذریعہ سے روشنیوں اور شکلوں اور مقادیر اور حرکات اور حُسن وقبح اور اس کے علاوہ کا ان چیزوں میں سے کہ جس کا ادراک نفس میں اللہ تعالیٰ پیدا فرمادے بندہ اس قوت کو استعمال کرنے کے وقت۔
اور(حواس میں سے تیسرا حاسہ) شمّ ہے وہ ایسی قوت ہے کہ جس کو اس دو گوشت کے ٹکڑوں میں ودیعت رکھ دیا گیا ہے جو مقدم دماغ میں اُگتے ہیں جو پستان کے دونوں سِروں کے مشابہ ہیں اس (قوت) کے ذریعہ بوؤں کا ادراک ہو جاتا ہے اس ہوا کے خیثوم تک کے طریقہ پر جو بو والی چیز کی کیفیت کے ساتھ متکیف ہے۔
اور (حواس میں سے چوتھا حاسہ) ذوق ہے وہ ایسی قوت ہے جو پھیلی ہوئی ہے اس پٹھے میں کہ جو زبان کے جرم پر بچھا ہوا ہے اس کے ذریعہ ذائقوں کا ادراک کیا جاتا ہے اس رطوبت لُعابیہ کے ملنے کی وجہ سے منہ میں ہے مطعوم (کھائی جانے والی چیز) کے ساتھ اور اس کے پہنچنے کی وجہ سے پٹھے کی طرف۔
اور (حواس میں سے پانچواں حاسہ) لمس ہے اور یہ ایسی قوت ہے جو تمام بدن میں پھیلی ہوئی ہے جس کے ذریعہ حرارت اور بُرودت اور رُطوبت اور یبوست اور مثل کا ادراک کیا جاتا ہے چھونے اور ملنے کے وقت اس (بدن) کے ساتھ۔
اور ان حواس خمسہ میں سے پر ایک حاسہ سے واقفیت اور اطلاع ہوتی ہے اس شئ پر کہ جس کے لئے وہ حاسہ وضع کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان حاسوں میں سے پر ایک کو اشیاء مخصوصہ کے ادراک کے لئے پیدا فرمایا ہے جیسے سمع آوازوں کے لئے اور ذوق ذائقوں کے لئے اور شم بوؤں کے لئے، ادراک نہیں کیا جائے گا کسی حاسہ سے اس چیز کا کہ جس کا ادراک دوسرے حاسہ سے کیا جاتا ہے۔ اور بہر حال کیا یہ بات جائز ہے تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ اور حق بات امکان ہے اس لئے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہوتا ہے بغیر حواس کی تاثیر کے، تو یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قوتِ باصرہ کے استعمال کے بعد مثلاً آوازوں کے ادراک کا خلق فرمادیں۔
پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ کیا قوتِ ذائقہ شئ کی حلاوت اور حرارت دونوں کا ادراک نہیں کرتی تو ہم جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ حلاوت کا ادراک ہوتا ہے ذوق سے حرارت کا اس قوتِ لامسہ سے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔
صفحہ 57 - 73 توضیح العقائد فی حل شرح العقائد – اکرام الحق، استاذ جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان– جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور اسباب علم اور وہ (علم) ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے شئ اس شخص کو منکشف اور واضح ہو جاتی ہے جس کے ساتھ وہ (صفت) قائم ہوتی ہے، یعنی واضح اور ظاہر ہو جاتی ہے وہ چیز جو ذکر کی جاتی ہے اور جس کا تعبیر کیا جانا (زبان سے ذکر کیا جانا) ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ تعریف حواس کے ادراک اور عقل کے ادراک یعنی تصور اور تصدیقات یقینیہ اور غیر یقینیہ (سب) کو شامل ہوگی۔
برخلاف بعض اشاعرہ کے قول کے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جو ایسی تمیز پیدا کرتی ہے جو نقیض کا احتمال نہیں رکھتا کیونکہ یہ تعریف اگرچہ حواس کے ادراک کو بھی شامل ہے، معافی کی قید نہ لگانے کی بناء پر اور تصورات کو بھی (شامل ہے)۔ اس بناء پر بعض لوگوں کے بقول تصورات کی نقیض ہی نہیں ہوتی، لیکن یہ تعریف تصدیقات غیر یقینیہ کو شامل نہیں ہوگی لیکن مناسب ہے کہ (پہلی تعریف میں) تجلی کو انکشاف تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہیں ہوتا، اس لئے کہ اشاعرہ کے نزدیک علم ظن کا مقابل ہے۔
