• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موئے مبارک از جاوید چوہدری

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
استغفراللہ العظیم
جاوید چوہدری صاحب کی بھی حد ہے۔
آپ یہ دیکھیں کہ جب پچھلا کالم نکلا تھا تو وہاں عقل کے خلاف منکرین حدیث کی بات پر بیماری کا بیج بویا تھا اور اس کو صحیح کرنے کے لئے احادیث موجود تھیں مگر مدلل جواب ہمارے اوپر ڈال کر وعدہ اگلی دفعہ کرنے کا کیا تھا مگر عمل پھر بھی نہ کیا
اب وہی سایہ والی بات عقل کے خلاف لگی مگر وہاں حدیث پیش کر کے اسی وقت خود ہی رد کر دیا اس سے ہم کیا سمجھیں
 
  • پسند
Reactions: Dua

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یوسف ثانی صاحب !
اس کالم میں قابل اصلاح چیزوں کی نشاندہی کردی گئی ہے ۔ اب آپ ان چیزوں کو مرتب کرکے اپنے انداز میں جاوید صاحب کو ایک تحریر کی شکل میں بھیج سکتے ہیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میں جاوید چوہدری کے اس قسم کے ”دینی کالم“ کا بہت بڑا ناقد ہوں۔ چنانچہ میں متعدد مرتبہ انہیں مکتوب روانہ کرچکا ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ جاوید چوہدری کے سامنے میری کوئی ”اوقات“ نہیں ہے۔

لیکن میرا سوال یہ ہے کہ میڈیا اور سوشیل میڈیا پر موجود علمائے کرام اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا سے پیش ہونے والے ایسے غیر مستند دینی معاملات کا نوٹس کیوں نہیں لیتے۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں ہے۔ آج موٹی موٹی علمی کتب کو پڑھنے والا کوئی نہیں ہے (اور جو ہے وہ آٹے مین مک کے برابر ہیں)۔ آج کے 99 فیصد عوام ”میڈیا“ سے ”اثر“ لیتے ہیں۔ اور ہمارے علمائے کرام اسی میڈیا کو ”مانیٹر“ کرنے اور اس کا ”محاسبہ“ کرنے یا جواب دینے سے قاصر ہیں۔

اگر چند علمائے کرام بھی ایسی تحریروں کا جواب متعلقہ لکھاریوں اور اس کے اخبارات کو بھیجتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام تک حقیقی صورتحال نہ پہنچے۔ اور انہیں بھی معلوم ہوجائے کہ یہ بڑے بڑے قد آور لکھاری اسلام کے معاملہ میں ”اناڑی“ ہی ہیں۔
یوسف بھائی! آپ نے کئی مرتبہ دردِ دل کے ساتھ یہ شکوہ کیا ہے کہ ان کالم نگاروں کی ایسے غیر مستند دینی باتوں کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟؟!

مجھے ہمیشہ احساس ہوا ہے کہ اس سلسلے میں کافی کوتاہی موجود ہے اور کام کرنے کی اشدّ ضرورت ہے۔

آپ کے ذہن میں اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل ہو تو بتائیے ۔۔۔

کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ جس طرح آپ نے اس کالم کا یہاں تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح ایک دو اور ارکان فورم سے گزارش کی جائے کہ وہ بھی باقاعدہ اسی نیت سے اخبارات کے کالمز وغیرہ دیکھیں اور کوئی ایسی بات نظر آئے تو کالم کو یہاں شیئر کر دیں! تاکہ فورم پر موجود اہل علم اپنے انداز میں ایسے غیر مستند باتوں کا علمی تجزیہ کریں! اور پھر آپ جیسے حضرات انہیں سیٹ کر کے ان کالم نگاروں تک پہنچائیں یا ان کی پبلسٹی کا کوئی اور ذریعہ اختیار کیا جائے؟؟!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
یوسف بھائی! آپ نے کئی مرتبہ دردِ دل کے ساتھ یہ شکوہ کیا ہے کہ ان کالم نگاروں کی ایسے غیر مستند دینی باتوں کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟؟!

