حافظ اختر علی
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 768
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 317
جزاکم اللہ خیرا عبدہ بھائی!
جواب: محترم ہمارے پاس بہت سے دلائل ہیں، جنکی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ اتباع صرف قرآن کریم کی ہی ہوسکتی ہے، اور اسکے علاوہ اللہ نے کوئی اور چیز نازل ہی نہیں کی جس کی اتباع کا اس نے حکم دیا ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب کو اپنا قانون قرار دیا ہے، اور قانون اس وقت تک غیر مؤثر رہتا ہے جب تک اسکا نفاذ کرنے والا کوئی موجود نہ ہو۔ اسکے لیے اللہ نے قرآن کریم میں طریقہ کار بھی بتا دیا ہے کہ اسکے قانون پر عملدرآمد کیسے کیا جائے گا۔ اسکے اس نے ہمیں واضح ہدایات بھی دیں ہیں۔ خیر اس پر تو اپنے مقام پر بحث ہو گی، فی الوقت میں قرآن کریم کی اتباع اور قرآن کریم کی حجیت پر بحث کرنا چاہوں گا، جس کا آپ نے نکتہ اٹھایا ہے۔آپ کے اوپر والے طریقہ کار پر اعتراض سے پہلے تمہید
میں اس اعتراض کو سمجھانے سے پہلے نمبر وار کچھ باتیں شروع سے لکھنا چاہوں گا
1۔دیکھیں بھائی ہمارا آپ کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ ہمارا خالق ہے اور ہم سب کو اللہ کا حکم ماننا لازمی ہے
2۔ مگر ہمارا آگے اختلاف یہ ہو جاتا ہے کہ اللہ کا حکم ہمیں کیسے ملے گا پس ہم نے اس اختلاف کو رفع کرنا ہے کہ اللہ کا حکم ہمیں کیسے ملے گا
3۔اس سلسلے میں آپ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اللہ کا حکم صرف قرآن میں ملے گا یعنی آپ قرآن کو حجت مانتے ہیں
4۔ اور ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اللہ کا حکم قرآن میں بھی اور صحیح احادیث میں بھی مل سکتا ہے یعنی ہم قرآن و صحیح حدیث دونوں کو حجت مانتے ہیں
5۔اب اس اختلاف کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اور ہم ان معیارات کو طے کر لیں کہ جس سے وہ چیز حجت بن جائے اور یہی میں نے اپنی پہلی پوسٹ میں لکھا تھا
6۔پس آپ اگر صرف قرآن کو حجت مانتے ہیں اور حدیث کو حجت نہیں مانتے تو آپ کو یہ بتانا ہو گا کہ اسکی دلیل کیا ہے یا ایسا کون سا معیار ہے کہ جس پر قرآن تو پورا اترتا ہے مگر صحیح حدیث اس پر پورا نہیں اترتی
7۔اگر آپ ہم سے یہ پوچھنا چاہیں کہ ہم حدیث کو کن معیارات پر حجت مانتے ہیں تو ہم ابھی بتا دیتے ہیں کہ ہم حدیث کو ان معیارات پر پورا اترنے کی وجہ سے حجت مانتے ہیں کہ جن معیارات پر قرآن پورا اترتا ہے اور ساتھ یہ بھی چیلنج کرتے ہیں کہ آپ بھی انہیں معیارات کی وجہ سے ہی قرآن کو حجت مانتے ہیں ورنہ انکے علاوہ قرآن کو حجت ماننے کا آپ کے پاس کوئی علیحدہ معیار نہیں ہے
اگر اوپر نمبرز پر اختلاف ہے تو وہی نمبر لکھ کر اس کی اصلاح کر دیں اور اگر اتفاق ہے تو پھر میرا آپ کے طریقہ کار پر اعتراض مندرجہ ذیل ہے
