فہد یوسف
سرگرم رکن
- شمولیت
- جولائی 29، 2012
- پیغامات
- 6,324
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 36,985
ابن حزم تو عقیدے میں جہمی ہیں، انہیں اہل حدیث شمار کرنا پرلے درجے کی حماقت اور بے وقوفی ہے۔ جہمیہ اور سلفیہ میں کیا کوئی فرق نہیں ہے؟ شیخ بن باز علیہ الرحمۃ تو ابن حزم کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں کہتے تو آپ انہیں اہل حدیث شمار کر رہے ہیں۔ ابن حزم ایک جید عالم دین تھے اور ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا ان سے متاثر ہونا صرف اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اماموں کا خوب رد کیا ہے تو جن لوگوں کی زندگی کا مقصد رد تقلید ہے تو ان کے واقعتا امام، ابن حزم ہی ہیں۔ کوئی جہمیہ پر اچھا سا مقالہ عربی میں پڑھ لیں تا کہ معلومات میں اضافہ ہو جائے کہ سلفیہ اور جہمیہ کا عقیدے میں فرق کیا ہے۔
باقی رہے ابن الجوزی علیہ الرحمۃ تو وہ بھی عقیدے میں اشعری ہیں نہ کہ سلفی۔ اور اشعریہ اور سلفیہ کا فرق جاننے کے لیے اشعریہ پر کوئی اچھا سا مقالہ عربی میں پڑھ لیں۔
قال شيخ الإسلام في "الأصفهانية" (ص109) فقال: «إن كثيراً من الناس ينتَسِبُ إلى السنة أو الحديث أو إتباع مذهب السلف أو الأئمة أو مذهب الإمام أحمد أو غيره من الأئمة أو قول الأشعري أو غيره، ويكون في أقواله ما ليس بموافقٍ لقولِ من انتسب إليهم. فمعرفة ذلك نافعةٌ جداً. كما تقدم في الظاهرية الذين ينتسبون إلى الحديث والسنة، حتى أنكروا القياس الشرعي المأثور عن السلف والأئمة، ودخلوا في الكلام الذي ذمه السلف والأئمة، حتى نفوا حقيقة أسماء الله وصفاته، وصاروا مشابهين للقرامطة الباطنية. بحيث تكون مقالة المعتزلة في أسماء الله، أحسن من مقالتهم! فهم مع دعوى الظاهر، يقرمطون في توحيد الله وأسمائه. وأما السفسطة في العقليات فظاهرة».
محترم آپ اس کا مفصل جواب اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں
https://ahlehadeeth.com/2017/08/05/1851/