(اسباب علم) مخلوق فرشتہ انسان اور جنات کے لئے اسقراء کی رو سے تین ہے حواس سلیمہ، خبر صادق اور عقل برخلاف باری تعالیٰ کے علم کے کہ وہ خود اس کی ذات کی وجہ سے ہے کسی سبب کے سہارے نہیں ہے، وجہ حصر یہ ہے کہ سبب اگر (مدرک سے) خارج ہے، تو وہ خبر صادق ہے ورنہ اگر وہ آلہ ہے (ادراک کا) جو مدرک کا غیر ہے، تو حواس ہے ورنہ پھر عقل ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ سبب مؤثر یعنی سبب حقیقی تو تمام علوم میں صرف اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ سارے علوم حاسہ اور خبر صادق اور عقل کی تاثیر کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے خلق اور اس کی ایجاد کا نتیجہ ہیں اور حواس و اخبار تو ادراک میں آلہ اور طریق ہیں اور سبب فی الجملہ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اپنی عادت کے مطابق اس کے ہوتے ہوئے (شئ کا) علم پیدا فرما دیں تاکہ ( سبب بایں معنی) مدرک جیسے عقل کو اور آلہ جیسے حس کو اور طریق جیسے خبر شامل ہو جائے۔ تو وہ ( سبب بمعنی مذکور) ان ہی تین (3) میں منحصر نہیں ہے بلکہ یہاں کچھ اور چیزیں بھی ہیں مثلاً وجدان، حدس اور نظر عقل بمعنی ترتیب مبادی اور ترتیب مقدمات۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ (اسباب علم کا تین ہونا) مشائخ (اہل حق) کی اس عادت پر مبنی ہے جو مقاصد پر اکتفاء کرنے اور فلاسفہ کی موشگافیوں سے اعراض کرنے کے سلسلہ میں رہی ہے کیونکہ انہوں نے بعض ادراکات کو ان حواس ظاہرہ کے استعمال کے بعد حاصل ہوتے دیکھا جن ے وجود میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا غیر ذوی العقول کے اس لئے انہوں نے حواس کو (علم کا) ایک سبب قرار دیا، اور جب کہ دینی معلومات کا بیشتر حصہ خبر صادق سے معلوم ہوا ہے، تو خبر صادق کو دسورا سبب قرار دیا اور چونکہ مشائخ اہل حق کے نزدیک حس مشترک، خیال اور اہم وغیرہ نامی حواس باطنہ کا وجود ثابت نہیں، اور حدسیات، تجربیات، بدیہیات اور نطریات کی تفصیلات سے ان کا کوئی فائدہ وابستہ نہیں، اور ان سب علوم کا مرجع عقل ہی ہے۔ تو عقل کو تیسرا سبب قرار دیا ، جو محض التفات سے یا حدس یا تجربہ کے انضمام سے یا ترتیب مقدمات کے واسطہ سے علم کا سبب ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا علم کا ہم کو بھوک اور پیاس لگی ہے اور اس بات کے علم سبب ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کے علم کا کہ ہم کو بھوک اور پیاس لگی ہے اور اس بات کے علم کا کہ کل اپنے جز سے بڑا ہوتا ہے، اور اس بات کے علم کا کہ چاند کی روشنی سورج کی روشنی سے مستفاد ہے، اور اس بات کے علم کا سقمونیا دست آور ہے سبب عقل ہی قرار دیا۔ اگر چہ ان میں سے بعض میں علم حس کی مدد سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
پس حواس جو حاسہ کی جمع ہے بمعنیٰ قوت، حاسہ پانچ ہیں بایں معنیٰ کہ عقل بدیہی طور پر ان کے وجود کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ رہا حواس باطنیہ، جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں تو ان کے (ثبوت کے) دلائل اسلامی قواعد پر پورے نہیں اترتے۔ (ان حواس خمسہ میں سے ایک) سمع ہے اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو کان کے سوراخ کے باطن میں بچھے ہوئے پٹھوں میں (منجانب اللہ) رکھی ہوئی ہے اس کے ذریعہ کان کے سوراخ میں اس ہوا کے پہونچنے کے واسطے سے جو آواز کی کیفیت کے ساتھ متصف ہوتی ہے۔ آوازوں کا ادراک کیا جاتا ہے۔ بایں معنیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس وقت نفس میں ادراک پیدا فرمادیتے ہیں۔
