• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی﷾سے ملاقات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء توں کا یہ کام جو اٹھارہ سال پہلے شروع ہواتھا یہ ابھی یہیں تک پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ہمیشہ اساتذہ کی قلت درپیش رہی ہے۔ اس لیے کہ اچھی آواز والے قاری باہر کے ملکوں میں چلے جاتے ہیں، کیونکہ وہاں ان کی خدمت زیادہ ہوتی ہے، اس طرح ہمیں ایک مشکل یہ بھی پیش آئی کہ ہمارے اس کام میں پیش پیش ساتھی محترم قاری محمد ابراہیم میرمحمدی ﷾ کی جمیعۃ أحیاء التراث نے بونگہ بلوچاں کی ایک درسگاہ کے اندر تقرری کر دی اور چند سال سے قاری صاحب تدریس کے لیے وہاں تشریف لے جا چکے ہیں،لیکن ہم نے ان کواپنے ساتھ یوں منسلک رکھا ہوا ہے کہ کلِّیۃ القرآن الکریم کے ذمہ داروں کے طور پر وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اگرچہ قاری صاحب کے وہاں جانے کے بعد باقاعدہ عملی سرپرستی کی صورت میں تدریسی خدمات تو ان کے استاد قاری یحییٰ رسولنگری﷾ انجام دے رہے ہیں، لیکن قاری ابراہیم میرمحمدی ﷾ کی باقاعدہ نگرانی بھی ہمارے ساتھ شامل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں اس سے پہلے یہ بیان کرچکا ہوں کہ ہمارے کلِّیۃ القرآن کی ایک سرپرست مجلس ہے، جس کے اندر قاری یحییٰ رسولنگری﷾، قاری ادریس العاصم﷾، قاری عزیر﷾ اور قاری اسلم﷫ وغیرہ شامل رہے ہیں۔ ہماری بھرپور کوشش رہی کہ ہم ان لوگوں سے استفادہ کرتے رہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہمارایہ کام بہت عرصہ تک جزوی طور پر چلتا رہا ہے، اگرچہ کلِّیۃ القرآن کی ابتدا تو قاری محمد ابراہیم ﷾ کے یہاں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہوئی تھی۔ وہ ۱۹۹۱ء میں پاکستان تشریف لائے توہم نے یہ کام تب ہی سے کلیہ شریعہ میں شروع کروادیا تھا، جبکہ ۱۹۹۲ء میں ہم نے اس کاکلیہ الگ کر کے اس کا باقاعدہ اہتمام شروع کیا۔ اس کام میں میرے ساتھ قاری ابراہیم صاحب سے قبل جو ساتھی بھرپور تعاون کرتے رہے ہیں، ان میں دو افراد کا میں ذکر کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک نام تو شیخ القراء قاری عبدالوہاب مکی ﷫ کا ہے۔ قاری صاحب ہماری خواتین کے اندر قرآن مجید کو مختلف قراء توں میں فروغ دینے کا اہتمام عرصہ دراز تک کرتے رہے۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے، اب وہ اللہ کے پاس جا چکے ہیں اور دوسری شخصیت قاری محمد ادریس عاصم﷾ کی ہے، وہ ہمارے لیے الحمدللہ ابھی تک سرپرستی کا کام انجام دے رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اور ادارے کیساتھ وابستہ ہوجائے تو اس کا ہمارے ساتھ جتنا بھی تعاون ہوسکتا ہے، ہم اس کوممکن بنائیں۔ قاری ابراہیم میرمحمدی﷾ جب اپنی مستقل ذمہ داری بونگہ بلوچاں میں انجام دینے لگے تو ہم نے قاری صاحب کو اپنا نگران بنا دیا، لہٰذا آج قاری صاحب ہمارے جامعہ کے انتظامی معاملات میں دخیل ہیں۔ جامعہ کے حوالے سے ہمیں کوئی بھی انتظامی یا نصابی مشکلات درپیش ہوں قاری صاحب کی باقاعدہ شمولیت ہوتی رہتی ہے اور قاری صاحب اس سلسلے میں بذات خود تشریف لاتے ہیں اور بھرپور تعاون فرماتے ہیں ۔
