• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولوی اسماعیل کا حضور کے متعلق مر کر مٹی میں ملنے کا عقیدہ

شمولیت
جون 29، 2014
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
6
الفاظ کے سب و شتم ہونے کا مدار ظاہر پر ہوتا ہے اور اس کا ظاہرے معنی فنا ہونے کے ہی ہیں۔
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
محترمہ ماھنہہر قادری نے لکھا ہے کہ
مولوی اسماعیل اپنی کتاب تقویۃالایمان میں ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں۔معاذاللہ۔مٹی میں ملنے کے معنی برباد ہو جانا ،خاک ہو جانا (نور اللغات)اب ہمارا یہ اعتراض کے اس کے پیرو کار یہ بتائیں کہ یہ کس حدیث کے الفاظ ہیں؟حدیث میں تو ہے کہ میری قبر سے گزرے اور کہاں یہ فائدہ کتنا بڑا افترا ہے محمد رسول اللہ پر۔
محترمہ حدیث کے آخری الفاظ اور شاہ صاحب کا فائدہ پڑھیں "ملنے" کے معنیٰ خود بخود سمجھ میں آجائیں گے
جو تو گزرے میری قبر پر کیا تو سجدہ کرے تو اس نے کہا میں نے نہیں،فرمایا تو مت کر۔الحدیث،(یہ الفاظ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے تھے تو اس وقت آپ زندہ تھے ۔ اور قبر میں مدفون بھی نہ تھے)اب فائدہ کے الفاظ پڑھیں!
فائدہ:یعنی میں بھی اک دن مر کر مٹی میں ملنے ولا(دفن ہونے والا ناقل) ہوں تو کب سجدہ کے لائق ہوں سجدہ تو اسی ذات کو ہے کہ نہ مرے کبھی،
اس حدیث سے معلوم ہوا سجدہ نہ کسی زندہ کو کیجئے نہ کسی مردہ کو نہ کسی قبر کو کیجئے نہ کسی تھان کو کیونکہ جو زندہ ہےسو ایک دن اس نے مرنے والا ہے اور جو مر گیا سو کبھی زندہ تھا اور بشریت کی قید میں گرفتار ،پھر مر کر خدا نہیں بن گیا ہے ،بندہ ہی بندہ ہے،
شاہ صاحب نے فائدہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔ فائدہ کے الفاظ شاہ صاحب کے اپنے ہیں جب انہوں نے اسےحدیث کی طرف منصوب ہی نہیں کیا تو محترمہ کا انہیں حدیث میں دکھانے کا مطالبہ ہی غلط ہے ۔ اور جب حدیث کی بات کی تو یہ نہیں کہا کہ حدیث میں یہ بات ہے بلکہ یوں لکھا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔

اردو کی دیگر لغات کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ "ملنا" کے کیا معنے ہیں۔نور الغات ج4 ص632 پر "ملنا" کے معانی لکھے ہیں کہ
پیوستہ ہونا ،ملحق ہونا ،چسپاں ہونا ،ایک ذات ہونا ،
جامع الغات ج 2 ص565 میں لکھا ہے کہ
"ملنا" کے معنیٰ دفن ہونا ،اور مٹی میں پڑنا لکھے ہیں اور ج4 ص 460 میں لکھا ہے کہ مٹی سے مل جانا ،دفن ہونا ۔
منیر الغات ص 90میں لکھا ہے ،خاک میں ملنا،دفن ہونا۔
مسدس حالی صفحہ 16
؎ طبیعت میں جو اس کے جوہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی،
فرہنگ آصفیہ ص289ج4
نسیم اعدا سے شکوہ کیا پس از مرگ
ہمیں یاروں نے مٹی میں ملا یا

امید ہے محترمہ کی سمجھ میں بات آگئی ہوگی۔محترمہ جناب باقر بھائی نے بھی آپ سے پوچھا تھا کہ یہ عبارت اگر گستاخی رسول ہے تو کیا آپ شاہ اسمٰعیل دہلوی کو مسلمان سمجھتی ہیں یا کافر؟
صاف صاف آگاہ کریں
 
شمولیت
جون 29، 2014
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
6
دیکھیں بھائی سے اور میں فرق ہوتا ہے میں کہوں فلاں سے ڈنڈا گم ہو گیا تو اس کا مطلب اور ہو اور فلاں میں ڈنڈا گم ہوگیا اس کا مطلب اور ہے،
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
محترمہ یہ بتائیں کہ "قاطع شرک وبدعت داعی توحید وسنت امام الموحدین شاہ اسماعیل دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ" اس عبارت کی وجہ سے جنابہ کے نذدیک گستاخ رسول ہیں ؟اگر جواب "ہاں" میں ہو تو کیا شاہ اسماعیل دہلوی مسلمان تھےیا کافر؟
دو لفظی بات کریں !
دو باتیں پوچھی ہیں ایک شاہ اسمعیل کا گستاخ رسول ہونا اور دوسرا اُن کا مسلمان یا کافر ہونا ۔صاف صاف اظہار کریں
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
دیکھیں بھائی سے اور میں فرق ہوتا ہے میں کہوں فلاں سے ڈنڈا گم ہو گیا تو اس کا مطلب اور ہو اور فلاں میں ڈنڈا گم ہوگیا اس کا مطلب اور ہے،[/QU
محترمہ اپنی پسندیدہ لغت کا مطالعہ کریں ۔ نور الغات ج4 ص738
میں لکھا ہے کہ لفظ "میں" کبھی "سے" کے معنیٰ میں استمال کیا جاتا ہے جیسے کہتے ہیں "درخت میں باندھ دو" یعنی درخت سے باندھ دو"
امید ہے فرق سمجھ میں آ گیا ہوگا
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
مولوی اسماعیل میرے نزدیک کافر ہے۔
امام بدعت وضلالت جناب احمد رضا خان بریلوی اپنی کتاب "تمہید الایمان ص43 پر لکھتے ہیں "

"امام الطائفہ اسمعیل دہلوی کے کفر پر حکم نہیں کرتا کہ ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل لا الہ الا اللہ کی تکفیر سے منع فرمایا ہے جب تک وجہ کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہو جائے ،اور حکم اسلام اصلا کوئی ضعیف سے ضعیف محمل بھی باقی نہ رہے ۔فان الاسلام یعلو ولا یولی"

محترمہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اگر شاہ اسماعیل دہلوی کافر ہے تو اسے کافر نہ کہنے والا احمد رضا خان کافر ہے؟ اور احمد رضا خان کے نذدیک شاہ اسماعیل دہلوی مسلمان ہےاور ایک مسلمان کو کافر کہنے والی "مہنور قادری "ایک حدیث کی رُو سے خود کافر ہے
۔
اگر ہمت ہو تو اپنے سے یا احمد رضا خان یہ کفر اُٹھا کر دیکھائیں!
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
مولوی اسماعیل میرے نزدیک کافر ہے۔
جنابہ مہنور صاحبہ:
جنابہ کے نذدیک شاہ اسماعیل دہلوی صاحب کافر ہیں ،آئیے ایک نظر اس فتوی پر کریں جو اعلی حضرت مجدد بدعت وضلالت نے لکھا ہے پڑھئے اور سر دُھنئے

علماء محتاطین انہیں کافر نہ کہیں ۔یہی صواب ہے،یہ جواب ہےاور اسی پر فتوی ،اور یہی ہمارا مذہب اور اس پر اعتماد اور اسی میں سلامتی اور اسی میں استقامت "(تمہید الایمان ص42)

جنابہ اس فتوی سے تو ثابت ہوا کہ شاہ اسماعیل دہلوی مسلمان ہیں ۔اب جنابہ کے پاس دو راستے ہیں کہ ایک مسلمان کو کافر کہنے کی وجہ سے بموجب حدیث یہ کفر جنابہ پر لوٹ آیا اور جنابہ کافر ٹھریں اور اگر شاہ اسماعیل دہلوی کافر ہیں تو اعلی حضرت مجدد بدعت وضلالت احمد رضا خان صاحب ایک گستاخ کو کافر نہ کہنے کی وجہ سے خود کافر ہیں ۔

فیصلہ کریں کہ جنابہ اور احمد رضا کافر یا امام الموحدین قاطع شرک وبدعت شاہ اسماعیل دہلوی مسلمان؟؟؟
 
شمولیت
جون 29، 2014
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
6
لزوم و التزامِ کفر اور مولوی اسماعیل دہلوی
پسِ منظر
اﷲ کے مقبول بندے امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ الرضوان نے ابو الوہابیہ مولوی اسماعیل دہلوی کی مختلف عبارات پر لزومِ کفر کا فتویٰ دیا مگر مولوی اسماعیل دہلوی کو کافر نہ کہا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ....”لزوم والتزام میں فرق ہے، اقوال کا کلمہ کفر ہونا اور بات اور قائل کو کافر مان لینا اور بات، ہم احتیاط برتیں گے، سکوت کریں گے جب تک ضعیف سا ضعیف احتمال ملے گا ،حکم کفر جاری کرتے ڈریں گے“.... (تمہید ایمان، ص50)
یہ بات دیوبندی اور غیر مقلدین کو سمجھ نہ آئی اور وہ تحریر وتقریر میں امام احمد رضا رحمۃ اﷲ کے خلاف اس احتیاط کو الزام سمجھ کر پیش کرتے رہے ، بار ہا جواب پاکر بھی پروپیگنڈا سے باز نہ آئے، اُن کے پروپیگنڈا سے متاثر ہوکر بعض بھولے بھالے اہل سنت بھی متاثر نظر آنے لگے، ان حالات کی وجہ سے میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اس موضوع کو کھول کر بیان کردیا جائے تاکہ اپنوں کو اطمینان مزید ملے اور مخالفین پر ایک بار پھر حجت تمام کردی جائے ۔ وما توفیقی الا باﷲ
لزوم والتزام کی تعریف

