السلام علیکم،
اپنے گروہ کے سوا دوسروں کو منکر حدیث، گستاخ رسول یا مشرک اعظم سمجھنے کی ہوا جب ہر طرف چل رہی ہو تو کسی تنہا فرد کو انسان کیا الزام دے۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ حجیت حدیث پر آج میرا جو ایمان ہے اس کی بنیاد اسی شخص کے محکم اور دلنشین دلائل ہیں جس پر اب انکار حدیث کے الزامات کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
والسلام علیکم
والسلام علیکم
ذرا مولانا موصوف کی خیالات اور عقائد بھی ملاحظہ کر لیں اور پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ مولانا گمراہ ہیں یا ہدایت یافتہ ؟؟
مولانا مودودی نے ترجمان القرآن ماہ مئی 55ء کے ص 163 پر فرمایا ہے کہ:
ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ گیا ہے۔ کہ اسے بخاری و مسلم رحمہما اللہ کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اوراس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عاید ہوتا ہے۔
کانا دجال تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ (ترجمان القرآن ، جلد 28 ، نمبر 3 ، ص 172 ۔ 173 بابت ربیع الاول 1365ھ مطابق فروری 1964ء)
’’کیا تیرہ سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کردیا۔ کہ حضورﷺ کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔‘‘
(ملاحظہ ہو ترجمان القرآن جلد28نمبرص172/173 بابت ربیع الاول 1365ھ مطابق فروری 1964)
میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ اصلاحات کے ان مفہومات کو غلط بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں۔ جو بالعموم آ پ حضرات کے ہاں رائج ہیں۔ (رسالہ ترجمان القرآن : مئی و جون 1945ء )
آپ کا خیال کہ نبیﷺ جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے اتنی ہی بڑھی ڈاڑھی رکھنا سنتِ رسولﷺ ہے یا اسوۂ(پیروی) رسولﷺ ہے یہ معنی رکھنا ہے۔ کہ آپ عاداتِ رسولﷺ کو بعینہٖ وہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لئے نبیﷺ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوث کیے جاتے رہے۔ مگر میرے نزدیک یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے۔ بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کے اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور خطرناک تحریفِ دین ہے ۔ (حوالہ مذکورہ )
کیا تیرہ سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کردیا۔ کہ حضورﷺ کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔ (ترجمان القرآن ، جلد 28 ، ص 172 )
بلکہ اس سے بھی ترقی کرکے لکھتے ہیں:
وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں۔ جن کے بارے میں آپ صل الله وسلم خود شک میں تھے۔ (حوالہ مذکورہ )
مسیح علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ متشابہات میں سے ہے۔ ( کوثر ، 21 فروری 1951ء)
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے حیاتِ مسیح ورفع الی السماء قطعی طور پر ثابت نہیں ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات سے یقین نہیں ہوتا۔ (تقریر مولانا مودودی صاحب بموقعہ درس مقام اچھرہ لاہور ، 28 مارچ 1951ء)
یہ تین جھوٹ حدیث میں مذکور ہیں۔ ایک جان بچانے کے لئے اور دو اللہ کے راستہ میں اور یہ دونوں (جو اللہ کے راستہ میں ہیں) قرآن مجید میں بھی موجود ہیں اور تیسرا صرف حدیث میں ہے۔ اس کے متعلق اس حدیث میں صاف یہ الفاظ ہیں۔ میں نے بہن اس بناء پر کہا ہے کہ تو میری اسلامی بہن ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یہ شکل جھوٹ کی ہے۔ دراصل جھوٹ نہیں لیکن باوجود اس کے مودودی صاحب ترجمان القرآن جلد 5 ص 282، 44 بابت دسمبر 1955ء میں اس حدیث پر اعتراض کرتےہیں۔ کہ یہ قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کو صِدِّیق (بڑا سچا) کہا ہے۔ حالانکہ دو جھوٹ جب قرآن مجید میں موجود ہیں۔
یہ بات قابلِ انکار ہے۔ کہ جیسا مستند اور معتبر ذریعہ قرآن مجید ہے ویسا مستند اور معتبر ذریعہ حدیث نہیں ہے۔ اس لئے صحت کا اصلی معیار قرآن ہی ہونا چاہیے۔ ( تفہیمات ص 329 )
احادیث کسی مسئلہ میں حجت نہیں قرار پاسکتیں۔ (ترجمان القرآن فروری 1946ء)