ایک طرف جہاں ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ علمائے کرام نے قرآن و حدیث کے علوم پر مستند کتابیں لکھ رکھی ہیں جن میں تمام نعصری مسائل کے حل موجود ہیں، دوسری طرف وہیں ہماری یہ بدقسمتی بھی ہے کہ ہم نے ان ذخیرہ کتب کو عوام الناس تک پہنچانے میں بوجوہ قاصر رہے ہیں۔ جملہ دینی کتابیں بھی تجارتی بنیادوں پر شائع ہوتی ہیں، جنہیں عوام الناس خریدنے سے قاصر رہتے ہیں۔ عوام تک رابطہ کا سستا ترین میڈیم، ابلاغ عامہ کے ذرائع ہین، جن پر کفار، ان کے ایجنٹوں اور بے دین مسلمانوں کا "قبضہ" ہے۔
جاوید چوہدری جیسے "دین پسند" مگر دین سے "ناواقف" کامیاب میڈیا پرسنز کو "ہم" بالعموم لفٹ نہیں کراتے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مستقل لکھنے اور بولنے والے تقریباً ایک ہزار افراد ایسے ہیں جو ہمارے 20 کروڑ عوام کے ذہن بنانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
اگر ہم ایساکوئی پلیٹ فارم بنا لیں، جس کی
- (الف) ایک ٹیم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیش ہونے والے "غیر اسلامی افکار" کو مسلسل مانیٹر کرتا رہے۔
- (ب) دوسری ٹیم اس قسم کے چھپنے اور نشر ہونے والے مواد کا فوری جواب تیار کرے
- (ج) تیسری ٹیم اس جواب کو ایڈٹ کرکے متعلقہ میڈیا پرسن، ادارے کے علاوہ متذکرہ بالا ایک ہزار افراد تک فوری ترسیل کو ممکن بنادے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم عوام الناس تک مسلسل پہنچنے والے منفی اور غیر اسلامی افکار کا توڑ پیش نہ کرسکیں۔
مگر میڈیا کی بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے گا کون؟