• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موت سے پہلے سیدنا عمرو بن عاص رضی الله عنہ کی وصیت پر اہل ایمان موقف

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
محترم علوی صاحب -


جہاں تک عقیدہ عذاب قبر کا تعلق تو اس میں ہمارے اہل سلف بھائییوں کو یہ مغالطہ ہے کہ اس معاملے پر اہل سنّت والجماعت کے اجماع ہے - پہلی بات تو یہ کہ بہت سے دور حاضر کے علماء اجماع کے قانون کے ہی قائل نہیں - یعنی اجماع کے قانون پر ہی اجماع نہیں - دوسری بات یہ کہ فرقہ معتزلہ ، جہمیہ وغیرہ نے جن عقائد سے روگردانی کی وہ قرآن و احادیث نبوی کی واضح نصوص سے ثابت ہو رہے تھے - جہاں تک آپ نے عثمانیوں کی بات کی ہے تو میں یہ پھر کہوں گا کہ کسی باطل فرقے کا عقیدہ قرانی نصوص سے میل کھا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو اسی فرقے سے منسوب کر دیا جائے -ہمارے اکثر اہل حدیث بھائی جذباتی ہو کر کسی پر بھی منکر حدیث کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں - لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ روایات کے مفہوم کو جانچنے اور پرکھنے کے معاملے میں قرون اولیٰ میں محدثین مجتہدین میں بھی اختلاف راے ہوا - امام ابن جوزی رح تو یہاں تک پہنچ گئے کہ ان کے نزدیک نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے منسوب جو روایت درایت کے اصول پر پورا نہیں اترتی اس کی اگر روایت بھی صحیح تو وہ قابل قبول نہیں- امام ذہبی رح فرماتے ہے کہ اگر روی ثقہ ہو تو یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ ہر مرتبہ ہی صحیح بات کرے گا -نسیان و بھول چوک اس سے بھی ممکن ہے اکثرعلماء امام ابو حنیفہ کو ثقہ نہیں سمجھتے - احدیث نبوی کے مفہوم میں اختلاف کی مثالیں خود نبی کریم کے اپنے دور میں بھی ملتیں ہیں - پھر یہ کہ عقائد کے کئی ایک معاملات میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوتا تو وہ ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس جاتے - آپ رضی الله عنہ اپنے فہم سے ان کی تسلی و تشفی فرماتین- لیکن کبھی کسی پر انہوں نے منکر حدیث کا الزام عائد نہیں کیا -

اصل چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ منکر حدیث اصل میں وہ فرقہ یا لوگ ہیں جو احادیث نبوی کی کلی افادیت کے قائل نظر نہیں آتے - جو اپنے موقف کی تائید سے مستشرقین کے نظریات کو جلا بخشتے ہیں -جسے دور حاضر میں جاوید غامدی وغیرہ جیسے لوگ - جو مغرب کے افکار کو زبردستی دین اسلام میں ایک خاص مقام دینا چاہتے ہیں - اب چاہے وہ موسیقی کے دلدادہ ہوں یا جمہوریت (جو کہ یہود و نصاریٰ کا بنایا گیا ایک نظام حکمرانی ہے) اس کو حق ثابت کرنے کی کوشش کریں یا عورتوں و مردوں کے اخلاط کو دین اسلام کی آڑ میں جائز قرار دیں -یا مردوں سے تین شادیوں کا قرانی حق چھیننے کی کوشش کریں - یہی اصل منکر حدیث ہیں- کیوں کہ یہ وہ نظریات ہیں جن کا قرون اولیٰ میں کسی ایک روایت سے بھی ثبوت نہیں ملتا -

لہذا اگر عقائد میں اجتہادی سطح پر آپ کسی کو اہل حدیث منہج سے فارغ کرنے کے اصول روا رکھیں گے-تو خود دور حاضر کے کئی اہل حدیث علماء اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے-

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)