اور (حواس ظاہرہ خمسہ میں سے دوسرا حاسہ) بصر ہے۔ اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو ان دو کھوکھلے پٹھوں میں رکھی ہوئی ہے جو باہم دماغ میں ملے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے جدا ہو کر دونوں آنکھوں میں پہنچتے ہیں۔ اس (قوت) کے ذریعہ روشنیوں، رنگوں اور شکلوں اور مقداروں اور حرکتوں اور خوبصورتی وغیرہ ایسی چیزوں کا ادراک ہوتا ہے جن کا ادراک بندے کے اس قوت کو ستعمال کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ نفس میں پیدا فرما دیتے ہیں۔
اور حواس میں تیسرا حاسہ شم ہے، اور مقدم دماغ میں پستان کی گھنڈیوں کے مشابہ پیدا ہونے والے گوشت کے دو ٹکڑوں میں ودیعت کی ہوئی وہ قوت ہے جس کے ذریعے بودار چیز کی کیفیت (بو) کے ساتھ متصف ہونے والی ہوا کے ناک کے بانسہ تک پہنچنے کے واسطہ سے ہر قسم کو بو کا ادراک ہوتا ہے۔ اور حواس میں سے چوتھا حاسہ ذوق ہے اور وہ ایسی قوت ہے جو زبان کے اوپر بچھے ہوئے پٹھے میں ودیعت کی ہوئی ہے، اس کے ذریعے کھائے جانی والی یا ذائقہ والی چیز کے ساتھ منہ کے اندر کی لعابی رطوبت کے اختاط کرنے اور اس رطوبت کے (مذکورہ پٹھے تک پہنچنے کے واسطے سے) (ہر قسم کے) ذائقوں کا ادراک ہوتا ہے، اور حواس خمسہ میں سے پانچواں حاسہ لمس ہے اور یہ ایسی قوت ہے جو تمام بدن میں پھیلی ہوئی ہے، اس کے ذریعے بدن کے ساتھ مس اور اتصال کرنے کے وقت حرارت، برودت، رطوبت، یبوست وغیرہ کا ادراک ہوتا ہے۔
اور ان حواس خمسہ میں سے ہر حاسہ کے ذریعہ اسی چیز کی آگاہی ہوتی ہے، جس کے لئے وہ حاسّہ پیدا کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان حواس میں سے ہر ایک کو مخصوص اشیاء کے ادراک کے لئے پیدا کیا ہے، مثلاً حاسہ سمع کو آوازوں کے (ادراک کے لئے) اور حاسہ ذوق کو ذائقوں کے (ادراک کے لئے) اور قوت شامہ کو خوشبوؤں، بدبوؤں کے ادراک کے لئے پیدا کیا ہے، ان (میں سے کسی) کے ذریعے ایسی چیز کا ادراک نہیں ہوتا، جس کا ادراک دوسرے حاسہ سے ہوتا ہے، رہی بات کہ کیا ایسا ممکن ہے (یا نہیں؟) تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اور حق امکان ہے کیونکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ حواس کے مؤثر ہونے کی وجہ سے نہیں، پس یہ بات محال نہیں کہ قوت باصرہ کو متوجہ کرنے کے بعد مثلاً آواز کا ادراک پیدا فرمادیں، پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ کیا قوت ذائقہ ایک شئ کی حلوات اور حرارت کا ایک ساتھ ادراک نہیں کرتی، ہم جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ حلاوت کا ادراک قوت ذائقہ کے ذریعے ہوتا ہے اور حرارت کا ادراک اس قوت لامسہ کے ذریعے ہوتا ہے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔
صفحہ 87 - 106 اشرف الفوائد اردو شرح العقائد – فدا محمد – مدنی کتب خانہ
مذکورہ بالا عبارت میں جو اہم ترین نکتہ مندرجہ ذیل ہے:
(للخَلْقِ)
أي المخلوق، من الملك والإنس والجن، بخلاف علم الخالق تعالى، فإنه لذاته لا لسبب من الأسباب. ( علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے بخلاف حق تعالیٰ کے علم کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں۔
یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ما فوق الاسباب ہیں!
