بہت خوب۔ مسلم صاحب، قرآن کی حفاظت کا وعدہ الٰہی کیا ہوا؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آج دنیا بھر میں جو قرآن تلاوت کیا جا رہا ہے۔ اس میں تحریف ہو چکی ہے اور فقط مسجد الحرام میں اصل قرآن باقی رہ گیا ہے؟
پھر یہ بھی ضرور بتائیں کہ اللہ کے گھر سے ہدایت لینی ہے تو کیا فقط قرآن کی تلاوت ہی ہدایت ہے۔ مسجد الحرام سے ہی وہ فتاویٰ شائع ہوئے ہیں کہ جو حجیت حدیث کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ کیا آپ اسے بھی ہدایت والا فتویٰ مانتے ہیں۔ یا اس معاملے میں مسجد الحرام میں گمراہی ہے۔ کیونکہ مسجد الحرام میں تو آپ کو ایک بھی امام ایسا نہیں ملے گا جو احادیث پر وہ اعتراضات کرتا ہو جو آپ کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ائمہ کرام تو آپ حضرات کو مبادیات دین کے واضح انکار کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں۔ فتاویٰ چاہئیں تو وہ بھی پیش ہو جائیں گے۔
آپ آگے بڑھیں تو آپ کو مسجد الحرام سے بھی مختلف الفاظ والی قراءت کی تلاوت سنا دیں گے۔ لیکن وہ ابھی بعد کا مرحلہ ہے۔ پہلے درج بالا سوالات کے جوابات عنایت کیجئے۔
بہت خوب۔ مسلم صاحب، قرآن کی حفاظت کا وعدہ الٰہی کیا ہوا؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آج دنیا بھر میں جو قرآن تلاوت کیا جا رہا ہے۔ اس میں تحریف ہو چکی ہے اور فقط مسجد الحرام میں اصل قرآن باقی رہ گیا ہے؟
میں نے یہ کہاں کہا ھے کہ فقط مسجد الحرام میں تلاوت کیا جانے والا قرآن کریم ہی صحیح ھے؟ بھائی صاحب قرآن کی جتنی بھی قرات ہیں درست ہیں، اور ان میں کوئی
اختلاف نہیں ھے۔ آپ نہ جانے کیوں اختلاف ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا ایمان ھے کہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ھے ۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢-٤﴾
تو کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے
اس آیت کے بعد اب اس موضوع پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ھے۔
پھر یہ بھی ضرور بتائیں کہ اللہ کے گھر سے ہدایت لینی ہے تو کیا فقط قرآن کی تلاوت ہی ہدایت ہے۔ مسجد الحرام سے ہی وہ فتاویٰ شائع ہوئے ہیں کہ جو حجیت حدیث کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ کیا آپ اسے بھی ہدایت والا فتویٰ مانتے ہیں۔ یا اس معاملے میں مسجد الحرام میں گمراہی ہے۔ کیونکہ مسجد الحرام میں تو آپ کو ایک بھی امام ایسا نہیں ملے گا جو احادیث پر وہ اعتراضات کرتا ہو جو آپ کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ائمہ کرام تو آپ حضرات کو مبادیات دین کے واضح انکار کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں۔ فتاویٰ چاہئیں تو وہ بھی پیش ہو جائیں گے۔
آپ آگے بڑھیں تو آپ کو مسجد الحرام سے بھی مختلف الفاظ والی قراءت کی تلاوت سنا دیں گے۔ لیکن وہ ابھی بعد کا مرحلہ ہے۔ پہلے درج بالا سوالات کے جوابات عنایت کیجئے۔
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤﴾ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا
وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿١٢٥-٢﴾
اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کلمات کے ساتھ آزمایا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں عرض کی اور میری اولاد سے فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا- (124) اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور
ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل ؑ کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف کرنے والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے -
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿٩٧-٣﴾
بیشک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما (96) اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے
کیا مسجد الحرام سے شائع ہونے والے فتویٰ میں ہدایت ھے اور ان پر عمل کرنا فرض ھے؟ کیا اس بات کی کوئی قرانی دلیل ھے؟ اگر ھے تو حوالہ دیں۔
مسجد الحرام میں تو آپ کو ایک بھی امام ایسا نہیں ملے گا جو احادیث پر وہ اعتراضات کرتا ہو جو آپ کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ائمہ کرام تو آپ حضرات کو مبادیات دین کے واضح انکار کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں۔ فتاویٰ چاہئیں تو وہ بھی پیش ہو جائیں گے۔
یہ سوال میں اپنے آپ سے بھی کرتا ہوں اور مجھے اب تک اس کا جواب نہیں ملا۔ کیونکہ مسجد الحرام کے متولّین کو متّقین کہا گیا ھے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٢٨-٩﴾
اے ایمان والو! مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں اور اگر تمہاری محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تمہیں دولت مند کردے گا اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے،
وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ
إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٤-٨﴾
اور انہیں کیا ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ کرے وہ تو مسجد حرام سے روک رہے ہیں اور وہ اس کے اہل نہیں اس کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں مگر ان میں اکثر کو علم نہیں،
اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا صرف حق ہی فرمایا۔
اب صرف اللہ کی کتاب ہی وہ واحد کسوٹی ھے جس سے ہم قول رسول کو پہچان سکتے ہیں اور اس افتراء کو بھی جو رسول کے نام مبارک کے ساتھ کیا گیا ھے۔
اللہ ہر طرح کے شرک سے محفوظ رکھے۔
آمین یا رَبِّ الْعَالَمِينَ۔