میرا اعتراض:
میرا اعتراض یہ ہے کہ میں نے جب اوپر قرآن کے حجت ہونے پر آپ سے معیار پوچھا تو آپ نے اسکو غیر ضروری شرط کہ کر نظر انداز کر دیا مگر مجھ سے حدیث کو حجت ثابت کرنے مطالبہ کر دیا اور اس پہ بھی ظلم یہ کیا کہ حدیث کو حجت ثابت کرنے کا معیار بھی میرے لئے خود ہی متعین کر دیا کہ مجھے کہ دیا کہ آپ کے لئے حدیث کو حجت ثابت کرنے کا معیار قرآن ہے
بھائی آپ خود ہی بتائیں کہ کیا یہی انصاف ہے میں نے تو اوپر آپ کو بغیر دلیل کسی معیار کو ماننے کا نہیں کہا بلکہ جتنی بھی باتیں لکھی ہیں وہ دلائل کی روشنی میں ہی لکھی ہیں پس آپ بھی دلائل کی روشنی میں پہلے کسی چیز کے حجت ہونے کے معیار کا تو تعین کریں
ضروری اشکال کا ازالہ:
اگر آپ کے سامنے یہ اشکال ہو کہ
ہم اور آپ جب دونوں قرآن کو حجت مانتے ہیں تو پھر قرآن کے حجت ہونے پر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے جس میں اختلاف ہے اسی پر بات کرنی چاہئے یعنی حدیث پر بات کرنی چاہئے اور اسکے لئے معیار قرآن کو ماننا ہی درست ہے کیونکہ وہ متفق علیہ ہے تو ایک متفق علیہ چیز ہی معیار بن سکتا ہے
تو اس سلسلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس میں مندرجہ ذیل دو چیزوں کو مکس کر دیا گیا ہے
1۔کسی چیز کے قابل اتباع یا حجت ہونے کے لئے جو معیارات ہیں قرآن ان معیارات پر پورا اترتا ہے
2۔کسی چیز کے قابل اتباع یا حجت ہونے کے لئے صرف ایک ہی معیار ہے یعنی قرآن
تو معاف کیجیئے گا ہمارا اور آپ کا اتفاق پہلے نمبر پر تو ہے دوسرے نمبر پر بالکل نہیں مگر آپ پہلے نمبر کے اتفاق کو ڈھال بناتے ہوئے دوسرے نمبر کے بارے اتفاق ثابت کرتے ہیں اور پھر اسی کے تحت حدیث کے حجت ہونے کے لئے قرآن سے ہی پوچھ رہے ہیں
ویسے اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا
فرض کریں کہ واپڈا والوں نے ایک خاص معیار رکھا ہوا ہے کہ جس کو حاصل کرنے والوں کو وہ اس سال بونس دیتے ہیں میرے دفتر کا ایک ساتھی خالد اس خاص معیار کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور واپڈا سے ایک بونس حاصل کرتا ہے اب میں بھی اس معیار کو حاصل کر چکا ہوتا ہوں جب میں بونس حاصل کرنے کی بات کرتا ہوں تو واپڈا والے کہتے ہیں
کہ تمھیں ہم بونس نہیں دے سکتے
تو میں کہتا ہوں کہ آپ نے میرے ساتھی خالد کو بھی تو بونس دیا ہے اسکو کیوں دیا ہے
تو واپڈا والے کہتے ہیں کہ کیا ہم نے خالدکو غلط بونس دیا ہے
میں کہتا ہوں کہ آپ نے درست بونس دیا ہے
واپڈا والے کہتے ہیں کہ پھر جب آپ ہم سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہم نے اسکو درست بونس دیا ہے تو پھر یہ کیوں کہتے ہو کہ آپ نے خآلد کو کیوں بونس دیا ہے یہ تو آپ اپنی بات کی مخآلفت کر رہے ہو پس جب آپ خآلد کے بونس کو درست سمجھتے ہو تو اسکی بات نہ کرو اپنے بونس کی بات علیحدہ کرو