ممکن ہے کوئی منچلا یہ کہہ دے کہ ما فوق الاسباب اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنے کی دلیل نہیں،
لہٰذا ہم اس کی وضاحت بھی کئے دیتے ہیں کہ بالکل ما فوق الاسباب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص ہے؛ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (سورة الشورى 11) آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، تمہارے لیے تمہیں میں سے جوڑے بنائے اور نر و مادہ چوپائے، اس سے تمہاری نسل پھیلاتا ہے، اس جیسا کوئی نہیں، اور وہی سنتا دیکھتا ہے (ترجمہ: احمد رضا خان بریلوی)
اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں:
کوئی چیز ذات میں یا صفات میں اللہ تعالیٰ کی مانند نہیں تاکہ اگر اللہ کو چھوڑ کر اس کی پناہ لی جائے تو اس کا کام بن جائے۔ انسان کو اپنے خالق کا در چھوڑ کر کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ وہ سمع اور بصیر ہے۔ اپنی ہر مخلوق کی فریاد اور اس کا نالۂ و درد بھی سُن رہا ہے اور اس کی حالت زار کو بھی دیکھ رہا ہے۔ اور کون ہے جس کی یہ شان ہو۔ صفحہ 366 (2448) جلد 04 ضیاء القرآن – محمد کرم شاہ الازہری – ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور
قاضی عیاض کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں:
قَالَ الْقَاضِي أَبُو الْفَضْلِ : - وَفَّقَهُ اللَّهُ تَعَالَى - ، وَهَا أَنَا أَذْكُرُ نُكْتَةً أُذَيِّلُ بِهَا هَذَا الْفَصْلَ ، وَأَخْتِمُ بِهَا هَذَا الْقِسْمَ ، وَأُزِيحُ الْإِشْكَالَ بِهَا فِيمَا تَقَدَّمَ عَنْ كُلِّ ضَعِيفِ الْوَهْمِ ، سَقِيمِ الْفَهْمِ ، تُخَلِّصُهُ مِنْ مَهَاوِي التَّشْبِيهِ ، وَتُزَحْزِحُهُ عَنْ شُبَهِ التَّمْوِيهِ ، وَهُوَ أَنْ يَعْتَقِدَ أَنَّ اللَّهَ - تَعَالَى - جَلَّ اسْمُهُ فِي عَظَمَتِهِ ، وَكِبْرِيَائِهِ ، وَمَلَكُوتِهِ ، وَحُسْنَى أَسْمَائِهِ ، وَعُلِيِّ صِفَاتِهِ ، لَا يُشْبِهُ شَيْئًا مِنْ مَخْلُوقَاتِهِ ، وَلَا يُشَبَّهُ بِهِ ، وَأَنَّ مَا جَاءَ مِمَّا أَطْلَقَهُ الشَّرْعُ عَلَى الْخَالِقِ ، وَعَلَى الْمَخْلُوقِ ، فَلَا تَشَابُهَ بَيْنَهُمَا فِي الْمَعْنَى الْحَقِيقِيِّ ، إِذْ صِفَاتُ الْقَدِيمِ بِخِلَافِ صِفَاتِ الْمَخْلُوقِ ، فَكَمَا أَنَّ ذَاتَهُ لَا تُشْبِهُ الذَّوَاتَ كَذَلِكَ صِفَاتُهُ لَا تُشْبِهُ صِفَاتَ الْمَخْلُوقِينَ ، إِذْ صِفَاتُهُمْ لَا تَنْفَكُّ عَنِ الْأَعْرَاضِ ، وَالْأَغْرَاضِ ، وَهُوَ - تَعَالَى - مُنَزَّهٌ عَنْ ذَلِكَ ، بَلْ لَمْ يَزَلْ بِصِفَاتِهِ ، وَأَسْمَائِهِ ، وَكَفَى فِي هَذَا قَوْلُهُ : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾.
وَلِلَّهِ دَرُّ مَنْ قَالَ مِنَ الْعُلَمَاءِ الْعَارِفِينَ الْمُحَقِّقِينَ : التَّوْحِيدُ إِثْبَاتُ ذَاتٍ غَيْرِ مُشْبِهَةٍ لِلذَّوَاتِ ، وَلَا مُعَطَّلَةٍ عَنِ الصِّفَاتِ .
وَزَادَ هَذِهِ النُّكْتَةَ الْوَاسِطِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ - بَيَانًا ، وَهِيَ مَقْصُودُنَا ، فَقَالَ : لَيْسَ كَذَاتِهِ ذَاتٌ ، وَلَا كَاسْمِهِ اسْمٌ ، وَلَا كَفِعْلِهِ فِعْلٌ ، وَلَا كَصِفَتِهِ صِفَةٌ ، إِلَّا مِنْ جِهَةِ مُوَافَقَةِ اللَّفْظِ اللَّفْظَ ، وَجَلَّتِ الذَّاتُ الْقَدِيمَةُ أَنْ تَكُونَ لَهَا صِفَةٌ حَدِيثَةٌ ، كَمَا اسْتَحَالَ أَنْ تَكُونَ لِلذَّاتِ الْمُحْدَثَةِ صِفَةٌ قَدِيمَةٌ . وَهَذَا كُلُّهُ مَذْهَبُ أَهْلِ الْحَقِّ ، وَالسُّنَّةِ ، وَالْجَمَاعَةِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - .
وَقَدْ فَسَّرَ الْإِمَامُ أَبُو الْقَاسِمِ الْقُشَيْرِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَهُ هَذَا ، لِيَزِيدَهُ بَيَانًا ، فَقَالَ : هَذِهِ الْحِكَايَةُ تَشْتَمِلُ عَلَى جَوَامِعِ مَسَائِلِ التَّوْحِيدِ ، وَكَيْفَ تُشْبِهُ ذَاتُهُ ذَاتَ الْمُحْدَثَاتِ ، وَهِيَ بِوُجُودِهَا مُسْتَغْنِيَةٌ ، وَكَيْفَ يُشْبِهُ فِعْلُهُ فِعْلَ الْخَلْقِ ، وَهُوَ لِغَيْرِ جَلْبِ أُنْسٍ ، أَوْ دَفْعِ نَقْصٍ حَصَلَ ، وَلَا بِخَوَاطِرَ وَأَغْرَاضٍ وُجِدَ ، وَلَا بِمُبَاشَرَةٍ وَمُعَالَجَةٍ ظَهَرَ ، وَفِعْلُ الْخَلْقِ لَا يَخْرُجُ عَنْ هَذِهِ الْوُجُوهِ.
وَقَالَ آخَرُ مِنْ مَشَايِخِنَا : مَا تَوَهَّمْتُمُوهُ بِأَوْهَامِكُمْ ، أَوْ أَدْرَكْتُمُوهُ بِعُقُولِكُمْ فَهُوَ مُحْدَثٌ مِثْلُكُمْ .
وَقَالَ الْإِمَامُ أَبُو الْمَعَالِي الْجُوَيْنِيُّ : مَنِ اطْمَأَنَّ إِلَى مَوْجُودٍ انْتَهَى إِلَيْهِ فِكْرُهُ فَهُوَ مُشَبِّهٌ ، وَمَنِ اطْمَأَنَّ إِلَى النَّفْيِ الْمَحْضِ فَهُوَ مُعَطِّلٌ ، وَإِنْ قَطَعَ بِمَوْجُودٍ اعْتَرَفَ بِالْعَجْزِ عَنْ دَرْكِ حَقِيقَتِهِ فَهُوَ مُوَحِّدٌ .
وَمَا أَحْسَنَ قَوْلَ ذِي النُّونِ الْمِصْرِيِّ : حَقِيقَةُ التَّوْحِيدِ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ قُدْرَةَ اللَّهِ - تَعَالَى - فِي الْأَشْيَاءِ بِلَا عِلَاجٍ ، وَصُنْعَهُ لَهَا بِلَا مِزَاجٍ ، وَعِلَّةُ كُلِّ شَيْءٍ صُنْعُهُ ، وَلَا عِلَّةَ لِصُنْعِهِ ، وَمَا تُصُوِّرَ فِي وَهْمِكَ فَاللَّهُ بِخِلَافِهِ .
وَهَذَا كَلَامٌ عَجِيبٌ نَفِيسٌ مُحَقَّقٌ .
وَالْفَصْلُ الْآخَرُ ، تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾. وَالثَّانِي تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ : لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿الْأَنْبِيَاءِ : 23﴾، وَالثَّالِثُ ، تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ : إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴿النَّحْلِ : 40﴾ .