مجھے ہمیشہ احساس ہوا ہے کہ اس سلسلے میں کافی کوتاہی موجود ہے اور کام کرنے کی اشدّ ضرورت ہے۔

آپ کے ذہن میں اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل ہو تو بتائیے ۔۔۔

کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ جس طرح آپ نے اس کالم کا یہاں تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح ایک دو اور ارکان فورم سے گزارش کی جائے کہ وہ بھی باقاعدہ اسی نیت سے اخبارات کے کالمز وغیرہ دیکھیں اور کوئی ایسی بات نظر آئے تو کالم کو یہاں شیئر کر دیں! تاکہ فورم پر موجود اہل علم اپنے انداز میں ایسے غیر مستند باتوں کا علمی تجزیہ کریں! اور پھر آپ جیسے حضرات انہیں سیٹ کر کے ان کالم نگاروں تک پہنچائیں یا ان کی پبلسٹی کا کوئی اور ذریعہ اختیار کیا جائے؟؟!
ایک تجویز تو میں نے یہاں پیش کیا ہے:
http://forum.mohaddis.com/threads/سنگساری-جاوید-چوہدری-کے-سوالات-اور-مولانا-الیاس-کے-جوابات.21042/page-2

ایک طرف جہاں ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ علمائے کرام نے قرآن و حدیث کے علوم پر مستند کتابیں لکھ رکھی ہیں جن میں تمام نعصری مسائل کے حل موجود ہیں، دوسری طرف وہیں ہماری یہ بدقسمتی بھی ہے کہ ہم نے ان ذخیرہ کتب کو عوام الناس تک پہنچانے میں بوجوہ قاصر رہے ہیں۔ جملہ دینی کتابیں بھی تجارتی بنیادوں پر شائع ہوتی ہیں، جنہیں عوام الناس خریدنے سے قاصر رہتے ہیں۔ عوام تک رابطہ کا سستا ترین میڈیم، ابلاغ عامہ کے ذرائع ہین، جن پر کفار، ان کے ایجنٹوں اور بے دین مسلمانوں کا "قبضہ" ہے۔
جاوید چوہدری جیسے "دین پسند" مگر دین سے "ناواقف" کامیاب میڈیا پرسنز کو "ہم" بالعموم لفٹ نہیں کراتے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مستقل لکھنے اور بولنے والے تقریباً ایک ہزار افراد ایسے ہیں جو ہمارے 20 کروڑ عوام کے ذہن بنانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
اگر ہم ایساکوئی پلیٹ فارم بنا لیں، جس کی
  1. (الف) ایک ٹیم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیش ہونے والے "غیر اسلامی افکار" کو مسلسل مانیٹر کرتا رہے۔
  2. (ب) دوسری ٹیم اس قسم کے چھپنے اور نشر ہونے والے مواد کا فوری جواب تیار کرے
  3. (ج) تیسری ٹیم اس جواب کو ایڈٹ کرکے متعلقہ میڈیا پرسن، ادارے کے علاوہ متذکرہ بالا ایک ہزار افراد تک فوری ترسیل کو ممکن بنادے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم عوام الناس تک مسلسل پہنچنے والے منفی اور غیر اسلامی افکار کا توڑ پیش نہ کرسکیں۔
مگر میڈیا کی بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے گا کون؟
یہ کام منظم طریقے سے کوئی ادارہ ہی کرسکتا ہے۔ اگر ادارہ ھٰذا ایسا کوئی ”پلیٹ فارم“ منظم کرے تو یہ احقر ٹیم الف اور ٹیم ب کے ایک رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہر ٹیم مین کم از کم تین افراد تو ہونے ہی چاہئے۔ میرے پاس مستقل اردو کالم لکھنے والوں کے ای میلز آئ ڈی موجود ہیں۔ میں انہیں متعلقہ احباب تک شیئر کرسکتا ہوں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں اسی فورم میں ایک ایسا سیکشن کھول دیا جائے، جس میں ٹیم الف کے ارکان ایسے تصحیح طلب تحریریں اور کالم شیئر کریں۔ اور علماء کی ٹیم ان کا جواب پیش کرے۔ اور بعد ازاں یہی جواب مکمل یا ایڈٹ کرکے متعلقہ کالم نویس سمیت کاپی کاپی میں دیگر لکھاریوں اور اسی اخبار کے مدیر کو بھی بھیجا جائے۔
صحافتی دنیا میں یہ کام تیز رفتاری سے کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے اگر دو تین دن کے اندر اندر جابی مراسلے نہ بھیجے جاسکیں تو پھر ہفتہ عشرہ پرانے جوابی مراسلے کے شائع ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ان جوابی مراسلات کو سوشیل میڈیا پر بھی مشتہر کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایک طرف تو صحافیوں، کالم نویسوں کی "مس انفارمیشن" سے آگاہ ہوں اور ساتھ ہی ساتھ حقیقی اسلامی تصور سے آگہی حاصل کرسکیں۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ایک تجویز تو میں نے یہاں پیش کیا ہے:
http://forum.mohaddis.com/threads/سنگساری-جاوید-چوہدری-کے-سوالات-اور-مولانا-الیاس-کے-جوابات.21042/page-2