والسلام -
آپ نے کہا
جہاں تک عقیدہ عذاب قبر کا تعلق تو اس میں ہمارے اہل سلف بھائییوں کو یہ مغالطہ ہے کہ اس معاملے پر اہل سنّت والجماعت کے اجماع ہے -
برادر ! یہ سلفیوں کا مغالطہ نہیں ،بلکہ واقعی ثابت شدہ حقیقت ہے ؛ اور اجماع سے بھی بڑی دلیل سے ثابت ہے
عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم انه " مر بقبرين يعذبان ، فقال:‏‏‏‏ إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير اما احدهما فكان لا يستتر من البول واما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم اخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين ثم غرز في كل قبر واحدة فقالوا يا رسول الله:‏‏‏‏ لم صنعت هذا؟ فقال:‏‏‏‏ لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا ".
سیدنا عبد اللہ بن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہو رہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی (شاخ ) لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
صحیح بخاری كتاب الجنائز حدیث :1361
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے حدیث شریف کے الفاظ ہیں ’‘ النبي صلى الله عليه وسلم انه "
مر بقبرين يعذبان ’‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔

اب توجہ سے سنیں ، مر بقبرين يعذبان ’’ دو قبروں پر سے گزرے جن کو عذاب ہو رہا تھا’’
حالانکہ سب جانتے ہیں ،عذاب قبر کو نہیں ،بلکہ قبر کے اندر دفن بندے کو ہوتا ہے ،
لیکن چونکہ عذاب میں مبتلا آدمی قبر میں ہی تھے اوریہ قبریں عذاب کا محل تھیں اس لئے ۔ایسا فرمایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا دعوی آپ نے یہ کیا کہ
ابن جوزی رح تو یہاں تک پہنچ گئے کہ ان کے نزدیک نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے منسوب جو روایت درایت کے اصول پر پورا نہیں اترتی اس کی اگر روایت بھی صحیح تو وہ قابل قبول نہیں-
براہ کرم اس کا ماخذ و مصدر بتائیں ۔۔۔۔۔
اور ضروری بات یہ کہ "درایت " کا مفہوم ومراد ۔۔سلف کے کسی محدث کے حوالے سے بتائیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
چلیں آپ کے ”بے حد اصرار“ پر میں آپ کو یہ ”راز“ بتا ہی دیتا ہوں ،اللہ تعالٰی کے لیے”مسلکِ اعتدال“ کا ”پورا“ نہیں بلکہ اسکا صرف او ر صرف” پہلا صفحہ“پڑھ لیں اور میری ”جان“ بخش دیں۔
سلام علیکم
برادر گرامی !
بڑی معذرت اور انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے الفاظ میں اپنا عقیدہ یا نظریہ بتانے سے گریزاں کیوں ہیں ؟
حالانکہ مختلف پوسٹوں پر بھی تو آپ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو یہاں کیا "موانع "
مختصر اور واضح لفظوں میں کھل کر اپنا نظریہ سامنے لائیں ۔کوئی۔ مانے یا نہ مانے۔ آپ اس کی فکر کئے بغیر بتائیں ؛؛
میں سمجھتا ہوں آپ کی تحریر۔ مفید و مؤثر۔ ثابت ہوگی۔ ان شاءاللہ
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
سلام علیکم
برادر گرامی !
بڑی معذرت اور انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے الفاظ میں اپنا عقیدہ یا نظریہ بتانے سے گریزاں کیوں ہیں ؟
حالانکہ مختلف پوسٹوں پر بھی تو آپ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو یہاں کیا "موانع "
مختصر اور واضح لفظوں میں کھل کر اپنا نظریہ سامنے لائیں ۔کوئی۔ مانے یا نہ مانے۔ آپ اس کی فکر کئے بغیر بتائیں ؛؛
میں سمجھتا ہوں آپ کی تحریر۔ مفید و مؤثر۔ ثابت ہوگی۔ ان شاءاللہ
وعلیکم السلام !
”مسلکِ اعتدال“ کا ”پورا“ نہیں بلکہ اسکا صرف او ر صرف” پہلا صفحہ“پڑھ لیں وہی ”مختصر اور واضح“ الفاظ ہیں جو ”مفید ومؤثر“ ہونگے۔ ان شاء اللہ تعالٰی ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ نے کہا

برادر ! یہ سلفیوں کا مغالطہ نہیں ،بلکہ واقعی ثابت شدہ حقیقت ہے ؛ اور اجماع سے بھی بڑی دلیل سے ثابت ہے
عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم انه " مر بقبرين يعذبان ، فقال:‏‏‏‏ إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير اما احدهما فكان لا يستتر من البول واما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم اخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين ثم غرز في كل قبر واحدة فقالوا يا رسول الله:‏‏‏‏ لم صنعت هذا؟ فقال:‏‏‏‏ لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا ".
سیدنا عبد اللہ بن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہو رہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی (شاخ ) لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
صحیح بخاری كتاب الجنائز حدیث :1361
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے حدیث شریف کے الفاظ ہیں ’‘ النبي صلى الله عليه وسلم انه "
مر بقبرين يعذبان ’‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔

اب توجہ سے سنیں ، مر بقبرين يعذبان ’’ دو قبروں پر سے گزرے جن کو عذاب ہو رہا تھا’’
حالانکہ سب جانتے ہیں ،عذاب قبر کو نہیں ،بلکہ قبر کے اندر دفن بندے کو ہوتا ہے ،
لیکن چونکہ عذاب میں مبتلا آدمی قبر میں ہی تھے اوریہ قبریں عذاب کا محل تھیں اس لئے ۔ایسا فرمایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا دعوی آپ نے یہ کیا کہ

براہ کرم اس کا ماخذ و مصدر بتائیں ۔۔۔۔۔
اور ضروری بات یہ کہ "درایت " کا مفہوم ومراد ۔۔سلف کے کسی محدث کے حوالے سے بتائیں ۔

محترم سلفی بھائی -

جو مجھ پر اور T H K بھائی پر منکر حدیث کا الزام عائد کرنے کی لا حاصل سعی میں لگے ہوے ہیں - صحیح بخاری کی اس "صحیح" حدیث سے کیا نتیجہ اخذ کریں گے ؟؟؟ کیوں کہ آپ کے نزیک صحیح حدیث کے ظاہری مفہوم کے انکار سے انسان منکر حدیث کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں -

صحیح بخاری شریف ج2، ص764 کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال عروۃ و ثویبۃ مولاۃ لابی لھب کان ابولھب اعتقھا فارضعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما مات ابولھب اریہ بعض اھلہ بشرحیبۃ قال لہ ماذا لقیت قال ابولہب لم الق بعدکم غیرانی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ۔
ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ثویبہ ابولہب کی باندی ہے، ابو لہب نے انہیں آزاد کیا تھا اور وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا ، اس سے کہا : تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ، سوائے یہ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس انگلی سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔(
صحیح بخاری ، کتاب النکاح ،باب وامہاتکم اللاتی ارضعنکم ،ج2، ص764


) اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی وغیرہ رحمھم اللہ تعالی اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرماتے ہیں،

دوسری طرف قرآن میں الله یہ فرما رہا ہے کہ :

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ- مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ- سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ-

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا- اس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا اس کے کام نہ آیا-وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے گا

سلفی بھائییوں سے درخواست ہے کہ فتویٰ کے بجاے رہنمائی فرمائیں -
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
محترم سلفی بھائی -

جو مجھ پر اور T H K بھائی پر منکر حدیث کا الزام عائد کرنے کی لا حاصل سعی میں لگے ہوے ہیں - صحیح بخاری کی اس "صحیح" حدیث سے کیا نتیجہ اخذ کریں گے ؟؟؟ کیوں کہ آپ کے نزیک صحیح حدیث کے ظاہری مفہوم کے انکار سے انسان منکر حدیث کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں -

صحیح بخاری شریف ج2، ص764 کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال عروۃ و ثویبۃ مولاۃ لابی لھب کان ابولھب اعتقھا فارضعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما مات ابولھب اریہ بعض اھلہ بشرحیبۃ قال لہ ماذا لقیت قال ابولہب لم الق بعدکم غیرانی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ۔
ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ثویبہ ابولہب کی باندی ہے، ابو لہب نے انہیں آزاد کیا تھا اور وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا ، اس سے کہا : تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ، سوائے یہ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس انگلی سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔(
صحیح بخاری ، کتاب النکاح ،باب وامہاتکم اللاتی ارضعنکم ،ج2، ص764


) اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی وغیرہ رحمھم اللہ تعالی اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرماتے ہیں،

دوسری طرف قرآن میں الله یہ فرما رہا ہے کہ :

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ- مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ- سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ-

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا- اس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا اس کے کام نہ آیا-وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے گا

