- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,592
- پوائنٹ
- 791
منہال بن عمرو ؒ
کئی جلیل القدر متقدمین محدثین نے اس کے ثقہ ہونے کی شہادت دی ہے ۔۔
ابن حزم تو عقیدے میں جہمی ہیں، انہیں اہل حدیث شمار کرنا پرلے درجے کی حماقت اور بے وقوفی ہے۔ جہمیہ اور سلفیہ میں کیا کوئی فرق نہیں ہے؟ شیخ بن باز علیہ الرحمۃ تو ابن حزم کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں کہتے تو آپ انہیں اہل حدیث شمار کر رہے ہیں۔ ابن حزم ایک جید عالم دین تھے اور ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا ان سے متاثر ہونا صرف اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اماموں کا خوب رد کیا ہے تو جن لوگوں کی زندگی کا مقصد رد تقلید ہے تو ان کے واقعتا امام، ابن حزم ہی ہیں۔ کوئی جہمیہ پر اچھا سا مقالہ عربی میں پڑھ لیں تا کہ معلومات میں اضافہ ہو جائے کہ سلفیہ اور جہمیہ کا عقیدے میں فرق کیا ہے۔محترم -
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اصحاب التناسخ پر کفر کا فتوی لگایا ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا تمام اہل اسلام کے نزدیک کفر ہے اور انہوں نے اس مسئلہ کو عقیدہ توحید کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
ارواح نہ تو فنا ہوتی ہیں اور نہ ہی دوسرے جسموں (برزخی) کی طرف منتقل ہوتی ہیں لیکن وہ باقی رہتی ہیں، زندہ رہتی ہیں آرام و آسائش اور اذیت و تکلیف کو برداشت کرنے میں حساس و عاقل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا پھر اچھے اعمال اور جنت و جہنم کے بدلے کے لئے ان کو ان کے جسموں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ سوائے انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کرام کی ارواح کے، کہ وہ اب بھی رزق اور نعمتوں سے سرشار ہیں اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ روحیں ان جسموں سے جدا ہونے کے بعد دوسرے جسموں میں منتقل کر دی جاتی ہیں (یا باالفاظ دیگر ان ارواح کو برزخی اجسام دیئے جاتے ہیں) تو یقینا یہ کفر ہے -
جو شخص یہ دعوی کرے کہ روحیں دوسرے جسموں میں منتقل ہو جاتی ہیں تو یہ قول اصحاب التناسخ کا ہے اور تمام اہل اسلام کی نگاہ میں (ایسا عقیدہ رکھنا) کفر ہے‘‘۔
(المحلی بالآثار جلد اول ص۴۴، ۴۵ طبع دارالفکر بیروت)۔
مزید فرماتے ہے کہ :
وَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ أَنَّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ رَدَّ الرُّوحِ إلَى الْجَسَدِ إلَّا الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو، وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ
اور کسی نے یہ روایت نہیں کیا کہ عذاب القبر میں روح جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے سوائے الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو کے اور وہ قوی نہیں
ابن الجوزی اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار
پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں-
السلام و علیکم -ابن حزم تو عقیدے میں جہمی ہیں، انہیں اہل حدیث شمار کرنا پرلے درجے کی حماقت اور بے وقوفی ہے۔ جہمیہ اور سلفیہ میں کیا کوئی فرق نہیں ہے؟ شیخ بن باز علیہ الرحمۃ تو ابن حزم کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں کہتے تو آپ انہیں اہل حدیث شمار کر رہے ہیں۔ ابن حزم ایک جید عالم دین تھے اور ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا ان سے متاثر ہونا صرف اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اماموں کا خوب رد کیا ہے تو جن لوگوں کی زندگی کا مقصد رد تقلید ہے تو ان کے واقعتا امام، ابن حزم ہی ہیں۔ کوئی جہمیہ پر اچھا سا مقالہ عربی میں پڑھ لیں تا کہ معلومات میں اضافہ ہو جائے کہ سلفیہ اور جہمیہ کا عقیدے میں فرق کیا ہے۔
باقی رہے ابن الجوزی علیہ الرحمۃ تو وہ بھی عقیدے میں اشعری ہیں نہ کہ سلفی۔ اور اشعریہ اور سلفیہ کا فرق جاننے کے لیے اشعریہ پر کوئی اچھا سا مقالہ عربی میں پڑھ لیں۔
قال شيخ الإسلام في "الأصفهانية" (ص109) فقال: «إن كثيراً من الناس ينتَسِبُ إلى السنة أو الحديث أو إتباع مذهب السلف أو الأئمة أو مذهب الإمام أحمد أو غيره من الأئمة أو قول الأشعري أو غيره، ويكون في أقواله ما ليس بموافقٍ لقولِ من انتسب إليهم. فمعرفة ذلك نافعةٌ جداً. كما تقدم في الظاهرية الذين ينتسبون إلى الحديث والسنة، حتى أنكروا القياس الشرعي المأثور عن السلف والأئمة، ودخلوا في الكلام الذي ذمه السلف والأئمة، حتى نفوا حقيقة أسماء الله وصفاته، وصاروا مشابهين للقرامطة الباطنية. بحيث تكون مقالة المعتزلة في أسماء الله، أحسن من مقالتهم! فهم مع دعوى الظاهر، يقرمطون في توحيد الله وأسمائه. وأما السفسطة في العقليات فظاهرة».