یہ کام منظم طریقے سے کوئی ادارہ ہی کرسکتا ہے۔ اگر ادارہ ھٰذا ایسا کوئی ”پلیٹ فارم“ منظم کرے تو یہ احقر ٹیم الف اور ٹیم ب کے ایک رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہر ٹیم مین کم از کم تین افراد تو ہونے ہی چاہئے۔ میرے پاس مستقل اردو کالم لکھنے والوں کے ای میلز آئ ڈی موجود ہیں۔ میں انہیں متعلقہ احباب تک شیئر کرسکتا ہوں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں اسی فورم میں ایک ایسا سیکشن کھول دیا جائے، جس میں ٹیم الف کے ارکان ایسے تصحیح طلب تحریریں اور کالم شیئر کریں۔ اور علماء کی ٹیم ان کا جواب پیش کرے۔ اور بعد ازاں یہی جواب مکمل یا ایڈٹ کرکے متعلقہ کالم نویس سمیت کاپی کاپی میں دیگر لکھاریوں اور اسی اخبار کے مدیر کو بھی بھیجا جائے۔
صحافتی دنیا میں یہ کام تیز رفتاری سے کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے اگر دو تین دن کے اندر اندر جابی مراسلے نہ بھیجے جاسکیں تو پھر ہفتہ عشرہ پرانے جوابی مراسلے کے شائع ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔
یوسف بھائی !
اس سلسلے میں ، میں تعاون کے لیے تیار ہوں ان شاء اللہ
تاہم انتظامیہ سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔کہ اسے جلد شروع کیا جائے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ایک تجویز تو میں نے یہاں پیش کیا ہے:
http://forum.mohaddis.com/threads/سنگساری-جاوید-چوہدری-کے-سوالات-اور-مولانا-الیاس-کے-جوابات.21042/page-2



یہ کام منظم طریقے سے کوئی ادارہ ہی کرسکتا ہے۔ اگر ادارہ ھٰذا ایسا کوئی ”پلیٹ فارم“ منظم کرے تو یہ احقر ٹیم الف اور ٹیم ب کے ایک رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہر ٹیم مین کم از کم تین افراد تو ہونے ہی چاہئے۔ میرے پاس مستقل اردو کالم لکھنے والوں کے ای میلز آئ ڈی موجود ہیں۔ میں انہیں متعلقہ احباب تک شیئر کرسکتا ہوں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں اسی فورم میں ایک ایسا سیکشن کھول دیا جائے، جس میں ٹیم الف کے ارکان ایسے تصحیح طلب تحریریں اور کالم شیئر کریں۔ اور علماء کی ٹیم ان کا جواب پیش کرے۔ اور بعد ازاں یہی جواب مکمل یا ایڈٹ کرکے متعلقہ کالم نویس سمیت کاپی کاپی میں دیگر لکھاریوں اور اسی اخبار کے مدیر کو بھی بھیجا جائے۔
صحافتی دنیا میں یہ کام تیز رفتاری سے کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے اگر دو تین دن کے اندر اندر جابی مراسلے نہ بھیجے جاسکیں تو پھر ہفتہ عشرہ پرانے جوابی مراسلے کے شائع ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔

بالکل ایسا ہو سکتا ہے!
شاکر بھائی
خضر حیات بھائی!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
بالکل ایسا ہو سکتا ہے!
شاکر بھائی
خضر حیات بھائی!
انس بھائی،
سیکشن کا نام تجویز کر دیں تو ابھی بنا دیتے ہیں۔
اگر مستقبل میں یہ سلسلہ کامیابی سے چلتا ہے تو پھر اس کے لئے علیحدہ مخصوص ویب سائٹ بنانے کا بھی سوچا جا سکتا ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
سیکشن کا نام کچھ بھی رکھ لیں۔ کیونکہ یہاں تو یہ ”اندرونی معاملہ“ ہے۔ لیکن کالم نویسوں اور اخبارات کے مدیران تک جوابات بھیجنا ایک ”بیرونی معاملہ“ ہوگا، جسے ”فارمل“ ہونا چاہئے تاکہ ان جوابات کا وزن برقرار رہ سکے۔
مثلاً اگر ہم ایک ”میڈیا مانیٹرنگ سیل“ (یا کوئی اور مناسب نام) قائم کر لیں۔ جس کا کوئی باقاعدہ دفتر (کسی بھی ”موجودہ دفتر“ کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے) بھی ہو۔ تو یہ ایک ”رسمی ادارہ“ بن جائے گا۔ اور اضافی خرچ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
اس سیکشن میں ”مانیٹرنگ“ کے لئے آنے والی تحاریر کا اگر کوئی جواب ”تیار“ کیا گیا تو اس جواب کو مجوزہ میڈیا مانیٹرنگ سیل کے ”لیٹر ہیڈ“ پر متعلقہ کالم نویس اور اس اخبار کے مدیر کو ای میل اور رسمی ڈاک دونوں ذرائع سے بھیجا جائے۔ واضح رہے کہ اردو اخبارات کے بیشتر مدیران تا حال رسمی ڈاک سے موصولہ مضامین کو ہی اہمیت دیتے ہیں ۔ البتہ دیگر قلمکاروں کو اس جواب کی کاپی صرف اور صرف ای میل سے ہی بھیجی جائے۔
میڈیا مانیٹرنگ سیل کے ”ذمہ داران“ ممتاز علمائے کرام ( اور ایک دو صحافتی معاون) ہوں۔ جن کے نام اور ان کی وابستگیاں (بمع ای میل رابطہ) مجوزہ لیٹر ہیڈ پر کندہ ہوں۔ یہ لیٹر ہیڈ صرف کمپیوٹر پر تیار کیاجائے، اسے چھپوانے کی ضرورت نہیں۔ ہر جواب اسی لیٹر ہیڈ پر کمپوز کرکے اس کے پی ڈی ایف، امیج ورژن بنا لئے جائیں۔ جسے سوشیل میڈیا پر بھی مشتہر کیا جائے۔ ہر جواب کی صرف دو کاپیاں پرنٹ کرکے بذریعہ ڈاک مدیر اخبار و کالم نویس کو اور بقیہ ڈاک ای میل سے بھیجی جائیں۔