سلفی بھائییوں سے درخواست ہے کہ فتویٰ کے بجاے رہنمائی فرمائیں -
میرے عزیز یہ قول رسول ﷺ نہیں ہے بل کہ ایک تابعی کا قول ہے جسے ماننا واجب نہیں جب کہ آپ پر اعتراض یہ ہے کہ آپ نے حدیث رسول ﷺ کو تسلیم نہیں کیا لہٰذا یہ سوال ہی درست نہیں؛اگر کوئی اس قول کو نہیں مانتا تو اسے گم راہ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس میں خواب کا تذکرہ ہے اور غیر نبی کا خواب حجت نہیں ہوتا پس یہ ہمارے لیے حجت اور دلیل نہیں ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میرے عزیز یہ قول رسول ﷺ نہیں ہے بل کہ ایک تابعی کا قول ہے جسے ماننا واجب نہیں جب کہ آپ پر اعتراض یہ ہے کہ آپ نے حدیث رسول ﷺ کو تسلیم نہیں کیا لہٰذا یہ سوال ہی درست نہیں؛اگر کوئی اس قول کو نہیں مانتا تو اسے گم راہ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس میں خواب کا تذکرہ ہے اور غیر نبی کا خواب حجت نہیں ہوتا پس یہ ہمارے لیے حجت اور دلیل نہیں ہے۔
کیا امام بخاری رح کا بھی یہی موقف تھا اس روایت کے بارے میں جو آپ کا ہے ؟؟؟ اگر ان کے نزدیک بھی تابعی کا قول حجت نہیں نے تو اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کرنے کی کیا وجہ تھی ؟؟؟

اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے تو آپ حضرات کے لئے تابعی کیا امام تیمیہ ، امام قیم رح کے اقوال حجت بن جاتے ہیں اور یہاں آپ کے لئے ایک تابعی کا قول حجت نہیں - جب کہ یہ قول صحیح بخاری کا ہے کسی عام کتاب کا نہیں - اب اس قول کی تاویل کیوں کی پیش کر رہے ہیں - اب اس صحیح بخاری کی روایت کو من و عن کیوں نہیں قبول کررہے ؟؟؟-
کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب انصاف سے کام کیوں نہیں لے رہے ؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
محترم سلفی بھائی -

جو مجھ پر اور T H K بھائی پر منکر حدیث کا الزام عائد کرنے کی لا حاصل سعی میں لگے ہوے ہیں - صحیح بخاری کی اس "صحیح" حدیث سے کیا نتیجہ اخذ کریں گے ؟؟؟ کیوں کہ آپ کے نزیک صحیح حدیث کے ظاہری مفہوم کے انکار سے انسان منکر حدیث کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں -

صحیح بخاری شریف ج2، ص764 کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال عروۃ و ثویبۃ مولاۃ لابی لھب کان ابولھب اعتقھا فارضعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما مات ابولھب اریہ بعض اھلہ بشرحیبۃ قال لہ ماذا لقیت قال ابولہب لم الق بعدکم غیرانی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ۔
ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ثویبہ ابولہب کی باندی ہے، ابو لہب نے انہیں آزاد کیا تھا اور وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا ، اس سے کہا : تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ، سوائے یہ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس انگلی سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔(
صحیح بخاری ، کتاب النکاح ،باب وامہاتکم اللاتی ارضعنکم ،ج2، ص764


) اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی وغیرہ رحمھم اللہ تعالی اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرماتے ہیں،

دوسری طرف قرآن میں الله یہ فرما رہا ہے کہ :

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ- مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ- سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ-

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا- اس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا اس کے کام نہ آیا-وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے گا

سلفی بھائییوں سے درخواست ہے کہ فتویٰ کے بجاے رہنمائی فرمائیں -
>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>
قرآن کریم کا کہنا ہے :
ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احادیث کو براہ راست سمجھ کرپڑھے بغیر ان پر اعتراض کا یہی نمونہ سامنے آتا ہے ،،جو آپ نے یہاں اس حدیث کو پیش کرکے دکھایا ہے ۔
اہل حدیث صدیوں سے امت کو یہ حقیقت سمجھاتے آئے ہیں ،کہ احادیث کو اسناد کے ساتھ غورسے اور تعصب سے پاک ہو کر پڑھو ،سمجھو ،، تو یہ حقیقت عیاں ہو گی کہ کوئی صحیح حدیث نہ قرآن سے متصادم ہے اور نہ ہی عقل سلیم کے خلاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں آپ جس عبارت کو حدیث سمجھ کر ۔۔قرآن کے خلاف باور کروا رہے ہیں ۔۔وہ سرے سے نہ حدیث نبوی ہے نہ صحابی کا قول ہے
بلکہ محض ایک خواب ہے ۔۔اور وہ بھی غیر مسلم کا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروہ جو تابعی ہیں وہ دو با تیں بتاتے ہیں ،
(۱) ایک یہ کہ :

