محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
سوال نمبر50۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِِاثْمٍ فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورئہ مائدہ:3)۔
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نا امید ہو گئے ہیں تو اُن سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔ ہاں جوشخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
قرآن مجید جو ہمارے پاس موجود ہے کیا کہ اللہ رب العزت نے اسی طرح نازل کیا ہے یا یہ ترتیب رسول اللہ ﷺ نے دی ہے؟ اگر یہ ترتیب رسول اللہ ﷺ نے دی ہے تو کیا حدیث حجت نہ ہو گی؟ کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی ترتیب کے مطابق تلاوت قرآن کرتے ہیں اور کیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اختیار تھا کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب میں اپنی مرضی سے آیات کو ترتیب دیں یا یہ کام آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق کیا؟ تو پھر مان لینا چاہیئے کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی اور وہ بھی دین ہے جو احادیث صحیحہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اور اگر کوئی منکر حدیث یہ بات کہہ دے کہ قرآن جس ترتیب سے ہمارے پاس موجود ہے اسی ترتیب سے اللہ نے نازل فرمایا ہے تو سورئہ مائدہ میں چھٹے سپارے میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔
کہ آج ہم نے دین مکمل کر دیا۔ جب چھٹے سپارے میں دین مکمل ہو گیا تو باقی سپارے کیوں نازل کئے گئے؟ کیا کسی بھی انکارِ حدیث کرنے والے کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟؟؟
ایک دھوکہ عوام الناس کو یہ دیا جاتا ہے کہ حدیث کا انکار کرنا کفر ہے۔ ہم احادیث کا انکار نہیں کرتے۔ لوگوں نے باتیں بنا کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کی ہیں، ہم اُن باتوں کا انکار کرتے ہیں جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ جو فرمانِ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں، صحیح احادیث کی صورت میں، وہ آپ کے فرامین ہیں اُن میں سے کسی ایک کا بھی انکار رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا اِنکار ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سورئہ فیل کا انکار کر دے اور کہے کہ میں قرآن کا انکار نہیں کرتا، قرآن پر میرا ایمان ہے میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور سورئہ فیل کے بارے میں کہے کہ میں اس کو نہیں مانتا کہ یہ اللہ نے نازل کی ہے۔ وہ اپنے انکار کی وجہ یہ بتائے کہ یہ سورت اللہ نے نازل نہیں کی تب بھی وہ کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کے ایک حصے کا منکر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص احادیث رسول ﷺ کا یہ سمجھ کر انکار کرے کہ یہ آپ ﷺ کا اِرشاد نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی باتیں ہیں جو آپ ﷺ کی طرف لوگوں نے منسوب کی ہیں حالانکہ وہ فرمان رسول اللہ ﷺ صحیح اسناد سے ثابت ہوں تو اُن فرامین کا انکار کرنے والا بھی اُسی طرح دائرئہ اسلام سے خارج ہے جس طرح قرآن مجید کے ایک چھوٹے سے حصے کا انکار کرنے والا دائرئہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم اپنے لئے اور تمام پڑھنے والوں کے لئے دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُس حق کو سمجھنے کی اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا ہے۔ کیونکہ توفیق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِِاثْمٍ فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورئہ مائدہ:3)۔
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نا امید ہو گئے ہیں تو اُن سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔ ہاں جوشخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
قرآن مجید جو ہمارے پاس موجود ہے کیا کہ اللہ رب العزت نے اسی طرح نازل کیا ہے یا یہ ترتیب رسول اللہ ﷺ نے دی ہے؟ اگر یہ ترتیب رسول اللہ ﷺ نے دی ہے تو کیا حدیث حجت نہ ہو گی؟ کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی ترتیب کے مطابق تلاوت قرآن کرتے ہیں اور کیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اختیار تھا کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب میں اپنی مرضی سے آیات کو ترتیب دیں یا یہ کام آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق کیا؟ تو پھر مان لینا چاہیئے کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی اور وہ بھی دین ہے جو احادیث صحیحہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اور اگر کوئی منکر حدیث یہ بات کہہ دے کہ قرآن جس ترتیب سے ہمارے پاس موجود ہے اسی ترتیب سے اللہ نے نازل فرمایا ہے تو سورئہ مائدہ میں چھٹے سپارے میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔
کہ آج ہم نے دین مکمل کر دیا۔ جب چھٹے سپارے میں دین مکمل ہو گیا تو باقی سپارے کیوں نازل کئے گئے؟ کیا کسی بھی انکارِ حدیث کرنے والے کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟؟؟
ایک دھوکہ عوام الناس کو یہ دیا جاتا ہے کہ حدیث کا انکار کرنا کفر ہے۔ ہم احادیث کا انکار نہیں کرتے۔ لوگوں نے باتیں بنا کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کی ہیں، ہم اُن باتوں کا انکار کرتے ہیں جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ جو فرمانِ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں، صحیح احادیث کی صورت میں، وہ آپ کے فرامین ہیں اُن میں سے کسی ایک کا بھی انکار رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا اِنکار ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سورئہ فیل کا انکار کر دے اور کہے کہ میں قرآن کا انکار نہیں کرتا، قرآن پر میرا ایمان ہے میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور سورئہ فیل کے بارے میں کہے کہ میں اس کو نہیں مانتا کہ یہ اللہ نے نازل کی ہے۔ وہ اپنے انکار کی وجہ یہ بتائے کہ یہ سورت اللہ نے نازل نہیں کی تب بھی وہ کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کے ایک حصے کا منکر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص احادیث رسول ﷺ کا یہ سمجھ کر انکار کرے کہ یہ آپ ﷺ کا اِرشاد نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی باتیں ہیں جو آپ ﷺ کی طرف لوگوں نے منسوب کی ہیں حالانکہ وہ فرمان رسول اللہ ﷺ صحیح اسناد سے ثابت ہوں تو اُن فرامین کا انکار کرنے والا بھی اُسی طرح دائرئہ اسلام سے خارج ہے جس طرح قرآن مجید کے ایک چھوٹے سے حصے کا انکار کرنے والا دائرئہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم اپنے لئے اور تمام پڑھنے والوں کے لئے دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُس حق کو سمجھنے کی اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا ہے۔ کیونکہ توفیق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