محمد ہارون
رکن
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 26
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 36
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ بہت عمدہاعتراض نمبر6۔
آپ کا آخری اعتراض ہے کہ جب 70 صحابہ کو دھوکے سے شہید کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن پر نماز میں قنوت پڑھی۔ (پھر) انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان شہداء کے متعلق قرآن مجید میں ہم یہ آیت پڑھتے تھے (ترجمہ) ہاں ہماری قوم (مسلم کو) بتادو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا اور ہمیں بھی اس نے اپنی بے پایاں نوازشات سے خوش کیا ہے۔ پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی۔(پھر آپ لکھتے ہیں)۔ جناب مولف صاحب ! اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث واقعہ ہونے سے یقینا پہلے نازل کی ہو گی تو کیا آپ کے ساتھ ان (لوگوں نے نعوذ باﷲ) اللہ کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے علاوہ قرآن کی جس آیت کی منسوخی کے بارے میں حدیث میں بات کی گئی ہے کیا وہ آیت بھی منزل من اﷲ تھی؟ کیونکہ پورا کا پورا قرآن اللہ کی جانب سے ہے لیکن ان شہداء کا پیغام جو انہوں نے اپنی قوم کو دیا وہ تو پورا کلام انسانی ہے۔ رب یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہماری قوم کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے؟ اگر رب نے یہ آیت نازل کی ہے تو کیا رب کی اپنی بھی کوئی قوم ہے؟ یہ اشکالات رفع کر دیں نوازش ہو گی۔ (آپ کا خط صفحہ نمبر۴)۔
جواب اعتراض نمبر6۔
یہ اعتراض بھی اپ کی بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ آپ کا پہلا نقطہ اعتراض اس سوال میں شاید یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ رضی اللہ عنہم کو روانہ کیا تو یہ آپ کا حکم وحی کی بنا پر تھا اور اللہ کو تو علم تھا کہ یہ ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہو جائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم کیوں دیا کہ صحابہ کو ان کے ساتھ روانہ کر دیں؟
اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے سب اللہ کے حکم سے آئے اور اللہ کو علم تھا کہ بعض انبیاء کو اُن کی قومیں قتل کر دیں گی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (سورہ بقرہ:۱۶)
اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں۔
یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اﷲِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ
یہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور نبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (آل عمران آیت۲۱۱)۔
قرآن سے ثابت ہے کہ ان قوموں نے نبیوں کو قتل کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انبیاء قتل کئے جائیں گے مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو بھیجا (اس کی مکمل حکمت اللہ ہی جانتا ہے مگر ہمارا ان آیات پر ایمان ہے)۔
اسی طرح ستر صحابہ رضی اللہ عنہم کو شہید کیا جانا تھا، اللہ کے علم میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو روانہ کیا (اس کی حکمت اللہ ہی مکمل جانتا ہے۔ ہمارا ان احادیث پر ایمان ہے)۔ اگر اس حوالے سے قرآن مجید پر اعتراض نہیں ہے تو حدیث پر کیوں اعتراض کیا جارہا ہے؟؟؟
آپ نے آیت کے منسوخ ہونے کی بات کی، یہ بھی قرآن سے ثابت ہے:
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا
ہم جس آیت کو چاہتے ہیں منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اور اسی جیسی یا اس سے بہتر (کوئی دوسری آیت) نازل فرما دیتے ہیں۔
یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آیات منسوخ کر سکتا ہے۔ تو اس آیت کے منسوخ ہونے پر کیا اعتراض؟؟
آپ لوگوں کا حقیقت میں قرآن پر ہی صحیح ایمان نہیں۔ اسی وجہ سے آپ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر اعتراض کرتے ہیں اور دورِ حاضر کے نام نہاد دانشوروں کے اقوال کو دین سمجھتے ہیں۔ ہم اللہ سے آپ کے لئے ہدایت کا ہی سوال کرتے ہیں کہ اللہ آپ جیسے لوگوں کو صراطِ مستقیم کی سمجھ عطا کرے۔
پھر اپ نے لکھا کہ پورا کا پورا قرآن اللہ کا کلام ہے۔ جو شہداء نے پیغام دیا وہ پوراانسانی کلام ہے۔ کیا رب یہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری قوم کو بتا دو ہم اپنے رب سے جا ملے؟
آپ کا یہ اعتراض بھی قرآنی علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بات یہ ہے کہ رب نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے قول کو نازل کیا ہے۔ اگر صحابہ کے اس قول کے نازل ہونے پر اعتراض ہے تو سنیے: قرآن مجید میں ایک مرد صالح کے اقوال کچھ اس طرح ہیں:
وَ مَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ
مجھ کو کیا ہے کہ میں اُس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیدا کیا اور مجھ کو اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (سورہ یٰسین:۲۲)
اگر ہم آپ کا قانون اور ضابطہ مانیں تو کیا ہم یہ کہیں کہ معاذ اﷲ! اللہ عبادت کی بات کر رہا ہے۔ کیا اللہ بھی عبادت کرتا ہے؟؟
پھر مزید دیکھیں:
اِنِّیْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ
پس تم یہ سن رکھو! بے شک میں ایمان لایا تمہارے رب پر (سورہ یٰسین:۵۲)
معاذ اللہ کیا اللہ کا کوئی رب ہے جس پر اللہ ایمان لایا؟؟؟
مزید دیکھیں:
قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ
کہنے لگا کاش میری قوم جان لے! مجھ کو میرے رب نے معاف کر دیا اور عزت والوں میں شامل کر دیا۔ (سورہ یٰسین:۷۲)۔
معاذ اﷲ کیا اللہ کو کسی نے معاف کر کے عزت والوں میں شامل کیا؟؟؟؟
ہرگز ہرگز ایسا نہیں۔ یہ تو اللہ نے اُس مردِ صالح کی بات کی جس کو اُس کی قوم نے قتل کر دیا۔ اگر ان آیات کو بھی ہم کلام رحمن مانتے ہیں تو اس آیت کو جو ستر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہم کلامِ انسان کیوں کہتے ہیں کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک جیسی دو باتوں میں سے ہم ایک کو مانیں اور دوسری کا انکار کر دیں۔
سوچئے! خوب سوچئے اور حق پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے آپ کے بھیجے ہوئے اعتراضات کے جوابات بھی دے دیئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پہلے آپ ہمارے پچاس سوالات کے جوابات دیتے پھر ہم سے اپنے جوابات کا مطالبہ کرتے مگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ منکرین احادیث کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اب ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دین مان لیں اور مزید شیطان کی پیروی نہ کریں ورنہ آج صفحات سیاہ کرنے کے آپ کو جوابات مل گئے۔ نامہ اعمال جب سیاہ ہو چکا ہو گا تو اُس کا کوئی کفارہ نہیں ہو گا۔ اُس کی سزا جہنم ہے۔ اللہ رب العزت سے ہم پھر دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی تمام پڑھنے والوں کو اور آپ کو بھی حق کو سمجھنے کے ساتھ قبول کرنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ یا رب العالمین۔ کیونکہ توفیق دینے والی ذات تو صرف اور صرف اللہ ہی کی ہے۔
بھائی اس کتاب کی پی ڈی ایف مل سکتی؟
Sent from my A1601 using Tapatalk