قال عروة، وثويبة مولاة لأبي لهب: كان أبو لهب أعتقها، فأرضعت النبي صلى الله عليه وسلم، (کہ ثویبہ ،ابو لہب کی لونڈی تھی ،جسے اس نے آزاد کردیا تھا ۔اس لونڈی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا )
(۲) اور دوسری بات یہ بتائی کہ :
فلما مات أبو لهب أريه بعض أهله بشر حيبة، قال له: ماذا لقيت؟ قال أبو لهب: لم ألق بعدكم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة
کہ جب ابو لہب ہلاک ہوگیا ،تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے خواب میں برے حال میں دیکھا، تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی مل جاتا ہے ۔ ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔

یہ ہے وہ عبارت جسے آپ علت فہم کے سبب حدیث باور کر رہے ہیں یا کروا رہے ہیں ۔
برادر ! اولاً تو یہ محض ایک خواب ہے ۔ ۔۔پھر ناقل بھی صحابی نہیں ،بلکہ ایک تابعی عروہ ہیں ۔جو خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں پیدا ہوئے ۔یعنی یہ بات جو کہ کسی کا خواب ہے ،اسناد کے لحاظ سے متصل اور مسند نہیں ۔
اسی لئے آپ کو مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ آپ کسی مستند اہل حدیث عالم سے حدیث پڑھیں ،ان شاء اللہ تمام شکوے کافور ہو جائیں گے


 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
کیا امام بخاری رح کا بھی یہی موقف تھا اس روایت کے بارے میں جو آپ کا ہے ؟؟؟ اگر ان کے نزدیک بھی تابعی کا قول حجت نہیں نے تو اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کرنے کی کیا وجہ تھی ؟؟؟

اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے تو آپ حضرات کے لئے تابعی کیا امام تیمیہ ، امام قیم رح کے اقوال حجت بن جاتے ہیں اور یہاں آپ کے لئے ایک تابعی کا قول حجت نہیں - جب کہ یہ قول صحیح بخاری کا ہے کسی عام کتاب کا نہیں - اب اس قول کی تاویل کیوں کی پیش کر رہے ہیں - اب اس صحیح بخاری کی روایت کو من و عن کیوں نہیں قبول کررہے ؟؟؟-
کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب انصاف سے کام کیوں نہیں لے رہے ؟؟
یہ ساری باتیں محض بھرتی کےلئے آپ نے فرمادیں ۔​
برادر من ! یہ عروہ رحمہ اللہ کا قول نہیں ۔۔بلکہ انہوں نے بتایا کہ ابو لہب کے گھرانے سے کسی نے خواب دیکھا تھا۔۔۔
اور آپ نے بقول شاعر​
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
انکی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
یہاں عروہ بطور راوی بالکل غلط نہیں ۔۔انہوں جو سنا ، وہ بیان کردیا ،،لیکن ۔۔اضغاث احلام۔۔گو دیکھنے پر پابندی تو نہیں لیکن اہل ایمان جانتے ہیں وہ شریعت وایمان نہیں بن سکتی۔۔۔۔۔اور یہ خواب تو جس نے دیکھا، ہم اسے جانتے تک نہیں​

ہم صحیح بخاری کو مانتے ہیں ای لئے تو اس خواب کو نہیں مانتے ۔دیکھئے امام بخاری کیا بتاگئے ہیں :
حدثنا عمر بن حفص حدثنا ابي حدثنا الاعمش ، حدثني عمرو بن مرة عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما ، قال:‏‏‏‏"قال ابو لهب عليه لعنة الله للنبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ تبا لك سائر اليوم ، فنزلت:‏‏‏‏ تبت يدا ابي لهب وتب".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اعمش سے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ ابولہب ۔اس پر اللہ کی لعنت ہو۔اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ سارے دن تجھ پر بربادی ہو۔ اس پر یہ آیت اتری «تبت يدا أبي لهب وتب‏» یعنی ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور وہ خود ہی برباد ہو گیا۔صحیح بخاری ۱۳۹۱