حافظ عبداللہ بہالپوی فرماتےہیں۔کہ جو اہل حدیث الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں وہ اہل حدیث نہیںبسم اللہ الرحمن الرحیم
جن علماء کو جمہوریت کا قائل بتا کر ان کےخلاف فتوی کا مطالبہ کیا گیا ہے ،
تو شریعت اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ پہلے ان کا جمہوریت کے بارے میں اپنا موقف اور نظریہ تو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے ؛
صرف لفظ "جمہوریت " یا مروجہ جمہوریت والوں سے ان کی آمد و رفت فتوی کےلئے کافی نہیں ؛
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جمہوریت کا نام استعمال کرنے کے باوجود "اصلی جمہوریت " یعنی مغربی جمہوریت کے سرے سے قائل ہی نہ ہوں؛
یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ اس نظام کو محض۔۔اضطراری حلال ۔ ہی سمجھتے ہوں ؛
بہرحال وہ خود ہی فرداً فرداً اپنا نظریہ یا عقیدہ بتا سکتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ انکار عذاب قبر وغیرہ نظریات جن لوگوں نے بقلم خود اس فورم پر بتائے ۔ان کو پڑھنے والا،قائلین و منکرین کے بارے کسی قسم کا فتوی ان کی تحریری وتقریری بیانات کو دیکھ کر دے گا ۔
السلام و علیکم -
اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟؟ کیا یہ صحابہ کرام رضوان اجمعین و سلف و صالحین کا بھی یہی عقیدہ تھا ؟؟؟
ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ
اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے
یعنی مٹی کے نیچے دبی مردہ میّت زندہ سے زیادہ قوی ہوتی ہے – زندہ انسان کی یاداشت خراب بھی ہو جاتی ہے لیکن میّت اس عیب سے پاک ہے نہ صرف سنتی ہے بلکہ پہچانتی بھی ہے
ابن تیمیہ فتویٰ میں لکھتے ہیں مجموع الفتاوى ج ٣ ص ٤١٢
أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ
بے شک میّت زندہ کا کلام سنتی ہے اور یہ واجب نہیں آتا کہ یہ سننا دائمی ہو بلکہ یہ سنتی ہے حسب حال
آپ نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اس بات کے قائل تھے کہ میّت زندہ کا کلام سنتی ہے – کہاں ہیں وہ جو دعوی کرتے ہیں کہ میّت صرف دفنانے والوں کی چاپ سنتی ہے-
ابن تیمیہ کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم مدینہ کی قبرمیں زندہ ہیں – وہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں:.
كان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيرهRB]H]
اور سعيد ين المسيب ایام الحرہ میں اوقات نماز قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اذان کی آواز سن کر معلوم کرتے تھے اور مسجد (النبی) میں کوئی نہ تھا اور وہ با لکل خالی تھی
افسوس کہ الله کے نبی کو زندہ درگور کر دیا گیا
ابن تیمیہ اس کے بھی قائل تھے کہ (مجموع الفتاوى ج ٢٧ ص ٣٨٤
أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب
نبی صلی الله علیہ وسلم قبر کے قریب پکارا جانے والا سلام سنتے ہیں
جب کہ حضرت عمر رضی الله عنہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله کا عقیدہ اس کے برعکس تھا -
http://forum.mohaddis.com/threads/حضرت-عمر-رضی-اللہ-عنہ-بھی-سماعِ-موتٰی-کے-منکر-تھے.9911/
یہ لنک بھی پڑھیے - اس فورم پر ایک اہل حدیث بھائی نے یہاں پوسٹ کیا ہے - یہ پوسٹ دیوبندی حیاتی عقیدے کے رد میں لکھی گئی ہے- امام ابن تیمیہ رح بھی اسی عقیدے کے قائل تھے جس کے دیوبندی حیاتی قائل ہیں کہ نبی کریم اپنی قبر میں زندہ ہیں -
http://forum.mohaddis.com/threads/عقیدہِ-حیات-فی-القبور-و-حیات-النبی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-فی-القبر-حصہ-اول.11939/
لہذا عقیدہ یہ بنا کہ میّت حس و عقل رکھتی ہے سنتی ہے زائر کو پہچانتی ہے قبر کے اوپر کے حالات سے واقف ہوتی ہے
اب اگر میّت اتنی قوت والی ہے تو کیوں نہ پوجی جائے کیوں نہ غیر الله کو پکارا جائے کیوں نہ قبروں سے فیض حاصل کیا جائے –
اس کے برعکس قرآن کا فیصلہ ہے کہ میّت مٹی مٹی ہو جاتی ہے سنتی نہیں اور روح اس جسد میں اب قیامت کے دن آے گی-
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سورة النحل آیات ۲۰ ۔ ۲۱
