• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا مودوی اور داڑھی

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
الشیخ صالح المغامسی سعودی عرب کے معروف سلفی عالم اور داعی ہیں۔ معاصر سلفی دعاۃ میں انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مسجد قباء میں خطیب ہیں۔ سعودیہ میں کوئی ان کی سلفیت پر شک نہیں کرتا۔ مزید تعارف یہاں دیکھیے:
http://ar.wikipedia.org/wiki/صالح_المغامسي
داڑھی کے مسئلے پرمودودی صاحبؒ اور ان کے موقف میں سرِمو بھی فرق نہیں ہے۔ شیخ نے اپنا موقف اور دلائل اس ویڈیو میں بیان کیے ہیں:
یہ بھی دیکھیے:
مجھے معلوم ہے میرے کچھ بھائی ابھی مجھے سمجھائیں گے کہ ہم المغامسی کے مقلد تھوڑے ہیں، جو بات قرآن و سنت کے مطابق ہو گی وہ لے لیں گے اور جو اس کے خلاف ہو گی اسے دیوار پر دے ماریں گے۔ میں کہتا ہوں بھائیو آپ کا جذبہ بڑا ہی قابل قدر ہے لیکن یہاں مسئلہ نصوص کی خلاف ورزی کا نہیں نصوص کے فہم میں اختلاف کا ہے (جس کی متعدد مثالیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب رفع الملام عن ائمۃ الاعلام میں بیان کی ہیں)۔ اختلاف کو اس کی حد میں رکھیں تو کوئی مشکل نہیں ہوتی لیکن محض اپنے فہم کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ کہنا بڑی غلط بات ہے جو بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ داڑھی کے مسئلے ہی کو لے لیں، مودودی صاحب کو اگر ان کے موقف کی وجہ سے گمراہ کہا جائے تو یہی موقف الشیخ المغامسی اور ان سے متفق دوسرے سلفی علماء کا ہے۔
امام ناصر الدین الالبانیؒ ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانا جائز سمجھتے تھے، انٹرنیٹ پر ان کی جو تصاویر میں نے دیکھی ہیں ان سے بظاہر لگتا ہے کہ ان کا عمل بھی اسی پر تھا واللہ اعلم، بلکہ وہ ایک قدم اور آگے کہا کرتے تھے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے داڑھی کٹوانے والے عمل کی وجہ سے زندگی میں کم از کم ایک بار ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانا واجب ہے کیونکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی حج یا عمرہ کرتے ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوا دیتے تھے۔ کچھ علماء اس کی توجیح بیان کرتے ہیں کہ یہ ان کا انفرادی فعل تھا لیکن درحقیقت حج کے موقع پر پورے خطہ عرب سے صحابہ کرام سمیت دوسرے مسلمان مکہ میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ یہ کوئی گناہ ہوتا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عین مسلمانوں کے عالمی اجتماع کے بیچ میں ایسانہ کرتے اور اگر صحابہ کرام اسے کسی بھی درجے میں معصیت کا کوئی کام سمجھتے ہوتے تو وہ اسے بالکل بھی برداشت (Tolerate) نہ کرتے بلکہ ان پر سب سے پہلے ان کے اپنے والد گرامی امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا کوڑا چلتا۔
آپ کو جس کے دلائل مضبوط لگتے ہیں اس پر عمل کر لیں لیکن دوسروں کا ایمان اپنے فہم کے پیمانے سے مت ناپیں۔
والسلام علیکم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
مولانا مودودی ؒ کے متعلق بعض احباب کی رائے کہ وہ منکرِ حدیث تھے، خلافِ حقیقت ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طریقے سے انہوں نے غلام احمد پرویز صاحب کے نظریۂ حدیث و سنت پر تنقید کی ہے اسکی مثال کسی اور عالمِ دین کی تحریر میں نہیں ملتی ۔ڈاکٹر عبد الودود صاحب اور انکے درمیان ہونے والی ایک طویل مراسلت بنام ” سنت کی آئینی حیثیت“ اس بات پر شاہد ہے۔ یہ کتاب حجیت ِ سنت و حدیث پر لکھی جانے والی دوسری تمام کتابوں سے بے نیاز کر دینے والی ہے ۔مولانا مودودی ؒ کا موازنہ غلام احمد پرویز صاحب سے کرنا یا دونوں کو ایک ہی منہج پر سمجھنا بھی قطعاً غلط ہے کیونکہ ”تفہیم القرآن“ اور پرویز صاحب کی تفسیر”مطالب الفرقان“ میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

مولانا مودودی ؒ کی تفسیر ” تفہیم القرآن“ کم از کم بالماثور تو ہے مگر پرویز صاحب کی تفسیر تو بالرائے بھی کہلانے کی حقدار نہیں ، انہو ں نے تو سارےدین کی ”تعبیر“ ہی بدل ڈالی ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جس شخص کی ساری زندگی دفاعِ سنت و حدیث میں گزر ی اسی کو لا کر منکرینِ حدیث کے کٹہرے میں لا کھڑا کر دیا جا تا ہےاور منکرین حدیث اور محافظین ِ سنت و حدیث کے درمیان ہوئی تقریباً 50 سالہ علمی جنگ کو یکسر نظر انداز کر دیا جا تا ہے۔
 
Top