محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ميلاديوں کے چند شبھات اور ان کا ازالہ
ترتیب و توضیح: حافظ حماد چاؤلہ ۔
میلادی حضرات عید میلاد النبی ﷺ کے تعلق سے اپنے زعم کے مطابق چند دلائل پیش کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک شبہات کی حیثیت رکھتے ہیں، درجِ ذیل سطورمیں انہی چند شبہات کا ازالہ پیش کیا جارہا ہے:
شبہ: اکثریت سے استدلال!
اگر عید میلاد النبی ﷺ منانا غلط اوربدعت ہے تو پھر ہندوستان،پاکستان،بنگلادیش اور دیگر ممالک میں لاکھوں مسلمان کیوں مناتے ہیں ؟
جواب:
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثریت کا اسلام میں دلیل نہیں بلکہ حق وباطل کا معیاراور کسوٹی فقط کتاب وسنت ہے پس اگر کسی مسئلہ میں ہزاروں آدمی کتاب وسنت کی مخالفت کر رہے ہوں اور صرف ایک آدمی اللہ کی کتاب اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق عمل کررہا ہو تو وہ ایک آدمی ہی صحیح اور حق پر ہوگا۔
دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے متعلق فرمایا:
(ان ابراہیم کان أمة قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین) ’’
بیشک ابراہیم علیہ السلام ایک امت اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ، وہ مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘۔ (سورئہ نحل :١٢٠)
اسی طرح یہود ونصاری نے بھی اپنی اکثریت کو دلیل کے طور پر پیش کیا تھا جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کومخاطب کرکےفرمایا:
( وان تطع أکثر من فی الأرض یضلوک عن سبیل اللہ )’’
اور اگر زمین میں اکثریت کی پوروی کریں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے گمراہ کردیں‘‘۔(سورئہ انعام :١١٦)
ایک دوسر ے مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
(وما أکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین) ’’
آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں‘‘۔
(سورئہ یوسف:١٠٣)
ایک اور مقام پر اکثریت کی مذمت میں فرمانِ الٰہی ملاحظہ فرمائیں:
(وما یؤمن أکثرہم باللہ الا وہم مشرکون ) ’’
اور ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں‘‘۔(سورئہ یوسف:١٠٦)
معلوم یہ ہوا کہ حق وباطل کا معیار ،دلائل وبراہین ہیں،لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں،اسلئے یہ کہنا کہ’’ اتنے سارے لوگ عید میلاد النبی ﷺ مناتے ہیں یہ کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ ‘‘ درست نہیں۔
شبہ: حق و باطل کا معیار ’’علماء کی آراء‘‘ !
حق وباطل کا معیار جب کتاب وسنت ہے تو ہمارے ملکوں میں اتنے بڑے بڑے علماء ہیں کیا وہ قرآن اور حدیث نہیں پڑھتے ہیں؟کیا ان کے پاس کتاب وسنت کا علم نہیں ہے؟
جواب:
تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں تمام علماء ایک رائے نہیں رکھتے بلکہ علماء کا ایک طبقہ اسے جائز تو دوسرا اسے ناجائز کہتا ہے اور جب علماء ہی میں اختلاف موجود ہے تو فیصلہ علماء نہیں بلکہ وہ کریں گے جن کا درجہ دورِ حاضر میں ملک و دنیا میں موجود علماء سے کہیں زیادہ اور بڑھ کر ہو اور اس بات پر سب علماء متفق ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد قیامت تک آنے والی عظیم ہستیوں میں سب سے عظیم ہستیاں اصحابِ محمد یعنی صحابہ کرام و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کی ہیں ۔ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تمام باتیں غرض مکمل دین کو جاننے سمجھنے اور اس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر عمل کرنے والے بھی یہی صحابہ ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
اب آپ رسول اللہ ﷺ کے ۲۳ سالہ دورِ نبوت ،خلفائے راشدین کے ۳۰ سالہ دورِ خلافت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ۱۱۰ سالہ دورِ صحابہ میں کسی ایک سال میں ایک مرتبہ بھی ۱۲ ربیع الاول یا ربیع الاول کے مکمل مہینہ میں یا ربیع الاول کی کسی بھی تاریخ میں ان عظیم ہستیوں میں سے کسی ایک سے بھی مروجہ عید ِ میلاد یا جشنِ میلاد منانا ثابت کردیں !!!