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پید انہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ تو مُردے ہیں جن میں جان نہیں ور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦
پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے
چلیں مقام شکر ہے کہ آپ ’‘ انسان ’‘ کو ۔۔سمیع ، بصیر تو تسلیم کیا ، یہی مطلوب ہے ؛
ان دونوں عبارتوں کا ترجمہ کسی عربی شناس سے درست کروا کر سیکھ لیں ، ان شاء اللہ الکریم فائدہ ہوگا ؛
بھائی اس بات کا کیا ثبوت ہے - کوئی حوالہ تو دیں کہحافظ عبداللہ بہالپوی فرماتےہیں۔کہ جو اہل حدیث الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں وہ اہل حدیث نہیں
ہیں
@اسحاق سلفی بھائی میں نے یہ پورا تھریڈ پڑھا - آپ نے خود ہے مجھے اس کا لنک دیا - کافی معلوماتی تھریڈ ہے یہ -السلام و علیکم -
اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟؟ کیا یہ صحابہ کرام رضوان اجمعین و سلف و صالحین کا بھی یہی عقیدہ تھا ؟؟؟
ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ
اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے
یعنی مٹی کے نیچے دبی مردہ میّت زندہ سے زیادہ قوی ہوتی ہے – زندہ انسان کی یاداشت خراب بھی ہو جاتی ہے لیکن میّت اس عیب سے پاک ہے نہ صرف سنتی ہے بلکہ پہچانتی بھی ہے
ابن تیمیہ فتویٰ میں لکھتے ہیں مجموع الفتاوى ج ٣ ص ٤١٢
أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ
بے شک میّت زندہ کا کلام سنتی ہے اور یہ واجب نہیں آتا کہ یہ سننا دائمی ہو بلکہ یہ سنتی ہے حسب حال
آپ نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اس بات کے قائل تھے کہ میّت زندہ کا کلام سنتی ہے – کہاں ہیں وہ جو دعوی کرتے ہیں کہ میّت صرف دفنانے والوں کی چاپ سنتی ہے-
ابن تیمیہ کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم مدینہ کی قبرمیں زندہ ہیں – وہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں:.
كان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيرهRB]H]
اور سعيد ين المسيب ایام الحرہ میں اوقات نماز قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اذان کی آواز سن کر معلوم کرتے تھے اور مسجد (النبی) میں کوئی نہ تھا اور وہ با لکل خالی تھی
افسوس کہ الله کے نبی کو زندہ درگور کر دیا گیا
ابن تیمیہ اس کے بھی قائل تھے کہ (مجموع الفتاوى ج ٢٧ ص ٣٨٤
أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب
نبی صلی الله علیہ وسلم قبر کے قریب پکارا جانے والا سلام سنتے ہیں
جب کہ حضرت عمر رضی الله عنہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله کا عقیدہ اس کے برعکس تھا -
http://forum.mohaddis.com/threads/حضرت-عمر-رضی-اللہ-عنہ-بھی-سماعِ-موتٰی-کے-منکر-تھے.9911/
یہ لنک بھی پڑھیے - اس فورم پر ایک اہل حدیث بھائی نے یہاں پوسٹ کیا ہے - یہ پوسٹ دیوبندی حیاتی عقیدے کے رد میں لکھی گئی ہے- امام ابن تیمیہ رح بھی اسی عقیدے کے قائل تھے جس کے دیوبندی حیاتی قائل ہیں کہ نبی کریم اپنی قبر میں زندہ ہیں -
http://forum.mohaddis.com/threads/عقیدہِ-حیات-فی-القبور-و-حیات-النبی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-فی-القبر-حصہ-اول.11939/
لہذا عقیدہ یہ بنا کہ میّت حس و عقل رکھتی ہے سنتی ہے زائر کو پہچانتی ہے قبر کے اوپر کے حالات سے واقف ہوتی ہے
اب اگر میّت اتنی قوت والی ہے تو کیوں نہ پوجی جائے کیوں نہ غیر الله کو پکارا جائے کیوں نہ قبروں سے فیض حاصل کیا جائے –
اس کے برعکس قرآن کا فیصلہ ہے کہ میّت مٹی مٹی ہو جاتی ہے سنتی نہیں اور روح اس جسد میں اب قیامت کے دن آے گی-
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سورة النحل آیات ۲۰ ۔ ۲۱
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پید انہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ تو مُردے ہیں جن میں جان نہیں ور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦
پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے