• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
رانا جی اپنا لکھا ہوا یاد رکھا کریں
جناب نے اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ لکھا تھا اسے پڑھیں :
"الحمد اللہ ہماری بنیاد قرآن و سنت اور جس کی تائید صفہ سے لیکر آج تک تمام محدثین و مفسرین نے کی ہے "
اس پر بندہ نے جناب سے پوچھا تھا ۔
(
قرآن مجید کی وہ آیت نقل کردیں جو (غیر اللہ سے استمداد و استعانت یا تبرک کا مطلب توسل ہے) ثابت کرتی ہو یا سنت سے اس کی(غیر اللہ سے استعانت یا تبرک کا مطلب توسل ہے) تائید نقل کر دیں ؟جناب نے اس عبارت میں ایک بہٹ بڑی " بُڑ " مار ی ہے کہ" جس کی تائید صفہ سے لیکر آج تک تمام محدثین و مفسرین نے کی ہے " اہل صفہ سمیت خیر القرون کے صرف 10 محدثیں سے ثابت کریں کہ (غیر اللہ سے استمداد و استعانت یا تبرک کا مطلب توسل ہے) آئیں میدان میں اور اپنے اس جھوٹ کو سچ کر دیکھائیں ) اس آیت کی نشاندہی کریں ؟ اس حدیث کی نشاندہی کریں ؟ اہل صفہ میں سے کس نے کہا ہے اس کی نشاندہی کریں ؟ خیر القرون سے لیکر آج تک کے کس ثقہ محدث نے کہا ہے کہ غیر اللہ سے استمداد و استعانت کا مطلب تبرک و وسیلہ ہوتا ہے؟
اپنے اس جھوٹ سے جناب مسلسل فرار ہیں آخر کیوں؟؟؟
اس جھوٹ کے بعد جناب نے ایک اور جھوٹ لکھا :

اور ہاں میں اسمتداد اور توسل کے ایک ہونے پر قرآن کیآٰت پیش کی تھی
ابھی تک جناب نے وہ آیت پیش نہیں کی جس میں " غیر اللہ سے استمداد اور توسل" کو ایک کہا گیا ہو؟
اب جناب پڑھیں استمداد و استعانت کا وہ معنی جو جناب نے ڈر ڈر کر نقل کیا ہے

جناب نے لکھا تھا کہ
استعانت ،استمداد استغاثہ ان سب کا لغوی معنی یہ ہے کہ مصیبت میں کسی پکارنا (المفرادات ص617،،598)
اب پڑھیں وسیلہ کا معنی جو جناب نے ہی نقل کئے ہیں :
وسیلہ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں ۔۔ امام راغب ۔۔۔۔درحقیقت وسیلہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی تک پہنچا جائے۔۔۔۔ابن منظور۔۔۔۔ہر وہ چیز جس کے ذریعہ اللہ تک پہنچا جائے۔۔۔۔۔ امام زمحشری۔۔۔۔
اب پڑھیں استعانت و استمداد کا وہ معنی جو جناب نے نقل کیا ہے (مصیبت میں کسی کو پکارنا ۔۔۔۔۔) جب دونوں کے معنیٰ میں واضع فرق ہے تو جناب دونوں کو ایک کیسے بنا رہے ہیں؟
امید ہے کہ جناب کی عقل میں کچھ نہ کچھ آگیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔


پہلے جو پانچ سوال کئے تھے لگتا ہے ان کی عمارت گرگئی۔اور اگلی بات صحابی رسول نے قبرانور پر جا کر استغاثہ کیا یہ بھی وسیلہ ہے۔حضرت بلال بن حارث مزنی والا وقعہ۔اس کی سند میں دواعتراضات ہیں۔ایک اعمش کے حوالے سے کہ وہ مدلس ہیں تو اس کا جواب یہ کہ اگر ان کا اتصال ثابت ہو ابو صالح سے تو اس کو اتصال پر محمول کی جائے گا المیزان الاعتدلال۔
اور مالک بن دار حضرت عمرکے وزیر خزانہ تھے۔اگلی بات وسیلہ کے انکار پر نہ تو آپ اب تک ایک آیت پیش کر سکے ہو نہ ہی کوئی حدیث،؎۔اور استعانت بمعنی توسل پر میں قرآن کی آیت پیش کی جواب نہیں آیا۔حدیث کا حوالہ دیا۔جواب نہیں آیا۔گھر کے حوالے دیے جواب نہیں آیا۔؎
اور اگلی بات اگر میری بات جھوٹ ہے تو پیش کرو کس صحابی نے اس کو شرک کہا ہے؟زمین پھٹ سکتی ہے آسمان پھٹ سکتا ہے حضرت صاحب آپ زہر بھی پی سکتے ہو مگر کسی ایک صحابی سے یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ اس نے وسیلہ کو شرک کہا ہو۔تم دس کی بات کرتے ہو جاو ایک سے ثابت کرو۔میں اس سے دستبدار ہو جاتا ہوں۔مگر؎
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
رانا جی نے لکھا ہے کہ "یہ دس کی قید اپنے پاس رکھیں اور جائیں آپ صرف ایک سے ہی دیکھا دیں کہ اس نے شرک کہا ہو"
یہ لیجئے منہ مانگی موت

حضرت شاہ ولی الله رحمہ الله لکھتے ہیں:
”ومنھا انہم کانوا یستعینوں بغیر الله فی حوائجہم من شفاء المریض وغناء الفقیر، وینذرون لہم ویتوقعون انجاح مقاصدہم بتلک النذور، ویتلون أسمائہم رجاء برکتھا، فأوجب الله تعالیٰ علیہم أن یقولوا فی صلواتھم:﴿ایاک نعبدوایاک نستعین﴾․

وقال الله تعالیٰ:
﴿فلاتدعوا مع الله احداً﴾

ولیس المراد من الدعاء العبادة، کما قال بعض المفسرین، بل ھو الاستعانة، لقولہ تعالیٰ: ﴿بل ایاہ تدعون فیکشف ماتدعون﴾․ (حجة الله البالغہ، ص:62، طبع مصر)


ترجمہ: اقسام شرک میں سے ایک یہ ہے کہ مشرکین اپنی حاجتوں میں غیر الله سے استعانت کرتے تھے، مثلاً بیمار کی شفا اور فقیر کی مال داری وغیرہ اوران کے لیے نذریں مانتے تھے اور ان کی وجہ سے وہ اپنی مرادیں پوری ہونے کی امید رکھتے تھے۔

سوالله تعالیٰ نے ان پر یہ واجب کر دیا کہ وہ اپنی نمازمیں ﴿ایاک نعبدو وایاک تستعین﴾ پڑھیں اور نیز الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تم الله کے ساتھ کسی کو مت پکارو او رمذکورہ آیت میں دعا سے مراد عبادت نہیں، جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے، بلکہ استعانت مراد ہے، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے ”بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے سو وہ تمہاری تکلیف کو رفع کرے گا۔“

اس صاف اور صریح عبارت سے واضح ہو جاتا ہے کہ غیر الله سے استعانت شرک ہے اور مشرکین مکہ اسی شرک میں مبتلا تھے۔

ایک او رجگہ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:
”وکفرالله سبحانہ مشرکی مکة بقولہم لرجل سخی کان یلت السویق للحجاج أنہ نصب منصب الألوھیة، فجعلوا یستعینون بہ عندالشدائد“․ ( البدورالبازغة:106)

ترجمہ: اور الله تعالیٰ نے مکہ کے مشرکوں کو اس لیے کافر فرمایا کہ انہوں نے ایک سخی آدمی کو جو ستو گھول کر حجاج کو پلاتا تھا( جس کا نام لات تھا) حاجت روائی کا منصب دے رکھا تھا او رتکالیف ومصائب کے موقع پر وہ اس سے استعانت کیا کرتے تھے۔؎
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
یہ لو رانا جی ایک اور حوالہ
علامہ آلوسی حنفی بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:

''إن الاستغاثة بمخلوق و جعله و سیلم بمعنیٰ طلب الدعاء منه لاشك في جوازه وإن کان المطلوب منه حیا ........ وأما إذا کان المطلوب منه میتا أوغائباً فلا یستریب عالم أنه غیر جائز وأنه من البدع التي لم یفعلها أحد من السلف'' 9
''کسی شخص سے درخواست کرنا کہ وہ اس کے حق میں دعاء کرے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے درخواست کی جائے وہ زندہ ہو.... لیکن اگر وہ شخص جس سے درخواست کی جائے مُردہ ہو یا غائب ، تو ایسے استغاثے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو شک نہیں، اور مردوں سے استغاثہ ان بدعات میں سے ہے جن کو سلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔''
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
پوسٹ نمبر 133 میں میں نے یہی آیت پیش کی تھی
مصائب وآلام میں صبر اور صلوٰة کا سہارا
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْر تحویل قبلہ کے معاملے میں کفار کی طرف سے اسلام کی حقانیت پر جو اعتراضات کیے جاتے تھے گزشتہ آیات میں ان کا علمی جواب دے دیا گیا، لیکن کفار کی طرف سے ڈھٹائی کے ساتھ بار بار اعتراضات سامنے آنے کی وجہ سے مسلمانوں پر طبعی طور پر رنج وصدمہ کا اثر ہونا فطری امر تھا، اس لیے آئندہ آیات میں اس صدمہ کے اثر کو زائل کرنے کا طریقہ بتلایا جارہا ہے کہ اے ایمان والو! صبر اور صلوٰة کے ذریعے سے مدد مانگو، بے شک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔


صبر کی حقیقت
صبر کے لغوی معنی ”تنگی میں روکنے“ کے آتے ہیں۔اور شرعاً صبر کے مختلف درجات ہیں۔


ایک درجہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو خلاف شرع کاموں سے روک کر رکھا جائے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ طاعات وعبادات میں اپنے نفس کو جما کررکھا جائے۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ مصیبتوں اور تکالیف میں جزع وفزع سے گریز کرتے ہوئے ان تکالیف کو اپنے رب کی طرف سے آزمائش سمجھا جائے، البتہ ایسے مواقع میں تکلیف کا اظہار صبر کے منافی نہیں۔ صبر کی تشریح سے ہی معلوم ہو گیا کہ تخفیف غم میں اس کا کیا دخل ہے ، جب مومن ہر تکلیف کو اپنے معبود کی طرف سے سمجھے گا تو یقینا اس تکلیف سے جلد نجات اور دنیا وآخرت میں اس کے بہترین بدلہ کی امید بھی الله تعالیٰ سے رکھے گا، اس وجہ سے مصیبت کے مواقع میں خالق سے آسرے کی ایک مضبوط ڈھارس بندھی رہتی ہے، جس سے غم ہلکا ہوتا جاتا ہے۔

نمازپریشانی کا مداوا ہے
تخفیف غم میں دوسری مؤثر چیز نماز ہے ،نماز وہ عبادت ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، پس جب بندہ پورے خشوع وخضوع اور استحضار قلب کے ساتھ نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی توجہ دنیاوی پریشانیوں سے ہٹ جاتی ہے۔


علاوہ ازیں غموم وہموم کا ختم ہونا نماز کی ایک ایسی خاصیت ہے جس کا ادراک عقل سے معلوم ہونا ضروری نہیں ، بلکہ اس راز کو وہی لوگ پہچان سکتے ہیں جن کی صفت قرآن کریم میں یہ بیان کی گئی ہے ﴿الّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلوٰتِہمْ خَاشِعُوْنَ﴾یعنی”جو (لوگ)) اپنی نماز میں جھکنے والے ہیں“۔

سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم ہراہم معاملہ میں نماز کے ذریعہ اللہ سے مانگتے تھے ،غزوہٴ بدر میں کفار کا پورا لاؤ لشکر مکمل جاہ وحشم کے ساتھ مومنین کو ختم کر دینے کے لیے بے تاب تھا ، جب کہ مقابلے میں بے سروسامان مسلمان صرف الله کے سہارے پرتھے اور پیغمبر خدا نماز میں اپنے رب سے آہ وزاری میں مصروف رہے۔پریشانی بڑی ہو یا چھوٹی ،آپ علیہ السلام نماز ہی سے اس کا مداوا فرمایا کرتے تھے، حتی کہ آندھی طوفان آنے پر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نماز کے لیے مسجد کا رخ فرماتے تھے۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہ لو رانا جی ایک اور حوالہ
علامہ آلوسی حنفی بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:

''إن الاستغاثة بمخلوق و جعله و سیلم بمعنیٰ طلب الدعاء منه لاشك في جوازه وإن کان المطلوب منه حیا ........ وأما إذا کان المطلوب منه میتا أوغائباً فلا یستریب عالم أنه غیر جائز وأنه من البدع التي لم یفعلها أحد من السلف'' 9
''کسی شخص سے درخواست کرنا کہ وہ اس کے حق میں دعاء کرے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے درخواست کی جائے وہ زندہ ہو.... لیکن اگر وہ شخص جس سے درخواست کی جائے مُردہ ہو یا غائب ، تو ایسے استغاثے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو شک نہیں، اور مردوں سے استغاثہ ان بدعات میں سے ہے جن کو سلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔''
بھائی مجھے سے خیر القرون کی دلیلیں مانگنے والے 13 صدی میں آگئے ؟کہاں گیا صحابی کا قول ۔شاہ صاحب نے بھی مستقل مانگنے کو شرک کہا ہے۔اس کی وضاحت شاہ عبد العزیز نے اپنے فتاوی میں بھی کی ہے۔استعانت بمعنی توسل کو شرک ثابت کرو۔
اور ہاں اس کو علامہ آلوسی نے بدعت کہا ہے شرک نہیں۔جب تمہاری دلیل دعوی کے مطابق نہیں تو نقض کیا کرو۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم ہراہم معاملہ میں نماز کے ذریعہ اللہ سے مانگتے تھے
یہ لکھ کر خود ہی اپنی تقریر کا جواب دے دیا جب حضور نماز کے ذریعے سے مدد مناگتے تھے نماز مدد نہیں کرتی بلکہ اس کے ذریعے سے مدد مانگی جاتی ہے یہی بات تو میں نے کی ہے میری جان ۔اور اللہ نے اس ذریعہ کو استعانت سے تعبیر کیا ہے
کبھی اقرار کرتے ہو کبھی انکار کرتے ہو
سیدھے سے کیوں نہیں کہتے کہ ہم سے پیار کرتے ہو
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
صحیح وسیلہ کیا ہے ؟

مقرر : فضیلۃ الشیخ داود شاکر حفظہ اللہ

لیکچر سننے کے لئے لنک پر کلک کریں - جزاک اللہ

میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ جب اعمال کا وسیلہ جائز ہے تو اللہ ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ اللہ تمہارا اور تمہارے عملوں کا خالق ہے۔تو ثابت ہوا کہ اعمال بھی مخلوق ہیں۔اور مخلوق میں سب سے افضل حضور کی ذات ۔تو جب ادنی مخلوق کا وسیلہ جائز ہے تو اعلی کا کیوں نہیں؟
 
Top