ساتھ ہی واپڈا والے یہ کہتے ہیں کہ اب چونکہ خالد ہمارے اور آپ کے درمیان متفق علیہ ہو گیا یعنی ہمارا اور آپ کا اس پر اتفاق ہو گیا پس جب خالد کہے گا تو ہم تم کو بونس دے دیں گے
اب آپ بتائیں کہ جب میں اس مثال میں واپڈا والوں سے یہ کہوں گا کہ آپ بونس دینے کا معیار بتائیں کیونکہ جس معیار کی بنیاد پر خالد کو بونس مل سکتا ہے اس پر مجھے بھی ملنا چاہئے
پس ہمیں قرآن کے حجت ہونے پر اختلاف نہیں مگر جن معیارات کی بنیاد پر قرآن حجت ہو سکتا ہے اسی معیار پر اگر صحیح احادیث بھی پورا اتر جائیں تو وہ کیوں حجت نہیں ہو سکتیں
بھائی یہی تو میرا مطالبہ ہے کہ قرآن کے حجت ہونے یا قابل اتباع ہونے کے وہ بہت سےدلائل کونسے ہیں جن کا آپ اوپر دعوی کر رہے ہیں مجھے تو ایک بھی ٹھوس دلیل اوپر نظر نہیں آئی اب آپ دوبارہ نمبر دے کر پہلے صرف ایک دلیل قرآن کے حجت ہونے کی لکھیں پھر میں اسی طرح کی دلیل صحیح حدیث کے حجت ہونے کی بھی لکھ دوں گا لمبی دلیل نہ لکھیں بلکہ پہلے مختصر بتائیں پھر مجھے کوئی اعتراض ہو گا تو آپ تفصیل سے وضاحت کر سکتے ہیںجواب: محترم ہمارے پاس بہت سے دلائل ہیں، جنکی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ اتباع صرف قرآن کریم کی ہی ہوسکتی ہے
قرآن کریم کے حجت ہونے میں ، قرآن کریم کی آیت سے بڑھ کر اور کیا پیش کروں؟ کیا اللہ کی آیات آپ کے لیے ناکافی ثبوت ہیں؟ آپ چیلنج دے رہے ہیں کہ آپ حدیث کی حجیحت حدیث کی سینکڑوں مثالیں دے سکتے ہیں، تو میں بھی آپ کو چیلنج دیتا ہوں کہ قرآن کریم سے حدیث کی حجت میں ایک بھی دلیل نہیں لا سکتے ہیں۔ آپ قرآن کریم سے ایک دلیل لے آئيں، میں آپ کا مؤقف درست مان لوں گا۔بھائی یہی تو میرا مطالبہ ہے کہ قرآن کے حجت ہونے یا قابل اتباع ہونے کے وہ بہت سےدلائل کونسے ہیں جن کا آپ اوپر دعوی کر رہے ہیں مجھے تو ایک بھی ٹھوس دلیل اوپر نظر نہیں آئی اب آپ دوبارہ نمبر دے کر پہلے صرف ایک دلیل قرآن کے حجت ہونے کی لکھیں پھر میں اسی طرح کی دلیل صحیح حدیث کے حجت ہونے کی بھی لکھ دوں گا لمبی دلیل نہ لکھیں بلکہ پہلے مختصر بتائیں پھر مجھے کوئی اعتراض ہو گا تو آپ تفصیل سے وضاحت کر سکتے ہیں
اگر آپ کہیں کہ آپ نے قرآن کے حجت ہونے کی دلیلیں اپنی پوسٹ میں دی ہوئی ہیں تو میرے خیال میں وہ دلائل ایسے ہیں کہ انکو دلائل آپ خود بھی نہیں مانیں گے
میرا چیلنجآپ نے قرآن کے حجت ہونے کی ایک بھی ٹھوس دلیل نہیں دی اور جو دلیلیں دی ہیں انکو دلیل آپ خود بھی نہیں سمجھیں گے کیونکہ وہی دلیلیں صحیح احادیث کے لئے بھی اسی طرح موجود ہیں
اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک ایک کر کے آپ کی دی گئی دلیلوں کی حقیقت واضح کر دوں کہ آپ خود بھی ان دلیلوں کو دلیل نہیں مانتے
بھائی آپ کی اوپر بات یا تو لاشعوری طور پر کی گئی ہے یا پھر اگر شعوری طور پر کی گئی ہے تو پھر یہی ہو سکتا ہے کہ قارئین کو دھوکہ دینے کے لئے یہ بات کی گئی ہے ورنہ ایک کم عقل انسان کے نزدیک بھی یہ دلیل قرآن کی حجت کی نہیں بن سکتیقرآن کریم کے حجت ہونے میں ، قرآن کریم کی آیت سے بڑھ کر اور کیا پیش کروں؟ کیا اللہ کی آیات آپ کے لیے ناکافی ثبوت ہیں؟
میں نے پہلے بھی اس بات کا چیلنج دیا ہے اور اب بھی دوبارہ اس بات کا چیلنج دے رہا ہوں کہآپ چیلنج دے رہے ہیں کہ آپ حدیث کی حجیحت حدیث کی سینکڑوں مثالیں دے سکتے ہیں، تو میں بھی آپ کو چیلنج دیتا ہوں کہ قرآن کریم سے حدیث کی حجت میں ایک بھی دلیل نہیں لا سکتے ہیں۔ آپ قرآن کریم سے ایک دلیل لے آئيں، میں آپ کا مؤقف درست مان لوں گا۔
ضروری اشکال کا ازالہ:
اگر آپ کے سامنے یہ اشکال ہو کہ
ہم اور آپ جب دونوں قرآن کو حجت مانتے ہیں تو پھر قرآن کے حجت ہونے پر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے جس میں اختلاف ہے اسی پر بات کرنی چاہئے یعنی حدیث پر بات کرنی چاہئے اور اسکے لئے معیار قرآن کو ماننا ہی درست ہے کیونکہ وہ متفق علیہ ہے تو ایک متفق علیہ چیز ہی معیار بن سکتا ہے
تو اس سلسلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس میں مندرجہ ذیل دو چیزوں کو مکس کر دیا گیا ہے
1۔کسی چیز کے قابل اتباع یا حجت ہونے کے لئے جو معیارات ہیں قرآن ان معیارات پر پورا اترتا ہے
2۔کسی چیز کے قابل اتباع یا حجت ہونے کے لئے صرف ایک ہی معیار ہے یعنی قرآن
تو معاف کیجیئے گا ہمارا اور آپ کا اتفاق پہلے نمبر پر تو ہے دوسرے نمبر پر بالکل نہیں مگر آپ پہلے نمبر کے اتفاق کو ڈھال بناتے ہوئے دوسرے نمبر کے بارے اتفاق ثابت کرتے ہیں اور پھر اسی کے تحت حدیث کے حجت ہونے کے لئے قرآن سے ہی پوچھ رہے ہیں
ویسے اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا
فرض کریں کہ واپڈا والوں نے ایک خاص معیار رکھا ہوا ہے کہ جس کو حاصل کرنے والوں کو وہ اس سال بونس دیتے ہیں میرے دفتر کا ایک ساتھی خالد اس خاص معیار کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور واپڈا سے ایک بونس حاصل کرتا ہے اب میں بھی اس معیار کو حاصل کر چکا ہوتا ہوں جب میں بونس حاصل کرنے کی بات کرتا ہوں تو واپڈا والے کہتے ہیں
کہ تمھیں ہم بونس نہیں دے سکتے
تو میں کہتا ہوں کہ آپ نے میرے ساتھی خالد کو بھی تو بونس دیا ہے اسکو کیوں دیا ہے
تو واپڈا والے کہتے ہیں کہ کیا ہم نے خالدکو غلط بونس دیا ہے
میں کہتا ہوں کہ آپ نے درست بونس دیا ہے
واپڈا والے کہتے ہیں کہ پھر جب آپ ہم سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہم نے اسکو درست بونس دیا ہے تو پھر یہ کیوں کہتے ہو کہ آپ نے خآلد کو کیوں بونس دیا ہے یہ تو آپ اپنی بات کی مخآلفت کر رہے ہو پس جب آپ خآلد کے بونس کو درست سمجھتے ہو تو اسکی بات نہ کرو اپنے بونس کی بات علیحدہ کرو
ساتھ ہی واپڈا والے یہ کہتے ہیں کہ اب چونکہ خالد ہمارے اور آپ کے درمیان متفق علیہ ہو گیا یعنی ہمارا اور آپ کا اس پر اتفاق ہو گیا پس جب خالد کہے گا تو ہم تم کو بونس دے دیں گے
اب آپ بتائیں کہ جب میں اس مثال میں واپڈا والوں سے یہ کہوں گا کہ آپ بونس دینے کا معیار بتائیں کیونکہ جس معیار کی بنیاد پر خالد کو بونس مل سکتا ہے اس پر مجھے بھی ملنا چاہئے
پس ہمیں قرآن کے حجت ہونے پر اختلاف نہیں مگر جن معیارات کی بنیاد پر قرآن حجت ہو سکتا ہے اسی معیار پر اگر صحیح احادیث بھی پورا اتر جائیں تو وہ کیوں حجت نہیں ہو سکتیں
میرے محترم دوست،بھائی آپ کی اوپر بات یا تو لاشعوری طور پر کی گئی ہے یا پھر اگر شعوری طور پر کی گئی ہے تو پھر یہی ہو سکتا ہے کہ قارئین کو دھوکہ دینے کے لئے یہ بات کی گئی ہے ورنہ ایک کم عقل انسان کے نزدیک بھی یہ دلیل قرآن کی حجت کی نہیں بن سکتی
میرا چیلنج:
میرا یہ چیلنج ہے کہ اوپر دی گئی پوسٹ نمبر 14 میں آپکی دلیل کو خود آپ تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ وہ داخلی دلیل ہے
داخلی اور خارجی دلیل کے فرق کو سمجھنے کے لئے یاد رکھیں کہ کسی چیز کے حق میں دو طرح کی دلیلیں دی جاتی ہیں ایک اسکے اندر سے دلیل وہ داخلی دلیل کہلاتی ہے اور دوسری اسکے باہر سے دلیل جو خارجی دلیل کہلاتی ہے مثلا کوئی انسان کتاب لکھے اور خود ہی اس کتاب کے اندر لکھا ہو کہ یہ بڑی اچھی کتاب ہے تو وہ اس کتاب کے حق میں داخلی دلیل ہو گی لیکن اگر باہر والی کوئی دلیل اس کے حق میں موجود ہو کہ معاشرے میں اسکو پسند کیا جا رہا ہو اور لوگ اسکو زیادہ پڑھ رہے ہوں تو یہ اسکے حق میں خارجی دلیل ہو گی
اسی طرح حدیث کے حق میں اگر حدیث کے اندر ہی لکھا ہو کہ یہ حدیث درست ہے تو یہ داخلی دلیل ہو گی داخلی دلیل کی ایک بہترین مثال فیضان سنت کتاب کی ہے جو سبز پگڑی والے بریلویوں کی مشہور کتاب ہے وہ لوگ فیضان سنت کو حجت ثابت کرنے کے لئے اور لوگوں میں مقبول کرانے کی دلیل اسی طرح کی داخلی دلیل دیتے ہیں کہ اس کتاب کے شروع میں لکھا گیا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے خواب میں بتایا کہ یہ بہترین کتاب ہے وغیرہ وغیرہ
حدیث کی حجیت پر داخلی دلیل:
اگر داخلی دلیل سے کام چلانا ہے تو حدیث کی حجیت پر بھی داخلی دلیل موجود ہے یعنی حدیث میں آتا ہے کہ الا انی اوتیت القران و مثلہ معہ یعنی خبردار مجھے قرآن اور اسکی مثل ایک اور چیز (یعنی حدیث) بھی دی گئی ہے
میں نے پہلے بھی اس بات کا چیلنج دیا ہے اور اب بھی دوبارہ اس بات کا چیلنج دے رہا ہوں کہ
جس طرح کے معیارات یا دلائل کی وجہ سے آپ قرآن کی اتباع کو لازمی قرار دیتے ہیں وہ معیارات لکھ دیں میں ان شاءاللہ اسی طرح کے دلائل کے ساتھ صحیح احادیث کی اتباع کا لازمی ہونا ثابت کروں گا اور اگر نہ کر سکا تو اپنا غلط ہونا تسلیم کر لوں گا