یہی نہیں بلکہ ۲۳۰ سالہ دورِ تابعین اور ان کے بعد کے اتباعِ تابعین میں سے کسی ایک سے ثابت کردیں !!!
اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسا دین اور کیسا عمل ہے جو اتنی اہمیت کا حامل ہو اور اس پر خیر القرون میں سے ایک نے بھی عمل نہیں کیا ہو؟؟؟ اور خیر القرون کے تمام مسلمان بعد میں آنے والے بڑے سے بڑے عالمِ دین، امام ،محدث ، فقیہ، پیر و بزرگ سے کہیں زیادہ اور کہیں بڑھ کر دین کو جاننے ، سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔بلکہ بعد میں آنے والے علماء و عوام سب کے سب دین کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں انہی مذکورہ شخصیات کے محتاج ہیں ۔
اس شبہ کا دوسرا جواب یہ ہے :
کہ علمائے کرام کی ذاتی رائے و فتویٰ دین میں اسوقت تک حجت نہیں جب تک کہ وہ قرآن و حدیث کی دلیل سے مزین نہ ہو، اور فیصلہ علماء کی ذاتی رائے و شخصیت پر نہیں بلکہ دلیلِ قرآن و سنت پرموقوف ہے لہٰذا اگر آپ نے دلیل پیش کرنی ہے تو علماء کی شخصیات و تعداد نہیں بلکہ اُن کے دلائل پیش کریں۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ :
یقینا ہمارے ملکوں میں بڑے بڑے علماء ہیں جو قرآن وحدیث پڑھتے اورپڑھاتے ہیں مگر وہ انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم عن الخطاء (غلطیوں سے مبرّاء) نہیں ہیں، ان سے بھی قرآن وحدیث کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے اسی لئے تو امام مالک رحمہ اللہ نے مسجدِ نبوی میں حدیث کا درس دیتے وقت نبی اکرم ﷺ کی قبرِ مبارک کی طرف اشارہ کرکےفرمایا تھا:
’’ کہ دنیا میں بڑے سے بڑے عالم کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے سوائے اس قبر والے کے ‘‘ کہ جن کی بات صرف قبول کی جائے گی رد نہیں۔
شبہ: ہمارے پاس دلائل ہیں!
ہمارے یہاں علماء کرام کہتے ہیں کہ عید میلاد النبی ﷺ منانا بدعت نہیں بلکہ مستحب ہے اور اس عمل کے لئے قرآن وحدیث سے بے شماردلائل پیش کرتے ہیں، اور جب حق وباطل کا معیار دلائل اور براہین ہی ہیں تو پھر وہی لوگ حق پر ہیں کیونکہ ان کے پاس دلائل ہیں ۔؟
جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
(کل حزب بما لدیہم فرحون) ’’
ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے ‘‘۔(سورۃمؤمنون:٥٣)۔
آئیے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دلیل کس کو کہا جاتا ہے ؟
دلیل یہ عربی کا لفظ ہے اور’’ دَلَّ‘‘ سے ماخوذ ہے جسکا معنی ہے ’’مرشد ‘‘ یعنی رہنمائی کرنے والا۔ اور رب تعالیٰ نے ہر مسئلہ میں ہماری راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا اور اسے بیان و واضح کر نے اور سمجھانے کے لیے جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے مکمل دین امانت و دیانت کے ساتھ اپنی امت تک پہنچایا، یہی دین ہے جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں مکمل بھی کردیا گیا کہ جس میں کسی قسم کی کمی بیشی کی کوئی گنجائیش نہیں اور وہ دین قرآن کریم اور احادیثِ رسول ﷺ کی صورت میں آج بھی بحمد اللہ ہمارے پاس محفوظ ہے ، لہٰذا اگر آپ کے پاس اس مسئلہ میں دلائل ہیں جن سے عید میلاد النبی ﷺ کا ثبوت ملتا ہوتو وہ قرآن و حدیث کی صورت میں پیش کریں ۔
شبہ: آیاتِ قرآنیہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے!
جواب:
اب ہم یہاں ان تمام قرآنی آیات کا ترجمہ احمد رضا بریلوی کے ترجمہ وتفسیر سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جنہیں میلادی لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں:
(۱) ’’ عیسی بن مریم (علیہ السلام) نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پرآسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی‘‘(سورئہ مائدہ:١١٤)
(۲) ’’اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ‘‘(سورئہ آ ل عمران :١٠٣)
(۳) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ‘‘(سورئہ ضحی:١١)
(۴) ’’بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ‘‘(سورئہ آل عمران :١٦٤)
(۵) ’’ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسکی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ‘‘ (سورئہ یونس:٥٨)
یہ ہیں میلادیوں کی قرآنی دلیلیں جنہیں وہ چینخ چینخ کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کراپنے بھولے بھالے عوام کو سنا تے ہیں۔
قارئین کرام !