اور امام بخاری نے ہی نقل فرمایا ::
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ صعد النبي صلى الله عليه وسلم الصفا ذات يوم فقال:‏‏‏‏"يا صباحاه فاجتمعت إليه قريش قالوا:‏‏‏‏ ما لك؟ قال:‏‏‏‏ ارايتم لو اخبرتكم ان العدو يصبحكم او يمسيكم اما كنتم تصدقوني؟ قالوا:‏‏‏‏ بلى قال:‏‏‏‏ فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد"فقال ابو لهب:‏‏‏‏ تبا لك الهذا جمعتنا فانزل الله:‏‏‏‏ تبت يدا ابي لهب سورة المسد آية 1".
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا: یا صباحاہ! (لوگو دوڑو) اس آواز پر قریش جمع ہو گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تم کو سخت ترین عذاب (دوزخ) سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ ابولہب (مردود) بولا تو ہلاک ہو جا، کیا تو نے اسی لیے ہمیں بلایا تھا۔ اس پر اللہ پاک نے آیت «تبت يدا أبي لهب‏» نازل فرمائی۔( حدیث ۴۸۰۱ )
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>
قرآن کریم کا کہنا ہے :
ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احادیث کو براہ راست سمجھ کرپڑھے بغیر ان پر اعتراض کا یہی نمونہ سامنے آتا ہے ،،جو آپ نے یہاں اس حدیث کو پیش کرکے دکھایا ہے ۔
اہل حدیث صدیوں سے امت کو یہ حقیقت سمجھاتے آئے ہیں ،کہ احادیث کو اسناد کے ساتھ غورسے اور تعصب سے پاک ہو کر پڑھو ،سمجھو ،، تو یہ حقیقت عیاں ہو گی کہ کوئی صحیح حدیث نہ قرآن سے متصادم ہے اور نہ ہی عقل سلیم کے خلاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں آپ جس عبارت کو حدیث سمجھ کر ۔۔قرآن کے خلاف باور کروا رہے ہیں ۔۔وہ سرے سے نہ حدیث نبوی ہے نہ صحابی کا قول ہے
بلکہ محض ایک خواب ہے ۔۔اور وہ بھی غیر مسلم کا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروہ جو تابعی ہیں وہ دو با تیں بتاتے ہیں ،
(۱) ایک یہ کہ :

قال عروة، وثويبة مولاة لأبي لهب: كان أبو لهب أعتقها، فأرضعت النبي صلى الله عليه وسلم، (کہ ثویبہ ،ابو لہب کی لونڈی تھی ،جسے اس نے آزاد کردیا تھا ۔اس لونڈی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا )
(۲) اور دوسری بات یہ بتائی کہ :
فلما مات أبو لهب أريه بعض أهله بشر حيبة، قال له: ماذا لقيت؟ قال أبو لهب: لم ألق بعدكم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة
کہ جب ابو لہب ہلاک ہوگیا ،تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے خواب میں برے حال میں دیکھا، تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی مل جاتا ہے ۔ ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔

یہ ہے وہ عبارت جسے آپ علت فہم کے سبب حدیث باور کر رہے ہیں یا کروا رہے ہیں ۔
برادر ! اولاً تو یہ محض ایک خواب ہے ۔ ۔۔پھر ناقل بھی صحابی نہیں ،بلکہ ایک تابعی عروہ ہیں ۔جو خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں پیدا ہوئے ۔یعنی یہ بات جو کہ کسی کا خواب ہے ،اسناد کے لحاظ سے متصل اور مسند نہیں ۔
اسی لئے آپ کو مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ آپ کسی مستند اہل حدیث عالم سے حدیث پڑھیں ،ان شاء اللہ تمام شکوے کافور ہو جائیں گے


محترم -

یہی تو میں آپ کو باورکرانا چاہ رہا ہوں - "حدیث ابو لہب" پر میرا بھی یہی موقف تھا جو سب کا ہے -میں نے یہ حدیث صرف ایک مثال طور پر پیش کی تھی - بس سوال یہی ہے کہ آپ عقیدہ عذاب زمینی قبر کو قرآنی احکامات کے تناظر میں کیوں نہیں سمجھتے ؟؟ - پھر یہ ہے کہ بہت سے آئمہ و محدثین نے عذاب قبر کی روایات سے وہ مطلب اخذ نہیں کیا جو آپ کر رہے ہیں - ابن حزم رح بھی ان میں سے ایک ہیں - تو سوال یہ کہ کیا ان کو بھی اہل حدیث منہج سے فارغ کردیا جائے - اور کیا ان کے لئے بھی آپ یہی کہیں گے کہ ان کو بھی کسی مستند عالم سے احادیث نبوی کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے تھی ؟؟؟

حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اصحاب التناسخ پر کفر کا فتوی لگایا ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا تمام اہل اسلام کے نزدیک کفر ہے اور انہوں نے اس مسئلہ کو عقیدہ توحید کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
ارواح نہ تو فنا ہوتی ہیں اور نہ ہی دوسرے جسموں (برزخی) کی طرف منتقل ہوتی ہیں لیکن وہ باقی رہتی ہیں، زندہ رہتی ہیں آرام و آسائش اور اذیت و تکلیف کو برداشت کرنے میں حساس و عاقل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا پھر اچھے اعمال اور جنت و جہنم کے بدلے کے لئے ان کو ان کے جسموں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ سوائے انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کرام کی ارواح کے، کہ وہ اب بھی رزق اور نعمتوں سے سرشار ہیں اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ روحیں ان جسموں سے جدا ہونے کے بعد دوسرے جسموں میں منتقل کر دی جاتی ہیں (یا باالفاظ دیگر ان ارواح کو برزخی اجسام دیئے جاتے ہیں) تو یقینا یہ کفر ہے -

جو شخص یہ دعوی کرے کہ روحیں دوسرے جسموں میں منتقل ہو جاتی ہیں تو یہ قول اصحاب التناسخ کا ہے اور تمام اہل اسلام کی نگاہ میں (ایسا عقیدہ رکھنا) کفر ہے‘‘۔
(المحلی بالآثار جلد اول ص۴۴، ۴۵ طبع دارالفکر بیروت)۔

مزید فرماتے ہے کہ :
وَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ أَنَّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ رَدَّ الرُّوحِ إلَى الْجَسَدِ إلَّا الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو، وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ
اور کسی نے یہ روایت نہیں کیا کہ عذاب القبر میں روح جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے سوائے الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو کے اور وہ قوی نہیں

ابن الجوزی اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار

پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
محترم -


حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اصحاب التناسخ پر کفر کا فتوی لگایا ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا تمام اہل اسلام کے نزدیک کفر ہے اور انہوں نے اس مسئلہ کو عقیدہ توحید کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
ارواح نہ تو فنا ہوتی ہیں اور نہ ہی دوسرے جسموں (برزخی) کی طرف منتقل ہوتی ہیں لیکن وہ باقی رہتی ہیں، زندہ رہتی ہیں آرام و آسائش اور اذیت و تکلیف کو برداشت کرنے میں حساس و عاقل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا پھر اچھے اعمال اور جنت و جہنم کے بدلے کے لئے ان کو ان کے جسموں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ سوائے انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کرام کی ارواح کے، کہ وہ اب بھی رزق اور نعمتوں سے سرشار ہیں اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ روحیں ان جسموں سے جدا ہونے کے بعد دوسرے جسموں میں منتقل کر دی جاتی ہیں (یا باالفاظ دیگر ان ارواح کو برزخی اجسام دیئے جاتے ہیں) تو یقینا یہ کفر ہے -

جو شخص یہ دعوی کرے کہ روحیں دوسرے جسموں میں منتقل ہو جاتی ہیں تو یہ قول اصحاب التناسخ کا ہے اور تمام اہل اسلام کی نگاہ میں (ایسا عقیدہ رکھنا) کفر ہے‘‘۔
(المحلی بالآثار جلد اول ص۴۴، ۴۵ طبع دارالفکر بیروت)۔
-
یہاں آپ نے بالآخر اپنے lovely ۔بھائی پر فتوی لگادیا ۔۔ اور فتوی بھی سیدھا کفر کا ۔انہوں نے بقلم خود بڑے جوش سے باربار لکھاتھا کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ
ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں

یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ شھدا کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جوف میں رہ کر جنت میں سیر کرتی ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی قندیلوں بسیرا کرتی ہیں اور جن اللہ رب العزت اُن سے پوچھتے ہیں
دیکھئے ان کی پوسٹ
 
Top