”لزومِ کفر “کے معنی ہیں کسی بات پر کفر کا لازم آنا، اور ” التزامِ کفر “کے معنی ہیں کسی شخص کا کفر کو اپنے اوپر لازم کرلینا، اس کی وضاحت یوں سمجھئے کہ کسی مسلمان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جو ازروئے شرع کفر ہے ، تو یہ لزومِ کفر ہے، اب اس مسلمان کو بتایا جائے کہ تیری اس بات پر لزومِ کفر آتا ہے اور وہ شخص توبہ کرنے کی بجائے اپنی بات پر اَڑ جائے تو یہ التزامِ کفر ہوگا اور اب اُس شخص کو کافر ماننا پڑے گا۔ ہاں اگر وہ اَڑ جانے اور ضد کرنے کی بجائے توبہ کرلے تو وہ مسلمان ہوگا کیونکہ التزامِ کفر ثابت نہ ہوا ، حالتِ اکراہ، حالتِ سُکر، غلبہ حال ، نیند اور جنون بھی التزامِ کفر کے منافی ہیں ، یعنی ان حالتوں میں بھی لزومِ کفر والی بات منہ سے نکل جائے تو التزامِ کفر ثابت نہیں ہوتا ، اس لئے صاحبِ کلام کافر نہیں ہوتا۔
اس بات کی مثالوں سے وضاحت
× ۱۔ مشکوٰۃ شریف میں باب الاستغفار والتوبہ میں بحوالہ مسلم شریف حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا جس کا اونٹ جنگل میں اس سے بھاگ گیا اور اُس پر اُس کا کھانے پینے کا سامان بھی تھا، وہ شخص اپنے اونٹ سے مایوس ہوگیا، ایک درخت کے سائے میں آکر سستانے کے لئے لیٹا اور بے شک وہ اونٹ سے مایوس تھا کہ اچانک اُس کا اونٹ سازوسامان سمیت اُس کے سامنے تھا، پھر اُس شخص نے اُونٹ کی مہار پکڑلی اور قال من شدۃ الفرح اللھم انت عبدی وانا ربک یعنی کہا اُس نے خوشی کے غلبہ سے مغلوب الحال ہوکر کہ ”اے اﷲ تو بندہ ہے میرا اور میں خدا ہوں تیرا“، اخطاءمن شدۃ الفرح یعنی اُس نے خطا کی بہ سبب غلبہ حال خوشی کے ۔
ملاحظہ کیجئے اس حدیث شریف میں یہ الفاظ (اے اﷲ تو بندہ ہے میرا اور میں خدا ہوں تیرا) کفر ہیں اور اس کلام پر کفر لازم آتا ہے، مگر صاحبِ کلام اپنے غلبہ حال کے سبب اس لزومِ کفر سے بے خبر اور لاعلم ہے، اس لئے اُس کا التزامِ کفر ثابت نہ ہوا، لہذا وہ صرف خطاکار ٹھہرا۔
× 2۔ بعض مشرکین نے حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہ کو پکڑا اور جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کوسبّ اور اپنے بتوں کی تعریف کے الفاظ جبراً کہلوائے، حضرت عمار نے سارا واقعہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ کی خدمت اقدس میں عرض کیا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا تمہارا دل کس حال میں تھا؟ عرض کی ایمان کے ساتھ کامل طور پر مطمئن، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں تسلّی دی، سورۃ النحل کی آیت نمبر 106 کی ایک شان نزول یہ بھی ہے، آیت ملاحظہ ہو من کفر باﷲ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان .... الخ ، یعنی جو ایمان لا کر اﷲ کے ساتھ کفر کرے سوا اُس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو ، ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اﷲ کا غضب ہے اور ان کو بڑا عذاب ہے۔
ملاحظہ کیا آپ نے ! مشرکوں نے جو کلمات کہلوائے ہوں گے وہ یقیناًلزومِ کفر کے کلمات تھے، مگر حالتِ اکراہ کے سبب صحابی کا التزامِ کفر ثابت نہیں ہوتا، اور اس بات کی تصدیق اﷲ جل جلالہ اور اس کے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرما کر صحابی کو مطمئن کردیا۔
× 3۔مثنوی مولانا روم میں درج ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک چرواہے کو دیکھا جو محبت الٰہی کے غلبہ¿ حال میں کہہ رہا تھا کہ خدا تو کہاں ہے میں تیرا خادم بننا چاہتا ہوں، میں تیری جوتیاں سینا چاہتا ہوں، تیرے سر میں کنگھا کرنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تیرے کپڑے سی دوں، تیری جوئیں ماروں، تیرے لئے دودھ لاﺅں، تو بیمار ہو تو تیمارداری کروں، تیرے ہاتھ چوموں اور پاﺅں دباﺅں ، تیری خواب گاہ صاف کروں، گھی اور شربت، پنیر اور پراٹھے تجھے دوں، میرا کام یہ چیزیں لانا ہو اور تیرا کام یہ چیزیں کھانا ہو، الغرض وہ ایسی باتیں کررہا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اُسے ٹوکا اور پوچھا کس کو کہہ رہے ہو؟ بولا اپنے خدا کو :