لیکن یاد رکھیں قرآن کے حجت ہونے کے آپ کے معیارات اگر داخلی ہوں گے تو میں بھی حدیث کے داخلی دلائل دینے کا پابند ہوں گا اور اگر آپ قرآن کے حجت ہونے پر کوئی خارجی دلیل دیں گے تو میں بھی اسی طرح کی خارجی دلیل دینے کا پابند ہوں گا
قرآن پر اتفاق کا شوشہ:
یہاں عام طور پر لوگ حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کے لئے یہ شوشہ بھی چھوڑتے ہیں کہ قرآن پر تو آپ ہم سے اتفاق کرتے ہیں پس قرآن کو پہلے حجت مان لیتے ہیں پھر آپ حدیث کے حجت ہونے کی دلیل دیں تو اس بارے پہلے بھی پوسٹ نمبر 10 میں مثال سے سمجھا چکا ہوں دوبارہ یہاں اقتباس لے لیتا ہوں
جناب من! آپ کو یہ معلوم بھی ہے کہ خارجی دلائل کہتے کس کو ہیں؟ خارجی دلائل کے معنی الہامی دلائل نہیں ہوتے، بلکہ خارجی دلائل کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کے وحی الہٰی کے ثبوت کے لئے قرآن کے علاوہ سے دلائل بیان کئے جائیں!! اب جس شخص کو خارجی دلائل اور داخلی دلائل کی سمجھ نہ ہو، وہ یہ فلسفہ بیان کرے!!میرے محترم دوست،قرآن کریم کے حجت ہونے کے تمام تر دلائل خالصتاً خارجی ہیں، داخلی نہیں ہیں، میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کریم میں ایک لفظ بلکہ ایک نقطہ تک داخلی نہیں ہے، سب کا سب رب کریم کا عطا کردہ ہے، جو خارج میں ہے۔ ہماری داخلی دنیا میں نہیں ہے۔
قرآن کا قرآن کریم کی اتباع کا حکم داخلی دلیل ہے! جس کے ناسمجھی میں انکاری ہو رہے ہیں!!اسی نے ہمیں قرآن کریم کی اتباع کا حکم دیا ہے۔
اب یہ دنیا کے بڑے بڑے مفکرین میں سے دس مفکرین کی عبارات بمع حوالہ بیان کردیں!! ہم بھی تو دیکھیں !!!آپ نے خود ہی داخلی و خارجی دلائل کے حجت ہونے کا معیار اخذ کر لیا، جبکہ قرآن کریم کی رو سے ، اور دنیا کے بڑے بڑے مفکرین کی مدتوں کی تحقیقات اور تجربہ کی روشنی میں داخلی اور خارجی معیارات انسانی مداخلت سے ماخوذ ہیں۔یعنی کسی چیز کو پرکھنے کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اس میں داخلی (انسانی)مداخلت کتنی ہے اور الوہیاتی مداخلت، (جسے خارج کہتے ہیں) کتنی ہے۔
بھائی جان! یہی تو ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ قرآن کو وحی الہٰی تسلیم کرنے کا معیار کیا ہے؟آپ نے جو نئے معیارات بنائے ہیں، یہ آپ کو ہی زیب دیتے ہیں، ہم تو باز آئے ان معیارات سے۔ میں ایک بار پھر عرض کروں گا کہ میری یا کسی بھی جید سے جید اور بڑے سے بڑے عالم کی رائے ، آیات الہی کے مقابلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے ہم قرآن کریم کے حجت ہونے یا اسکے اتباع کے بارے میں کوئی معیار مقرر کر ہی نہیں سکتے اور نہ ہی خدا نے ہمیں یہ اختیارات تفویض کیے ہیں۔ یہ سب خدائی معیارات ہیں، انہیں آپ اپنے ہاتھ میں نہ ہی لیں تو اچھا ہے۔