ذرا غور کیجیے اور کہئے کہ کیا اللہ نے ہم مسلمانوں کو ان آیتوں میں کہیں بھی ’’عید میلاد النبی ﷺ‘‘ کا ذکر فرمایا ہے؟
یا ان آیات میں کہیں بھی ’’عید میلاد النبی ﷺ‘‘ منانے کا حکم دیا ہے ؟
اور کیا ہمیں وہ سب چیزیں کرنے کا حکم دیا جو آج ہمارے معاشرے میں ’’عید میلاد النبی ﷺ‘‘ کے نام پرہورہی ہیں؟
یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا ۔
اور سب سے اہم اور توجہ طلب بات یا یوں کہیے کہ سوال یہ ہے کہ :
یہ آیات انبیاءکے امام ،رحمت للعالمین محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئیں ، پوری ذخیرہ احادیث پڑھ لیجیے کسی بھی ایک صحیح سند سے مروی ،حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں کوئی ایک روایت ایسی دکھا دیں کہ آپ ﷺ نے اپنی مکمل زندگی میں ایک مرتبہ بھی ان آیات کی وضاحت اپنے یوم ولادتِ باسعادت کے جشن منانے سے کی ہو؟
اور سب سے پہلے ان آیات کے مخاطَبین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں اور انہیں سمجھنے والے بھی سب سے پہلے صحابہ ہی ہیں، اگر ان میں عید میلاد النبی ﷺ منانے کا حکم ہے یا ان آیات سے یہ مفہوم نکلتا ہے تو کسی ایک صحابی نے تو کہیں پر ان آیات کا یہ مفہوم بیان کیا ہوگا ؟ اسے پیش کیجیے؟
اور پھر ان آیات ِ قرآنیہ پر سب سے پہلے عمل کرنے والے بھی صحابہ ہی ہیں نا تو کسی ایک صحابی نے تو اس پر عمل کیا ہوگا؟؟
بتایئے ان میں سے کب اور کس نے میلاد منایا ؟؟
اور یہی معاملہ تابعین اور اتباعِ تابعین رحمہم اللہ کا بھی ہے اور یہی سوال ائمہ کرام امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم ، امام ابو حنیفہ و دیگر خیر القرون کے ائمہ رحمہم اللہ وغیرہ سے متعلق بھی ہے کہ انہوں نے ان آیات سے وہ کیوں نہ سمجھا جو بعد میں کئیں صدیان گزر جانے کے بعد امت کو سمجھانے اور زبردستی منوانے کی کوشش کی جاتی رہی اور کی جارہی ہے ؟؟؟
اور اس سے بھی بڑھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان آیات کا یہی مفہوم و تقاضہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے خود کسی بھی مقام پر اپنے یومِ ولادت کو کیوں نہیں منایا ؟؟؟
اور اگر منایا تو کب؟ کہاں اور کیسے؟
اور پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے یہ کیوں نہیں منوایا؟؟؟
ان سب کا جواب نہ تو آج تک کوئی دے سکا ہے اور نہ ہی دے سکے گا کیونکہ ایسا ہوا ہی نہیں تو پھر کیسے ان بزرگ شخصیات سے یہ سب ثابت کیا جاسکتا ہے؟؟؟
شبہ: مردود ابو لہب کے عمل سے استدلال!
