[صحیح البخاری کی حدیث کاخلاف قرآن مفھوم کہ..... مردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آوازسنتا ھے .....]
__________________________________________ قرآن کا فیصلہ ھے[ان الله يسمع من يشاء وماانت بمسمع من في القبور ] ترجمه:[الله جسےچاھتا ھےسنوادیتاھے(اےنبی) آپ قبروالوں کونہیں سناسکتے](سورہ فاطرآیت22) __ البتہ قارئین معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتاجیسےقلیب بدرکےمردوں کوالله نےنبی عليه السلام کی بات سنوادی .....لیکن یہ عقیدہ رکھنا کہ ھرمردہ سنتا ھے درج بالا آیت کا صریح کفرھے- کیونکہ جسطرح معجزےکا انکارالله کی قدرت کا انکارھےاسی طرح معجزےکومعمول بنانا بھی الله کےقانون کا انکار اورقانون کا مذاق ھےجسكی سزا ابدی جھنم کےسوا کچھ نہیں __چونکہ درج بالا آیت مردوں کےسماع کی قطعی نفی کرتی ھےاوراسی آیت سےاستدلال کرتےھوئےام المومنين عائشہ رضی الله عنها نےمردوں کےسننےکی نفی کی- لیکن سماع موتی کےقائلین مثلا" ابن تیمیہ،ابن قیم وغیرھم نےاپنےباطل عقیدےکی سب سےبڑی رکاوٹ کو راستےسےھٹانے کیلئےاس آیت کےمتعلق لکھا ھےکہ آیت میں ھٹ دھرم کفارکومردوں سےتشبیہ دی گئی ھے اور الله کا انہیں اپنی مشیت سےسنانےکامطلب انہیں ھدایت کی توفیق دینا ھے __ حالانکہ قارئین ابن تیمیہ اورابن قیم کی یہ بات ان کےسماع موتی کے عقیدےکوصحیح ثابت کرنےکےبجائےالٹا غلط ثابت کرتی ھے __کیوں کہ آیت میں ھے(ان الله يسمع من يشاء...) الله جسےچاھتاھےسنواتاھے لہذا کفارکوسنانا تو یہ ھوا کہ انہیں ھدایت کی توفیق دی _ اورجب(ان الله يسمع من يشاء) کا اطلاق حقیقی مردوں پرھوگا تومطلب صرف مردوں کاسنناھوگا انہیں ھدایت دینا تو ھرگزنہیں ھوسکتا __ قارئین سماع موتی کےقائلین کاطرزاستدلال انتہائی درجےکا احمقانہ تو ھےھی ساتھ ھی علمائے یہود کےنقش قدم پرچلتےھوئے [....يحرفون الكلم عن مواضعه...] یعنی آیت کی معنوی تحریف بھی ھے،کیونکہ جو آیت عدم سماع موتی کیلئےنص قطعی ھےاسی آیت سےابن تیمیہ،ابن قیم وغیرھم مردوں کا سننا ثابت کررھےھیں _قارئین جب سورہ فاطر کی آیت 22 میں مردوں سےمراد چاھے حقیقی مردے لیئےجائیں یابطورتشبیہ کفارمراد لیئےجائیں دونوں صورتوں میں ثابت یہی ھوتا ھےکہ مردےنہیں سنتے تو لامحالہ قلیب بدرکےمردوں کاسننا معجزہ یاخرق عادت ھی کہلائےگا اور معجزہ یاخرق عادت معمول نہیں ھوتا__ امت کی بدنصیبی کہ دیوبند،بریلوی اوراھلحدیث سب کا عقیدہ ھےکہ مردہ قبرمیں دفن ھونےکےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتا ھے _ البتہ "علمائے" اھلحدیث کا اس باطل اورگمراہ کن عقیدےکی تبلیغ و اشاعت میں کلیدی کردار (key role) رھا ھے-ان کی طرف سے ایسا لٹریچرشائع ھوتا رھتاھےجس میں اس گمراہ کن عقیدےکوصحیح ثابت کرنےکی بھرپورکوشش کی جاتی ھے-اسی حوالےسےانکی طرف سےایک 268صفحات پرمشتمل کتاب [المسندفي عذاب القبر ] شائع ھوئی جس کےمؤلف محمدارشدکمال ھیں-اس کتاب میں اھلحدیث "محققین" نے یہ تو تسلیم کرلیا ھےکہ عام قانون یہ ھےکہ [مردےنہیں سنتے] اور یہ بھی تسلیم کیاھےکہ [قلیب بدرکےمردوں کاسننامعجزہ ھے،خرق عادت ھے،خاص ھےعام نہیں] __ لیکن قارئین اس کےبالکل برعکس اس کتاب میں اھلحدیث محققین نےاپناعقیدہ یہ بھی بیان کیاھےکہ "مردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آوازسنتاھے" جوصریحا" معجزےکومعمول ،خرق عادت کو عادت جاریہ اورخاص کو عام بناناھے،جو نہ صرف الله کےقانون کا انکاربلکہ قانون کےساتھ کھلا مذاق بھی ھےجسکی سزا یہ امت صدیوں سےذلت ومغلوبیت کی شکل میں بھگت رھی ھےاورآخرت کاھمیشہ کا دردناک عذاب الگ ھے.... لوگوں کو الله کی کتاب کا منکربنانے کیلئےان کا طریقہ واردات یہ ھے کہ رسول الله صلي الله عليه وسلم سےمنسوب جھوٹی اورموضوع (fabricated) روایت پیش کرتےھیں یا پھر صحیح اورمستند حدیث سےایسا مطلب و مفھوم اخذ کرتےھیں جس سےقرآن کی تکذیب ھوتی ھےالله کےقانون کامذاق بنتاھے- ،جیسےصحیح البخاری کےباب:[المیت یسمع خفق النعال] یعنی مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ھے والی حدیث،حالانکہ اس کی ایسی شرح موجود ھےجس سےقرآن کا انکارنہیں ھوتا اورنہ قلیب بدرکا معجزہ معمول بنتاھے- جیسےصحیح البخاری کی مشہورشرح فتح الباری جلد3 صفحه205 پربخاری کےاس باب کی شرح میں لکھاھے;[وكانه اقتطع ماهومن سماع الآدمين من سماع ماهومن الملائكة،] یعنی قارئین باب میں فرشتوں کےجوتوں کی آواز کاذکرھےجو مرنےوالےکی روح سے سوال وجواب کیلئےآتےھیں- جوخاکی جسم سےنکل کربرزخ میں اپنےمقام پرپہنچ جاتی ھے- قبرمیں پڑےمردہ خاکی جسم کا اس سوال وجواب اوراس کےنتیجےمیں ھونےوالےعذاب یا راحت کے معاملات سےقطعا" کوئی تعلق نہیں _ قارئین حدیث کی یہ تشریح اس بنیاد پرھےکہ قرآن کا اصول واضح ھےکہ {مردےنہیں سنتے} اور {مردےقیامت کےدن زندہ کیئےجائینگے}
لہذا اگرکسی صحیح حدیث کامضمون بظاھرقرآن کےاس اصول سےمتصادم و متعارض ھوتوحدیث کی تاویل کیجائےگی تاکہ حدیث اورقرآن میں مطابقت ھوجائے-مذکورہ بالا, فرشتوں کےجوتوں کی چاپ والی تاویل اسی بنیاد پرھے-لیکن قارئین اس معقول بات کو تسلیم کرکےاپنےعقیدےکی اصلاح کرنےکےبجائے اھلحدیث محققین کی طرف سےاعتراض کیاجاتا ھےکہ اچھا اگربخاری کےباب میں [خفق النعال] سےمراد فرشتوں کےجوتوں کی چاپ ھےاورچاپ سننےکا،سوال وجواب کا اورسوال وجواب کےنتیجےمیں ھونےوالےعذاب یا راحت کے تمام معاملات کا تعلق روح کےساتھ ھوتا ھےجو برزخ میں اپنےٹھکانےپر پہنچ جاتی ھےقبرمیں مدفون خاکی جسم سےان تمام معاملات کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تو پھر بخاری کےاسی باب میں [المیت] کالفظ کیوں آیا ھے؟ کیا روح کو میت کہا جاتا ھے؟ __ جواب دیاجاتا ھےکہ اس میں حیرانی اورتعجب کی کیابات ھےکہ مرنےوالےکےخاکی جسم کےساتھ اسکی روح کی بھی لفظ "میت"سےپہچان کرائی جائے-خود بخاری میں اسکی مثال قلیب بدرکے واقعےکےحوالےسے موجود ھے ،جس میں سارا تذکرہ کنوےمیں پڑےمردہ کفارکاچل رھاھے،چنانچہ عائشہ رضي الله عنها جب مردوں کےسننےکی نفی کرتی ھیں تو انکی مراد کنوےمیں پڑےھوئےخاکی جسم ھیں اورجب وہ مردوں کو علم ھونے کی بات کا کرتی ھیں توانکی مراد ارواح ھیں جو برزخ میں اپنےجھنم کےٹھکانوں پرپہنچ گئیں ھیں- ام المومنین کےاس اندازبیان سےناجائزفائدہ اٹھاتےھوئےبعض احمقوں نےان پر یہ بہتان عظیم لگایا کہ وہ جسدعنصری کےسننےکی توقائل نہیں تھیں لیکن مردہ جسدعنصری میں علم،فھم اورشعور ھوتا ھےاسکی قائل تھیں-(سماع موتی، صفحه347،سرفرازخان صفدر )
www.islamic-belief.net