جب قراء توں کے سلسلے میں علمی مشکلات درپیش ہوئیں تو اس وقت بھی ذکر کردہ تمام حضرات ہمارے ممدو معاون رہے اور الحمدللہ آج ہم ان مشکلات سے نکل کر بڑی وسعت اور دلجمعی کیساتھ اس کام کوانجام دے رہے ہیں۔
قدرت کانظام ایسا ہے کہ انسان جب بڑا ہوجاتا ہے تو پھر اس کے شاگرد اس کا کام سنبھالتے ہیں۔ ہم لوگ بھی اب تقریباً بزرگوںمیں شامل ہوچکے ہیں۔ہمارا کام بھی ہماری اصلی اور معنوی اولادسنبھالے ہوئے ہے۔ اسی طرح قاری ابراہیم میرمحمدی ﷾کا قائم کردہ اصل کلِّیۃ القرآن،جو لاہور میں موجود ہے، ان کی معنوی اولاد سنبھالے ہوئے ہے اور بطریقہ احسن اس کوچلا رہی ہے۔ اس وقت یہاں ان کے استاد(قاری یحییٰ رسولنگری﷾) اور ان کے شاگرد مل کر کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کام کے اندر ہم نے متبادل محنتیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور قاری صاحب کے جانے کے بعد کوئی خاص نمایاں کمی محسوس نہیں کی۔ اگرچہ ہم ان کے قدردان ہیں اور ہمیشہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمارے پاس مستقل طور پر کام کریں، لیکن حالات کے اندر اتار چڑھاؤ رہتاہے۔ انسان کی تمام خواہشات جس طرح وہ چاہتاہے، پوری نہیں ہوتیں، لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھتے ہوئے دعا کرتا ہے تو اس کے لیے متبادل راستے پیدا ہوجاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: کیا وجہ تھی کہ کلِّیۃ القرآن کے آغاز کے سلسلے میں آپ کی نظر انتخاب قاری ابراہیم میرمحمدی﷾ پر ہی پڑی۔
مولانا: میرا شروع میں رابطہ قاری ابراہیم میر محمدی ﷾ اور قاری ادریس عاصم﷾ دونوں سے تھا، بلکہ میرا ایک رابطہ جامعہ ام القریٰ کے اندر قراء توں کاکام کرنے والے ایک پاکستانی صاحب سے بھی تھا، لیکن افسوس کہ بعد میں متشدد ظالموں نے انہیں جوانی کی عمر ہی میں شہید کر دیا۔ اصل میں مجھے تو جو شخصیت میسر آئی اس کو میں نے لے لیا، ورنہ میری کوشش تو تھی کہ قاری ادریس عاصم ﷾بھی یہیں میرے پاس آجائیں، لیکن جب وہ گئے تھے اس وقت سے ہی ان کا رابطہ لسوڑیاں والی مسجد کے ساتھ تھا، اس لیے وہ اپنے وعدے کے مطابق وہیں آکر سیٹ ہوئے۔ اس لیے عملاً قاری ابراہیم میرمحمدی﷾ کے ساتھ مل کر ہم نے اس کام کو آگے بڑھایا، اگرچہ ہم نے کلیہ القرآن کے افتتاح کے موقع پر آغاز ہی میں ایک سپریم کونسل بنا لی تھی جس میں تمام سرپرستوں کو شامل کرلیا تھا۔ قاری یحییٰ رسولنگری ﷾، قاری محمد ادریس العاصم﷾، قاری محمد عزیر﷾ اور دیگر کئی حضرات کو ہم نے ابتداء ہی میں اس کونسل کے ارکان میں شامل کرلیا تھا، بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کلیہ القرآن کے نصاب سازی کی بعض ابتدائی میٹنگز قاری محمد ادریس العاصم﷾ کے گھر میں بھی منعقد ہوئیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: کلِّیۃ القرآن کا آغاز آپ نے کب فرمایا اور اس کے محرکات کیاتھے؟