لاکھوں احادیث رسول ﷺ میں میلادیوں کو اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہ ملی تو اس روایت کو بطورِ ثبوت انہوں نے پیش کیا:
’’ اورعروہ نے کہا ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ،ابو لہب نے اس کو آزاد کردیا تھااور اس نے رسول اللہﷺکودودھ پلایاتھا،جب ابولہب مرگیاتواس کےکسی عزیز نےمرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے، کیا گزری ؟وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملامگر ایک ذرا سا پانی ،ابو لہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے ،یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کردیا تھا‘‘
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب:٢٠ حدیث :٥١٠١)۔
جواب:
اس روایت سے عید میلاد النبی ﷺ کے لئے استدلال کرنا کئی اعتبار سے غلط ہے:
(۱) پہلی بات یہ سمجھیے کہ اتنے اہم مسئلہ پر قرآن ِ مجید کی واضح آیت یا کوئی صحیح سند سے ثابت فرمانِ رسولِ مکرّمﷺ کہ جس میں عید میلاد کا صریح ذکر و جواز ہو پیش کرنے کے بجائے میلادیوں نے ایک غیر نبی کے خواب کو دلیل کے طور پر پیش کیا جس سے اہلِ عقل و دانش پر یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ میلادیوں کے اس عمل کی عمارت کس بنیاد پر قائم ہے۔
(۲) اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہےکہ انبیاء ورسل (علیہم السلام) کے خواب کے علاوہ کسی کابھی خواب قابلِ حجت نہیں اور اس سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ۔
(۳) اور اب آجائیے اس خواب والے قصہ کی طرف:
سب سے پہلے یہ سمجھیے کہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں کس باب کے تحت لائیں ہیں اور کیوں لائیں ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ضمنی طو رپر اس واقعہ کو ذکر صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کیاہے کہ ثویبہ یہ آپ ﷺ کی رضاعی ماں تھی،اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا: باب ’’وأمہاتکم اللاتی أرضعنکم‘‘ ’’اورتمہاری رضاعی ماؤں ‘‘ سے متعلقہ( مسائل پر مشتمل) باب ۔
(۴) اس واقعہ میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ابولہب نے نبی ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کیا تھا بلکہ تاریخ کی دیگر کتابوں میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کرجانے کے بعد آزاد کیا تھا۔ (دیکھئے الطبقات ج/١٠٨۔١٠٩،الاستیعاب ج١/١٢)
یعنی ان کتابوں کی روایت کی روشنی میں یہ واقعہ نبی مکرّم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع کا نہیں ہے۔
(۵) نہ ہی امام بخاری نے اس واقعہ کو عید میلاد النبی ﷺ کے ثبوت کے لئے ذکر کیا ہےاورنہ ہی شارحینِ صحیح بخاری میں سے کسی نے اس واقعہ سے میلاد کیلئے استدلال کیا ہے۔
(۶) بعض روایت کے مطابق یہ خواب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے ،اور ابولہب غزوئہ بدر کے سا ت دن بعد مرگیا،اورسیدنا عباس غزوہ بدر میں مشرکین قیدیوں میں سے تھے،فدیہ کے بعدوہ مکہ واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے اسلام قبول کیا ، لہٰذا قرینہ یہ بتلارہا ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا یہ خواب حالتِ کفر کا ہےجو دلیل نہیں بن سکتا۔
(فتح الباری ج١/١٤٥۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٣/٥١١)
(۷) اگر فرض کر لیاجائے کہ ابو لہب نے نبی ﷺ کی ولادت کے دن اسے آزاد کیا تھا توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب نے اپنے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کی پیدائش کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تھی یا محمد رسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر؟
ظاہر ہے اس نے رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد نہیں کیا تھا ، سوال یہ ہے کہ جو عمل محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی خوشی ﷺ میں کیا ہی نہیں گیا ہے تو وہ دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ اور اگر ظالم و بد بخت ابو لہب کو پتہ ہوتا کہ آپ ﷺ محمد رسول اللہ بنائے جانے والے ہیں تو کیا وہ یہ عمل کرتا ؟ اسی طرح ایک اسلام دشمن کافر جس نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف زبان درازی کی ،آپ کو تکلیف پہنچائی اُس ظالم کا یہ عمل آپ کے نزدیک پوری امتِ اسلامیہ کے لیے حجت بن گیا (جو حجت اسلام کے ابتدائی چھ سو سال تک کسی کو سمجھ میں نہ آئی)اور جن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنی زندگیوں کوشان و ذاتِ رسالتِ مأبﷺ کے لیے قربان کردیا اُن کا اس میلادکو نہ منانا آپ کے لیے حجت نہیں؟؟؟
ذرا سوچئیے کہ اس عمل کے لئےآپ کا پیشوا، راہنما و قائد کون ہوا؟؟؟ صحابہ کرام یا ابو لہب ؟ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ واقعہ ابو لہب سے استدلال کرنے والے میلادیوں کے لیے یہ سنتِ ابو لہب ہے ،سنتِ صحابہ نہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سب مسلمانوں کوکتاب وسنت کی صحیح سمجھ اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ميلاديوں کے چند شبھات اور ان کا ازالہ
ترتیب و توضیح: حافظ حماد چاؤلہ ۔
میلادی حضرات عید میلاد النبی ﷺ کے تعلق سے اپنے زعم کے مطابق چند دلائل پیش کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک شبہات کی حیثیت رکھتے ہیں، درجِ ذیل سطورمیں انہی چند شبہات کا ازالہ پیش کیا جارہا ہے:
شبہ: اکثریت سے استدلال!