گفت موسیٰ ہائے خیرہ سرشدی
خود مسلماں ناشدہ کافر شدی
(موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہائے تو دیوانہ ہوگیا، تو مسلمان نہ رہا کافر ہوگیا)
وہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرمان سننے کے بعد سخت پریشان ہوا ، اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور روتا ہوا جنگل کو نکل گیا، موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی آئی اور آپ کو اس مغلوب الحال پر حکم لگانے سے روکا گیا، واضح ہوچکا ہے کہ اُس شخص کے کلمات پر لزومِ کفر آتا تھا مگر صاحبِ کلام کو اُس کے غلبہ حال اور لا علمی نے التزام کفر سے بچالیا۔
ایک د یوبندی عالم کی گواہی
مولانا حمد اﷲ الداجوی پشاوری فاضل سہارنپور لکھتے ہیں:
فنقول انہ فرق بین لزوم الکفر والتزامہ فان التزام الکفر واما لزوم الکفر فلیس بکفر.... قال فی المواقف من یلزمہ الکفر فلا یعلم بہ فلیس بکافر ۔
”اور ہم کہتے ہیں کہ بے شک فرق ہے لزومِ کفر اور التزامِ کفر میں، پس بے شک التزامِ کفر تو کفر ہے، مگر لزومِ کفر کفر نہیں ہے، مواقف میں ہے کہ جس پر کفر لازم آئے اور وہ بے خبر ہو تو کافر نہیں ہے“ ۔
وذکر المفسر الالوسی .... فلو قال شخصاومن برسالۃ ولا ادری البشرام جنی ولا ادری امن العرب او من العجم فلا شک فی کفرہ لتکذیبہ القرآن.... فلو کان غیبا لا یعرف ذلک وجب تعلیمہ ایاہ فان جحد بعد ذلک حکمناہ بکفرہ۔ انتھیٰ
فانظر الی العلماءالمحققین المحتاطین فی امرالتکفیر وکذا یعلم من الحدیث المعروف الذی فیہ( اللھم انت عبدی وانا ربک) فھذہ کلمۃ کفر لا التزام فیہ۔
(البصائر لمنکر التوسل باھل المقابر، صفحہ 18،19، مطبوعہ استنبول، ترکی)
”اور مفسر آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے ذکر کیا کہ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رسول مانتا ہوں مگر نہیں جانتا کہ کہ آپ بشر ہیں یاجن؟ عربی ہیں یا عجمی؟ تو اُس کے کفر میں شک نہیں ، قرآن جھٹلانے کے باعث اور اگر وہ غبی یہ بات نہیں جانتا تو اُس کو بتانا لازم ہے، پھر بھی اگر وہ ضد کرے اور اڑا رہے تو ہم اس کے کفر کا حکم جاری کریں گے، بات ختم، پس امر تکفیر میں تو محقق ومحتاط علماءکا رویّہ دیکھ، اور یہی پتہ چلتا ہے اُس مشہور حدیث سے جس میں ”اے اﷲ تو بندہ ہے میرا اور میں خدا ہوں تیرا“ ، تو یہ کلام کفر ہے مگر التزامِ کفر یہاں ثابت نہیں“۔
احتمال کی قسمیں اور لزوم والتزامِ کفر
احتمال کی تین قسمیں ممکن ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
نمبر 1 احتمال فی الکلام
یعنی کلام میں کوئی جائز توجیہ وتاویل ہوسکتی ہو، یہ احتمال لزومِ کفر کی نفی کرتا ہے ، یاد رہے کہ صریح بات میں تاویل نہیں سنی جاتی ورنہ کوئی بات بھی کفر نہ رہے۔
نمبر2۔ احتمال فی التکلّم
یعنی اس بات میں شُبہ آجائے کہ قائل نے وہ کفری کلمہ بولا یا نہیں ، یہ احتمال جب آئے گا تو قائل کا التزامِ کفر ثابت نہ ہوسکے گا۔
نمبر 3۔ احتمال فی المتکلم
یعنی خود قائل کے متعلق شُبہ ہو کہ اُس نے بے خیالی وبے خبری میں یا حالتِ سُکر یا غلبہ حال میں یہ کلام کہا اور اس کی قباحت پر آگاہ نہ کیا گیا یا کوئی ضعیف قول اُس کی توبہ کا مل جائے تو بھی قائل کاالتزامِ کفر ثابت نہ ہوگا۔
احتمال کی قسمیں اور مولوی اسماعیل دہلوی
