ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٤)امام نافع کے ستر تابعین سے پڑھنے والی روایت:
قراء ات کی روایات تواتر کے قبیل سے ہیں جن کو ہر ہر دور میں بہت بڑی بڑی جماعتوں نے نقل کیا اور متواتر روایت کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی جیساکہ ابن صلاح نے لکھا:
’’متواتر روایت کے رجال پر بحث نہیں کی جاتی۔ ‘‘ (مقدمہ ابن الصلاح )
لہٰذا اگر نافع اعرج سے نقل کرنے میں منفرد ہوں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر کسی راوی کی توثیق یا تنقیدمعلوم نہ ہو تو اس کے بارہ میں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کی روایت مقبول ہی خیال کی جاتی ہے۔ یہاں تو ابوحمہ ایک تاریخی روایت بیان کررہے ہیں تو اس میں تو بطریق اولیٰ ان کی جہالت قطعاً مضر نہیں ہونی چاہئے۔
رہی بات ابوقرہ کے منفرد ہونے کی تو اس کی کئی مؤیدات ہیں مثلاً اسحاق مسیبی امام نافع کا قول نقل کرتے:
’’میں نے کئی تابعین کے درمیان اختلاف پایا،جس اختلاف میں دو کااتفاق ہوا میں نے اسی کو لے لیااور منفرد اختلاف کو چھوڑ دیا یونہی میں نے اپنی قراء ۃ ترتیب دی۔‘‘ (سیرأعلام النبلاء :۱؍۳۳۷)
نیز امام نافع نے ابوقرہ کو تنہائی میں نہیں پڑھایا۔ اگر تنہائی میں پڑھایا ہوتاتو یہ روایت معروف کیوں ہوتی۔ایک معروف عربی شعر ہے:
٭ ابوحمہ اور ابوقرہ کے قاری نہ ہونے والے اعتراض کے متعلق امام جزری رحمہ اللہ نے لکھاہے:
’’ابوحمہ نے اختلاف قراء ت ابوقرہ سے نقل کیاہے اورعبدالرزاق سے بھی سماع کیااور ان سے ابن جندی نے نقل کیا ہے۔‘‘( طبقات :۲؍۳۱۹)
٭ ابوقرہ نے نافع سے عرضاً قراء ت حاصل کی اور ان سے ان کے بیٹے نے طارق اور علی بن زبان نے قراء ت نقل کی۔( طبقات :۲؍۳۳۱)معلوم ہوا ابوحمہ اور ابوقرہ قاری تھے۔
قراء ات کی روایات تواتر کے قبیل سے ہیں جن کو ہر ہر دور میں بہت بڑی بڑی جماعتوں نے نقل کیا اور متواتر روایت کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی جیساکہ ابن صلاح نے لکھا:
’’متواتر روایت کے رجال پر بحث نہیں کی جاتی۔ ‘‘ (مقدمہ ابن الصلاح )
لہٰذا اگر نافع اعرج سے نقل کرنے میں منفرد ہوں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر کسی راوی کی توثیق یا تنقیدمعلوم نہ ہو تو اس کے بارہ میں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کی روایت مقبول ہی خیال کی جاتی ہے۔ یہاں تو ابوحمہ ایک تاریخی روایت بیان کررہے ہیں تو اس میں تو بطریق اولیٰ ان کی جہالت قطعاً مضر نہیں ہونی چاہئے۔
رہی بات ابوقرہ کے منفرد ہونے کی تو اس کی کئی مؤیدات ہیں مثلاً اسحاق مسیبی امام نافع کا قول نقل کرتے:
’’میں نے کئی تابعین کے درمیان اختلاف پایا،جس اختلاف میں دو کااتفاق ہوا میں نے اسی کو لے لیااور منفرد اختلاف کو چھوڑ دیا یونہی میں نے اپنی قراء ۃ ترتیب دی۔‘‘ (سیرأعلام النبلاء :۱؍۳۳۷)
نیز امام نافع نے ابوقرہ کو تنہائی میں نہیں پڑھایا۔ اگر تنہائی میں پڑھایا ہوتاتو یہ روایت معروف کیوں ہوتی۔ایک معروف عربی شعر ہے:
وعلم فی القرطاس لیس ضاع
وشر جاوز الاثنین شاع
’’ کاغذوں میں لکھا جانے والا علم ضائع نہیں ہوتا اور جو راز دو سے زائد آدمیوں تک پہنچ جائے وہ معروف ہوجاتاہے، پھیل جاتاہے۔‘‘وشر جاوز الاثنین شاع
٭ ابوحمہ اور ابوقرہ کے قاری نہ ہونے والے اعتراض کے متعلق امام جزری رحمہ اللہ نے لکھاہے:
’’ابوحمہ نے اختلاف قراء ت ابوقرہ سے نقل کیاہے اورعبدالرزاق سے بھی سماع کیااور ان سے ابن جندی نے نقل کیا ہے۔‘‘( طبقات :۲؍۳۱۹)
٭ ابوقرہ نے نافع سے عرضاً قراء ت حاصل کی اور ان سے ان کے بیٹے نے طارق اور علی بن زبان نے قراء ت نقل کی۔( طبقات :۲؍۳۳۱)معلوم ہوا ابوحمہ اور ابوقرہ قاری تھے۔