اگر عید میلاد النبی ﷺ منانا غلط اوربدعت ہے تو پھر ہندوستان،پاکستان،بنگلادیش اور دیگر ممالک میں لاکھوں مسلمان کیوں مناتے ہیں ؟
جواب:
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثریت کا اسلام میں دلیل نہیں بلکہ حق وباطل کا معیاراور کسوٹی فقط کتاب وسنت ہے پس اگر کسی مسئلہ میں ہزاروں آدمی کتاب وسنت کی مخالفت کر رہے ہوں اور صرف ایک آدمی اللہ کی کتاب اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق عمل کررہا ہو تو وہ ایک آدمی ہی صحیح اور حق پر ہوگا۔
دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے متعلق فرمایا:
(ان ابراہیم کان أمة قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین) ’’
بیشک ابراہیم علیہ السلام ایک امت اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ، وہ مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘۔ (سورئہ نحل :١٢٠)
اسی طرح یہود ونصاری نے بھی اپنی اکثریت کو دلیل کے طور پر پیش کیا تھا جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کومخاطب کرکےفرمایا:
( وان تطع أکثر من فی الأرض یضلوک عن سبیل اللہ )’’
اور اگر زمین میں اکثریت کی پوروی کریں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے گمراہ کردیں‘‘۔(سورئہ انعام :١١٦)
ایک دوسر ے مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
(وما أکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین) ’’
آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں‘‘۔
(سورئہ یوسف:١٠٣)
ایک اور مقام پر اکثریت کی مذمت میں فرمانِ الٰہی ملاحظہ فرمائیں:
(وما یؤمن أکثرہم باللہ الا وہم مشرکون ) ’’
اور ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں‘‘۔(سورئہ یوسف:١٠٦)
معلوم یہ ہوا کہ حق وباطل کا معیار ،دلائل وبراہین ہیں،لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں،اسلئے یہ کہنا کہ’’ اتنے سارے لوگ عید میلاد النبی ﷺ مناتے ہیں یہ کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ ‘‘ درست نہیں۔
شبہ: حق و باطل کا معیار ’’علماء کی آراء‘‘ !
حق وباطل کا معیار جب کتاب وسنت ہے تو ہمارے ملکوں میں اتنے بڑے بڑے علماء ہیں کیا وہ قرآن اور حدیث نہیں پڑھتے ہیں؟کیا ان کے پاس کتاب وسنت کا علم نہیں ہے؟
جواب:
تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں تمام علماء ایک رائے نہیں رکھتے بلکہ علماء کا ایک طبقہ اسے جائز تو دوسرا اسے ناجائز کہتا ہے اور جب علماء ہی میں اختلاف موجود ہے تو فیصلہ علماء نہیں بلکہ وہ کریں گے جن کا درجہ دورِ حاضر میں ملک و دنیا میں موجود علماء سے کہیں زیادہ اور بڑھ کر ہو اور اس بات پر سب علماء متفق ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد قیامت تک آنے والی عظیم ہستیوں میں سب سے عظیم ہستیاں اصحابِ محمد یعنی صحابہ کرام و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کی ہیں ۔ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تمام باتیں غرض مکمل دین کو جاننے سمجھنے اور اس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر عمل کرنے والے بھی یہی صحابہ ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
اب آپ رسول اللہ ﷺ کے ۲۳ سالہ دورِ نبوت ،خلفائے راشدین کے ۳۰ سالہ دورِ خلافت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ۱۱۰ سالہ دورِ صحابہ میں کسی ایک سال میں ایک مرتبہ بھی ۱۲ ربیع الاول یا ربیع الاول کے مکمل مہینہ میں یا ربیع الاول کی کسی بھی تاریخ میں ان عظیم ہستیوں میں سے کسی ایک سے بھی مروجہ عید ِ میلاد یا جشنِ میلاد منانا ثابت کردیں !!!
یہی نہیں بلکہ ۲۳۰ سالہ دورِ تابعین اور ان کے بعد کے اتباعِ تابعین میں سے کسی ایک سے ثابت کردیں !!!
اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسا دین اور کیسا عمل ہے جو اتنی اہمیت کا حامل ہو اور اس پر خیر القرون میں سے ایک نے بھی عمل نہیں کیا ہو؟؟؟ اور خیر القرون کے تمام مسلمان بعد میں آنے والے بڑے سے بڑے عالمِ دین، امام ،محدث ، فقیہ، پیر و بزرگ سے کہیں زیادہ اور کہیں بڑھ کر دین کو جاننے ، سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔بلکہ بعد میں آنے والے علماء و عوام سب کے سب دین کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں انہی مذکورہ شخصیات کے محتاج ہیں ۔
اس شبہ کا دوسرا جواب یہ ہے :
کہ علمائے کرام کی ذاتی رائے و فتویٰ دین میں اسوقت تک حجت نہیں جب تک کہ وہ قرآن و حدیث کی دلیل سے مزین نہ ہو، اور فیصلہ علماء کی ذاتی رائے و شخصیت پر نہیں بلکہ دلیلِ قرآن و سنت پرموقوف ہے لہٰذا اگر آپ نے دلیل پیش کرنی ہے تو علماء کی شخصیات و تعداد نہیں بلکہ اُن کے دلائل پیش کریں۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ :
یقینا ہمارے ملکوں میں بڑے بڑے علماء ہیں جو قرآن وحدیث پڑھتے اورپڑھاتے ہیں مگر وہ انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم عن الخطاء (غلطیوں سے مبرّاء) نہیں ہیں، ان سے بھی قرآن وحدیث کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے اسی لئے تو امام مالک رحمہ اللہ نے مسجدِ نبوی میں حدیث کا درس دیتے وقت نبی اکرم ﷺ کی قبرِ مبارک کی طرف اشارہ کرکےفرمایا تھا:
’’ کہ دنیا میں بڑے سے بڑے عالم کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے سوائے اس قبر والے کے ‘‘ کہ جن کی بات صرف قبول کی جائے گی رد نہیں۔
شبہ: ہمارے پاس دلائل ہیں!
ہمارے یہاں علماء کرام کہتے ہیں کہ عید میلاد النبی ﷺ منانا بدعت نہیں بلکہ مستحب ہے اور اس عمل کے لئے قرآن وحدیث سے بے شماردلائل پیش کرتے ہیں، اور جب حق وباطل کا معیار دلائل اور براہین ہی ہیں تو پھر وہی لوگ حق پر ہیں کیونکہ ان کے پاس دلائل ہیں ۔؟
جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
(کل حزب بما لدیہم فرحون) ’’
ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے ‘‘۔(سورۃمؤمنون:٥٣)۔
آئیے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دلیل کس کو کہا جاتا ہے ؟
دلیل یہ عربی کا لفظ ہے اور’’ دَلَّ‘‘ سے ماخوذ ہے جسکا معنی ہے ’’مرشد ‘‘ یعنی رہنمائی کرنے والا۔ اور رب تعالیٰ نے ہر مسئلہ میں ہماری راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا اور اسے بیان و واضح کر نے اور سمجھانے کے لیے جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے مکمل دین امانت و دیانت کے ساتھ اپنی امت تک پہنچایا، یہی دین ہے جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں مکمل بھی کردیا گیا کہ جس میں کسی قسم کی کمی بیشی کی کوئی گنجائیش نہیں اور وہ دین قرآن کریم اور احادیثِ رسول ﷺ کی صورت میں آج بھی بحمد اللہ ہمارے پاس محفوظ ہے ، لہٰذا اگر آپ کے پاس اس مسئلہ میں دلائل ہیں جن سے عید میلاد النبی ﷺ کا ثبوت ملتا ہوتو وہ قرآن و حدیث کی صورت میں پیش کریں ۔
شبہ: آیاتِ قرآنیہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے!
جواب:
اب ہم یہاں ان تمام قرآنی آیات کا ترجمہ احمد رضا بریلوی کے ترجمہ وتفسیر سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جنہیں میلادی لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں:
(۱) ’’ عیسی بن مریم (علیہ السلام) نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پرآسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی‘‘(سورئہ مائدہ:١١٤)
(۲) ’’اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ‘‘(سورئہ آ ل عمران :١٠٣)
(۳) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ‘‘(سورئہ ضحی:١١)
(۴) ’’بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ‘‘(سورئہ آل عمران :١٦٤)
(۵) ’’ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسکی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ‘‘ (سورئہ یونس:٥٨)
یہ ہیں میلادیوں کی قرآنی دلیلیں جنہیں وہ چینخ چینخ کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کراپنے بھولے بھالے عوام کو سنا تے ہیں۔
قارئین کرام !