ثَبَّتَنَا اللَّهُ وَإِيَّاكَ عَلَى التَّوْحِيدِ ، وَالْإِثْبَاتِ ، وَالتَّنْزِيهِ ، وَجَنَّبَنَا طَرَفَيِ الضَّلَالَةِ ، وَالْغَوَايَةِ مِنَ التَّعْطِيلِ ، وَالتَّشْبِيهِ بِمَنِّهِ ، وَرَحْمَتِهِ . ملاحظہ فرمائیں: صفحه 304 – 306 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم ملاحظہ فرمائیں: صفحه 204 – 206 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار سعادت - مطبعة عثمانية ملاحظہ فرمائیں: صفحه 151 – 152 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار ابن حزم ملاحظہ فرمائیں: صفحه 164 – 165 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الحديث ملاحظہ فرمائیں: صفحه 199 – 201 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - عبد الحميد أحمد حنفي ملاحظہ فرمائیں: صفحه 243 – 246 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية ملاحظہ فرمائیں: صفحه 153 – 154 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية ملاحظہ فرمائیں: صفحه 337 – 340 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتاب العربي
قاضی ابو الفضل (عیاض) رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے، فرماتے ہیں:
اب میں اسی فصل میں اس کے ذیل اور ضمنی ایک نکتہ بیان کرکے اس قسم کو ختم کرتا ہوں اور اس نکتہ کے ذریعے ان مشکلوں کو دور کردوں گا جو ہر کمزور وہم اور بیمار فہم کو پیش آئے ہوں گے تاکہ اس کو تشبیہ کے غاروں سے نکالے اور ملمع سازوں سے دور کردے۔
وہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ جل اسمہ، اپنی سفات، عظمت کبریاء ملکوت اور اسماء حسنی اور صفات علیاء میں اس حد تک ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی بھی ادنیٰ سا مشابہ بھی نہیں ہے اور نہ کسی کو اس سے تشبیہ بھی دی جاسکتی ہے۔ بلا شک وشبہ وہ جو شریعت نے مخلوق پر بولا ہے۔ ان دونوں میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم ہیں بخلاف مخلوق کی صفات کے جیسے کہ اس کی ذات تبارک و تعالیٰ دوسری ذاتوں کے مشابہ نہیں ہے ایسے ہی اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں۔ کیونکہ مخلوق کی صفات اعراض و اغراض سے جدا نہیں ہوتیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے پاک ومنزہ ہے بلکہ وہ اپنی صفات و اسماء کے ساتھ ہمیشہ سے ہے، اس بارے میں یہ فرمان کافی ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾ اس جیسا کوئی نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خوبی ہے۔ جن علماء عارفین، محققین نے یہ کہا کہ توحید ایسی ذات کے ثابت کرنے کا نام ہے جو کہ اور ذاتوں کے مشابہ نہیں اور نہ صفات سے معطل ہے۔
واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو خوب بڑھا کر بیان ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ذات کے مثل کوئی ذات نہیں اور نہ اس کے نام کے مثل کوئی نام اور نہ اس کے فعل کے مثل کوئی فعل ہے اور نہ اس کی صفت کے مثل کوئی صفت۔ مگر صرف لفظ کی لفظ کے ساتھ موافقت کی وجہ سے ہے۔ اس کی قدیم ذات برتر ہے کہ اس کی کوئی صفت حادث ہو۔ جیسے کہ یہ محال ہے کہ کسی حادث ذات میں کوئی صفت قدیم ہو۔ یہ کل کا کل اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے۔
بلا شبہ امام ابو القاسم قیشری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے اس قول کی اور زیادہ وضاحت کے ساتھ تفسیر کی ہے اور فرمایا کہ یہ حکایت تمام مسائل توحید کو مشتمل ہے۔ کیونکر اس کی ذات، محدث ذاتوں کے مشابہ ہو اس کی ذات اپنے وجود میں مستغنی ہے اور کیونکر اس کا فعل مخلوق کے فعل کے مشابہ ہو وہ فعل تو نفع محبت اور دفع نقص کے بغیر ہے اور نہ خطروں اور غرضوں کا گزر ہے اور نہ اعمال و محنت سے ظاہر ہوا اور مخلوق ان وجوہات سے باہر نہیں۔
ہمارے مشائخ میں سے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ جو کچھ تم اپنے وہموں سے وہم کرتے ہو یا اپنی عقلوں سے معلوم کرتے ہو۔ وہ تمہاری طرح حادث ہے۔
ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ جوینی فرماتے ہیں کہ جو شخص اس موجود کی طرف مطمئن ہو گیا اور اس طرف اپنی فکر بس کردی۔ ارے وہ تو مشبہ ہے اور جو شخص نفی محض کی طرف ہو گیا وہ معطل ہے اور جو شخص ایک ایسے موجود کے ساتھ علاقہ رکھ کر اس کی حقیقت کے ادراک سے عجز کا اعتراف کرے، بس وہی موحد ہے۔
حجرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے توحید کی حقیقت میں کیا خوب کہا ہے کہ تم اس بات کو جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت چیزوں میں بغیر محنت سے ہے اور مخلوق کا بنانا بلا مزاج اور سبب کے ہے۔ ہر چیز کی علت اس کی صفت ہے اور اس کی صفت کے لئے کوئی علت نہیں اور تمہارے وہم میں جو بھی متسور ہو اللہ اس کے برعکس ہے۔ یہ کلام نہایت عجیب عمدہ اور محقق ہے اور اس کا آخری فقرہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر ہے : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾ سے اور دوسرا اس کے فرمان ہے: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿الْأَنْبِيَاءِ : 23﴾ جو اللہ کرتا ہے اس سے پوچھا نہ جائے گا۔ حالانکہ وہ خود مسئول ہیں۔ اور تیسرا ٹکڑا اللہ کے اس فرمان کی تفسیر ہے: إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴿النَّحْلِ : 40﴾ جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ہو جا وہ فوراً ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں توحید اور اس کے اثبات اور اس کی تنزیہہ پر ثابت و قائم رکھے اور ضلالت و گمراہی یعنی تعطل و تشبیہ کے کناروں سے اپنے فضل و احسان کے طفیل محفوظ رکھے۔ آمین۔
صفحہ 222 – 223 جلد 01 الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ – مترجم غلام معین الدین نعیمی – مکتبہ اعلیٰ حضرت، لاہور
نوٹ: قادری رانا بھائی! اب اس پر کوئی اعتراض ہے تو پیش کریں! یا پھر آپ اپنا عہد پورا کریں، اور ساتھ ہی آپ نے جو قسم اٹھا کر اتنی بڑی بات کی تھی، اسے واپس لیں!