نمبر1۔ احتمال فی الکلام
مولوی اسماعیل دہلوی کے کلمات پر لزومِ کفر آتا ہے، اُن میں تاویل کی گنجائش نہیں ملتی، وہ صریح کفر ہیں۔
نمبر2۔ احتمال فی التکلّم
بعض دیوبندی حضرات کا موقف یہ ہے کہ مولوی اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان نامی کتاب نہیں لکھی، چنانچہ مولوی حسین احمد مدنی نے مکتوبات میں اور صاحب تفسیر الاقوام نے اپنی تفسیر میں یہی موقف اختیار کیا ہے، اُن سے مولوی حق نواز جھنگوی نے مناظرہ جھنگ میں یہی موقف نقل کیا اور اسی موقف کو اختیار کیا، مولوی احمد رضا بجنوری اپنی کتاب”انوار الباری“ جلد11، صفحہ 107 پر مولوی حسین احمد مدنی کا موقف بیان کرتے ہیں اور اسی کی تائید کرتے ہیں۔
مولانا حکیم عبدالشکور مرزا پوری کے حوالے سے حضرت محقق زید ابوالحسن فاروقی مجددی دہلوی علیہ الرحمہ، متوفی 1414ھ/ 1993ء(خانقاہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں،دہلی)اپنی کتاب”مولانا اسماعیل اور تقویۃ الایمان“ میں لکھا ہے کہ صراط مستقیم، تنویر العین اور ایضاح الحق الصریح ، آپ کی تالیفات میں سے نہیں ہیں اور تقویۃ الایمان بھی محرف اور غیر معتبر ہے۔
(مولانا اسماعیل اور تقویۃ الایمان ،مطبوعہ شاہ ابوالخیر اکاڈمی دھلی1984ئ، ص47)
مولوی سرفراز صفدردیوبندی(گوجرانوالہ، پاکستان)نے اپنی کتاب”عباراتِ اکابر“میں صراط مستقیم کی متنازعہ فیہ مشہور عبارت کو مولوی اسماعیل دہلوی کی ذاتی عبارت ماننے میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اسی طرح بعض غیر مقلد بھی کررہے ہیں، اگرچہ دلائل و شواہد کی روشنی میں یہ ایک ضعیف ترین قول ہے جو اکثر کے خلاف ہے اور بالکل شاذ قول ہے، تاہم اس سے التزامِ کفر میں تو احتمال آگیا، لہذا یہاں امام احمد رضا کے موقف کی تائید ان حضرات کی زبان سے ہی ہوگئی ہے۔
نمبر3۔ احتمال فی المتکلم
مولوی اسماعیل دہلوی کے بارے میں یہ احتمال دو طرح سے ممکن ہے، اولاً احتمال ہے کہ اُسے اپنے کلمات کے کفریہ ہونے کا علم ہی نہ ہوا ہو، اور اپنے خلاف لگائے گئے فتوائے کفر کا اُسے علم ہی نہ ہوا ہو، ”تحقیق الفتویٰ“ اس کے سامنے پیش ہونا مجھے معلوم نہ ہوسکا، مناظرہ دھلی میں مسائل زیرِ بحث لائے گئے تھے، اُس کی کفریہ عبارات پر بحث نہیں ہوئی تھی، لہذا یہ احتمال عقلاً ممکن ہے، اور التزامِ کفر میں احتمال ہے۔
ثانیاً” افکار وسیاسیات علماءدیوبند“ صفحہ 38پر مولانا محمد شریف نوری نے کتاب ”ہدایت الصالحین بر حاشیہ توقیر الحق“ مصنفہ نواب قطب الدین دہلوی، صفحہ 87 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مناظرہ پشاور میں مولوی اسماعیل دہلوی کو ایسی عبرت ناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ توبہ کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا تو مجبوراً اپنے عقائد سے توبہ کا اعلان کردیا، چنانچہ مولوی رشید احمد گنگوہی کے زمانے میں اُن سے ایک سوال ہوا جس میں ذکر ہے کہ” ایک بات مشہور ہے کہ مولوی اسماعیل صاحب شہید نے اپنے انتقال کے وقت بہت سے آدمیوں کے روبرو بعض مسائل تقویۃ الایمان سے توبہ کی ہے“، مولوی گنگوہی صاحب نے جواب دیا کہ ”توبہ کرنا اُن کا بعض مسائل سے محض افتراءاہل بدعت کا ہے“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صفحہ 84، 85)
ظاہر بات ہے کہ اہل بدعت کا لفظ یہ حضرات اہل سنت کے لئے استعمال کرتے ہیں ، تو اہل سنت میں یہ قول کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا کہ اسماعیل دہلوی نے اپنے غلط مسائل سے توبہ کی تھی(یعنی توبہ کرنے کی بات مشہور تھی)، یہاں اگرچہ کفریہ عبارات سے توبہ کی صراحت تو نہیں ہے مگر احتمال تو ہے اور وہی اُس کے التزامِ کفر میں احتمال ہے۔
 
Top