ذرا غور کیجیے اور کہئے کہ کیا اللہ نے ہم مسلمانوں کو ان آیتوں میں کہیں بھی ’’عید میلاد النبی ﷺ‘‘ کا ذکر فرمایا ہے؟
یا ان آیات میں کہیں بھی ’’عید میلاد النبی ﷺ‘‘ منانے کا حکم دیا ہے ؟
اور کیا ہمیں وہ سب چیزیں کرنے کا حکم دیا جو آج ہمارے معاشرے میں ’’عید میلاد النبی ﷺ‘‘ کے نام پرہورہی ہیں؟
یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا ۔
اور سب سے اہم اور توجہ طلب بات یا یوں کہیے کہ سوال یہ ہے کہ :
یہ آیات انبیاءکے امام ،رحمت للعالمین محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئیں ، پوری ذخیرہ احادیث پڑھ لیجیے کسی بھی ایک صحیح سند سے مروی ،حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں کوئی ایک روایت ایسی دکھا دیں کہ آپ ﷺ نے اپنی مکمل زندگی میں ایک مرتبہ بھی ان آیات کی وضاحت اپنے یوم ولادتِ باسعادت کے جشن منانے سے کی ہو؟
اور سب سے پہلے ان آیات کے مخاطَبین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں اور انہیں سمجھنے والے بھی سب سے پہلے صحابہ ہی ہیں، اگر ان میں عید میلاد النبی ﷺ منانے کا حکم ہے یا ان آیات سے یہ مفہوم نکلتا ہے تو کسی ایک صحابی نے تو کہیں پر ان آیات کا یہ مفہوم بیان کیا ہوگا ؟ اسے پیش کیجیے؟
اور پھر ان آیات ِ قرآنیہ پر سب سے پہلے عمل کرنے والے بھی صحابہ ہی ہیں نا تو کسی ایک صحابی نے تو اس پر عمل کیا ہوگا؟؟
بتایئے ان میں سے کب اور کس نے میلاد منایا ؟؟
اور یہی معاملہ تابعین اور اتباعِ تابعین رحمہم اللہ کا بھی ہے اور یہی سوال ائمہ کرام امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم ، امام ابو حنیفہ و دیگر خیر القرون کے ائمہ رحمہم اللہ وغیرہ سے متعلق بھی ہے کہ انہوں نے ان آیات سے وہ کیوں نہ سمجھا جو بعد میں کئیں صدیان گزر جانے کے بعد امت کو سمجھانے اور زبردستی منوانے کی کوشش کی جاتی رہی اور کی جارہی ہے ؟؟؟
اور اس سے بھی بڑھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان آیات کا یہی مفہوم و تقاضہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے خود کسی بھی مقام پر اپنے یومِ ولادت کو کیوں نہیں منایا ؟؟؟
اور اگر منایا تو کب؟ کہاں اور کیسے؟
اور پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے یہ کیوں نہیں منوایا؟؟؟
ان سب کا جواب نہ تو آج تک کوئی دے سکا ہے اور نہ ہی دے سکے گا کیونکہ ایسا ہوا ہی نہیں تو پھر کیسے ان بزرگ شخصیات سے یہ سب ثابت کیا جاسکتا ہے؟؟؟
شبہ: مردود ابو لہب کے عمل سے استدلال!