مجھے میرے رب کی عزت کی قسم پہلے تو صرف یقین تھا آج مکمل اطمینان ہو گیا کہ تم لوگ بتوں والی آیات تو ولیوں پر پڑھ سکتے ہو مگر اپنے جھوٹے موقف پر قرآن و حدیث سے دلیل پیش نہیں کر سکتے ۔
حضرت کام آپ نے وہی کیا ہے بتوں والی آیات پیش کر کے۔چلیں بات یہ ہے کہ اگر سوال کے مطابق جواب دیتے اپنے عقیدے کو واضح کرتے اور پھر دلائل دیتے تو ٹھیک تھا۔چلیں آپ کی باتوں کا جواب بھی ہم دیں گئے لیکن ایک دو باتوں کا جواب عطا فرمائیں۔
مافوق الاسباب سے کیا مراد ہے؟اسباب غیر عادیہ سے مدد کرنا یا اسباب عادیہ اور اسباب غیر عادیہ بے نیاز ہو کر مدد کرنا؟
دوسری بات جیسے ڈاکٹر گولی دیتا ہے تو اس سے شفا مل جاتی ہے یہ تحت الاسباب مگر نبی ولی ہاتھ پھیرتے ہیں تو شفا مل جاتی ہے یہ مافوق الاسباب ۔کیا یہ درست ہے؟
پھر اگر اس سے مراد اسباب غیر عادیہ سے مدد ہے تو حضرت موسی کا پتھر سے پانی نکالنا،حضور اکرم کا پانی کے پیالہ میں ہاتھ ڈالنا اور انگشتان مبارکہ سے چشمے کا بہنا،حضرت عیسی کا مردوں کو زندہ کرنا یہ سب اسباب غیر عادیہ کے تحت ہی تھا۔ لہذا اگر یہ شرک ہے تو انبیا بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔؟اس کی وضاحت فرمائیں
باقی جوا ب انشا اللہ عنقریب دیا جائے گا
جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رٖضا خان بریلوی)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہیں ہیں کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!
الجواب:
جناب ہم نے کہا تھا نہ کہ پیش آپ نے بتوں والی آیات ہی کرنی ہے۔چلیں جو آیت آپ نے پیش کی اس کی تشریح کرتے ہوئے قاضی ثنا اللہ لکھتے ہیں
مطلب اس طرح ہو کے کیونکہ انہوں نے بتوں کی مورتیاں بنا رکھیں تھیں ان سے فرمایا کی یہ زیادہ سے زیادہ زندہ بھی ہو جائیں تو بھی عبا دت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔(تفسیر مظہری ج 4 ص 302)
پہلی بات تو یہ آیت ہے بتوں کے بارے میں پھر یہاں عبادت کی نفی ہے۔جیسا کہ تفسیرمظہری کے حوالے سے گزارا۔
لفظ تدعون کا ترجمہ مفسرین نے یعبدون سے کیا ۔ملاحظہ ہو
تفسیر ابن کثیر ج 2 ذیر تحت الایۃ مترجم
تفسیر ابن عباس ،مدراک وغیرہ۔
اور کسی کو الہ سمجھ کر پکارنا عبادت۔مطلقا پکارنا نہیں
اگلی بات زہن میں رکھیں
صنم میں جاں تھی نہ ہے نہ ہی اسے ادراک بھی
بندہ خاکی تو سن لیتا ہے زیر خاک بھی
یہاں بتوں سے شعور کی نفی ہے۔یہی بات حضرت ابراہیم نے کی تھی کہ جو تمہاری پکار کو سن نہیں سکتا وہ تمہاری مدد کیا کرے گا ۔کیونکہ وہ ہوتے ہی بے شعور ہیں۔
دوسری بات سورت نمل میں ہے کہ حضرت سلمان نے دور سے چیونٹی کی آواز سنی اب یہ بتاو کہ وہاں کونسا سبب ظاہری تھا۔جبکہ سائنس تو یہاں تک کہتی ہے کہ چیونٹی کی آواز نہیں ہوتی۔