ارے میاں ! ایک بار پھر سمجھا دیتا ہوں!! قرآن ، قرآن کے لئے داخلی دلیل ہے، اور قرآن ، قرآن کے علاوہ تمام کے لئے خارجی دلیل!!اگر آپ اس پوسٹ پر مزید جوابات ارسال کرنا چاہتے ہیں، تو آپ حجیحت حدیث پر ارسال کیجیے جو خالصتاً قرآن کریم سے ہوں، غیر قرآنی دلیل قبول نہیں کی جائے گی۔اسکی بھی ایک وجہ ہے، حدیث خارجی معیار نہیں ہے، کیونکہ اسکا خارجی معیار (قرآن کریم) سے کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا۔
جناب من! کہیں آپ کا ارادہ قرآن کو بھی معذور ثابت کرنے کا تو نہیں!! کہ آپ قرآن کو بھی عربی زبان کا معذور ٹھہرا دو!! یا پھر آپ عربی لغت کو منزل من اللہ سمجھتے ہیں!!!دوسری وجہ یہ کہ آپ احادیث کو قرآن کریم کی چند آیات کی غلط تشریح کرکےوحی الہی قرار دیتے ہیں، اس طرح ان کا وجود قرآن کریم سے ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں۔ تو ایک ایسی چیز جو خود کو ثابت کروانے کے لیے اپنی بانی چیز کی معذور ہو، وہ اپنی بانی چیز پر استہزاء نہیں کرسکتی کہ اس کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئے۔وہ خود بخود اسی معذوری سے خود کو ثابت کر دیتی ہے۔
پھر وہی بات!!! خارجی و داخلی کا مطلب سمجھے بغیر آپ نے اسی پر غزل لکھ دی!!! جہاں تک بات رہی اظہر من الشمس کی!! تو میرے بھائی ! یہی تو مطالبہ آپ سے کیا جا رہا ہے کہ آپ کی نظر ميں وہ کون سے دلائل ہیں جس کی رو سے قرآن کی حقانیت آپ کی ہاں ثابت ہوتی ہے؟ کیا وہ صرف داخلی ( یعنی کہ قرآن میں مذکور دلائل ہیں) ہیں ؟ یا خارجی قرآن کے علاوہ کے دلائل بھی ہیں؟فلہذا ہمیں کوئی ضرورت ہے کہ ہم کسی داخلی (انسانی) سہارے سے قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کریں، کیونکہ قرآن کریم کی حقانیت تو اظہر من الشمس ہے۔
اس پر ایک شعر عرض کئے دیتا ہوں:اس لیے آپ احادیث کے وحی الہی ہونے کے ثبوت قرآن کریم سے دیں، کیونکہ آپ کی سنت رسول کی ساری عمارت جو چند غلط تشریحات پر برقرار ہے، ان شاء اللہ ہم بہت جلد زمین بوس کرنے والے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ حجیحت حدیث کے کونسے دلائل پیش کریں گے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ دلائل آپ خود پیش کریں تا کہ اتمام حجت ہو جائے۔
دوست آپ یہ بھی فرما دیجیے کہ کونسی لغت میں خارجی دلائل سے مراد قرآن کے وحی الہی ہونےکے ثبوت قرآن کے علاوہ دلائل ہیں؟ جس فلسفہ کی بات آپ فرما رہے ہیں، وہی فلسفہ محترم عبدہ صاحب بھی اس سے قبل کی پوسٹ میں تحریر کر چکے ہیں، اور مجھے انکا پورا فلسفہ سمجھ میں آگیا تھا، خارجی اور داخلی دلائل آپ کی ایجاد ہے، اس سے قبل ہم نے یہ اصطلاح نہیں سنی۔ کیونکہ اسکا یہ مفہوم کسی بھی لغت میں نہیں ہے، خارجی اور داخلی دلائل سے آپ کچھ اور مراد لے رہے ہیں، اور میں کچھ اور لے رہا ہوں، آپ اپنی سے دیکھ رہے ہیں تو آپ کو چھ دکھائی دے رہا ہے، میں دوسری طرف بیٹھا ہو، فلہذا مجھے "نو" دکھائی دے رہا ہے۔ لہذا اس بے مقصد کی بحث کو چھوڑ کر آپ اصل موضوع پر آ جائیں۔ قرآن کی حقانیت یا اسے قابل اتباع ثابت کرنے کی ضرورت دہریوں کے لیے آتی ہے، اور انکے لیے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ یہ کائنات خدا کا معجزہ ہے، جو محض ایک "حکم" سے وجود میں آگئی۔ جبکہ دہریا اسے "اتفاق" قرار دیتا ہے، بس "کن" اور "اتفاق" یہ فرق جب مٹ گیا تو دہریا بھی سمجھ جائے گا، لیکن حیرت آپ جیسے لوگوں پر ہوتی ہے، قرآن کریم کو چھوٹا اور حدیث کی اہمیت جتانے کے لیے آپ ایسے دلائل مانگتے ہو، جو دہریا بھی نہ مانگے۔ محترم جب آپ اور میں دونوں متفق ہیں کہ ہمیں انسانی دنیا میں وحی الہی کی ضرورت ہے، اور دونوں قرآن کریم کی حقانیت پر بھی متفق ہیں، تو آپ فضول میں وقت کیوں برباد کررہے ہیں، اصل موضوع کی طرف آئیے، اور حدیث کا وجود ثابت کیجیے، ہمارا اصل موضوع "انکار حدیث" یا یوں کہہ لیجیے کہ " حجحیت حدیث" ہے، نہ کہ "اتباع قرآن کے معیارات"۔لہذا آپ اصل موضوع کی طرف آئیے اور وقت فضول موضوعات پر لا حاصل بحث کرکے برباد نہ کیجیے۔ اب اگر آپ اسی موضوع پر منسلک رہنا چاہتے ہیں، اور اصل موضوع کی طرف نہیں بڑھتے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ اتباع قرآن کے حوالےسے میں آیات الہی کے علاوہ کسی اور معیار کا قائل نہیں ہوں۔ چاہے اسے آپ خارجی معیار کہیں یا داخلی۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے عمران بھائی جان کو گفتگو سے قبل اس لغت سے بھی متعارف کروا دیا جائے، جس لغت میں گفتگو ہو رہی ہے!! اور انہیں داخلی اور خارجی دلائل کے معنی بتلا دئیے جائیں!! عبدہ بھائی ! انشاء اللہ میری اس جسارت کو در گذر فرمائیں گے!!
جناب من! آپ کو یہ معلوم بھی ہے کہ خارجی دلائل کہتے کس کو ہیں؟ خارجی دلائل کے معنی الہامی دلائل نہیں ہوتے، بلکہ خارجی دلائل کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کے وحی الہٰی کے ثبوت کے لئے قرآن کے علاوہ سے دلائل بیان کئے جائیں!! اب جس شخص کو خارجی دلائل اور داخلی دلائل کی سمجھ نہ ہو، وہ یہ فلسفہ بیان کرے!!
اب آپ کی لا علمی کی وجہ سے دنیا تو نہیں بدل جائی گی!! ویسے آپ کو یہ کس نے کہا کہ آپ الٹا دیکھنا شروع کر دیں!!اس سے قبل ہم نے یہ اصطلاح نہیں سنی۔ کیونکہ اسکا یہ مفہوم کسی بھی لغت میں نہیں ہے، خارجی اور داخلی دلائل سے آپ کچھ اور مراد لے رہے ہیں، اور میں کچھ اور لے رہا ہوں، آپ اپنی سے دیکھ رہے ہیں تو آپ کو چھ دکھائی دے رہا ہے، میں دوسری طرف بیٹھا ہو، فلہذا مجھے "نو" دکھائی دے رہا ہے۔ لہذا اس بے مقصد کی بحث کو چھوڑ کر آپ اصل موضوع پر آ جائیں۔
یہ بھی عجب کہی! اب حدیث کے وجود سے ہی آنکھیں کترانا چہ معنی دارد!!اصل موضوع کی طرف آئیے، اور حدیث کا وجود ثابت کیجیے، ہمارا اصل موضوع "انکار حدیث" یا یوں کہہ لیجیے کہ " حجحیت حدیث" ہے، نہ کہ "اتباع قرآن کے معیارات"۔