مولانا:اس کلیہ کا آغاز آج سے تقریباً سترہ سال قبل ۱۹۹۲ء میں ہوا اور اس کاانتظام اس طرح ہوا کہ پہلے میں نے کلیہ الشریعہ کے اندر متنوع قراء توں کا اہتمام کیا، پھر مجھے اس کے لیے مستقل کلیہ کھولنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کلیہ کی ابتدا کے لیے سرپرست مجلس بھی بنائی گئی اور مجلس نے اپنی متعدد نشستوں کے اندر اس کا نصاب بنایا، تو الحمد للہ ہم نے نصاب سازی کر کے اگلے سال کلِّیۃ القرآن کی ابتدا کر دی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد:آپ کواللہ تعالیٰ نے مختلف معاملات میں بہت سے ممالک کا دورہ کرنے کاموقع دیا ہے، ان ممالک میں رائج قراء ات کے بارے میں مختصر ذکر کر دیں۔
مولانا:قراء ات کا ذوق مجھ میں بہت پہلے سے تھا۔ میرے والد گرامی تجوید کے لیے زور دیتے تھے، اس لیے جب میں ’جامعہ اہلحدیث، چوک دالگرہ‘ کے اندر ناظم تھا، اس وقت بھی میں مختلف قراء حضرات سے تجوید سیکھا کرتا تھا اورتجوید کے مطابق تلاوت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر بعد میں بھی میں اس سلسلے میں کوشش کرتا رہا ۔ جامعہ حقانیہ میں قاری غلام رسول صاحب کے پاس میں مستقل طور پر تجوید کی مشق کرتا رہا۔جب میں مختلف ممالک میں گیا اور مختلف قراء توں کا عملاً جائزہ لیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کام دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، مثلاً ہم نے تراویح مراکش کے اندر پڑھی تو ہم روایت ورش میں پڑھتے رہے۔ بلکہ جب میں مراکش میں دروس حَسَنِیَّۃ کے سلسلے میں جاتا رہا ، تووہاں ایک عالم دین، مدینہ منورہ کے کلیہ قرآن سے فارغ التحصیل موجود ہیں، انہوں نے جب ڈاکٹر حمزہ مدنی کی روایت ورش کی تلاوت سنی توکہنے لگے کہ اصل ورش کی تلاوت یہی ہے۔ جو مراکش کے اندر ورش کی تلاوت چل رہی ہے، یہ پوری ورش نہیں ہے۔ صحیح ورش کی تلاوت وہ ہے جو ڈاکٹر حمزہ مدنی کی کیسٹ میں ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت زیادہ خوشی ہوئی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح میں نے سوڈان میں دوری عن ابی عمرو بصری کی تلاوت سنی ۔ سوڈان نے بعد ازاں جن روایتوں کا طبع کرنے کا اہتمام کیا ہے ان میں امام ابن کثیر مکی﷫ کے دو راوی بزّی﷫ اورقنبل﷫ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح سوڈان میں دیگر روایات کی تدریس کا بھی علمی سطح پر اہتمام پایا جاتاہے، لیکن میں یہاں یہ بات واضح کرنا چاہتاہوں کہ سوڈان میں روایت حفص کے علاوہ روایت دوری بھی پڑھی جاتی ہے۔
دنیا میں چار متداول روایتوں کو تو میں نے مختلف ممالک میں خود سنا ہے اور باقی روایتیں عوامی طور پر تو میں نے خود نہیں سنی ہیں، لیکن سبعۃ أحرف کی اگر چارروایتیں دنیا میں پائی جاتی ہیں، تو تنوع توثابت ہوگیا۔ اب جب دنیا میں تنوع پایاجاتاہے تو خواہ وہ چار کا ہی ہو تو اس تنوع کو آگے بڑھا نے میں کون سی چیز مانع ہے۔ اس لیے کہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ تنوع موجود ہے یانہیں؟ جس طرح ہم سینہ بہ سینہ روایت حفص کو اپنا ئے ہوئے ہیں، اسی طرح اسلامی مغربی ممالک قراء ت نافع اور قراء ت ابی عمرو کو اپنا ئے ہوئے ہیں۔ تو جس طرح ہمارے ہاں ’تواتر عملی‘ کی ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، حالانکہ اگر بنظر غائر دیکھیں تو امام حفص﷫ کی روایت قاری عاصم﷫سے ہے، لیکن امام عاصم﷫کے جو دوسرے راوی شعبہ﷫ہیں، ان کی روایت ہمارے ہاں سینہ بہ سینہ موجود نہیں ہے۔ اگر آپ روایت شعبہ کا انکار کر دیں، تو اس کامعنی یہ ہے کہ آپ قراء ۃ عاصم کا انکار کر رہے ہیں، تو قراء ۃ عاصم کا انکار کرنے کے بعد روایت حفص کو کیسے باقی رکھیں گے کہ ایک ہی امام سے اگر روایت حفص ہے، تو اسی امام سے شعبہ﷫ کی روایت بھی موجود ہے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ خود ایک امام کے اندر یہ تنوع پایا جاتاہے۔اس کے بعد دوسرے اماموں سے جو تنوع پایا جاتاہے، اس کاانکار کیسے ہوسکتاہے؟ اگر آپ اس طرح کادعوی کریں گے تو آپ اس ’تواتر عملی‘ کاانکار کریں گے، جس کی بنیادپر روایت حفص مسلمہ صورت اختیار کرتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ روایت شعبہ کاانکار حقیقت میں قراء ۃ عاصم کاانکار ہے اور قراء ۃ عاصم کا انکار ہوگیا تو روایت حفص کی بنیادہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح اگر آپ کہیں گے کہ دنیامیں روایت حفص ہی ایک روایت ہے، تو دنیامیں جو دیگر روایتیں پائی جاتی ہیں اورامام حفص﷫کی قراء ۃ کی طرح متداول ہیں توآپ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے قرآن مجید پڑھنے کاانکار کررہے ہیں، تو اتنے بڑے مسئلے کا آپ انکار نہ کریں، اس لیے کہ یہ چیز تعامل امت اور اجماع علماء سے ثابت ہے، جس کو آپ ’تواتر عملی‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: منکرین قراء ات کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے اور عصر حاضر میں قراء ات کے حوالے سے ہمارا لائحہ عمل کیاہونا چاہیے؟
مولانا: جہاں تک قرآن مجید کا تنوع ہے اس کا انکار تو بہت خطرناک ہے ۔ اس لیے کہ سبعۃ أحرف کا انکار تو متواتر حدیث کا انکار ہے اور متواتر حدیث کا انکار بہت خطرناک بات ہے، لیکن جہاں تک موجودہ قراء توں کاتعلق ہے توان کی شکل اماموں کی روایات کی سی ہے۔ اس لیے کوئی شخص اگر کسی امام کو نہ مانے تو یہ تو ایمان کا حصہ نہیں ہے کہ وہ شخص مسلمان نہ رہے، اس بناء پر ہم ان اماموں کے نام سے قراء تیں نہ ماننے والوں کو کافر تو نہیں کہتے، اگرچہ یہ قراء تیں بھی ان آئمہ سے تواتر سے مروی ہیں اور ہمارے ہاں معروف یہی ہے کہ تواتر کا انکار کفر ہوتاہے، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ فتویٰ میں ہم سب سے کمزور شکل کو سامنے رکھ لیتے ہیں۔ وہ فتویٰ یہ ہے کہ وہ لوگ جو مختلف تاویلوں کی صورت میں ان کاانکار کرتے ہیں تو اہل علم کا محتاط رویہ یہی ہے کہ تاویلوں سے کسی چیز کاانکار ہو تو اس پر کفر کافتویٰ نہ لگایا جائے۔ اس بناء پر میں سمجھتاہوں کہ مخصوص اماموں کی نسبت سے قراء ات کا انکار تو کفر نہیں ہے، جس طرح اگر کوئی شخص امام ابوحنیفہ﷫ کونہ مانے یا امام مالک، شافعی ، امام بخاری یا امام جعفر صادق﷭ کو نہ مانے تو ایمان جاتا نہیں رہتا، کیونکہ یہ امام توبعد میں دنیا میں آئے ہیں اور ان لوگوں سے پہلے بہت لوگ گزرچکے ، اس لیے میں ان اماموں کی قراء ات کا انکار تو کفر نہیں سمجھتا، لیکن نفس قرآن کریم میں تنوع قراء ات کے انکار کے بارے میں خطرہ ہے کہ اس سے کفر لازم آجائے۔ پھر بھی ہم ہلکا فتویٰ یہی دیتے ہیں کہ یہ انکار شدید ترین گمراہیوں میں سے ہے اس لیے کہ یہ انکار تاویل کے قبیل سے ہے اور تاویل سے انکار کرنے والا اہل علم کے نزدیک گمراہ ہوتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے ’موسوعہ قراء ات‘ کے بارے میں تفصیل اور اغراض ومقاصد بیان فرما دیں۔
مولانا: اس وقت مجلس التحقیق الاسلامی کے تحت تین انسائیکلوپیڈیازتیار ہو رہے ہیں، ان میں سے ایک ’موسوعہ قضائیہ‘ ہے جس میں نبی کریمﷺسے لے کر عصر حاضر تک جتنے بھی فیصلے ہوئے ہیں اور ستاون اسلامی ممالک میں اسلام کے نام پر ہونے والے فیصلے اور غیر مسلم ممالک کی شریعت کونسلوں میں ہونے والے فیصلے، ہماری کوشش ہے کہ موسوعہ قضائیہ میں جمع کر دیں۔ہمارا دوسرا پروگرام یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند کے اندر تقریباً ڈیڑھ سو سال میں رسائل وجرائد کا جتنا کام ہوتا رہا ہے ہم اس سب کا اشاریہ تیار کرنا چاہتے ہیں جس میں تمام رسائل وجرائد کا اشاریہ آجائے۔یہ ہمارا دوسرا انسائیکلوپیڈیاہے۔
ہمارا تیسراانسائیکلوپیڈیا ’موسوعہ قراء ات ِقرآنیہ‘ ہے۔ ہمارا یہ سارا کام مجلس التحقیق الاسلامی کی نگرانی میں ہورہا ہے اور کلِّیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تعاون سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں اس سلسلے میں تفصیل کے بجائے اختصار سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا، اس لیے کہ اس کے تعارف پر رشد قراء ات نمبر حصہ اول میں ہمارے بیٹے قاری فہد اللہ سلمہ نے تفصیلی مضمون لکھاہے۔ دنیاکے اندر سب سے پہلاکام سبعۃ أحرف کو محفوظ کرنے کاتھا۔ قرآن مجید کی حفاظت کے سلسلے میں اصل چیزادائیگی ہے، جس کو ہم تلاوت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس ادائیگی کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کاتلفظ سیکھا جاتاہے، اس کے بعدقرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس کے لیے قاریوں کے ہاں تلقِّی وتلاوت کی اصطلاح پائی جاتی ہے ۔ تلقِّی کی اِصطلاح تلفظ کے بارے میں استعمال ہوتی ہے، جبکہ سنت کی روایت میں یہ اصطلاح نہیں ہے، کیونکہ روایت سنت میں الفاظ کو اتنی اہمیت نہیں ہوتی، اس میں اصل شے مفہوم ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اسی کوالفاظ میں بیان کیاجائے، جو نبی کریمﷺاور ان کے صحابہ کی تعبیر ہے۔ سنت کے اندرتحمل وادا یا تحمل وروایت کی اِصطلاح استعمال ہوتی ہے، تو یہ سنت کے اندر حفاظت روایت کا طریقہ ہے۔ اس کے بعد حفاظت کی اصل شکل یہ رہی ہے کہ اس کو کتابت کے اندر لے آیا جائے، لیکن تقریباً پچیس تیس سال سے جو چیزدنیا میں تقریباً پھیل گئی ہے، وہ یہ ہے کہ حفاظت کے سلسلہ میں جدید الیکٹرانک میڈیا کو بھی استعمال کیا جائے۔
 
Top