لاکھوں احادیث رسول ﷺ میں میلادیوں کو اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہ ملی تو اس روایت کو بطورِ ثبوت انہوں نے پیش کیا:
’’ اورعروہ نے کہا ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ،ابو لہب نے اس کو آزاد کردیا تھااور اس نے رسول اللہﷺکودودھ پلایاتھا،جب ابولہب مرگیاتواس کےکسی عزیز نےمرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے، کیا گزری ؟وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملامگر ایک ذرا سا پانی ،ابو لہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے ،یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کردیا تھا‘‘
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب:٢٠ حدیث :٥١٠١)۔
جواب:
اس روایت سے عید میلاد النبی ﷺ کے لئے استدلال کرنا کئی اعتبار سے غلط ہے:
(۱) پہلی بات یہ سمجھیے کہ اتنے اہم مسئلہ پر قرآن ِ مجید کی واضح آیت یا کوئی صحیح سند سے ثابت فرمانِ رسولِ مکرّمﷺ کہ جس میں عید میلاد کا صریح ذکر و جواز ہو پیش کرنے کے بجائے میلادیوں نے ایک غیر نبی کے خواب کو دلیل کے طور پر پیش کیا جس سے اہلِ عقل و دانش پر یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ میلادیوں کے اس عمل کی عمارت کس بنیاد پر قائم ہے۔
(۲) اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہےکہ انبیاء ورسل (علیہم السلام) کے خواب کے علاوہ کسی کابھی خواب قابلِ حجت نہیں اور اس سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ۔
(۳) اور اب آجائیے اس خواب والے قصہ کی طرف:
سب سے پہلے یہ سمجھیے کہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں کس باب کے تحت لائیں ہیں اور کیوں لائیں ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ضمنی طو رپر اس واقعہ کو ذکر صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کیاہے کہ ثویبہ یہ آپ ﷺ کی رضاعی ماں تھی،اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا: باب ’’وأمہاتکم اللاتی أرضعنکم‘‘ ’’اورتمہاری رضاعی ماؤں ‘‘ سے متعلقہ( مسائل پر مشتمل) باب ۔
(۴) اس واقعہ میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ابولہب نے نبی ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کیا تھا بلکہ تاریخ کی دیگر کتابوں میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کرجانے کے بعد آزاد کیا تھا۔ (دیکھئے الطبقات ج/١٠٨۔١٠٩،الاستیعاب ج١/١٢)
یعنی ان کتابوں کی روایت کی روشنی میں یہ واقعہ نبی مکرّم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع کا نہیں ہے۔
(۵) نہ ہی امام بخاری نے اس واقعہ کو عید میلاد النبی ﷺ کے ثبوت کے لئے ذکر کیا ہےاورنہ ہی شارحینِ صحیح بخاری میں سے کسی نے اس واقعہ سے میلاد کیلئے استدلال کیا ہے۔
(۶) بعض روایت کے مطابق یہ خواب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے ،اور ابولہب غزوئہ بدر کے سا ت دن بعد مرگیا،اورسیدنا عباس غزوہ بدر میں مشرکین قیدیوں میں سے تھے،فدیہ کے بعدوہ مکہ واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے اسلام قبول کیا ، لہٰذا قرینہ یہ بتلارہا ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا یہ خواب حالتِ کفر کا ہےجو دلیل نہیں بن سکتا۔
(فتح الباری ج١/١٤٥۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٣/٥١١)
(۷) اگر فرض کر لیاجائے کہ ابو لہب نے نبی ﷺ کی ولادت کے دن اسے آزاد کیا تھا توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب نے اپنے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کی پیدائش کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تھی یا محمد رسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر؟
ظاہر ہے اس نے رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد نہیں کیا تھا ، سوال یہ ہے کہ جو عمل محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی خوشی ﷺ میں کیا ہی نہیں گیا ہے تو وہ دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ اور اگر ظالم و بد بخت ابو لہب کو پتہ ہوتا کہ آپ ﷺ محمد رسول اللہ بنائے جانے والے ہیں تو کیا وہ یہ عمل کرتا ؟ اسی طرح ایک اسلام دشمن کافر جس نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف زبان درازی کی ،آپ کو تکلیف پہنچائی اُس ظالم کا یہ عمل آپ کے نزدیک پوری امتِ اسلامیہ کے لیے حجت بن گیا (جو حجت اسلام کے ابتدائی چھ سو سال تک کسی کو سمجھ میں نہ آئی)اور جن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنی زندگیوں کوشان و ذاتِ رسالتِ مأبﷺ کے لیے قربان کردیا اُن کا اس میلادکو نہ منانا آپ کے لیے حجت نہیں؟؟؟
ذرا سوچئیے کہ اس عمل کے لئےآپ کا پیشوا، راہنما و قائد کون ہوا؟؟؟ صحابہ کرام یا ابو لہب ؟ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ واقعہ ابو لہب سے استدلال کرنے والے میلادیوں کے لیے یہ سنتِ ابو لہب ہے ،سنتِ صحابہ نہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سب مسلمانوں کوکتاب وسنت کی صحیح سمجھ اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ ربّ العالمین
http://www.islamfort.com/index.php/component/k2/item/4774-2015-01-04-01-21-24
http://www.islamfort.com/index.php/component/k2/item/4774-2015-01-04-01-21-24