یہ میری تجاویز ہیں، اس میں ضروری کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میری رائے یہ ہے کہ ابتدائی طور پر اس کام کو یوں شروع کرنا چاہیے :
  1. اخبارات سے مطلوبہ کالموں کو ڈھونڈنا ۔
  2. ان پر تبصرہ کرنا ۔
  3. ان تبصرہ جات کو کالم کی شکل میں مرتب کرنا ۔
  4. علماء کی نظر ثانی ۔
  5. کالم نگاروں اور اخبارات کی انتظامیہ کو میل کرنا ۔
اس کے لیے ضروری چیزیں :
  1. ایک لیٹر پیڈ ہو جس پر محدث فورم کا ایڈریس وغیرہ ہو یہی کافی ہے ۔ کیونکہ فورم کا مجلہ محدث اور کتاب وسنت لائبریری کے ساتھ مل کر ایک اچھا نام اور بہترین شہرت ہے ۔ اسی طرح یہاں بہترین علمی و صحافیانہ صلاحیتیں رکھنے والی شخصیات کا ہونا بھی اس کی علمی حیثیت کو چار چاند لگاتا ہے لیکن پھر بھی اگر ہم صرف بعض شخصیات کا نام استعمال کریں گے تو وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکیں گے ۔ واللہ اعلم ۔
  2. دو یا تین علماء کرام ( جو تبصرے کا کام سر انجام دے سکیں ) @ سرفراز فیضی صاحب ، شیخ کفایت اللہ صاحب یہ دو نام میرے ذہن میں آرہے ہیں ۔
  3. یوسف ثانی صاحب کے ساتھ ایک معاون ہو جو حسب ضرورت تبصرہ جات کو کالم کی شکل میں مرتب کرنے میں مدد کرے ۔ محترم حیدرآبادی صاحب بہت مناسب رہیں گے اگر وقت نکال سکیں تو ۔
اس کے علاوہ فورم پر موجود محترم حافظ طاہر اسلام عسکری اور محترم جواد حیدر صاحب سے بھی اس اہم کام کے کسی بھی مرحلہ میں شامل ہونے کی بہترین اہلیت رکھتے ہیں ۔ اگر یہ حضرات وقت نکالیں تو یہ کام مزید بہترین طریقہ سے سر انجام دیا جاسکتا ہے ۔
سیکشن کا نام کچھ بھی رکھ لیں۔ کیونکہ یہاں تو یہ ”اندرونی معاملہ“ ہے۔ لیکن کالم نویسوں اور اخبارات کے مدیران تک جوابات بھیجنا ایک ”بیرونی معاملہ“ ہوگا، جسے ”فارمل“ ہونا چاہئے تاکہ ان جوابات کا وزن برقرار رہ سکے۔
مثلاً اگر ہم ایک ”میڈیا مانیٹرنگ سیل“ (یا کوئی اور مناسب نام) قائم کر لیں۔ جس کا کوئی باقاعدہ دفتر (کسی بھی ”موجودہ دفتر“ کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے) بھی ہو۔ تو یہ ایک ”رسمی ادارہ“ بن جائے گا۔ اور اضافی خرچ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
اس سیکشن میں ”مانیٹرنگ“ کے لئے آنے والی تحاریر کا اگر کوئی جواب ”تیار“ کیا گیا تو اس جواب کو مجوزہ میڈیا مانیٹرنگ سیل کے ”لیٹر ہیڈ“ پر متعلقہ کالم نویس اور اس اخبار کے مدیر کو ای میل اور رسمی ڈاک دونوں ذرائع سے بھیجا جائے۔ واضح رہے کہ اردو اخبارات کے بیشتر مدیران تا حال رسمی ڈاک سے موصولہ مضامین کو ہی اہمیت دیتے ہیں ۔ البتہ دیگر قلمکاروں کو اس جواب کی کاپی صرف اور صرف ای میل سے ہی بھیجی جائے۔
میڈیا مانیٹرنگ سیل کے ”ذمہ داران“ ممتاز علمائے کرام ( اور ایک دو صحافتی معاون) ہوں۔ جن کے نام اور ان کی وابستگیاں (بمع ای میل رابطہ) مجوزہ لیٹر ہیڈ پر کندہ ہوں۔ یہ لیٹر ہیڈ صرف کمپیوٹر پر تیار کیاجائے، اسے چھپوانے کی ضرورت نہیں۔ ہر جواب اسی لیٹر ہیڈ پر کمپوز کرکے اس کے پی ڈی ایف، امیج ورژن بنا لئے جائیں۔ جسے سوشیل میڈیا پر بھی مشتہر کیا جائے۔ ہر جواب کی صرف دو کاپیاں پرنٹ کرکے بذریعہ ڈاک مدیر اخبار و کالم نویس کو اور بقیہ ڈاک ای میل سے بھیجی جائیں۔
یہ میری تجاویز ہیں، اس میں ضروری کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔
محترم یوسف ثانی صاحب کی یہ تجاویز بہت اہم ہیں ۔ لیکن شاید اس طرح سے ایک ٹیم تشکیل دینے کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑے گا وہ ذرا وقت اور دقت طلب کام ہے ۔
میرے خیال سے ایک سادہ سے لائحہ عمل کے تحت اس کو کام کو شروع کرکے اگر ہم کوئی قابل توجہ مواد پیش کرنے میں کامیاب رہے اور فیس بک وغیرہ پر لوگوں نے اس کو مفید اور ضروری سمجھا تو یقینا آہستہ آہستہ ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ اس کام کو باقاعدہ ایک تحریک اور ادارہ کی شکل میں آگے بڑھا سکیں گے ۔
فورم پر زمرے کا نام "میڈیا مانیٹرنگ سیل" ہی رکھ لیں ۔ لیکن یہ بات ابھی تک طے ہونے والی ہے کہ یہ زمرہ سب کی دسترس میں ہوگا یا پھر انہیں افراد کو رسائی ہوگی جنہوں نے اس کام میں شریک ہونا ہے ۔ ؟ میں آخری بات کو ترجیح دوں گا ۔ ہاں جب ’’ تحریر ‘‘ حتمی مرحلے میں پہنچ جائے تو پھر تمام اراکین و غیر اراکین فورم کے لیے پیش کردی جائے ۔
یہ میری تجاویز ہیں، ان میں ضرور کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔
 
Top