لہذا اس آیت میں جو ان سے اسباب کی نفی ہے کہ ان کے کان نہیں ان کے ہاتھ تو آگے اس کا مقصد بیان کیا کہ وہ تم سے کم تر ہیں۔نہ کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اسباب ظاہری کے بغیر کوئی سن ہی نہیں سکتا۔
باقی تفصیل ہمارے سوالات کے جواب کے بعد۔
الجواب:
جناب ہم نے کہا تھا نہ کہ پیش آپ نے بتوں والی آیات ہی کرنی ہے۔چلیں جو آیت آپ نے پیش کی اس کی تشریح کرتے ہوئے قاضی ثنا اللہ لکھتے ہیں
مطلب اس طرح ہو کے کیونکہ انہوں نے بتوں کی مورتیاں بنا رکھیں تھیں ان سے فرمایا کی یہ زیادہ سے زیادہ زندہ بھی ہو جائیں تو بھی عبا دت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔(تفسیر مظہری ج 4 ص 302)
پہلی بات تو یہ آیت ہے بتوں کے بارے میں پھر یہاں عبادت کی نفی ہے۔جیسا کہ تفسیرمظہری کے حوالے سے گزارا۔
لفظ تدعون کا ترجمہ مفسرین نے یعبدون سے کیا ۔ملاحظہ ہو
تفسیر ابن کثیر ج 2 ذیر تحت الایۃ مترجم
تفسیر ابن عباس ،مدراک وغیرہ۔
اور کسی کو الہ سمجھ کر پکارنا عبادت۔مطلقا پکارنا نہیں
اگلی بات زہن میں رکھیں
صنم میں جاں تھی نہ ہے نہ ہی اسے ادراک بھی
بندہ خاکی تو سن لیتا ہے زیر خاک بھی
یہاں بتوں سے شعور کی نفی ہے۔یہی بات حضرت ابراہیم نے کی تھی کہ جو تمہاری پکار کو سن نہیں سکتا وہ تمہاری مدد کیا کرے گا ۔کیونکہ وہ ہوتے ہی بے شعور ہیں۔
دوسری بات سورت نمل میں ہے کہ حضرت سلمان نے دور سے چیونٹی کی آواز سنی اب یہ بتاو کہ وہاں کونسا سبب ظاہری تھا۔جبکہ سائنس تو یہاں تک کہتی ہے کہ چیونٹی کی آواز نہیں ہوتی۔
لہذا اس آیت میں جو ان سے اسباب کی نفی ہے کہ ان کے کان نہیں ان کے ہاتھ تو آگے اس کا مقصد بیان کیا کہ وہ تم سے کم تر ہیں۔نہ کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اسباب ظاہری کے بغیر کوئی سن ہی نہیں سکتا۔
باقی تفصیل ہمارے سوالات کے جواب کے بعد۔
اور سورت شوری کی جو آیت ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی صفات اپنی نوعیت میں رب کے ساتھ خاص ہیں۔جیسا کہ خود آپ نے نقل فرمایا کہ
ان دونوں (یعنی مخلوق اور اللہ کی صفات) میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم ہیں بخلاف مخلوق کی صفات کے جیسے کہ اس کی ذات تبارک و تعالیٰ دوسری ذاتوں کے مشابہ نہیں ہے ایسے ہی اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں
اور یہی بات ہم کرتے ہیں کہ اللہ کی صفات اس کی ذاتی ،لامحدود اور قدیم جب کے بندے کی صفات محدود قدیم اور عطائی۔
لیس کمثلہ شئی کی تفسیر کے تحت تفسیر ابن عباس میں ہے فی االصفۃ العلم (صفحہ 408) اور اسی صفت علم میں سے اللہ نے اپنے انبیا کو بھی عطا کیا مگر ان کا علم حادث ۔محدود اور عطائی۔
لہذا اس آٰت کہیں بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ مافوق الاسباب مدد اللہ سے خاص ہے۔
باقی آپ مافوق الاسباب کی تعریف فرمائیں تفصیلی جواب بھی آپ کی خدمت میں دے دیا جائے گا۔